اب ہمارا امتحان ہے
ایران کا انقلاب اس دور میں رونما ہوا جب سرد جنگ اپنے عروج پر تھی
جنوری کا مہینہ ہے تاریخ 16 اور سال 1979ء ہے ۔ ایران کے شہنشاہ رضا شاہ پہلوی ایران سے فرار ہوئے اور اس ملک میں وہ انقلاب رونما ہوا جسے 20 ویںصدی کے چند اہم ترین واقعات میں سے ایک قرار دیا جا سکتا ہے ۔ انقلاب کے روح رواں اور بانی امام خمینی ایئر فرانس کے بوئنگ 744 سے نمودار ہوتے ہیں۔ لاکھوں ایرانی ان کے استقبال کے لیے موجود ہیں۔ آج جب یہ سطور لکھ رہی ہوں تو مہینہ جنوری کا ہے لیکن سال 2014ء ہے ۔
1979ء سے 2014ء کے درمیان 35 سال کا فاصلہ ہے جس کے دوران دنیا نے ترقی کے کئی مدارج طے کیے ہیں۔ سرد جنگ کا خاتمہ ہوا اور سوویت یونین تحلیل ہوا دنیا کے نقشے پر نئی معاشی طاقتوں کا ابھار ہوا جن میں چین، ہندوستان، روس، برازیل اور جنوبی افریقا کے نام نمایاں ہیں۔ دو قطبی دنیا، کئی قطبی معاشی دنیا میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ان ہی35 برسوں کے دوران 20 جنوری 2014ء کو ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان جن میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے 5 مستقل ارکان اور جرمنی شامل ہیں، ان کے درمیان ایک عبوری معاہدہ طے پایا جس کے تحت ایران نے اپنا جوہری پروگرام 6 ماہ کے لیے منجمد کر دیا۔20 جنوری سے اس معاہدے پر باضابطہ عمل درآمد کا آغاز ہو چکا ہے یہ معاہدہ بھی بلاشبہ گزشتہ نصف صدی کے دوران رونما ہو نے والے تاریخ ساز واقعات میں سے ایک ہے۔ چند سال پہلے تک کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ ایران اور مغرب تصادم اور محاذ آرائی کی جس انتہا پر پہنچ چکے ہیں وہاں سے واپسی اس قدر آسانی سے ممکن ہو سکے گی ۔
ایران کا انقلاب اس دور میں رونما ہوا جب سرد جنگ اپنے عروج پر تھی۔ اس انقلاب نے اس دور کی دنیا کو ایک تیسری جہت سے روشناس کرایا جس کے بعد امریکا و سوویت یونین دونوں کی عالمی بالادستی اور اس کے ہمنوا بادشاہوں اور آمروں کے خلاف بغاوت کا علم بلند کر دیا گیا۔ انقلاب کے فوراً بعد ان کا اہم مطالبہ یہ بھی تھا کہ ایران کے معزول شہنشاہ کو واپس ایران کے حوالے کیا جائے ۔ اس دوران امریکا نے اپنے یرغمالیوں کو آزاد کرانے کے لیے ایک ناکام فوجی آپر یشن کیا ۔ ایران نے اسلامی ملکوں کو سامراجی غلبے سے آزاد کرانے کی بات کی جس سے خطے کے عرب ملکوں میں بے چینی پھیل گئی۔ عراق، ایران پر حملہ آور ہوا۔ دونوں ملکوں کے درمیان ایک خونی اور بھیانک جنگ 8 برسوں تک جاری رہی جس میں لاکھوں افراد ہلاک ہوئے۔ جنگ و جدل کی تباہ کاریوں کے باوجود ایران میں معاشی ترقی کا عمل جاری رہا جو ایک حیرت انگیز امر تھا۔ تیز رفتار ترقی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ایران میں انقلاب برپا ہوا تو اس وقت ملک کی جی ڈی پی 114، ارب ڈالر تھی۔ جو ترقی کے مسلسل عمل کے نتیجے میں 2010ء میں 858 بلین ڈالر تک پہنچ گی۔ مجموعی داخلی پیدوار (GDP) میں اس قدر اضافے کی وجہ سے ایران میں فی کس اوسط آمدنی جو 1980ء میں 2974 ڈالر تھی بڑھ کر 2010 ء میں 11,396 ڈالر ہو گئی۔ ایران کی معاشی ترقی بالکل حقیقی تھی۔ شاہ کے دور میں جی ڈی پی کا 90 فیصد انحصار تیل اور گیس پر تھا ۔ 2010ء میں یہ انحصار صرف 10 فیصد رہ گیا۔ 12 جنوری 2014ء کو ایران نے 6 اہم عالمی ملکوں کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام کو 6 ماہ تک معطل اور محدود رکھنے کا جو عبوری معاہدہ کیا ہے وہ کسی صورت ممکن نہ ہوتا اگر ایران نے معاشی طور پر اس قدر زیادہ ترقی نہ کر لی ہوتی ۔
یہ تاریخی معاہدہ ایران اور مغرب دونوں کی غیر معمولی دانش کا ایک عظیم مظہر ہے۔ مغرب نے امریکا کی قیادت میں پہلے ایران انقلاب کو ناکام بنانے کی بھرپور کوششیں کیں جن میں نا کا می کے بعد اس نے دانش کا مظاہرہ کرتے ہو ئے ایران کو معاشی طور پر ترقی کرنے کا موقع فراہم کیا۔ مغرب نے یہ تجزیہ کیا کہ ایران کی معیشت تیزی سے ترقی کر ے گی تو ایران کا معاشی انحصار دوسرے ملکوں بالخصوص یورپ اور امریکا پر بڑھتا جائے گا۔ مغرب نے چند سال قبل یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ایران پر محدود معاشی پابندیاں لگا کر اس پر دباؤ ڈالا جائے کیونکہ یہ معاشی عدم استحکام ایران کے اندر سیاسی، معاشی اور سماجی بے چینی کا سبب بنے گا جس کے دباؤ میں آ کر ایرانی حکومت مغرب سے اپنے ایٹمی پروگرام پر معاہدہ کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔
مغرب کی طرح ایران نے بھی دانش کا غیر معمولی مظاہرہ کیا۔ انقلاب کی کا میابی کے بعد مغرب اور مشرق کی طاقتور اقوام کے خلاف اعلان بغاوت کی وجہ سے اُسے ہر طرف سے محاذ آرائی کا سامنا تھا۔ عجم کی عظیم دانش نے ایران کے حکمرانوں کو اس امر سے آگاہ کیا کہ دنیا سے کٹ کر جینا ممکن نہیں لہٰذا فہم و فراست کا تقاضہ ہے کہ اپنے دفاع کے لیے ایٹمی پروگرام شروع کیا جائے اور انقلاب کے معاشی ثمرات اپنے عوام تک پہنچائے جائیں تا کہ خارجی اور داخلی طور پر ملک مستحکم رہ سکے۔ ایران کو بھی بخوبی علم تھا کہ معاشی ترقی کا پائیدار عمل امریکا اور یورپ سمیت دنیا کے دیگر ملکوں سے معاشی روابط بڑھائے بغیر ممکن نہیں ہو سکے گا۔ جب یہ مرحلہ آئے گا اس وقت اپنے جوہری پروگرام کی قوت پر امریکا اور یورپ سے دیر پا تعلقات کے لیے معاملات طے کر نا زیادہ سود مند ثابت ہو گا۔ اس تناظر میں غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ اس عبوری معاہدے کا فائدہ نہ صرف فریقین بلکہ پوری دنیا کو ہوا ہے۔
اس معاہدے پر عمل درآمد کے فوراً بعد ایران کے 7 ارب ڈالر کے منجمد اثاثے اُسے فوراً مل جائینگے۔ ایک اندازے کے مطابق پابندیوں کے باعث پوری دنیا میں ایران کے تقریباً 100 ارب ڈالر منجمد ہیں جو مستقل معاہدے کے بعد اُسے دوبارہ حاصل ہو سکیں گے۔ ایران کو گزشتہ تین برسوں میں معاشی پابندیوں اور رکاوٹوں کی وجہ سے 120 ارب ڈالر کا نقصان اٹھا نا پڑا ہے۔ تیل کے عالمی ذخائر میں 9.4 فیصد حصہ ایران کا ہے اور تیل کے ذخائر کے حوالے سے وہ عالمی سطح پر چوتھے درجے پر ہے۔ پابندیوں کے باعث ایران 60 فیصد خام تیل برآمد نہیں کر سکا ہے اور صرف ایک سال کے دوران اُسے 80، ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ یہ محض چند اعداد و شمار ہیں۔ عالمی معیشت اور سیاست کے مرکزی دھارے میں شامل ہو کر ایران کو آنے والے وقتوں میں جو فائدہ حاصل ہو گا اس کا ادراک ایرانی قیادت کو بخوبی ہے لہٰذا یہ گمان کیا جا نا چاہیے کہ چھ ماہ کا یہ عارضی معاہدہ آگے چل کر ایک مستقل معاہدے کی راہ ضرور ہموار کرے گا۔
ایران کی طرح یورپ اور امریکا بھی اس معاہدے سے اہم معاشی اور سیاسی فوائد حاصل کرینگے۔ پورا مغرب اس وقت کساد بازاری کا شکار ہے۔ ایران تیل اور گیس پیدا کر نے والے ملکوں میں سرفہرست ہے۔ اس معاہدے سے توانائی کے عالمی بحران کو کم کرنے میں بہت مدد ملے گی جس سے نہ صرف مغرب بلکہ ایشیا کی ابھرتی ہوئی معیشت کو بھی بہت فائدہ پہنچے گا۔ اس معاہدے کے بعد ایران کے پاس بے پناہ اضافی سرما یہ آئے گا۔ ایران عالمی سطح پر سرمایہ کاری کریگا اور خود ایران کے اندر بیرونی سرمایہ کار ی ہو گی عالمی تجارت کے ہر شعبے بالخصوص آئل، گیس، جہاز رانی، نقل و حمل، بینکاری، انشورنس اور حصص کے کاروبار کو بہت فائدہ ہو گا اور وسعت ملے گی۔ پاکستان ایران کا ہمسایہ ملک ہے۔ ایران پر پابندیوں کے خاتمے کا پاکستان کی معیشت پر مثبت اثر پڑے گا۔
ایران اور 6 عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے اس تاریخ ساز معاہدے میں ہم اور ہم جیسے بعض دیگر ملکوں کے علاوہ کئی سیاسی، نظریاتی اور مذہبی عناصر کے لیے بہت سے غیر تحریری پیغام موجود ہیں۔ پہلا پیغام تو یہ ہے کہ آج کی دنیا ماضی کی دنیا کی طرح نہیں کہ ملک چاہیں تو ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہیں یا چا ہیں تو آپس میں جنگ کرتے رہیں اور کاروبار دنیا چلتا رہے۔ آج کی دنیا میں ایک دوسرے سے اچھے تعلقات رکھے بغیر کسی بھی ملک کے لیے زندہ رہنا ممکن نہیں۔ محاذ آرائی اور جنگ و جدل کرنے والے ملک سے سب کنارہ کر لیں گے اور اگر وہ پھر بھی راہ راست پر نہ آئے تو معاشی اور تجارتی پابندیاں لگا کر انہیں ایک طرف ڈال دیا جائے گا۔ دوسرا پیغام یہ ہے کہ کسی بھی ملک کی بقا کے لیے لازم نہیں کہ ایک دشمن ملک کو ضرور سامنے رکھا جائے۔ آج کی دنیا میں وہی جئے گا جو مثبت انداز میں آگے بڑھنے کا ہنر جانتا ہو گا اور جسے خود میں قوت محرکہ پیدا کر نے کے لیے کسی دشمن کے ''سہارے'' کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس معاہدے میں تیسرا اور غالباً سب سے اہم پیغام، پوری اقوام عالم کے لیے یہ ہے کہ کوئی کسی سے افضل یا کوئی کسی سے کمتر نہیں۔ سب اپنے اپنے عقائد اور نظریات رکھیں لیکن انہیں دوسروں پر مسلط نہ کرتے ہوئے جینے کے مہذب انداز اپنائیں ۔
آج پاکستان بھی عالمی تنہائی کا شکار ہے۔ ہمارا امتحان ہے کہ ہم بھی ایران اور مغرب کی طرح دانش کا درست استعمال کریں۔