کافی ہاؤس

1940ء سے 1970ء تک کے زمانے کو اردو افسانے کا سنہری دور کہا جائے تو یہ غلط نہ ہو گا


Amjad Islam Amjad January 26, 2014
[email protected]

سب سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کافی ہاؤس سے میری مراد کوئی عام یا مخصوص روایتی کافی ہاؤس نہیں جو کسی زمانے میں فنون لطیفہ سے متعلق لوگوں یا دانشوروں کے بیٹھنے کے اڈے ہوا کرتے تھے بلکہ یہ نام ہے افسانوں کے ایک مجموعے کا جو عرفان جاوید کے تحریر کردہ ہیں اور کتاب کی اشاعت سے پہلے بھی مؤقر ادبی جرائد میں شایع ہو کر ادبی حلقوں سے داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں لیکن اس وقت مجھے ایک روایتی اور سچ مچ کا کافی ہاؤس بہت یاد آ رہا ہے جس کا کچھ ذکر میں نے اپنے سفر نامے ''شہر در شہر'' میں بھی کیا تھا مگر یہ ذکر ایسا ہے کہ تکرار سے اس کا لطف مزید بڑھ جاتا ہے۔

ہوا یوں کہ 1984ء میں مرحومہ پروین شاکر اور مجھے برادر محترم جمیل الدین عالی کے ساتھ کینیڈا اور امریکا کے ایک طویل مشاعراتی دورے کا موقع ملا جو اتفاق سے میرا اور پروین کا پہلا سمندر پار کا سفر بھی تھا۔ ہماری پرواز کراچی سے پیرس اور پیرس سے ٹورانٹو کی تھی اور درمیان میں تقریباً آٹھ گھنٹے کا وقفہ تھا ہم نے عالی صاحب کے مشورے کے مطابق فرانس کا ویزا بھی لے لیا (جو ان دنوں نسبتاً۔ بہت آسانی سے مل جاتا تھا) تا کہ آٹھ گھنٹے ایئرپورٹ پر رکنے کے بجائے تھوڑی بہت پیرس کی سیر کر لیں وہ ہمیں موماخت نامی ایک جگہ پر لے گئے جہاں ان کے بقول پورے یورپ سے فن کار جمع ہوتے تھے اور جہاں کا سند یافتہ فن کار عالمی سطح پر مستند سمجھا جاتا تھا۔ انھوں نے ہمیں ایک چھوٹے سے کافی ہاؤس میں بٹھا کر وہاں کی کسی مخصوص کافی کا آرڈر دیا اور اس کے ساتھ ہی کافی اور کافی ہاؤس کی شان میں ایک قصیدہ شروع کر دیا جس کا ٹیپ کا بند یہ تھا کہ باوجود بے انتہا رش کے یہاں کے آداب کے مطابق کوئی شخص اگر چاہے تو صبح سے لے کر شام تک صرف ایک کپ کافی کا خرید کر یہاں بیٹھ سکتا ہے اور کوئی اس کو اٹھنے کے لیے نہیں کہے گا اور اکثر غریب اور بیروزگار فنکار ایسے ہی کیا کرتے تھے اتنے میں چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں سیاہ رنگ کا ایک گاڑھا سا نیم سیال قسم کا مواد ہمارے سامنے رکھ دیا گیا۔ ہم دونوں اس کافی کے فضائل سے اس قدر متاثر ہو چکے تھے کہ ہم نے بے اختیار وہ پیالچی منہ سے لگا لی، کافی بے حد گرم تو تھی ہی لیکن اس کا ذائقہ اس قدر کڑوا، تیز اور سر گھما دینے والا تھا کہ چند لمحے ہماری سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے۔

دوسری طرف عالی صاحب پھر اس بات پر زور دے رہے تھے کہ لوگ ایک پیالی کے ساتھ سارا دن گزار دیا کرتے تھے میں نے بے اختیار کہا عالی صاحب اس میں ان کی غربت اور بے روزگاری کا اتنا دخل نہیں جتنا اس عبرت ناک کافی کا ہے کہ ان دو گھونٹوں کو پورے دن میں ختم کر لینا بھی کم از کم ستارۂ جرأت کا حق دار ہے۔ اس پر پروین اس قدر زور سے ہنسی کہ سب لوگ مڑ کر ہماری طرف دیکھنے لگے اور عالی صاحب کا موڈ اگلے تین دن تک خراب رہا۔ چلیے اب آتے ہیں عرفان جاوید کے کافی ہاؤس کی طرف۔احمد ندیم قاسمی مرحوم ایک بڑے شاعر، افسانہ نگار، دانشور اور کالم نگار تو تھے ہی لیکن ان کا ایک بہت بڑا کارنامہ اپنے ادبی جریدے ''فنون'' کے ذریعے نئی نسل کی حوصلہ افزائی ہے۔ یہ بات بہت اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی کے وسط سے جن لوگوں نے لکھنا شروع کیا ان میں سے آج کے بیشتر نامور اور کامیاب لکھاری اسی نرسری کے تربیت یافتہ ہیں جن میں سے اب کئی خود ایک چھتنار کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔

عرفان جاوید کی کہانیاں بھی پہلی بار فنون کی معرفت ہی میری نظر سے گزریں جو مجھے اچھی تو لگیں لیکن کوئی دیرپا تاثر شاید اس لیے نہ چھوڑ سکیں کہ ایک تو یہ ان کی افسانہ نگاری کے ابتدائی دن تھے اور دوسرے یہ کہ فنون میں چھپنے والی بیشتر کہانیاں بہت ہی اعلیٰ درجے کی ہوا کرتی تھیں البتہ اتنا ضرور ہے کہ ان کہانیوں میں بھی عرفان جاوید کی جزئیات نگاری اور زبان و بیان پر گرفت نے متاثر کیا تھا۔ ان کے کرداروں کی تشکیل کا ڈھنگ، مکالموں کی برجستگی اور بیانیے کی روانی کا انداز بتاتا تھا کہ اس کہانی کار کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے ان کی کہانیوں کی اٹھان بہت اچھی ہوتی تھی ارتقائی مدارج پر بھی معقول فنی گرفت کا احساس ہوتا تھا لیکن کلائمکس میں کہیں کہیں وہ اسی Dilema کا شکار تھے جسے شاعری کے حوالے سے معنی فی بطنِ شاعر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی شاعر یہ تصور کرلیتا ہے کہ جو خیال اس کے دل و دماغ میں تھا وہ مکمل اور واضح طور پر بیان ہو گیا ہے جب کہ حقیقت میں اس کا کچھ حصہ الفاظ میں بیان ہونے سے رہ جاتا ہے۔ لیکن جس طرح اچھے شاعر اپنی اس کمزوری پر قابو پا لیتے ہیںبالکل اسی طرح عرفان جاوید نے بھی کلائمکس کے خود سر گھوڑے کو قابو کرنے کے گر سیکھ لیے اور ان کے بعد کی کہانیوں میں اس حوالے سے ایک واضح فرق نمایاں ہونے لگا۔

اس کتاب ''کافی ہاؤس'' میں چونکہ دونوں طرح کی کہانیاں شامل ہیں اور ان کا زمانہ تحریر بھی واضح نہیں کیا گیا اس لیے پہلی قرآت میں شائد گاہے بلند و گاہے پست کا احساس ہو لیکن اصل میں ایسا نہیں ہے۔

1940ء سے 1970ء تک کے زمانے کو اردو افسانے کا سنہری دور کہا جائے تو یہ غلط نہ ہو گا کہ ان تیس برسوں میں اردو افسانے کے آسمان پر جیسے کہکشاں نے ڈیرا جما لیا تھا ایک کے بعد ایک ایسا باکمال، منفرد اور صاحب اسلوب کہانی کار سامنے آیا کہ کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا است کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ ساٹھ کی دہائی میں کہانی پن کی جگہ علامت پسندی کو فروغ ملنا شروع ہوا اور پھر ایسا غدر مچا کہ ABSTRACT اور ABSURD کا فرق ہی ختم ہو گیا۔ ایسے میں اگر منشا یاد اور اس کے کچھ ہم عصر پُل کا کام نہ کرتے تو شاید آج اُردو افسانے کی حالت بہت ہی خراب ہوتی۔ میری رائے میں عرفان جاوید کا شمار بھی اسی پل کے ذریعے دریا پار کرنے والوں میں ہوتا ہے کہ ان کے یہاں روایتی اور علامتی کہانی پہلو بہ پہلو چلتی ہیں جس کی بہترین مثالیں ان کی کہانیوں ''اولگا'' ، ''سمجھوتا''، ''کامنی''، ''بھونچال'' اور جب ببلو گھر واپس نہ آیا'' اور ''افسرِ اعلیٰ'' میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

ان کہانیوں کے موضوعات میں جو تنوع ہے اس کا صحیح لطف تو آپ ان کے مطالعے کے بعد ہی اٹھا سکتے ہیں لیکن جہاں تک ان کے Narrative یعنی بیانیے کا تعلق ہے اس کی خوبصورتی کے ''نمونے مشتے از خروارے کے طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

''بیگم جامی بھی سب سمجھتی تھیں مگر وہ اپنے شوہر کا حوصلہ بڑھانے کے لیے دل جوئی کی باتیں کرتی تھیں۔ پریشان تو تھیں مگر زیادہ نہیں۔ وکیل نے انھیں بھر پور تسلی دی تھی۔

بیگم صاحبہ کو وکیل پر بہت اعتماد تھا وہ عدالت سے باہر سمجھوتے کی بھر پور کوشش میں تھا۔ ''چپڑاسی تک کو صاحب کہہ کر بلایا ہے اور زندگی بھر کام اس طرح سے لیا ہے کہ جیسے درخواست کی جاتی ہے ''ادھر وہ معصومیت سے سوچتے۔

پھر دوبارہ سوچتے ''اس معاملے میں میری کون سی بدنیتی تھی بس اس وقت انتظام نہ تھا سوچا تھا کہ بر وقت لوٹا دوں گا۔۔۔ پر اس سے پہلے ہی معاملات خراب ہو گئے۔

اس روز افسردگی شام کے سایوں میں گُھل کر اتر رہی تھی (کہانی۔ سمجھوتا)

''میں بھی بشیر احمد کی طرح پکا سچا مسلمان بننے کی کوشش کر رہا ہوں میں جنموں وغیرہ پر یقین نہیں رکھتا پر کیا کروں کہ کامنی نے واقعی دوبارہ جنم لیا ہے۔

کیا خوب سترہ اٹھارہ برس کی بچی ہے، بالکل کامنی جیسی سندر اور معصوم۔ بس جب سے میں بشیر کے کان میں سرگوشی کرتا ہوں کہ اس کی نواسی تو بالکل ہی کامنی ہے تو مجھ سے ناراض ہو جاتا ہے۔

اب تو محلے والے بھی مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کامنی کون ہے تو میں خاموش ہو جاتا ہوں۔ پر جھوٹ نہیں بولتا کیوں کہ میں بھی بشیر کی طرح اچھا انسان بننے کی کوشش کر رہا ہوں (کہانی۔ کامنی)

''کافی ہاؤس'' عرفان جاوید کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے لیکن اس کی کہانیوں کے موضوعات مشاہدے کی گہرائی اور زبان کو برتنے کا سلیقہ اس بات پر شاہد ہے کہ ہم مستقبل میں اس کہانی کار سے خوب تر کی توقع بڑے اعتماد سے وابستہ کر سکتے ہیں۔ عرفان ایک وسیع المطالعہ شخص ہیں اور اردو کے ساتھ معاصر اور کلاسیکی عالمی ادب پر بھی گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ سو دنیا عملی طور پر گلوبل ویلیج بنے یا نہ بنے عرفان جاوید جیسے لکھاری یقینا انسانوں کے مشترکہ عالمی مسائل کی تفہیم میں آسانیاں پیدا کرتے رہیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔