بوم بسے یا ہما رہے
یہ منطق سمجھ نہیں آئی کہ مسلکوں کی بنیاد پرہرایک کے اکابرین کیلئے توہین آمیززبان استعمال کرنے والوں کو کیا کہا جائے
KARACHI:
کیا شاندار ملک ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان جس میں انسان کیڑے مکوڑوں کی طرح مر رہے ہیں۔ کوئی نہ نوٹس لینے والا ہے نہ خیال کرنے والا۔ صرف مرنے والوں کے مردہ جسموں کی قیمت لگا کر حکمران خاموش اپنے اپنے محل میں بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے تنخواہ دار ملازم پہلے سے کمپوز کیا ہوا پرانا نسخہ میڈیا کو تھما دیتے ہیں۔ ''دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا'' ۔۔۔۔ ''امن تباہ کرنے والے جلد بے نقاب ہوں گے'' ۔۔۔۔۔ ''کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی''۔۔۔۔۔۔ احمقوں کی جنت میں رہنے والے اور ملک کی دولت لوٹنے والے جب بلٹ پروف شیشوں کے پیچھے بیٹھ کر بال سنوار کر اور ہلکا ہلکا میک اپ کر کے گلابی گلابی ہونٹوں سے دہشت گردوں کو دھمکیاں دیتے ہیں۔ آہنی دروازوں، بلٹ پروف گاڑیوں اور کنکریٹ کی ناقابل تسخیر دیواروں کے پیچھے چھپ کر بیٹھنے والوں نے جو اپنی اپنی اولاد کو شطرنج کے پیادے، سپاہی اور وزیر بنا کر سیاست کی بساط پہ چیخنے چلانے کے لیے چھوڑا ہے، تو اس کے نتائج بہت خطرناک ہو سکتے ہیں ۔۔۔۔ منظر نامہ صاف نظر آ رہا ہے۔
ایک چھوٹی سی مگر بے حد اہم بات آج مجھے کہنے دیجیے کہ یہ تقاضا میرے ان قارئین اور احباب کا ہے جو صرف محبتوں پہ یقین رکھتے ہیں اور مانتے ہیں کہ نفرت، ہمیشہ نفرت کو جنم دیتی ہے، انسان خواہ کتنا ہی پڑھا لکھا اور مہذب کیوں نہ ہو لیکن بعض دفعہ جب قابل احترام ہستیوں کے بارے میں نازیبا الفاظ کیے جائیں تو جذبات کو قابو میں رکھنا ناممکن ہو جاتا ہے، تہذیب یافتہ لوگوں کے جواب دینے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ جب کہ متعصب اور بددیانت لوگ گالم گلوچ کا سہارا لیتے ہیں۔ سب سے بڑی جہالت یہ ہے کہ ہمارے ہاں مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں کے درمیان بات چیت نہیں ہوتی ہے۔ بعض عناصر اپنی اپنی چوہدراہٹ قائم رکھنے کے لیے لوگوں کو آپس میں لڑاتے ہیں۔
میرے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ''جس میں عصبیت ہو وہ ہم میں سے نہیں''۔۔۔۔ہر بات لکھی تو جا سکتی ہے لیکن وہ اندیشہ فساد خلق کے باعث شایع نہیں کی جا سکتی۔ لیکن اس چھپن چھپائی کے کھیل میں سچائیاں خود بخود راستہ بنا لیتی ہیں۔ میرے حلقہ احباب میں بچپن ہی سے ہر مذہب اور عقیدے کے لوگ شامل رہے ہیں۔ ہم نے سولہ سال ساتھ پڑھا، ریڈیو کے پروگراموں میں شرکت کی، مباحثوں میں حصہ لیا، لائبریریوں میں بیٹھ کر ادبی بحثیں کیں۔ لیکن کبھی پتہ نہ چلا نہ ہی ضرورت پیش آئی کہ مسلکوں اور مذہبوں کو زیر بحث لایا جائے۔ لیکن بعض مواقع پر (1980ء کے بعد) مختلف مذہبی نشستوں میں شرکت کرنے پر نہایت تکلیف دہ انکشافات ہوئے۔
میری آج تک یہ منطق سمجھ میں نہیں آئی کہ مسلکوں کی بنیاد پر ہر ایک کے اکابرین کے لیے توہین آمیز زبان استعمال کرنے والوں کو کس نام سے پکارا جائے۔ بہت سے لوگ مختلف محفلوں میں، نجی گفتگو میں اور ٹی وی ٹاک شوز میں اینکر پرسن مہمانوں سے یہ سوال ضرور پوچھتے ہیں کہ ''اس خراب اور انتہائی سنگین صورتحال سے نکلنے کا طریقہ کیا ہے۔ کوئی حل نہیں بتاتا صرف مسائل کی نشان دہی کر کے خاموش ہو جاتا ہے''۔۔۔۔ بات تو سو فیصد درست ہے۔
اس کا ایک حل ہے کہ کس طرح مذہبی تعصب سے بالاتر ہو کر صرف انسان کی حیثیت سے زندہ رہا جائے، عدم تشدد کا پرچار کیا جائے اور یہ یاد رکھا جائے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے، زمین پر فساد پھیلانا اس کو زیب نہیں دیتا، محبت ایک ایسی عالمگیر زبان ہے جو مسکراہٹوں کے ذریعے سمجھ لی جاتی ہے۔ لیکن محبت کی زبان کو آفاقی اور عالمگیر بنانے کے لیے مذہبی رواداری قائم رکھنے اور انتہا پسند مذہبی قوتوں کے خاتمے کے لیے کسی حد تک ترکی کی تاریخ کا مطالعہ کرنا بھی ضروری ہے۔ ساتھ ہی حسن بن صباح کے کردار کو قوم کے سامنے لا کر یہ بتانا ضروری ہے کہ ابتدا ہی سے مسلمانوں کو فرقوں میں بانٹنے کا کام کس طرح نہایت چالاکی اور ہوشیاری سے کیا گیا۔ اس کے لیے تاریخ کا ازسرنو جائزہ بھی لینا ہو گا۔ غیر مسلم نہیں چاہتے تھے کہ اسلامی سلطنت کو فروغ ہو، لہٰذا انھیں قیصر و کسریٰ نے ''تقسیم اور نفرت'' کے اسی فارمولے پہ عمل کیا جو بعد میں انگریزوں کے کام بھی آیا۔ اسلام تو امن و سلامتی کا داعی تھا۔ پھر یہ فرقے کس نے جنم دیے۔۔۔۔؟ ملت اسلامیہ پارہ پارہ کیوں ہوئی؟ فرقہ واریت وہ خود رو پودا ہے جو ایک بار لگ جائے تو خود بخود ہزار سے ضرب پاتا رہتا اور پروان چڑھتا رہتا ہے۔ نفرتوں کی آبیاری کرنے والوں کا رزق اسی سے وابستہ ہے۔
ملک کے مختلف شہروں اور دیہات میں پولیو مہم ختم کرا دی گئی، ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہا، پھر فیصلہ ہوا کہ ان سے مذاکرات ممکن نہیں۔۔۔۔۔ آخر حکومت کیا کر رہی ہے۔ کیا اسے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کا احساس ہے۔۔۔؟ قطعی نہیں۔ مہنگائی کا عذاب صرف تنخواہ دار متوسط طبقے پر نازل ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم صاحب نے سب سے پہلے ڈاک کی شرح ٹکٹ بڑھا دی۔ جو UMS اور رجسٹری پہلے لوکل 17 روپے میں ہو جاتی تھی، اسے فوراً د گنا کر کے 35 روپے کر دیا گیا، شہر سے باہر جانے والی رجسٹری کم از کم 60 روپے میں جانے لگی۔۔۔۔ بوجھ کس کی جیب پہ پڑا۔۔۔؟ کوکنگ آئل مہنگا ہوا۔ چاول پہ حکومت کی طرف سے ایک کلو پہ پانچ روپے بڑھے۔ لیکن ہول سیلرز اور ریٹیلرز نے فی کلو 25 تا 40 روپے بڑھا دیے۔ رمضان میں جو باسمتی چاول 120 روپے فی کلو آیا تھا وہ ربیع الاول میں 145 روپے فی کلو ہو گیا۔ پوچھا تو جواب ملا۔۔۔۔ ''پچھلے دور سے مہنگا ہو گیا''۔۔۔۔۔ لیکن اضافہ تو ایک کلو پہ پانچ یا چھ روپے سے زیادہ نہیں تھا، آپ نے 25 روپے بڑھا دیے۔ تو جواب ملا۔۔۔۔ ''جہاں سے کم ملیں وہاں سے لے لیں''۔۔۔۔۔ گراں فروشوں کا اتحاد بھی سیاست دانوں جیسا ہوتا ہے۔ بوجھ کس کی جیب پر۔۔۔۔؟۔۔۔۔ ہمیشہ کی طرح عوام کی۔۔۔۔ ان عوام کی جیب پر جن کے لیے بڑے میاں اور چھوٹے میاں نے لوڈشیڈنگ اور مہنگائی چھ ماہ میں ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اور اگر نہ کر سکیں تو انھوں نے اپنا نام بدلنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔۔۔۔۔ کیا انھیں اپنا وعدہ یاد ہے۔۔۔؟ ہر دن ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ بوجھ کس پر پڑتا ہے۔۔۔؟ (حکومت کو اس سے کیا۔۔۔؟)
عام آدمی کو کسی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ خواہ وردی والے ہوں، سوٹوں والے ہوں یا عسکریت پسند ہوں۔ عوام کو روٹی چاہیے، ملازمتیں چاہئیں، امن و امان چاہیے، انصاف اور تعلیم چاہیے۔ جو انھیں یہ دے گا وہ اسی کی طرف دیکھیں گے۔ حکمرانوں کو جب خدا کا خوف نہ رہے۔ وہ صرف مال بنانے اور کھال اتارنے میں لگ جائیں۔ عام آدمی صرف یہ سوچتا ہے:
بُلبُل نے آشیانہ چمن سے اٹھا لیا
اپنی بلا سے بُوم بسے یا ہُما رہے