روشنی کی رفتار سے تیز…

وانائی اس وقت تک مادے کی شکل اختیار نہیں کرسکتی جب تک اسے ایک نادیدہ قوت کی تائید حاصل نہ ہو

پہلے روسی ادب کی ایک چھوٹی سی سائنسی حکایت پڑھ لیجیے۔ایک بارکا ذکر ہے کہ کہیں دور کسی سلطنت میں ایک بڑا ماہرِ فلکیات رہتا تھا۔ نام تھا اس کا اخمت! کہا جاتا ہے کہ اخمت کے پاس کوئی ایسا سحر تھا کہ وہ آسمان کا کوئی بھی ستارہ صفحۂ ہستی سے مٹا سکتا تھا، مگرظاہر ہے کسی ہنگامی صورت حال میں۔ وقت کے بادشاہ نے جب اس بارے میں سنا تو اس نے حکم دیا کہ اخمت کو اس کے حضور میں پیش کیا جائے۔ اخمت کو دربار میں لایا گیا،'' کیا تم ہی وہ ہو جس کے بارے میں افواہ مشہور ہے کہ وہ کسی طریقے سے کوئی بھی ستارہ ختم کر سکتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو ...'' بادشاہ نے آسمان پر چمکتے ہوئے ایک روشن ستارے کی طرف اشارہ کیا ۔ ''اس ستارے کو ابھی اور اسی وقت ختم کردو۔'''' سلطانِ معظم! یہ محض افواہ نہیں ہے، میں واقعی خدا کے فضل سے ایسا کر سکتا ہوں،مگر...مگر ظاہر کہ یہ انتہائی اقدام ہو گا، جو میں صرف اسی وقت کروں گاجب کوئی ایمرجنسی ہو اور انسانوں کو اس کی اشد ضرورت ہو۔''اخمت نے خوف سے کانپتے ہوئے کہا۔

''کیا میری خواہش کسی بڑی ایمرجنسی سے کم ہے؟ ستارے کو اسی وقت گل کردو ، ورنہ تمہاری زندگی کا چراغ گل کر دیا جائے گا۔'' کہنے کو اب باقی کیا رہ گیا تھا۔ اخمت نے کچھ چیزیں منگوائیں ، کچھ دیر وہ چیزیں استعمال کیں اور پھر بادشاہ سلامت کو اطلاع دی۔ ''سب دانشوروں سے زیادہ ذہین اور ہمارا رہنما! ستارہ آپ کی خواہش کے مطابق ختم کر دیا گیاہے۔''بادشاہ سلامت نے اوپر نگاہ کی تو دیکھا، وہ ستارہ اپنی پہلے کی سی آب و تاب سے موجود تھا۔''ہوں !! تو تم عبرت ناک موت کے حق داربدقسمت انسان! اپنے ہر دلعزیز بادشاہ سے مذاق کرتے ہو...خدمت گارو!'' بادشاہ دھاڑا۔ ''جہاں پناہ!''اخمت نے بادشاہ کے قدموں پر گر کر فریاد کی۔

''میری بات تو سنیے! مجھے دو لفظوں میں اس کی وضاحت تو کرنے دیجیے۔''''اب یہ وضاحت تم دوسری دنیا میں جا کر کرنا۔''اخمت کا سر قلم کر دیا گیا اور اسے نیزے پر سجا کر فصیلِ شہر پر رکھ دیا گیا تا کہ دوسرے اخمتوں کو عبرت حاصل ہو۔ اس واقعہ کو سالوں گزر گئے۔ لوگ رفتہ رفتہ یہ بات بھول گئے۔ سو سال گزرے پھر دو سو سال اور پھر تین سو بیالیس سال، چار دن، دو گھنٹے، سینتیس منٹ اور!فلکیات کے ماہرین نے آسمان کی طرف دیکھا تو ان پر منکشف ہوا کہ وہ ستارہ وہاں نہیں تھا۔ دراصل اس ستارے کی روشنی کو، جو ایک عرصہ ہواختم کر دیا گیا تھا، زمین تک پہنچنے میں تین سو بیالیس سال، چار دن، دوگھنٹے اور سینتیس منٹ لگتے تھے!!


کئی سال پہلے پڑھی یہ سائنسی حکایت ہمیں روزنامہ ایکسپریس میں ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی صاحب کا کالم 'جہانِ سائنس میں جدید پیش رفت' پڑھ کر یاد آئی۔انھوں نے کالم کے شروع ہی میں لکھا ہے کہ کائنات میں روشنی کی رفتار سے زیادہ کسی چیز کی رفتار نہیں یعنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار۔ اگر یہ بات علی الاطلاق کہی گئی تو ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم اسے ہرگز قبول نہیں کر سکتے، کیوں کہ قرآن و حدیث میں بیان کردہ کئی واقعات مثلاً واقعۂ معراج اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کا ایک پل میں عرش سے فرش تک آ جانا، ان واقعات سے تو دینی نقطہ نظر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے امر سے فرشتوں اور جن کو اللہ چاہیں، ایسی رفتار حاصل ہوجاتی ہے کہ جس کا ہمارا محدود ذہن تصور بھی نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر صرف سائنس اور مادی طور پر بھی یہ بات کہی جائے تو وہ بھی آج سے ڈھائی سال پہلے سرن لیبارٹری کے تجربے میں غلط ثابت ہو چکی ہے۔

دراصل فزکس کا یہ نظریہ کہ کائنات میں سب سے تیز رفتار روشنی ہے، پچھلی صدی کے معرکۃ الآرا نظریے خصوصی نظریہ اضافت اور عمومی نظریہ اضافت جنھیں آئن اسٹائن نے پیش کیا'سے اخذ ہے،جس پر جدید سائنس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔مگر دو سال پہلے یورپی تحقیقاتی ادارے سرن کے ایک مہنگے ترین تحقیقی تجربے نے جو سوئٹرزلینڈ اور فرانس کی سرحد کے پاس جنیوا کے قریب ایک سرنگ میں کیا گیا، اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ ہگز بوسن پارٹیکل (نودریافت شدہ کائنات کا سب سے چھوٹا ذرہ)نہ صرف روشنی کی رفتار سے کئی گنا زیادہ تیزی سے حرکت کرتا ہے بلکہ یہی وہ ذرہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے توانائی کے مادے میں تبدیل ہونے کا سبب بنایا ہے۔ یعنی سائنسدانوں کے مطابق اسی ذرہ کی وجہ سے کائنات اور خود ہم مجسم حالت میں نظر آ رہے ہیں کہ یہ سب کو جوڑے ہوئے ہے، ورنہ بس صرف توانائی ہی توانائی ہوتی اور مادہ موجود نہ ہوتا۔دراصل 64ء سے پہلے تک سائنس دانوں کی اکثریت کا یہی خیال تھا کہ کائنات میں سب کچھ ایک خود کار طریقے سے ہورہاہے، نئے ستارے بن رہے ہیں، پرانے فنا ہورہے ہیں،لیکن 64ء میں ماہر طبیعات ہگزبوسن نے کہا کہ کچھ بھی خودبخود نہیںہو رہا۔یہ سب کچھ ایک نادیدہ قوت کررہی ہے۔

توانائی اس وقت تک مادے کی شکل اختیار نہیں کرسکتی جب تک اسے ایک نادیدہ قوت کی تائید حاصل نہ ہو۔ اس نامعلوم قوت کا نام ہگز کے نام پر ہگز بوسن پڑ گیا۔ لیکن بعدازاں اسی موضوع پر ایک اور سائنس دان لیون لیڈرمن کی کتاب 'گاڈ پارٹیکل' شائع ہونے پر ہگز بوسن کو گاڈ پارٹیکل یا خدائی صفات کا ذرہ کہاجانے لگا نعوذباللہ۔ہم بحیثیت مسلمان کہتے ہیں کہ یہ ذرہ فی نفسہ کچھ نہیں، البتہ اس ذرے کو اللہ تعالیٰ کا وہ امر کہا جا سکتاہے جو کائنات کی ہر چیز کو جوڑے ہوئے ہے اور جس کی رفتار خود قرآن حکیم میں یہ بتائی گئی ہے کہ وہ پلک جھپکنے میں پوری کائنات سے گزر جاتا ہے۔چنانچہ سورہ قمر میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے:'' اور ہمارا حکم ایسا ہے جیسے ایک پلک جھپک جانا'' جب کہ آئن اسٹائن کے مطابق مادی شے کے سفر کرنے کی آخری حد روشنی کی رفتار ہے جو ایک لاکھ چھیاسی ہزارمیل فی سیکنڈ ہے، جس کے عجز کی ایک ادنیٰ مثال شروع میں دی گئی حکایت میں دی گئی کہ یہ کائنات اتنی بڑی ہے کہ ناقابل یقین فاصلوں پر موجودکچھ ستاروں کی روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہوئی ہم تک کروڑوں بلکہ اربوں نوری سالوںتک بھی پہنچتی ہے۔یعنی رات میں ہم کسی ستارے کو دیکھتے ہیں تو دراصل ہم اس کے ماضی کو دیکھ رہے ہوتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ وہ اس لمحے ختم ہو چکا ہو، لیکن اس کا مشاہدہ ہم اس وقت کر ہی نہیں سکتے۔ہگز پارٹیکل کی دریافت اس صدی کی سب سے بڑی دریافت قرار دی جا رہی ہے۔

سرکردہ سائنس دانوں کے مطابق اس ذرّے کی دریافت، انسان کا پہلی بار چاند پر قدم رکھنے یا الیکٹرون کی دریافت سے بھی کہیں زیادہ اہم ہے، اور اسی دریافت پر اس تھیوری کو پیش کرنے اور پھر ثابت کرنے پر ہی سائنس دان ہگز بوسن جن کے نام پر ہی اس ذرہ کو موسوم کیا گیاہے 'کو طبیعات کا نوبل انعام دیا گیا ہے۔ اس تجربے سے بہرحال یہ ثابت ہواکہ پچھلی صدی میں جدید سائنس کی بنیاد ٹیڑھی اینٹ پر رکھی گئی تھی۔ الحمدللہ اس تجربے سے ان لوگوںکی، جو ہر معجزے کی عقلی دلیل مانگتے ہیں، ایک خاص پہلو سے تشفی ہو گئی ہو گی۔یوں تو یہ بات ہی غلط ہے کہ کسی بھی معجزے کو جو صحیح روایت سے ہم تک پہنچا، اسے سائنسی کسوٹی پر پرکھا جائے کیوں کہ محدود عقل اور علم سے ہم خدائی کاموں کی حقیقت اور ان کی حکمت کو سمجھ ہی نہیں سکتے لیکن اس تجربے سے کم ازکم یہ ضرور ثابت ہو گیا کہ کسی سائنسی نظریے پر ایمان لا کراس کے خلاف ہر چیز کا رد کرتے چلے جانا ایک جاہلانہ بات ہے، کیوں کہ بالکل ضروری نہیں کہ وہ نظریہ آفاقی سچائی پر مبنی ہو۔بالکل ممکن ہے کہ سائنس ہی اسے آنے والے کل میں مسترد کر دے کہ سائنس میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں ہے۔
Load Next Story