خاں صاحب سچ بولنا ملک دشمنی نہیں ہے
آج آپ حکومت میں ہیں تو میڈیا آپ کو برا لگتا ہے، کل کو جب اپوزیشن میں ہوں گے تو یہی میڈیا آپ کو معصوم لگے گا
پریس اینڈ میڈیا حکومت کی مرضی کے مطابق نہیں چل سکتا۔ (فوٹو: فائل)
خیال تو تھا کہ مہنگی ترین ایل این جی کی ڈیل پر لکھوں گا۔ مگر اب یہ بات اگلی نشست میں کریں گے کیونکہ ابھی تو ہمیں وزیراعظم سے محبت ہی اتنی ہے کہ وہ جیسے ہی کوئی یارکر مار کر آؤٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں اُن کا دھیان ایمپائر کی جانب کروانا ہوتا ہے جو نو بال کا اشارہ کر رہا ہوتا ہے۔
ابھی پھر خاں صاحب نے نو بال کروائی ہے۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر سے پاکستان کے میڈیا پر الزامات لگائے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈس انفارمیشن لیب سے جو چیزیں سامنے آئی ہیں کہ ہندوستان نے فیک اکاؤنٹس بنائے ہوئے ہیں اور ان کو پاکستانی صحافی فیڈ کر رہے ہیں اور یہ پاکستان کی فوج اور وزیراعظم کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ مطلب، کمال ہوگیا ہے خاں صاحب! چلیے، دیکھتے ہیں کہ یہ بیان نو بال کیسے ہے؟
اس بیان کے 4 حصے ہیں۔ پہلا حصہ ڈس انفارمیشن لیب ہے۔ دوسرا حصہ بھارت اور فیک اکاؤنٹس ہیں۔ تیسرا حصہ صحافی اور آخری حصہ وزیراعظم اور افواج کے خلاف پروپیگنڈہ ہے۔
ڈس انفارمیشن لیب آج سے نہیں بلکہ بہت عرصہ سے سرگرم عمل ہے۔ یہ سوشل میڈیا سے قبل بھی وجود رکھتی تھی اور جب تک کمیونیکیشن ہے یہ ڈس انفارمیشن لیب رہے گی۔
خاں صاحب! آپ وزیراعظم ہیں۔ آپ شکایتیں لگانے کےلیے نہیں بلکہ عمل کرنے کےلیے ہیں۔ وزیراعظم کی کرسی کی ایک گریس ہوتی ہے۔ اس کی ایک عزت و وقار ہے۔ اس کا ہی خیال رکھ لیجئے۔ لہٰذا، وہ بات کیجئے جس کا علم ہمیں نہ ہو۔ ویسے، محتاط ہوکر بھی کہوں تو اس حوالے سے مجھے زیادہ علم نہیں ہے لیکن شاید ہر ملک نے اپنے دشمن ملکوں کےلیے ڈس انفارمیشن لیب یا اس جیسی کوئی نہ کوئی تکنیک رکھی ہوتی ہے۔ پاکستان نے اس حوالے سے کیا کیا ہے؟ اگر نہیں کیا ہے تو کیوں نہیں کیا ہے؟
بھارت اور اس کے فیک اکاؤنٹس والی بات ٹھیک ہے لیکن پھر وہی بات آتی ہے کہ آپ کو شکایتیں لگانے رکھا ہوا ہے؟ نہیں ناں۔ بھارت بالکل پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کرتا ہے، وہ عرصہ دراز سے کرتا رہا ہے، وہ آئندہ بھی کرے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟
اب ہم تیسرے حصے کو دیکھتے ہیں جو اصل میں اس بیان کی روح ہے۔ اصل میں وزیراعظم تنقید کرنے والے صحافیوں سے تنگ ہیں اور اسی لیے انہوں نے ڈس انفارمیشن لیب اور انڈیا کے فیک اکاؤنٹس کا کور لیا ہے۔
پاکستان کے پریس پر دنیا بھر کی نظر ہوتی ہے۔ یہاں چلنے والی خبریں دنیا بھر میں دیکھی جاتی ہیں۔ یہاں چھپنے والے کالم اور بلاگ دنیا بھر میں پڑھے جاتے ہیں بلکہ ترجمہ ہوکر فائلوں میں بھی لگتے ہیں۔ لیکن، اس کا کیا مطلب ہے؟ ہم میٹھا میٹھا کھائیں؟ نہیں، ہمیں کڑواہٹ کو ہضم کرنا بھی آنا چاہیے۔ صحافی کا کام ہے کہ وہ حکومت پر کڑی نظر رکھے اور اس کے ہر غلط کام پر کڑی تنقید کرے۔ آپ اپنے اعمال ٹھیک کیجئے، ہم اپنا قلم ٹھیک کرلیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ جو آپ کا اور آپ کی پارٹی کا دل کرے وہ آپ کرتے جائیں اور ہم خاموشی سے دیکھیں۔ ہم بولیں گے۔
صحافی کا کام ہے کہ وہ حقائق اور اعداد و شمار لوگوں کے سامنے لائے۔ صحافی کا کام ہے کہ وہ تجزیہ کرے۔ اسی لیے اس شعبے کو انٹیلیجنشیا اور چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ اگر یہ کام ملک دشمنی ہے تو خاں صاحب، ہم سب ہی پھر ملک دشمن ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چند مخصوص حکومت حامی صحافیوں کی مارکیٹ میں کتنی عزت ہے، یہ ہمیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان میں سے کوئی آپس میں خود ہی لڑ پڑتا ہے اور کہیں ان کو وزرا تھپڑ مار دیتے ہیں اور چونکہ انہوں نے حکومت کی بے جا حمایت کی ہوتی ہے تو لہٰذا ان کی ہماری برادری میں کوئی خاص عزت نہیں ہوتی اور دوسری جانب جب تنقید کرنے والوں کی زبان بندی کی جاتی ہے تو نہ صرف ہماری جانب سے اظہار یکجہتی کیا جاتا ہے بلکہ جب وہ متبادل میڈیم پر آتے ہیں تو لوگ اس کو پسند کرتے ہیں اور ان کو سننا چاہتے ہیں۔ شاید اسی لیے اب آپ کی حکومت اس متبادل کو بھی بند کرنے کی کوشش میں ہے۔ خیر، بتانے کا مقصد سادہ سا تھا کہ صحافیوں کو اپنا کام آتا ہے، آپ کسی پر ملک دشمنی کا لیبل نہ لگائیے۔
کیا یہ الزامات نئے ہیں؟ نہیں، یہ الزامات کچھ نئے نہیں ہیں۔ میڈیا کا گلا گھونٹنے کی یہ پہلی کوشش بھی نہیں ہے، البتہ اس حکومت نے بہت تیزی سے پریس کا گلا دبایا ہے۔ دوسری جانب حکومت کی کارکردگی دیکھیں تو مائنس میں ہے۔ ملکی قرضے ریکارڈ سطح پر پہنچے ہوئے ہیں۔ مہنگائی آسمانوں کے بھی پار جا چکی ہے۔ وزرا کےلیے نجی محافل میں حکومت کا دفاع ناممکن ہوچکا ہے بلکہ وہ تو ساتھ مل کر مذاق اڑاتے ہیں۔ صفر بٹہ صفر پر کیا لکھیں؟ آپ بتائیے۔
ہم صحافی ہیں، فیکٹ چیک، کراس چیک کرکے ہی بات کرتے ہیں۔ آج آپ حکومت میں ہیں، میڈیا آپ کو برا لگتا ہے، کل کو آپ اپوزیشن میں ہوں گے تو یہی میڈیا آپ کو معصوم لگے گا۔ میاں ںواز شریف کی مثال سامنے ہے۔ قبل از مشرف دور میں وہ میڈیا کو اچھا نہیں سمجھتے تھے، جلاوطنی کے بعد کے وقت میں ان کو میڈیا سے محبت ہوگئی اور پھر 2013 سے 2017 میں اس محبت میں البتہ کچھ کمی آئی لیکن اس کے بعد اب پھر وہ میڈیا کے واری صدقے جاتے ہیں۔
چوتھا حصہ اور آخری بات، تنقید کا مطلب دشمنی نہیں ہوتا۔ آپ کی جماعت جب اقتدار میں نہیں تھی تو انہوں نے تب کے وزیراعظم کا کیا حشر کیا تھا؟ کیا تب پورا پورا دن وزیراعظم کے خلاف ٹرینڈز نہیں بنتے تھے؟ کیا ان کی ذاتی کردارکشی نہیں ہوتی تھی؟ تو کیا تب آپ کی جماعت اور سوشل میڈیا سیل اور آپ کے موقف کے حامی کالم نویس وغیرہ بھی اسی طرح ملک دشمن تھے جیسا کہ آج آپ کے مخالفین ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو خاں صاحب، یہ نو بال کیوں کروا رہے ہیں؟
حکومت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ پریس اینڈ میڈیا حکومت کی مرضی کے مطابق نہیں چل سکتا۔ سوال کرنا، غلطیوں کی نشاندہی کرنا، ان پر سخت تنقید کرنا، حقائق پر بات کرنا، اعداد و شمار کے مطابق تجزیہ کرنا، یہ صحافت ہی ہے اور صحافی یہی کام کرتے ہیں۔ باقی، آپ بھی نئے ہیں، آہستہ آہستہ ہمیں اور ہمارے کام کو سمجھ جائیں گے، ورنہ جب آپ اپوزیشن میں ہوں گے تو خود ہی سمجھ آجائے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔