شمع بینی اور استاد کی تلاش

ایک ماہر علم اور استاد کی تلاش کے سلسلے میں قارئین کا شکوہ بجا ہے۔۔۔

امر واقعہ یہ ہے کہ ارتکاز توجہ کی مشق شمع کے بغیر نہیں ہوسکتی، دل و دماغ کی دنیا کو روشن اور روح کو منور کرنے کے لیے شمع بینی سے بہتر کوئی مشق میری نظر سے نہیں گزری۔ جس طرح بابل و آشور اور مصر کے کاہنوں سے بلور بینی مخصوص تھی اور ایک زمانے میں یورپ کے روحیت پسند لوگ بلور بینی سے غیر معمولی رغبت رکھتے تھے، اسی طرح برکوچک پاک و ہند میں غیر معمولی نتائج حاصل کرنے کے لیے ذہنی بیماریوں، دماغی مریضوں اور خیالی یا حقیقی آسیب زدہ معمولوں کو آج بھی ''چراغوں'' کے سامنے بٹھایا جاتا ہے۔ بعض وجوہ سے میری نظر میں ''شمع بینی'' کو درجہ اول کی اہمیت حاصل ہے۔

شمع بینی نصاب تعمیر و تنظیم شخصیت کی اہم ترین مشق ہے کیونکہ اس کا براہ راست تعلق ''روشنی'' سے ہے۔ یہ تو آپ کی خدمت میں بارہا عرض کیا جاچکا ہے کہ کردار سازی اور تنظیم شخصیت کی ان مشقوں کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسانی وجود یعنی اس کے نفس اور جسم کی جوہری اور تحت جوہری (Atomic - sub atomic) قوتوں کو بیدار کیا جائے۔ شمع بینی سے یہ قوتیں بہت جلد بیدار ہوجاتی ہیں۔ لیکن ہم طلبا کو ابتدا میں شمع بینی کا مشورہ نہیں دیتے بلکہ دوسری مشقوں کے نتیجے میں جب ذہن کسی قدر تربیت یافتہ ہوجاتا ہے تو ''شمع بینی'' کرائی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ دیگر مشقوں کے تذکرے کے بعد آج ہم شمع بینی پر لکھ رہے ہیں۔ ایک دم شمع بینی شروع کرادینے سے دل و دماغ اور اعصابی نظام کو نقصان پہنچ جانے کا اندیشہ لاحق رہتا ہے۔ پھر یہ ہدایت تو بار بار دہرائی جاچکی ہے کہ یہ تمام مشقیں ہرگز ہرگز انٹ شنٹ بطور خود شروع نہیں کردینی چاہئیں، صرف ایک ماہر فن اور کامل استاد ہی اس راہ کے نشیب و فراز سے آپ کو خبردار کرسکتا ہے کیونکہ اس میں دوچار بہت سخت مقام آتے ہیں۔

شمع بینی کرتے وقت نشست آرام دہ اور نشست گاہ پرسکون ہونی چاہیے۔ کمر، گردن اور پشت ایک سیدھ میں ہونی چاہیے، نہ کمر میں کجی ہو، نہ سینہ باہر نکلا ہو، جسم کے کسی حصے میں کھنچاوٹ اور تناؤ نہیں ہونا چاہیے، ورنہ ذہن کبھی پرسکون نہ ہوسکے گا۔ شمع موم بتی کی شکل میں ہونی چاہیے۔ مجبوری کی صورت میں دِیا استعمال کیا جاسکتا ہے جس میں تیل (مٹی کا تیل نہیں) مثلاً سرسوں کا تیل، چنبیلی کا تیل، تل کا تیل یا کسی نباتاتی تیل کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بلب خواہ کتنی ہی کم طاقت کا کیوں نہ ہو شمع بینی کے لیے موزوں نہیں ہے۔ موم بتی آنکھوں سے دو سوا دو فٹ کے فاصلے پر نگاہوں کے سامنے (کسی قدر اوپر، تاکہ گردن اٹھی رہے) ہونی چاہیے۔

سانس کی تجویز کردہ مشق (یعنی وہ مشق جو آپ کے استاد نے آپ کے لیے تجویز کی ہو) کے مقررہ چکر کرنے کے بعد شمع کی لو کے کسی حصے پر دونوں نظریں جمادیں اور معمول کے مطابق ذہن کی پوری قوت بھی اسی ایک نقطے پر مرکوز کردیں۔ تصور یہ ہو کہ اس نقطے میں نور، حسن اور رنگ کی عجیب و غریب دنیا چھپی ہوئی ہے اور عنقریب شمع کی لو کے پردے کو ہٹا کر وہ دنیا آپ کے سامنے بے نقاب ہونے والی ہے۔ ابتدا میں آنکھوں سے پانی جاری ہوجایا کرے گا، ممکن ہے ہلکا ہلکا دردِ سر بھی محسوس ہو یا آنکھیں تھک جائیں وغیرہ وغیرہ، لیکن یہ ساری شکایتیں عارضی ہوتی ہیں اور ان ہی شکایتوں کے ازالے کے لیے استاد کی رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ بھی بارہا ہوگا کہ بار بار پلکیں جھپک جائیں گی، توجہ ادھر ادھر بھٹک جائے گی، یہ بھی ہوگا کہ لاشعور ابتدا میں زبردست مزاحمت کرے گا، اس کی مزاحمت و بغاوت طرح طرح کے روپ دھارے گی، مثلاً ناغے، مشق سے جی اچاٹ ہوجانا، یہ وہم بھی بار بار ستائے گا کہ یہ سب بیکار کی مشقیں ہیں، سوائے وقت ضائع کرنے کے ان سے کوئی نتیجہ نہیں، مایوسی اور بیزاری کے دورے بھی پڑیں گے۔


مشقیں کرتے ہوئے بے وجہ کا خوف بھی محسوس ہوگا، شمع کی لو میں طرح طرح کی شکلیں بھی نظر آسکتی ہیں، بعض ان میں ڈراؤنی بھی ہوسکتی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے (بلکہ عام تجربہ ہے) کہ آپ نے جس ذہنی مرض مثلاً غصہ، جھنجھلاہٹ، پریشاں خیالی، جنسی ہیجان، غم اور خوف وغیرہ کے ازالے کے لیے مشق شمع بینی، یا کوئی اور تجویز کردہ مشق شروع کی ہے اس میں اور اضافہ ہوجائے۔ اضافہ ہوجانے دیجیے۔ جس طرح آنتوں اور معدے سے فاسد مادہ نکالنے کے لیے قے کرائی جاتی ہے یا جلاب دیا جاتا ہے اور یہ دونوں چیزیں تکلیف دہ ہیں، اسی طرح ان مشقوں کے ذریعے نفس کا فاسد مادہ، دبے دبائے گندے جذبات، گھٹے ہوئے ہیجان اور چھپے ہوئے پیچاک (Complex) اندر سے نکل کر باہر آتے ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک صحت مندانہ طریقہ کار ہے لیکن ابتدا میں یہ تکلیف دہ بھی ثابت ہوتا ہے۔ ان تمام مرحلوں سے گزرنے کے لیے آپ کی مسلسل رہنمائی کی ضرورت ہے۔ شمع بینی کی مشق پندرہ بیس سیکنڈ سے شروع کرکے رفتہ رفتہ، آہستہ آہستہ اس طرح کہ طبیعت پر بار نہ ہو، اس کی مدت ایک گھنٹے تک بڑھا دینی چاہیے۔ ان تمام مشقوں کے لیے سب سے زیادہ موزوں رات کا وقت ہے یعنی سونے سے قبل۔

اور اب اپنی بات... مہمیز کالم کے مستقل قارئین اپنی ای میلز اور فیس بک پر شکوہ کناں ہیں کہ ہم ہر کالم اور مشق کی ہدایات میں یہ تو لکھ دیتے ہیں کہ یہ مشقیں استاد کی نگرانی کے بغیر نہ کی جائیں لیکن کبھی بھی کسی ماہر علم یا استاد کا تذکرہ نہیں کیا۔ دوئم قارئین وہ کتابیں بھی پڑھنا چاہتے ہیں جو ان علوم پر لکھی گئیں اور تیسرے یہ کہ شائقین کا خیال ہے کہ ہم شاید بذات خود کوئی انسٹیٹیوٹ چلا رہے ہیں جہاں ان سب مشقوں کی پریکٹس کرائی جاتی ہے اور ہمارے انسٹیٹیوٹ میں داخلے کے خواہشمند ہیں۔ سب سے پہلے یہ بات واضح کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارا کوئی انسٹیٹیوٹ نہیں، نہ ہی فی الحال ہم کسی پلیٹ فارم پر یہ مشقیں کرا رہے ہیں، ان کالموں میں صرف قارئین کے علم میں اضافے کے لیے نفسیات و مابعد نفسیات کے مختلف موضوعات پر بحث کی جارہی ہے اور راقم الحروف کی آزمودہ کچھ مشقیں جو مرحوم رئیس امروہوی کی کتابوں میں شامل ہیں وہ پیش کی جارہی ہیں۔

ایک ماہر علم اور استاد کی تلاش کے سلسلے میں قارئین کا شکوہ بجا ہے۔ آج کے دور میں ان علوم کے حقیقی ماہرین کا ڈھونڈ لانا بھی شاید جوئے شیر لانے کے برابر ثابت ہو۔ ہم ان ہی صفحات پر کہہ چکے ہیں کہ وہ صاحب علم افراد جو حقیقی علم آشنا ہیں اور خلق خدا کی بھلائی کا درد بھی اپنے دل میں رکھتے ہیں ہم سے رابطہ کریں تاکہ ہم لوگوں کو ان کا ریفرنس دے سکیں، نیز ہم خود بھی یوگا اور مائنڈ سائنسز کے حوالے سے ہونے والے مختلف پروگراموں میں شرکت اور ان لوگوں سے ملاقات کی کوشش کرتے ہیں جن کا حوالہ ہمیں کہیں سے بھی نفسیات و مابعد نفسیات کی ان شاخوں سے متعلق ملتا ہے۔ کتابوں کے سلسلے میں ہم صرف رئیس امروہوی کو ہی تجویز کریں گے، لیکن قارئین اگر سمجھتے ہیں کہ وہ کچھ بہتر کتابوں سے متعلق جانتے ہیں تو ہمیں روانہ کریں تاکہ ہم کالم میں ان کتابوں کا تعارف کراسکیں۔

 
Load Next Story