اجارہ داری
ایک خود کار نظام کے تحت پوری کراچی کے یہ بیکار سیل ،کراچی کی مین کباڑی مارکیٹ میں جاکر ڈھیر ہو جاتے۔۔۔
تین عشرے قبل مجھے ایک ایسے سیٹھ کی ملازمت کرنے کااعزاز حاصل ہوا ، جو بالکل ناخواندہ تھا ، لیکن اس کی تخلیقی قوت ، سوچ ، انسان دوستی ،کاروباری ساکھ اورکاروبار کرنے کے اچھوتے انداز و اطوار نے مجھے شدید متاثر کیا ۔ انسان کی زندگی میں کبھی نہ کبھی کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہو جاتے ہیں جن کی شخصیت کے اثرات سے اس کی ذات ضرور متاثر ہوتی ہے ۔ سیٹھ حمید بھی ان گنے چنے افراد میں شامل تھا ، جن کی ذات سے اس حقیرکو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ۔ سیٹھ حمید کراچی کی ایک کچی آبادی میں ایسی جگہ رہائش پذیر تھا جہاں نزدیک ہی ایک گندہ نالہ موجود تھا ۔ وہ اور اس کا چھوٹا بھائی دن بھر اپنے اپنے منی ٹرک میں شیر شاہ کی کباڑی مارکیٹ سے ایسے پرانے ڈرائی سیل بھر بھر کر لاتے تھے ، جنھیں اس زمانے میں ریڈیو سننے والے اور ٹارچ استعمال کرنے والے ان کی مدت ختم ہوجانے کے بعد عموماً پھینک دیا کرتے تھے ۔ ان بڑے سائز کے ڈرائی سیل کا استعمال اس زمانے میں بہت زیادہ تھا ۔ یہ سیل گھروں سے نکل کر پھیری لگانے والے کباڑیوں کے ذریعے اپنے اپنے علاقوں کے مین ڈیلرز تک پہنچتے اور ان بڑے ہول سیل ڈیلر کے ذریعے دیگر کباڑ کے ہمراہ شیر شاہ کی کباڑی مارکیٹ میں پہنچ جاتے ۔
گویا ایک خود کار نظام کے تحت پوری کراچی کے یہ بیکار سیل ،کراچی کی مین کباڑی مارکیٹ میں جاکر ڈھیر ہو جاتے ۔ ان سیلوں کی کوئی قیمت نہ تھی ۔ ٹھیلے والے گھروں اور گلیوں سے یہ سیل پچاس پیسے یا ایک روپے درجن کے حساب سے خریدتے اور اپنا منافع رکھ کر آگے علاقے کے مین ڈیلر کو دیگر سامان کے ساتھ فروخت کردیتے ۔ یہ ایکسپائرڈ سیل جب کباڑی مارکیٹ میں مرحلہ وار سفر کے بعد پہنچ جاتے تو سیٹھ حمید وہاں کی گنی چنی چند دکانوں سے طے شدہ ریٹ پر فی من کے حساب سے خرید کر اپنے ذاتی منی ٹرک میں بھر کر لے آتا اور نقد ادائیگی کرتا ۔ گھر کے قریب بہنے والے بڑے سے نالے کے قریب موجود خالی جگہ پر یہ سیل چٹائی اور بانسوں سے بنے ہوئے بڑے سے چھجے کے نیچے جمع کر دئیے جاتے۔ جہاں سیٹھ حمید کے اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے غریب اور بیروزگار رشتہ دار مزدور جن میں بوڑھی خواتین بھی شامل تھیں۔ بڑی سی پلاسٹک بچھا کر ہتھوڑی کی مدد سے ان متروک سیلوں کو دن بھر توڑتے اور ان کی ہر چیز علیحدہ علیحدہ ڈھیر کی صورت میں جمع کرتے رہتے ۔
ان سیلوں میں سب سے زیادہ مقدار جست ( zinc ) کی ہوا کرتی تھی جسکی باڈی کے اندر کاربن بھرا ہوتا تھا ۔ جست کے علاوہ سیل کے بالائی حصے میں موجود پلاسٹک اور پلاسٹک کے بیچوں بیچ لگی ہوئی کاپر کی کیپ اور سیل کی جست سے بنی ہوئی باڈی کے اوپر چڑھا ہوا رنگین لیبل کا کاغذ اور پھر سیل کے اندر بھرا ہوا پاؤڈر کی شکل میں موجود کاربن علیحدہ علیحدہ نکال لیا جاتا ۔ ہفتے دس دن میں اینٹوں کے بڑے سے چولہے پر ایک بڑی آہنی کڑھائی رکھ کر سوکھی ہوئی شاخیں بطور ایندھن استعمال کرتے ہوئے جست کے ٹکڑے کڑھائی میں ڈال کر اتنے پکائے جاتے کہ وہ دھات مائع کی شکل اختیار کرلیتی ، پھر مخصوص لوہے کے بنے ہوئے فرموں میں اس مائع کو ایک بڑی سنسی اور ڈونگے کی مدد سے بھر دیا جاتا اور یہ مائع ٹھنڈا ہونے کے بعد جست کی اینٹوں کی شکل اختیار کرلیتا ۔ یہی کچھ تانبے کے ساتھ کیا جاتا ، اس کی اینٹیں نسبتاً کم تیار ہوتیں ، لیکن ان اینٹوں کو مارکیٹ میں خالص کاپر اور خالص زنک کے بھاؤ فروخت کردیا جاتا ۔ پلاسٹک کے ٹکڑے اسی شکل میں فروخت کردیے جاتے چکنے کاغذ کے اترنے والے پھٹے ہوئے ٹکڑے اپنی علیحدہ قیمت لے آیا کرتے تھے ۔
ان بیکار سیلوں کا بونس سیٹھ حمید کے لیے وہ کاربن پاؤڈر ہوتا جس کی بھری ہوئی بوریاں اندرون سندھ کے چھوٹے زمیندار اپنی سیم و تھور زدہ زمینوں پر ڈالنے کے لیے خرید کر لے جاتے ، کیونکہ سنا تھا کہ یہ کاربن سیم و تھور کو ختم کرنے کے لیے بڑا معاون ثابت ہوتا تھا ۔ ایک معمولی سے بیکار سیل کے حصے بخرے کرکے الگ الگ فروخت کرنے کے تخلیقی آئیڈیے نے جب حقیقت کا روپ اختیار کیا تو سیٹھ حمید نے بڑی برق رفتاری سے ترقی کی اور اس پیسے سے ٹرانسپورٹ کا ، کاروبار الگ کھڑا کردیا ۔ میری ملازمت کا تعلق ٹرانسپورٹ کے اسی شعبے سے تھا ۔
سیٹھ حمید نے ایک غیر تحریری معاہدے کے ذریعے اپنے مزدوروں کے لیے علاقے میں موجود صحت اور تعلیم کی مفت سہولت بشمول ان کے اہل خانہ انھیں فراہم کردیں ۔ بلا سود قرضہ ، قرض حسنہ اور پورے علاقے میں موجود ہر شخص کی مالی مدد کی فراہمی نے اسے جلد اپنے علاقے کی مقبول اور قابل احترام شخصیت بنا دیا ۔ ایک دن میں نے پوچھا '' سیٹھ کسی اور کاروباری پارٹی کو پرانے سیل کا یہ کاروبار کرنے کی کیوں نہیں سوجھتی '' ؟ اس نے مسکرا کر جواب دیا '' کئی لوگوں نے یہ کام کرنے کی کوشش کی ، جن میں میرے اپنے رشتے دار بھی پیش پیش تھے ، لیکن میں نے انھیں کامیاب نہ ہونے دیا '' ۔ '' مگر کیسے '' ؟میں نے دلچسپی سے پوچھا ۔ وہ بولا '' میں ایسی صورتحال میں پرانے سیلوں کی قیمت فی من اتنی بڑھا دیتا ہوں ، جس قیمت پر سیل خرید کر ان سے منافع کمانا نا ممکن ہوجاتا ہے ۔ مخالف پارٹی کچھ دن نقصان اٹھا کراور اپنے آلات اونے پونے داموں مجھے بیچ کر میدان چھوڑ جاتی ہے ۔ اس دوران میں نقصان برداشت کرتا ہوں اور پارٹی کے جانے کے بعد سیلوں کی قیمت دوبارہ اپنی جگہ پر واپس لے آتا ہوں '' ۔ میں اس کا یہ جواب سن کر چونک گیا اور اس سے کہا '' تم جانتے ہوکہ اس کاروبار کے اسٹائل کو '' اجارہ داری '' کے نام سے پکارا جاتا ہے ؟''
وہ معصومیت سے بولا '' نہیں ! میں نے یہ لفظ آج ہی سنا ہے ، میں تو بس یہ جانتا ہوں کہ سیل کو توڑ کر بیچنے کا خیال جب سب سے پہلے میرے دماغ میں آیا تو اس کاروبار پر میرا ہی حق بنتا ہے اور میں یہ حق کسی اور کوکیوں دوں ؟'' میں اس نا خواندہ آدمی کی کاروباری اور تخلیقی سوچ پر حیران رہ گیا ، جو اجارہ داری سے واقف تھا ، نہ کاپی رائٹ کے قانون سے اور نہ ہی اپنے آئیڈیے کو حکومت سے رجسٹرڈ کروانے کے بارے میں کچھ جانتا تھا ۔ لیکن وہ کئی عشروں تک اس کاروبار پر تنہا چھایا رہا ۔ حتیٰ کہ ڈرائی سیلوں کا زمانہ ختم ہوگیا ۔ پھر اس نے کانچ کی ٹوٹی ہوئی بوتلوں کو اسی بھٹی میں پکاکر بوتلیں بنانے کا کاروبار شروع کردیا اور شائد اب بھی کر رہا ہو ۔ میری اس سے بتیس برس سے ملاقات نہیں ہوئی ۔ لیکن اس کی اجارہ داری نے میرے دماغ میں ایسے پنجے گاڑھے کہ آج مجھے مملکت پاکستان میں جا بہ جا اسی اجارہ داری کے نمونے نظر آتے ہیں ۔