غریب کیوں ہیں
ہماری نجات اور استحکام و خوشحالی کا انحصار خود ہماری کوششوں اور جدوجہد پر ہے
برازیل کے آرچ بشپ مرحوم ڈوم کمارا نے ایک دفعہ دلوں میں چبھنے والا جملہ کہا جس پر خود ان کی چرچ اشرافیہ کی طرف سے زبردست شور مچایا گیا وہ جملہ یہ تھا کہ جب میں غریبوں کو کھانا کھلاتا ہوں تو وہ مجھے ولی کہتے ہیں۔ جب میں ان سے پوچھتا ہوں کہ تم لوگ غریب کیوں ہو تو وہ مجھے کمیونسٹ کہنے لگتے ہیں ۔ پس حل طلب سوال یہ کہ وہ غریب کیوں ہیں اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ غریب اس لیے غریب ہیں کہ انھوں نے غریب رہنا پسند کر لیا ہے ۔
یورپ میں گزشتہ سال ٹی وی کے رائے شماری پروگرام میں ناظرین سے کہا گیا تھا کہ وہ گزشتہ ہزاروی کے عظیم ترین نغمے کے حق میں ووٹ دیں آپ کویہ جان کر حیرت ہوگی کہ مقابلہ جیتنے والا نغمہ جان لینن کا نہایت پر اثر نغمہ تھا جس کا عنوان ''نئی سوچ '' ہے۔ لینن نے جس وقت یہ نغمہ لکھا وہ سخت سیاسی مرحلہ سے گذر رہا تھا اس نے جنگ ویت نام کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا عالمی بھوک اور افلاس کے خلاف تقریریں کیں ۔اس کا گیت دنیا کو نئی سو چ کی دعوت دیتا ہے ایسی دنیا جو سماجی اونچ نیچ استحصال ، نسل پرستی،انتہاپسندی،تشدد اور جنگ وجدل سے پاک ہو بنیادی حقوق کے علمبردار عظیم سیاہ فام امریکی لیڈرمارٹن لوتھر کنگ نے ایک بار مستقبل کے اس خواب کی پیشکش کی تھی۔ ایک دن وہ آئے گا جب بچے ایسے الفاظ سیکھیں گے جن کا مفہوم ان کی سمجھ میں نہیں آئے گا۔ انڈین بچے پوچھیں گے بھوک کیا ہوتی ہے ،ہیروشیما کے بچے سوال کریں گے ایٹم بم کیا ہوتاہے،البامہ کے بچے دریافت کریں گے نسلی علیحدگی سے کیا مراد ہے اور ہم انھیں بتائیں گے کہ یہ ایسے الفاظ ہیں جو اپنا مفہوم کھوچکے ہیں اس لیے ہم نے انھیں ڈکشنری میں سے نکال دیاہے ، کیا یہ خواب بھی نہ دیکھا جائے کہ پاکستان میں نشوونما پانے والے بچے ایک دن یہ پوچھیں کہ غربت کیا تھی محرومی کیا تھی ، بے گھر ہونے کا مفہوم کیا تھا ، تشدد کیا تھا ، گینگ وار کیا تھی، خود کش حملے کیسے ہوتے تھے، لوڈشیڈنگ کسے کہتے تھے ۔ معاشی وسماجی اونچ نیچ کیا تھی ،استحصال کیا تھا، دہشت گردی کسے کہتے تھے ، لیکن آج جب ہم اپنے ملک کے حالات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ خواب سچا ہونا نا ممکن لگتا ہے۔
آج ہمار ملک لہولہان ہے موت کی پر چھائیاں چاروں طرف رقص کررہی ہیں ملک کے ہر محلے سے آہ و بکا کی صدائیں پھیل رہی ہیں ہر شخص اپنی باری کا منتظر ہے۔ مسجدوں،امام بارگاہوں، گرجاؤں، مندروں، بازاروں میں بکھرے انسانی خون کے دھبے مٹائے سے مٹائے نہیں جا رہے ہیں مرنے والے کو نہیں معلوم کہ اسے کیوں مارا جا رہا ہے اور مارنے والا نہیں جانتا کہ وہ کیوں مار رہا ہے ، ملک کے ہر گھر میں روز شام غریباں برپا ہو رہی ہے، پورے ملک میں آگ لگی ہوئی ہے لوگ غربت ، مہنگائی ، بیروزگاری سے تنگ آکر خودکشیاں کر رہے ہیں۔لیکن حکمران بے نیاز و بے پرواہ آگ بجھانے کے بجائے آگ پر ہاتھ سینکنے میں مصروف ہیں ۔ ایسے بزدل ، ڈرپوک ، نالائق ،حکمران ہمارے علاوہ کسی دوسری قوم نے کبھی نہ دیکھے ہونگے پاکستان کی افواج، پاکستان کے عوام قربانیوں پر قربانیاں دے رہے ہیں اور حکمران ملک اور عوام سے لاتعلق بنے بیٹھے ہیں ۔
ماہر نفسیات ایڈلر کا قول ہے دنیا میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا اس شخص کو کرنا پڑتا ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی سب سے زیادہ نقصان اس شخص سے پہنچتا ہے جو اپنے بھائی بندوں میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا ،ایسے لوگ ہی بنی نوع انسان کی ناکامیوں کا سر چشمہ ہیں ۔ فتح و شکست کا فیصلہ میدان میں نہیں بلکہ ذہن میں ہوتا ہے تباہ شدہ قوم کی تعمیر کی جاسکتی ہے ۔مسمار شہر دوبارہ تعمیر ہوسکتے ہیں لیکن جب حکمرانوں کے جذبے مردہ ہوجائیں تو اس مرض کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا پاکستان کے عوام نے موجودہ حکمرانوں پر اس لیے اعتماد کا اظہار کیا تھا کہ وہ انھیں ان عذاب سے نجات دلوائیں گے لیکن افسوس صد افسوس انھوں نے اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلا کام عوام کو بھو لنے کا کیا ۔
فلسفی ہزاروں سال سے انسانی تعلقات کے متعلق قیاس آرائیاں کرتے آئے ہیں اور ان تمام قیاسات میں سے ایک نظریئے نے جنم لیا یہ نظریہ اتنا نیا بھی نہیں ہے یہ اتنا ہی قدیم ہے جتنی کہ تاریخ ۔ آج سے 3 ہزار سال پہلے زرتشت نے یہ اصول ایران کے آتش پرستوں کو سکھایا آج سے دو ہزار چار سو سال پہلے کنفیوشس نے چین میں اس اصول کی تبلیغ کی تاؤ مت کے بانی لاونسی نے یہ ہی اصول اپنے پیروکاروں کو وادی ہان میں سکھایا۔ گوتم بدھ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پانچ سو سال پہلے اسی اصول کی تبلیغ دریائے گنگا کے کناروں پر کی ہندوؤں کی مقدس کتابوں،ویدوں اور شاستروں نے اسی اصول کو اس سے بھی ایک ہزارسال پہلے پیش کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے وادی جودی کی سنگلاخ پہاڑیوں میں اسی اصول کی تبلیغ کی کہ ''دوسروں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرو جیسے سلوک کی تم ان سے توقع رکھتے ہو'' ہماری سیاسی قیادت کو بھی اسی سنہری اصول کی پیروی کرنی چاہیے کہ دوسروں کو وہی کچھ دیں جس کی توقع ہم ان سے رکھتے ہیں ۔ خوشحالی ، امن ، سکون، مسرت پر جتنا حق سیاسی قیادت کا ہے ۔اتنا حق عوام کا بھی ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ عوام قربانیاں دیتے چلے جائیں اور سیاسی قیادت عیش کرتی رہے۔لہذا آئیں ہم سب مل کر ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ہمت، جرأت، بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک اور قوم کو اس مشکل وقت سے نکال باہر کریں ۔
ہماری نجات اور استحکام و خوشحالی کا انحصار خود ہماری کوششوں اور جدوجہد پر ہے اگر خود آپ اپنے راستے میں حائل نہ ہوں تو اور کوئی چیز آپ کے ارادے میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی ،رڈیارڈکپلنگ نے کہا تھا میرے چھ دیانتدار خدمت گار ہیں انھوں نے ہی مجھے سکھایا ہے ان کے نام یہ ہیں '' کیا، کیوں، کب، کیسے، کہاں اور کون'' ۔ ڈین ہاوکینز سے سوال کیا گیا کہ کیاآپ پریشانیوں اور مصیبتوں کو اپنی زندگی میں داخل ہی نہیں ہونے دیتے، انھوں نے اثبات سے سر ہلایا اور کہا ہاں میرا یہی خیال ہے۔ میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میری زندگی پریشانیوں اور مصیبتوں سے مکمل طور پر خالی ہے میرا اندازہ ہے کہ اگر کوئی شخص دیانتداری اور غیر جانبداری سے حقائق معلوم کرنے کی کوشش کرے تو عموماً پریشانیاں اور مصیبتیں حقائق کی روشنی میں بخارات بن کر اڑ جاتی ہیں۔ ٹامس ایڈیسن نے بالکل صحیح کہا ہے انسان غورو فکر کرنے کی تکلیف سے بچنے کے لیے ہر قسم کے پاپڑ بیلتا ہے ۔ بس ہمیں صرف حقائق کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے محض پاکستان کا حصول ہی ہماری جدو جہد کا مقصود نہیں تھا بلکہ یہ ایک نہایت ہی بلند اور ارفع مقصود کے لیے ذریعہ تھا یعنی ملک کے ہر شہری کے لیے پرامن زندگی ، خوشحالی ، آزادی اور خوشی کی فراہمی ہماری جدوجہد آزادی کا مقصود تھا۔ گرے نے کہا ہے قوموں کی عظمتوں کے راستے قبرستانوں سے ہو کر آگے بڑھتے ہیں۔
ملک کے تمام دانشور ، تجزیہ نگار، تاریخ دان اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ ملک کے حالات اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ہمیں تمام مصلحت، ذاتی پسند نا پسند، ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر جرأت ، ہمت ، دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردوں سے بات چیت کی بجائے ان کے خاتمے تک جنگ کا آغاز کر دینا چاہیے ،اس کام میں جتنی دیر ہو گی اتنا ہی ملک اور قوم کو نقصان ہوگا اور ساتھ ساتھ ہمیں عوام کو درپیش روز مرہ کے مسائل کے خاتمے کے لیے بھی جنگ کاآغاز کر دینا ہوگا ۔جب عوام خوشحال ہونگے تو ملک خو شحال ہوگا اور ملک سے انتہا پسندی ، قدامت پسندی کا خود بخود خاتمہ ہو جائے گا ۔
یورپ میں گزشتہ سال ٹی وی کے رائے شماری پروگرام میں ناظرین سے کہا گیا تھا کہ وہ گزشتہ ہزاروی کے عظیم ترین نغمے کے حق میں ووٹ دیں آپ کویہ جان کر حیرت ہوگی کہ مقابلہ جیتنے والا نغمہ جان لینن کا نہایت پر اثر نغمہ تھا جس کا عنوان ''نئی سوچ '' ہے۔ لینن نے جس وقت یہ نغمہ لکھا وہ سخت سیاسی مرحلہ سے گذر رہا تھا اس نے جنگ ویت نام کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا عالمی بھوک اور افلاس کے خلاف تقریریں کیں ۔اس کا گیت دنیا کو نئی سو چ کی دعوت دیتا ہے ایسی دنیا جو سماجی اونچ نیچ استحصال ، نسل پرستی،انتہاپسندی،تشدد اور جنگ وجدل سے پاک ہو بنیادی حقوق کے علمبردار عظیم سیاہ فام امریکی لیڈرمارٹن لوتھر کنگ نے ایک بار مستقبل کے اس خواب کی پیشکش کی تھی۔ ایک دن وہ آئے گا جب بچے ایسے الفاظ سیکھیں گے جن کا مفہوم ان کی سمجھ میں نہیں آئے گا۔ انڈین بچے پوچھیں گے بھوک کیا ہوتی ہے ،ہیروشیما کے بچے سوال کریں گے ایٹم بم کیا ہوتاہے،البامہ کے بچے دریافت کریں گے نسلی علیحدگی سے کیا مراد ہے اور ہم انھیں بتائیں گے کہ یہ ایسے الفاظ ہیں جو اپنا مفہوم کھوچکے ہیں اس لیے ہم نے انھیں ڈکشنری میں سے نکال دیاہے ، کیا یہ خواب بھی نہ دیکھا جائے کہ پاکستان میں نشوونما پانے والے بچے ایک دن یہ پوچھیں کہ غربت کیا تھی محرومی کیا تھی ، بے گھر ہونے کا مفہوم کیا تھا ، تشدد کیا تھا ، گینگ وار کیا تھی، خود کش حملے کیسے ہوتے تھے، لوڈشیڈنگ کسے کہتے تھے ۔ معاشی وسماجی اونچ نیچ کیا تھی ،استحصال کیا تھا، دہشت گردی کسے کہتے تھے ، لیکن آج جب ہم اپنے ملک کے حالات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ خواب سچا ہونا نا ممکن لگتا ہے۔
آج ہمار ملک لہولہان ہے موت کی پر چھائیاں چاروں طرف رقص کررہی ہیں ملک کے ہر محلے سے آہ و بکا کی صدائیں پھیل رہی ہیں ہر شخص اپنی باری کا منتظر ہے۔ مسجدوں،امام بارگاہوں، گرجاؤں، مندروں، بازاروں میں بکھرے انسانی خون کے دھبے مٹائے سے مٹائے نہیں جا رہے ہیں مرنے والے کو نہیں معلوم کہ اسے کیوں مارا جا رہا ہے اور مارنے والا نہیں جانتا کہ وہ کیوں مار رہا ہے ، ملک کے ہر گھر میں روز شام غریباں برپا ہو رہی ہے، پورے ملک میں آگ لگی ہوئی ہے لوگ غربت ، مہنگائی ، بیروزگاری سے تنگ آکر خودکشیاں کر رہے ہیں۔لیکن حکمران بے نیاز و بے پرواہ آگ بجھانے کے بجائے آگ پر ہاتھ سینکنے میں مصروف ہیں ۔ ایسے بزدل ، ڈرپوک ، نالائق ،حکمران ہمارے علاوہ کسی دوسری قوم نے کبھی نہ دیکھے ہونگے پاکستان کی افواج، پاکستان کے عوام قربانیوں پر قربانیاں دے رہے ہیں اور حکمران ملک اور عوام سے لاتعلق بنے بیٹھے ہیں ۔
ماہر نفسیات ایڈلر کا قول ہے دنیا میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا اس شخص کو کرنا پڑتا ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی سب سے زیادہ نقصان اس شخص سے پہنچتا ہے جو اپنے بھائی بندوں میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا ،ایسے لوگ ہی بنی نوع انسان کی ناکامیوں کا سر چشمہ ہیں ۔ فتح و شکست کا فیصلہ میدان میں نہیں بلکہ ذہن میں ہوتا ہے تباہ شدہ قوم کی تعمیر کی جاسکتی ہے ۔مسمار شہر دوبارہ تعمیر ہوسکتے ہیں لیکن جب حکمرانوں کے جذبے مردہ ہوجائیں تو اس مرض کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا پاکستان کے عوام نے موجودہ حکمرانوں پر اس لیے اعتماد کا اظہار کیا تھا کہ وہ انھیں ان عذاب سے نجات دلوائیں گے لیکن افسوس صد افسوس انھوں نے اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلا کام عوام کو بھو لنے کا کیا ۔
فلسفی ہزاروں سال سے انسانی تعلقات کے متعلق قیاس آرائیاں کرتے آئے ہیں اور ان تمام قیاسات میں سے ایک نظریئے نے جنم لیا یہ نظریہ اتنا نیا بھی نہیں ہے یہ اتنا ہی قدیم ہے جتنی کہ تاریخ ۔ آج سے 3 ہزار سال پہلے زرتشت نے یہ اصول ایران کے آتش پرستوں کو سکھایا آج سے دو ہزار چار سو سال پہلے کنفیوشس نے چین میں اس اصول کی تبلیغ کی تاؤ مت کے بانی لاونسی نے یہ ہی اصول اپنے پیروکاروں کو وادی ہان میں سکھایا۔ گوتم بدھ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پانچ سو سال پہلے اسی اصول کی تبلیغ دریائے گنگا کے کناروں پر کی ہندوؤں کی مقدس کتابوں،ویدوں اور شاستروں نے اسی اصول کو اس سے بھی ایک ہزارسال پہلے پیش کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے وادی جودی کی سنگلاخ پہاڑیوں میں اسی اصول کی تبلیغ کی کہ ''دوسروں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرو جیسے سلوک کی تم ان سے توقع رکھتے ہو'' ہماری سیاسی قیادت کو بھی اسی سنہری اصول کی پیروی کرنی چاہیے کہ دوسروں کو وہی کچھ دیں جس کی توقع ہم ان سے رکھتے ہیں ۔ خوشحالی ، امن ، سکون، مسرت پر جتنا حق سیاسی قیادت کا ہے ۔اتنا حق عوام کا بھی ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ عوام قربانیاں دیتے چلے جائیں اور سیاسی قیادت عیش کرتی رہے۔لہذا آئیں ہم سب مل کر ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ہمت، جرأت، بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک اور قوم کو اس مشکل وقت سے نکال باہر کریں ۔
ہماری نجات اور استحکام و خوشحالی کا انحصار خود ہماری کوششوں اور جدوجہد پر ہے اگر خود آپ اپنے راستے میں حائل نہ ہوں تو اور کوئی چیز آپ کے ارادے میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی ،رڈیارڈکپلنگ نے کہا تھا میرے چھ دیانتدار خدمت گار ہیں انھوں نے ہی مجھے سکھایا ہے ان کے نام یہ ہیں '' کیا، کیوں، کب، کیسے، کہاں اور کون'' ۔ ڈین ہاوکینز سے سوال کیا گیا کہ کیاآپ پریشانیوں اور مصیبتوں کو اپنی زندگی میں داخل ہی نہیں ہونے دیتے، انھوں نے اثبات سے سر ہلایا اور کہا ہاں میرا یہی خیال ہے۔ میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میری زندگی پریشانیوں اور مصیبتوں سے مکمل طور پر خالی ہے میرا اندازہ ہے کہ اگر کوئی شخص دیانتداری اور غیر جانبداری سے حقائق معلوم کرنے کی کوشش کرے تو عموماً پریشانیاں اور مصیبتیں حقائق کی روشنی میں بخارات بن کر اڑ جاتی ہیں۔ ٹامس ایڈیسن نے بالکل صحیح کہا ہے انسان غورو فکر کرنے کی تکلیف سے بچنے کے لیے ہر قسم کے پاپڑ بیلتا ہے ۔ بس ہمیں صرف حقائق کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے محض پاکستان کا حصول ہی ہماری جدو جہد کا مقصود نہیں تھا بلکہ یہ ایک نہایت ہی بلند اور ارفع مقصود کے لیے ذریعہ تھا یعنی ملک کے ہر شہری کے لیے پرامن زندگی ، خوشحالی ، آزادی اور خوشی کی فراہمی ہماری جدوجہد آزادی کا مقصود تھا۔ گرے نے کہا ہے قوموں کی عظمتوں کے راستے قبرستانوں سے ہو کر آگے بڑھتے ہیں۔
ملک کے تمام دانشور ، تجزیہ نگار، تاریخ دان اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ ملک کے حالات اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ہمیں تمام مصلحت، ذاتی پسند نا پسند، ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر جرأت ، ہمت ، دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردوں سے بات چیت کی بجائے ان کے خاتمے تک جنگ کا آغاز کر دینا چاہیے ،اس کام میں جتنی دیر ہو گی اتنا ہی ملک اور قوم کو نقصان ہوگا اور ساتھ ساتھ ہمیں عوام کو درپیش روز مرہ کے مسائل کے خاتمے کے لیے بھی جنگ کاآغاز کر دینا ہوگا ۔جب عوام خوشحال ہونگے تو ملک خو شحال ہوگا اور ملک سے انتہا پسندی ، قدامت پسندی کا خود بخود خاتمہ ہو جائے گا ۔