پاکستان کو جدید ریاست بنانا ہوگا

اب دیکھیے تو صحیح میاں نواز شریف سے بڑھ کر بھلا اس ملک میں اور کون دائیں بازو یا مذہبی سیاست کا کھلاڑی ہوگا


جاوید قاضی January 26, 2014
[email protected]

ہم اپنا موازنہ بربریت کے دور کے ساتھ نہیں کرسکتے خواہ کتنے ہی پسماندہ کیوں نہ ہوں ، تاریخ میں جھانک کر دیکھ سکتے ہیں مگر اپنے حالات و زمانوں سے انکاری نہیں ہوسکتے۔ خیر آج جو ریاست کے اندر ریاستیں بنی ہیں وہ اس حقیقت کا ثمر ہے کہ ہم یہ سمجھ نہیں پائے آج کی ریاست اپنی ماہیت تبدیل کرچکی ہے۔ اقوام متحدہ میں آپ بیٹھتے ہیں، دنیا سے قرضہ آپ لیتے ہیں، دنیا سے تجارت آپ کرتے ہیں، انگریزی آپ پڑھاتے ہیں، ہر وہ چیز جو دنیا کرتی ہے آپ کرتے ہیں اور اگر آپ نہیں کرتے تو آپ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ آپ کے آئین کے لیے لازم ہے کہ وہ دنیا کے مہذب آئینوں کی عکاسی کرے۔ آپ کی کورٹس کو بھی ہندوستان، برطانیہ، امریکا، یورپی یونین کی کورٹس کے فیصلوں کا اثر لینا ہوتا ہے ان فیصلوں کو اپنے فیصلوں میں جذب کرنا پڑتا ہے۔ اور اگر آپ نہیں کرتے تو آپ پیچھے رہ جاتے ہیں۔

دن بہ دن یہ دنیا ایک موٹر وے کی مانند ہوتی جاتی ہے۔ جہاں اب کوئی بیل گاڑی نہیں چلائی جاسکتی۔ ہر گاڑی کو ہائی وے کے بنائے اصولوں کو ماننا ہوگا۔ میرے کہنے کا قطعاً یہ مقصد نہیں کہ دنیا انصاف سے بہری ہوگئی ہے۔ لیکن دنیا اب اتنی ظالم بھی نہیں رہی، نہ وہ کالونیل دور رہا، نہ سرد جنگ کا زمانہ، نہ نو آبادیاتی دور۔ انسان کی عظمت، ماضی کے مقابلے میں اب بڑھی ہے۔ اس کے باوجود بھی کہ اب بھی دنیا کے کچھ علاقوں میں حالات بہت ابتر ہیں۔ لیکن اس کو مثال بنا کے پیش نہیں کیا جاسکتا۔

ہم پسماندہ ریاست ہیں، اپنے ڈھانچے کے لحاظ سے، ایک ایسی دنیا میں جو بہت مہذب ہوچکی ہے۔ اس پسماندہ ریاست سے دنیا بہت پریشان ہے۔ یہاں پر آکے دنیا کے دہشت گرد پناہ لیتے ہیں اور پوری دنیا میں مسلح تحریک چلاتے ہیں۔ ہم نے دیکھا دنیا نے پھر ہماری سالمیت کی پرواہ بھی نہیں کی اور ان مخصوص ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جو ہماری وحدت کے اندر موجود تھے۔

یہ سال فیصلہ کن ہے کہ آیا آپ واقعی ریاست بننا چاہتے ہیں، اس معیار کی حد دنیا میں مروج ہے۔ تو پھر آپ کو اجازت ہوگی کہ آپ دنیا کی موٹر وے پر اپنا سفر جاری رکھیں اور اگر نہیں تو آپ کی ایٹمی تنصیبات پر قبضہ بھی ہوسکتا ہے، جو دنیا کبھی بھی ہونے نہیں دے گی۔

غور طلب بات یہ ہے کہ کل کی تاریخ اور آج کے حقائق میں جو فرق ہے، وہ یہ ہے کہ دنیا موجود ہے۔ کویت پر صدام حسین نے قبضہ کیا، دنیا بیچ میں آگئی۔ اس سے پہلے سرد جنگ کا زمانہ تھا، دو حلیف تھے، بہت سے آمر مزے میں تھے، کچھ امریکا سے وابستہ تھے اور کچھ سویت یونین کے ساتھ۔ پھر ایک طاقت، ایک معاشی نظام، اپنا سکہ دنیا میں اپنا لوہا منوا چکی۔ اس کی اخلاقی، انصاف و مہذب ہونے پر تنقید اپنی جگہ پر، مگر وہ ایک حقیقت بن کر ابھر چکا اور دنیا کی پولیس کا کردار سنبھال چکا۔ ٹھیک ہے چائنا، رشیا و ہندوستان اپنی ایک جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن گلوبل کمیونٹی کے فیصلے بہت جگہوں پر ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اسی طرح طالبان پر یہ ممالک بھی دنیا کی سوچ کے ساتھ چلتے ہیں۔

عسکریت پسندوں کے پاس شاید کوئی پروگرام نہیں مثال کے طور پر وہ کلاشنکوف جو سائنس کی ایجاد ہے استعمال کرتے ہیں مگر پولیو کے ٹیکوں کے خلاف ہیں اور وہ بھی زندگی بچانے کے لیے سائنس کی ایجاد ہے اور ایسی باتیں گنوائی جاسکتی ہیں جن سے یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ صرف انارکسٹ ہی ایسا سوچ سکتے ہیں اور اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔

مگر بالشویک ایسے نہ تھے۔ اس زمانے میں دنیا بھی ایسی نہیں تھی جو آج ہے۔ انھوں نے مسلح جدوجہد کی ۔منشویک حکومت کو ختم کیا اور روس کے دارالخلافہ پیٹرو گریڈ پر پھر ماسکو پر قبضہ کیا۔ پھر پورے ملک پر ، اس کے باوجود کے پورے ملک کا اس انقلاب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔

وہ سب اس لیے ہوا کہ پہلی جنگ عظیم میں سامراج آپس میں لڑ کر بہت کمزور ہوچکا تھا۔ اور لینن نے کہا کہ یہ صحیح وقت ہے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے۔ لیکن سماج کے اعتبار سے روس بہت پسماندہ تھا۔ اس انقلاب کو جذب کرنے کے لیے جس کے خدوخال کارل مارکس نے بیان کیے تھے۔ اس انقلاب کی اتنی تفصیل میں جانا اس موضوع کا نکتہ نہیں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ اس وقت دنیا موجود نہیں تھی۔ اور ان کے پاس ایک سائنسی نظریہ بھی تھا یہ الگ بات ہے کہ اسٹالن نے اس کی تشریح غلط کی اور وہ اس غلط تشریح کی وجہ سے کیپٹلزم کے سامنے شکست کھا بیٹھا۔

اس سے ہٹ کر طالبان افغانستان میں کیا چاہتے ہیں۔ یہاں عسکریت پسند پاکستان کی ریاست سے کیا چاہتے ہیں ۔ پاکستان کے شرفا و حکمراں منشویک کی طرح کمزور ہوچکے ہیں، ان کا ذاتی ایجنڈا بہت بڑا ہے اور ان کو عوام کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ اگر دنیا بیچ میں نہ ہو تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ عسکریت پسند پاکستان پر اس طرح قبضہ کرچکے ہوتے جس طرح بالشوک نے ماسکو پر کیا تھا۔پھر وہی ہوتا جو افغانستان کے ساتھ ہوا۔ یہ تو تھے وہ حقائق جس کے لحاظ سے یہاں زیر بحث لایا گیا۔ لیکن طالبان کی حقیقت کے اپنے جداگانہ خدوخال بھی ہیں۔ مثال کے طور پر اسلامی

تاریخ میں کہیں بھی مثال نہیں ملتی کہ عام نہتے شہریوں کو ، معصوم بچوں کے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے نشانہ بنایا گیا ہو۔ بچوں کے اسکولوں کو تباہ کیا گیا ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ہو، پولیو کے نہتے ورکروں کو مارا گیا ہو۔ اصولاً تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ ریاست کے مسلح محافظوں کی اندر عام شہری پر خوف و ہراس کی کیفیت طاری کردی ہے۔

ریاست اور ان میں ایک لحاظ سے فرق نہیں ہے مثال کے طور پر وہ بھی ملک میں اسلام لانا چاہتے ہیں اور ریاست بھی اسلامی ہے۔ شریعت آئین سے ٹکراؤ میں نہیں وغیرہ وغیرہ۔ کبھی بھی قانونی منطقی اعتبار سے، وہ اپنا سکہ لوگوں میں مقبول نہیں کرواس کے ہیں۔ لوگ سوائے ڈر کے باقی اپنی سوچ کے مطابق ان کو بالکل غلط سمجھتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ الیکشن کے ذریعے اقتدار حاصل نہیں کرسکتے۔ جتنے حال ہی میں عام شہریوں پر حملے ہوئے ہیں اتنے اور غیر مقبول ہوتے گئے ہیں اور اب لوگوں کو ڈرون کے حوالے سے کوئی بھی ان کے ساتھ ہمدردی نہیں رہی۔ کل فوج آپریشن کرے گی تو پوری قوم فوج کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ انھوں نے تو دو چار صحافی جو ان کے ہمدرد تھے ان کو بھی بدظن کردیا۔

لیکن ریاست کے لیے پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی ہوتی ہوئی بغاوت سے جو سبق حاصل کرنے کا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں مذہب اور ریاست کو الگ الگ کرنا ہوگا۔ یہ وہ بات ہے جس کو جسٹس منیر نے بڑے منطقی انداز میں پچاس کی دہائی میں پہلے فرقہ وارانہ فسادات کے تناظر میں اپنی پیش کی رپورٹ میں بیان کیا تھا کہ علما کے پاس کوئی بھی ٹھوس دلیل نہیں ہے۔

اکبر بادشاہ برصغیر کی تاریخ کا پہلا بادشاہ تھا جسے یہ باریکیاں سمجھ آئیں اور اقلیت رکھتے ہوئے ہندوستان پر مغل حکومت کر پائے ۔ اس لیے کہ انھوں نے ریاست کو مذہب سے الگ کردیا۔ مگر پھر یہ کام اورنگزیب نے ختم کیا اور اس طرح بغاوتوں کے انبار لگا دیے۔ ادھر سکھوں نے بغاوت کردی، ادھر میرٹھ میں بغاوت ہوئی۔ 1712 کو یہ انتقال کرگئے۔ دہلی کے پاس پیسہ بہت تھا مگر طاقت نہیں تھی۔ 1738 میں نادر شاہ درانی نے دہلی کی کمزوریت کو سونگھ لیا۔ محمد شاہ رنگیلا دہلی کے بادشاہ تھے۔ لڑنے کے لیے پانی پت پہنچے نادر شاہ کی اتنی بڑی فوج دیکھ کر ڈر گئے، امن کا پیغام دیا، دہلی کی چابی دی مگر نادر شاہ یہاں قبضہ کرنے نہیں بلکہ دہلی لوٹنے آیا تھا، اس نے وہ قتل و غارت گری کی جس کی دہلی کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں، اور چل دیے۔

اب دیکھیے تو صحیح میاں نواز شریف سے بڑھ کر بھلا اس ملک میں اور کون دائیں بازو یا مذہبی سیاست کا کھلاڑی ہوگا۔ آپ نے بھی کوشش کی طالبان کو راہ راست پر لایا جائے۔ مگر اب ضیا الحق کی باقیات خود آپس میں گتھم گتھا ہونے کو جا رہی ہے۔ اور اگر نہیں جائے گی تو دنیا بیچ میں آجائے گی اور اگر دنیا بیچ میں آئے گی تو نہ آئین سے ماورا عناصر کو کچھ ملے گا نہ جناح کا پاکستان بچے گا۔ دوستو! نادر شاہ نے دلی اس لیے لوٹا تھا کہ وہ زمانہ بربریت کا تھا، حملہ آوروں کا تھا، اور زمانے میں دنیا اس طرح google پر ایک ساتھ نہیں رہتی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں