تین روزہ صوفی محفلیں
صوفیانہ کلام کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ ہر دور میں انسانی استحصال جبر اور مفاد پرستی کو بے نقاب کرتا ہے
رفیع پیر تھیٹر ورکشاپ کی جانب سے بارہویں صوفی فیسٹیول کی تین روزہ محفلوں نے پاکستان کے عظیم صوفی فلسفیوں کی یاد تازہ کر دی۔ صوفی فیسٹیول فیضان پیرزادہ کا پسندیدہ ترین اور مخصوص فیسٹیول رہا ہے۔ اسی لیے اب اسے فیضان پیرزادہ کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ پاکستان اور بین الاقوامی صوفی گائیکوں سے جو تعلق عقیدت اور محبت فیضان پیرزادہ کی رہی ہے یہی وجہ ہے ان تمام صوفی گائیکوں کو بھی اس فیسٹیول سے اتنی ہی محبت اور عقیدت ہے۔ اس صوفی فیسٹیول میں پاکستان کے تمام صوبوں سے آنے والے اور بین الاقوامی صوفی فنکار بہت خوبصورتی اور اپنے مخصوص علاقائی انداز سے پرفورمنس اور کلام پیش کرتے ہیں۔ ان کی موسیقی کی دھنیں موسیقی کے آلات اور لباس و آرائش کا تمام تر انداز ان کے صوبے کے صدیوں پرانے روایتی فن اور ہنر کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک ہی ملک میں رہتے ہوئے اپنے ملک کے مختلف صوبوں کی خوبصورتی سے نا آشنائی کے باعث انھیں دیکھ کر بے ساختہ داد دینے کو دل چاہتا ہے۔ اور پھر صوفیانہ کلام کی ایسی شامیں جہاں ملک بھر کے عظیم صوفی شعراء کا کلام ملک کے نامور صوفی گائیکوں کی زبانی مسلسل تین دن سننے کا موقع مل رہا ہو۔
اس کا اندازہ ان محفلوں سے محظوظ ہونے والے ناظرین ہی لگا سکتے ہیں۔ صوفیانہ کلام کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ ہر دور میں انسانی استحصال جبر اور مفاد پرستی کو بے نقاب کرتا ہے اور انسانی محبت و امن کا پیغام دیتا ہے۔ برصغیر میں انھیں صوفی فلسفیوں کے کلام کے ذریعے لوگوں نے اسلام قبول کرنا شروع کیا تھا۔ صوفی فنکار صوفیانہ گائیکی ڈھول دھمال اور گردش کائنات کے تصور میں گردش کا سماں باندھ رہے تھے۔ اس مرتبہ ملک کے حالات کے باعث غیر ملکی صوفی گائیگ گروپ توشامل نہیں ہوسکے لیکن یہ صوفی فیسٹیول اپنی روایت کے مطابق پاکستان کے تمام صوبوں سے مقبول صوفی گائیکوں سے ناظرین کو محظوظ کرتا رہا۔ جن میں سندھ بھٹ شاہ سے آنے والے شاہ جو راگ فقیروں نے چار سو سال پرانے روایتی انداز میں شامل عبداللطیف بھٹائی کا کلام پیش کیا۔ خیبر پختونخواہ سے صوفی گائیک زر نگار نے پہاڑی لوک انداز میں صوفیانہ گائیکی سے ناظرین کو لطف اندوز کیا۔ چولستان سے آنے والے لوک صوفی گائیک کرشن لال بھیل کی بہت ہی Colourfulراجستھانی انداز میں پرفورمنس تھی۔ بلوچستان کے لوک صوفی فنکار اختر چنار ویری نے بھی بہت ہی خوبصور ت انداز میں اپنی علاقائی زبان میں پرفارم کیا۔ قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں گلگت اور ہنزہ سے آنے والے نوجوان خواتین اور مرد صوفی گروپ بزم لائیکا نے اپنے روایتی انداز میں مولانا رومی اور فارسی کے مشہور شعراء کا کلام پیش کیا۔
ان کا کہنا ہے نوجوانوں کے لیے صوفیانہ پیغام کو لے کر آگے بڑھنا بہت ضروری ہے۔ اس طرح نسل در نسل چلتا رہے گا۔فیضان صاحب ہر صوفی فیسٹیول کے لیے خود صوفیانہ طرز کا سیٹ ڈیزائن کیا کرتے تھے۔ اس سیٹ پر مختلف Lighting Effects بھی انھیں کے ڈیزائن کردہ تھے۔ یہ ایک خوبصورت منظر پیش کر رہے تھے جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکی ہوں۔ صوفیانہ کلام سن کر ایسا معلوم ہوتا تھا ہمارے صوفی شعراء نے یہ کلام کئی برس پہلے ہمارے موجودہ نظام اور حالات کے مطابق بیان کیا ہے۔ انسانیت کے ایسے عظیم راہنما ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور لوگوں کو استحصال کے نظام سے آزاد کروانے کے لیے ان کی راہنمائی کرتے رہتے ہیں۔ قابلِ غور بات یہ ہے ہمارے صوفی شعراء نے اپنا کلام اپنی علاقائی زبانوں میں تحریر کیا ہے جسے ہمارے عام لوگ با آسانی سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ ہمارے صوفی شعراء کے پیغام کو ہماری قوم آج تک سمجھ نہیں سکی۔
اگر یہ اس سے ذرا بھر بھی مستفید ہوئے ہوتے تو آج ہمارا ملک اس پسماندگی اور تباہی کا شکار نہ ہوتا۔ حالانکہ ہمارے زیادہ تر صوفی شعراء مولانا رومی شمس تبریز ابن عربی جیسے عظیم صوفی فلسفی شعراء سے متاثر تھے۔ جن کا تمام کلام فارسی زبان میں ہے۔ لیکن انھوں نے محنت اور لگن سے ان سے فیض حاصل کیا اور محبت کے اس پیغام کو لوگوں تک پہنچایا۔ ہماری معاشرتی روایتی سوچ اپنی کم علمی کے باعث جہاں اپنی سرزمین کے اس قیمتی ورثے سے بے بہرہ رہی اور اس سے لا تعلقی کے باعث اپنے آپ کو گنوا بیٹھی وہاں اس سوچ کے افراد نے ان ہستیوں کو اپنے ذاتی مفادات و مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ملک بھر میں صوفیوں کے مزاروں اور خانقاہوں پر ایسے لوگوں کا اپنی منتوں، مرادوں، نذر نیازوں اور ذاتی کامیابیوں کے لیے دعاؤں کا سلسلہ اور تانتا لگا رہتا ہے۔ ان میں سے کسی نے آج تک ان صوفی فلسفیوں کے فلسفے اور پیغام کو سمجھنے کے لیے ان پر ایک نظر بھی نہیں ڈالی ہو گی۔