دلیپ کمار نے فلمی تہذیب کا دامن وسیع کیا
عظیم اداکار کے فن و شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرتی خوبصورت تاثراتی تحریر
دلیپ کمار برصغیر کے کروڑوں شائقین فلم کو اداس کرگئے۔ صنوبر کا ایک بلند قامت درخت بلاشبہہ گر گیا، فن اداکاری کی ایک بڑی فروزاں مشعل بجھ گئی ہے۔
ٹریجڈی کنگ دلیپ کمار کی زندگی کا چراغ کیا بجھ گیا کہ برصغیر کی فلمی صنعت کا چمنستان اجڑ گیا۔ ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔ وہ بھارتی فلم انڈسٹری میں گنجینہ معنی تھے، ایکٹنگ کا نصاب اظہار کی جمالیات کا دبستان تھے، وہ تھیٹر سے انڈین فلمی صنعت کی طرف اونچی اڑان والے پنچھی تھے، جو آج اُڑ گئے۔
ان کے وجود سے بھارتی فلمی صنعت کے گلیمر اور اس کی چکاچوند اور ظاہری زیبائش کے پس پردہ جو فلم کلچر تھا اس کی دلیپ کمار نے زندگی بھر لاج رکھی، اور سچ تو یہ ہے کہ ماضی میں اداکاری، ڈائیلاگ ڈلیوری، اسکرپٹ اور کہانی کے اندر جو پیغام مضمر تھا، جو سادگی، پرکاری اور معصومیت تھی، آج ٹی وی ڈرامے نے اسے رسوا کیا ہے اس کی آبرو کو بچانے کے لیے اب دنیا کو کوئی دوسرا دلیپ کمار نہیں ملے گا۔ اس کی تخلیق کے لیے بھی خون جگر دینا پڑے گا۔
اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیش عشق
رکھی ہے آج لذت زخم جگر کہا
دلیپ کمار کی فلمی ہمہ گیریت بے مثل تھی، ان کی ابتدائی فلمیں نصابی معیار کا درجہ رکھتی تھیں، تھے وہ ناکام عاشق، لیکن ان کی المیہ اداکاری اپنے فلمی عہد سے بغاوت پر مبنی تھی، وہ ایسے عاشق نہ تھے جو بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے کا عنوان بنے ہوں ، دلیپ کی اداکاری نے ادب و فمی صنعت کے مابین نیا رشتہ استوار کیا، فلم کلچر کی نئی بنیاد ڈالنے کی سربراہی میں اپنے حصہ ڈالا، دادا صاحب پھالکے دلیپ کے عہد اور کنٹریبیوشن کو خوب سمجھے، ان کی روح شاد رہے گی، المیہ اور ٹریجڈی کرداروں نے ایک طرز فغاں ایجاد کی جو چمن والوں نے مل کر لوٹ لی۔
دلیپ کمار کی شناخت ان المیہ کرداروں تک محدود نہ تھی، وہ ایک تہذیب گر اور ورسٹائل اداکار تھے جن سے فلمی شائقین نے بطور فیشن نئے معنی تراشے، ان کے بالوں کی لٹ ہی دلیپ ''کٹ'' ان کی منفرد شناخت نہیں بنی بلکہ لہجے کی تہذیبی نفاست اس کی اداکارانہ شناخت سے جُڑی رہی، وہ ڈائیلاگ کے بادشاہ کہلائے، دوسری چیز انڈین کلچر کی تہذیبی وسعت اور آفاقیت تھی، جس نے دلیپ کمار کی شخصیت میں ان کی اداکاری یا فن کی مکمل تجسیم نظر آتی ہے، جن زمانے میں لیپ اداکار بنے، وہ تھیٹر کا ارتقائی دور تھا، آغا حشر انڈین شیکسپیئر تھے، ان کے اداکار اپنی پاٹ دار آواز سے سماں باندھتے تھے۔
وہ عہد '' توفیق کس حال میں ہے شیر لوہے کے جال میں ہے'' کا نصابی روایات سے مربوط تھیرٹیکل رسموں کا تھا، اداکار سلطان راہی بنے ہوئے تھے، دلیپ کمار انڈین فلم انڈسٹری میں پشاور سے آئے ہوئے موسم بہار کے خوش گوار جھونکے کی طرح فلمی صنعت تک پہنچے، اپنی یادداشت میں معروف شاعر ظہیر کاشمیری نے ایک جگہ لکھا تھا کہ میں بے روزگاری سے تنگ آکر کوچہ ادب سے بولی وڈ آیا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی فوجی لینن گراڈ کا جنگی محاذ چھوڑ کر ہالی وڈ میں گھٹیا عشق فرمانے آیا ہے، لیکن اس اندازنظر کے بعد بولی وڈ میں انقلابی شعرا اور ترقی پسند اسکرپٹ رائٹرز، اور کہانی نویسوں نے انڈیا کو اداکاری اور فلم کرافٹ کی دولت اور تخلیق کے موتیوں سے فلم سازوں کے دامن بھردیے۔
ان ہی ڈائمنڈز میں ایک دلیپ کمار بھی تھا جسے قدرت نے ہندوستانی فمی صنعت کی ترقی، انفرادیت اور شناخت کے لیے چنا، یوں دلیپ کمار کی شخصیت ایکٹنگ کے اسٹیج پر صرف ایک ایکٹر کی نہ رہی، اس لیے آج دنیا جس یوسف خان کو جانتی ہے وہ اداکاروں کے جھرمٹ میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ ان کی شخصیت مرتے دم تک غیرمتنازعہ رہی، وہ اداکاری کو ایک ذمہ داری سمجھتے ہوئے نبھاتے رہے، ان کی شناخت ان کے غیراداکارانہ سماجی کردار سے بھی جانچی گئی۔
دنیا کے بہت سے اداکار اپنی عادات، جارحیت اور ناراضی کے موڈ کی وجہ سے اینگری ینگ مین مانے گئے، مارلن برانڈو کی رعونت مشہور تھیں، جیمز ڈین کو لز ٹیلر پسند کرتی تھیں، مگر بہت ضدی اور جھگڑالو تھے وہ فلموں کے سیٹ پر اپنی کار دوڑاتے ہوئے آتے، ہدایت کار سٹپٹا کر رہ جاتے، منٹگمری کلفٹ بہت خوب صورت اداکار تھے، فلم ججمنٹ ایٹ نیورمبرگ میں صرف دس منٹ کے سین میں دل موہ دینے والی اداکاری پر آسکر کے لیے ان کی نام زدگی ہوئی، پھر میکسی میلین شیل نے بازی جیت لی، دلیپ نے خود کو آسکر ایوارڈ کے لیے اداکاری کو منسلک نہیں کیا، وہ فن سے کمٹڈ تھے، صلہ و ستائش کی تمنا کے بغیر کام کرتے رہے۔ کردار کی صلابت، شفافیت اور میرٹ کی سحرانگیزی تھی جو دلیپ کے فن کو ہر قسم کے معاملات میں منفرد کرگئی۔
چاہے وہ انصاف و سماجی عدل کا شعبہ ہو یا فرقہ وارانہ سماج میں سیاسی آلودگیوں سے پاک شخصی کردار کی بے داغی کا معاملہ دلیپ نے فلم انڈسٹری کے گلیمر میں بھی خود کو اداکاروں کے طبقاتی تشخص میں قبولیت کے انسانی مقام سے گرنے نہیں دیا، لہذا فلمی ہیروئنوں سے معاشقوں میں بھی وہ کسی بے اصولی کے مرتکب نہ ہوئے، حسین ساحرائیں ان پر جان چھڑکتی تھیں، لیکن وہ اداکاراؤں کے وقار کا خیال رکھتے تھے، یہی پیغام رواں ٹی وی ڈراما '' فتور'' میں حمزہ کے رول میں اداکار نے بہت بلیغ مکالمہ کہا کہ میں دلنشین کی عزت کی ہے، یہ پیغام پاکستانی ڈرامے میں زیادہ آنا چاہیے۔
دلیپ کی کرداروں کی رقابت انڈین فلم انڈسٹری کا بڑا سبجیکٹ ہے، مگر آج اس کی تنگ نظرانہ تشریح ہوری ہے۔ دلیپ کے دور کی انڈین عورت اور آج کے ڈرامے کی عورت کے سماجی رول میں مشرقی اقدار پر غیرضروری بحث نے اسکرین کو ذہنی دباؤ کا باعث بنا دیا ہے۔ دلیپ نے اپنی تقاریر میں عورت کی شخصیت پر مثبت اظہارخیال کو پیش کیا ہے۔
وہ متنازع باتوں سے بچتے تھے، یہ وسیع المشربی ان کے مزاج اور کردار کا حصہ ہے۔ وہ شاعرانہ لفظوں میں ''قتیل تیغ جفا تھے'' وہ کسی کے دام سے نکل کر بھی اپنے مقام سے کبھی نیچے نہیں گرے، ان کی غم و اندوہ سے لبریز اداکاری کا سارا حسن ان کی ذات کے اسی غم کدے سے عبارت ہے جو درحقیقت انڈین فلم انڈسٹری تھی۔ جب وہ ''شیرف کے عہدے پر فائز ہوئے تو یہ اعزاز بھی ایک اداکار کو اس کی ذاتی زندگی کی شائستگی، وقار اور انسانی رویے کی بدولت انہیں عطا ہوا تھا، ورنہ فٹ بالر میرا ڈونا کتنا بڑا کھلاڑی تھا صرف پیلے اس کے مقال ٹھہر سکا، لیکن میرا ڈونا نے خود کو اخلاقاً اندر سے بلاسٹ کردیا۔
دلیپ کی الم ناک اداکاری نے انہیں ان کرداروں کے لیے موزونیت کا شاہ کار بنا دیا جس میں انسانی مسرتیں اسکرین پر دلیپ کے قہقہوں، شادمانیوں، دکھ سکھ، عروج آدم کی کہانیوں کے ہوش ربا ودل ربا کرداروں سے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔'' بڑے اداکاروں کا یہی شیوہ ہوتا ہے کہ ان کا فن سماجی اقدار اور انسانوں کے روزمرہ کے معاملات سے الگ نہیں ہوتا، ان کا فن سماج کی ترجمانی میں بخل سے کام نہیں لیتا، اور دلیپ کمار کی فیاضی اور مروت و انسان دوستی کا کمال ہے کہ نفرت بھری اس دنیا میں پیار و محبت کی علامت بنے رہے، ان کی ذات سے غریب و امیر فکری اور فنی اعتبار سے آسودگی اور ثقافتی طمانیت پاتے رہے، ان کی مسکراہٹ اور عاجزی ضرب المثل تھی۔ ان کی پیشہ ورانہ زندگی ایک آئیڈیل فن کار کی کا بہترین گلدستہ ہے۔
ایک فلمی نقاد کا کہنا تھا کہ دلیپ کمار کے فن کا ادارہ جاتی مسلک نے انڈین فلم انڈسٹری کو تخلیقی اعتبار سے بلند کیا، جب وہ پاکستان کے دورے پر آئے تو ان سے کئی یادیں امڈ کر آئیں، ملک کے بہترین فلمی نقاد اور سینئر صحافی ان سے کراچی پی ٹی وی سینٹر پر انٹرویو کے لیے بے قرار تھے، ان سے گفتگو پاکستان کے لیے ایک بڑی خبر تھی لیکن، دلیپ نے بوجوہ انٹرویو سے گریز کیا اور انہوں نے کرکٹ کمنٹیٹر منیر حسین سے گفتگو کی خواہش ظاہر کی او منیر حسین نے ایک گھنٹے کا انٹرویو لیا۔ منیر حسین نے راقم کو بتایا کہ دلیپ کمار کی گفتگو بے حد فصیح و بلیغ تھی، وہ فن اداکاری پر ایک باخبر اور ورلڈ ویو رکھنے والے دانش ور نظر آئے ، بڑے اداکار نہیں، انہوں نے فلمی مسائل اور فلم کے ماضی و حال کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔
دلیپ کمار نے اپنے حسن ادائیگی اور فن یا اسٹائل پر کبھی تفاخرانہ بیان نہیں دیا۔ وہ عجز بیاں میں بھی دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے اور یہی اصول ان کا فلموں کے مکالموں یا ڈائیلاگ ڈلیوری میں بھی جھلکتا تھا۔ بعض ساؤنڈ ریکارڈسٹس کا کہنا تھا کہ دلیپ کی آواز مائک بند ہونے پر سامنے والا کیریکٹر بھی سن نہیں سکتا تھا، لیکن ان کی voice throw شان دار تھی، آواز دل نشیں تھی، ان سے یہ روایت بھی چلی کہ ان کی ڈائیلاگ ڈلیوری ہالی وڈ کے مایہ ناز اداکار مارلن برانڈو اور گریگوری پیک سے ملتی تھی، دنیا میں کئی اداکار یا ٹی وی اسٹار اپنے مکالموں کے اسلوب سے جانے جاتے ہیں۔ دلیپ کے مقابل پرتھوی راج ایک اہم نام ہے، ''مغل اعظم'' میں دلیپ اور پرتھوی راج کے تقابل سے ایک عہد کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
امیتابھ کا اپنا اسٹائل ہے، اسی طرح فلم ''ہم لوگ'' میں بلراج ساہنی کا یہ مکالمہ اہل پاکستان کبھی بھلا نہیں سکتے، جس دیے میں تیل نہ ہو اسے جلنے کا کیا ادھیکار، سر ایلک گینس برطانیہ کے گریٹ ایکٹرز میں شمار ہوتے ہیں، ان کی اداکاری احساسات کی سرحدوں کو پھلانگ لیتی ہے، فال آف دی رومن ایمپائر میں ان کا متحارب رومن ریاستوں سے خطاب رومن فلسفی حکم ران مارکس اوریلیئس کے عہد کو سامنے لاتا ہے، اسی طرح سر لارنس اولیویئر، پیٹر اوٹول، رچرڈ برٹن جیمس میسن و دیگر اداکاروں یہ خوبی منفرد ہے، طلعت حسین کی ڈائیلاگ ڈلیوری میں حُسن ہے، دلیپ کا فلم دیو داس میں مشہور مکالمہ تھا کہ ''کون کم بخت برداشت کرنے کو پیتا ہے، میں تو پیتا ہوں تاکہ سانس لے سکوں۔''
طرزفغاں ایجاد کرنے کا جہاں تک تعلق ہے تو ہمارے ضیا محی الدین کیا کسی سے کم ہیں، کسی فلم کا جائزہ لیں تو 80 کے اوائل میں پی ٹی وی سے ایک سیریز چلی تھی جس کا نام ''ہاؤ دی ویسٹ واز ون'' تھا یہ سیاہ فاموں کو روند کر امریکا آباد کرنے کے موضوع پر بنائی گئی سیریز تھی، اس کے بعد روٹس نامی سیریز آئی جس میں سیاہ فاموں نے اداکاری کے وہ جوہر دکھائے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، پھر آسٹریلیا سے ایک سیریز آئی وہ بھی اسکرین پلے اور کیمرے کی جادوگری سے مرصع تھی، اس سیریز کا نام تھا '' آل دی ریورز رن۔''
آج جب پاک وہند کے کروڑوں اور ایشیا، مشرق وسطیٰ اور دنیا کے فلمی شائقین دلیپ کمار کے انتقال پر دل گرفتہ ہیں ، اس لیجنڈری اداکار کے غم میں امیتابھ بچن اور ہزاروں ہیروئنوں نے دلیپ کے مشفقانہ کردار، اخلاق ، وضع داری اور شرافت کے حوالے دیے ہیں، ان کے تاثرات ایک عہد کی دستک سے عبارت رکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ بڑا اداکار ایک بڑی تہذیبی وسعتوں کا حامل ہوتا ہے، وہ اپنے کردار میں موجود عہد کی نمائندگی اپنے فن سے ممکن بناتا ہے، اب اس بات کا فیصلہ ہمارے فلم اور ٹی وی چینلز کے اداکار اور اداکارائیں کریں گی کہ انہیں کون سا طرزفغاں ایجاد کرنا ہے؟
دلیپ کمار نے تو اپنا کردار ادا کر دیا، یہ کام وہ ہے جس کی طرف معروف اداکارہ ثانیہ سعید نے اشارہ کیا ہے کہ ٹی وی رائٹرز کو بدل دو، اسکرپٹ میں روح ڈالنے کی ضرورت ہے، یکسانیت اور زلف ورخسار کی جنت کی تلاش میں سرگرداں ، بے منزل ڈرامے اور پاکستانی فلمیں اپنے اصل کلچر کی عکاسی کریں۔ پاکستانی فلم اور ڈرامے کو نشاۃ ثانیہ کا انتظار ہے۔
ٹریجڈی کنگ دلیپ کمار کی زندگی کا چراغ کیا بجھ گیا کہ برصغیر کی فلمی صنعت کا چمنستان اجڑ گیا۔ ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔ وہ بھارتی فلم انڈسٹری میں گنجینہ معنی تھے، ایکٹنگ کا نصاب اظہار کی جمالیات کا دبستان تھے، وہ تھیٹر سے انڈین فلمی صنعت کی طرف اونچی اڑان والے پنچھی تھے، جو آج اُڑ گئے۔
ان کے وجود سے بھارتی فلمی صنعت کے گلیمر اور اس کی چکاچوند اور ظاہری زیبائش کے پس پردہ جو فلم کلچر تھا اس کی دلیپ کمار نے زندگی بھر لاج رکھی، اور سچ تو یہ ہے کہ ماضی میں اداکاری، ڈائیلاگ ڈلیوری، اسکرپٹ اور کہانی کے اندر جو پیغام مضمر تھا، جو سادگی، پرکاری اور معصومیت تھی، آج ٹی وی ڈرامے نے اسے رسوا کیا ہے اس کی آبرو کو بچانے کے لیے اب دنیا کو کوئی دوسرا دلیپ کمار نہیں ملے گا۔ اس کی تخلیق کے لیے بھی خون جگر دینا پڑے گا۔
اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیش عشق
رکھی ہے آج لذت زخم جگر کہا
دلیپ کمار کی فلمی ہمہ گیریت بے مثل تھی، ان کی ابتدائی فلمیں نصابی معیار کا درجہ رکھتی تھیں، تھے وہ ناکام عاشق، لیکن ان کی المیہ اداکاری اپنے فلمی عہد سے بغاوت پر مبنی تھی، وہ ایسے عاشق نہ تھے جو بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے کا عنوان بنے ہوں ، دلیپ کی اداکاری نے ادب و فمی صنعت کے مابین نیا رشتہ استوار کیا، فلم کلچر کی نئی بنیاد ڈالنے کی سربراہی میں اپنے حصہ ڈالا، دادا صاحب پھالکے دلیپ کے عہد اور کنٹریبیوشن کو خوب سمجھے، ان کی روح شاد رہے گی، المیہ اور ٹریجڈی کرداروں نے ایک طرز فغاں ایجاد کی جو چمن والوں نے مل کر لوٹ لی۔
دلیپ کمار کی شناخت ان المیہ کرداروں تک محدود نہ تھی، وہ ایک تہذیب گر اور ورسٹائل اداکار تھے جن سے فلمی شائقین نے بطور فیشن نئے معنی تراشے، ان کے بالوں کی لٹ ہی دلیپ ''کٹ'' ان کی منفرد شناخت نہیں بنی بلکہ لہجے کی تہذیبی نفاست اس کی اداکارانہ شناخت سے جُڑی رہی، وہ ڈائیلاگ کے بادشاہ کہلائے، دوسری چیز انڈین کلچر کی تہذیبی وسعت اور آفاقیت تھی، جس نے دلیپ کمار کی شخصیت میں ان کی اداکاری یا فن کی مکمل تجسیم نظر آتی ہے، جن زمانے میں لیپ اداکار بنے، وہ تھیٹر کا ارتقائی دور تھا، آغا حشر انڈین شیکسپیئر تھے، ان کے اداکار اپنی پاٹ دار آواز سے سماں باندھتے تھے۔
وہ عہد '' توفیق کس حال میں ہے شیر لوہے کے جال میں ہے'' کا نصابی روایات سے مربوط تھیرٹیکل رسموں کا تھا، اداکار سلطان راہی بنے ہوئے تھے، دلیپ کمار انڈین فلم انڈسٹری میں پشاور سے آئے ہوئے موسم بہار کے خوش گوار جھونکے کی طرح فلمی صنعت تک پہنچے، اپنی یادداشت میں معروف شاعر ظہیر کاشمیری نے ایک جگہ لکھا تھا کہ میں بے روزگاری سے تنگ آکر کوچہ ادب سے بولی وڈ آیا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی فوجی لینن گراڈ کا جنگی محاذ چھوڑ کر ہالی وڈ میں گھٹیا عشق فرمانے آیا ہے، لیکن اس اندازنظر کے بعد بولی وڈ میں انقلابی شعرا اور ترقی پسند اسکرپٹ رائٹرز، اور کہانی نویسوں نے انڈیا کو اداکاری اور فلم کرافٹ کی دولت اور تخلیق کے موتیوں سے فلم سازوں کے دامن بھردیے۔
ان ہی ڈائمنڈز میں ایک دلیپ کمار بھی تھا جسے قدرت نے ہندوستانی فمی صنعت کی ترقی، انفرادیت اور شناخت کے لیے چنا، یوں دلیپ کمار کی شخصیت ایکٹنگ کے اسٹیج پر صرف ایک ایکٹر کی نہ رہی، اس لیے آج دنیا جس یوسف خان کو جانتی ہے وہ اداکاروں کے جھرمٹ میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ ان کی شخصیت مرتے دم تک غیرمتنازعہ رہی، وہ اداکاری کو ایک ذمہ داری سمجھتے ہوئے نبھاتے رہے، ان کی شناخت ان کے غیراداکارانہ سماجی کردار سے بھی جانچی گئی۔
دنیا کے بہت سے اداکار اپنی عادات، جارحیت اور ناراضی کے موڈ کی وجہ سے اینگری ینگ مین مانے گئے، مارلن برانڈو کی رعونت مشہور تھیں، جیمز ڈین کو لز ٹیلر پسند کرتی تھیں، مگر بہت ضدی اور جھگڑالو تھے وہ فلموں کے سیٹ پر اپنی کار دوڑاتے ہوئے آتے، ہدایت کار سٹپٹا کر رہ جاتے، منٹگمری کلفٹ بہت خوب صورت اداکار تھے، فلم ججمنٹ ایٹ نیورمبرگ میں صرف دس منٹ کے سین میں دل موہ دینے والی اداکاری پر آسکر کے لیے ان کی نام زدگی ہوئی، پھر میکسی میلین شیل نے بازی جیت لی، دلیپ نے خود کو آسکر ایوارڈ کے لیے اداکاری کو منسلک نہیں کیا، وہ فن سے کمٹڈ تھے، صلہ و ستائش کی تمنا کے بغیر کام کرتے رہے۔ کردار کی صلابت، شفافیت اور میرٹ کی سحرانگیزی تھی جو دلیپ کے فن کو ہر قسم کے معاملات میں منفرد کرگئی۔
چاہے وہ انصاف و سماجی عدل کا شعبہ ہو یا فرقہ وارانہ سماج میں سیاسی آلودگیوں سے پاک شخصی کردار کی بے داغی کا معاملہ دلیپ نے فلم انڈسٹری کے گلیمر میں بھی خود کو اداکاروں کے طبقاتی تشخص میں قبولیت کے انسانی مقام سے گرنے نہیں دیا، لہذا فلمی ہیروئنوں سے معاشقوں میں بھی وہ کسی بے اصولی کے مرتکب نہ ہوئے، حسین ساحرائیں ان پر جان چھڑکتی تھیں، لیکن وہ اداکاراؤں کے وقار کا خیال رکھتے تھے، یہی پیغام رواں ٹی وی ڈراما '' فتور'' میں حمزہ کے رول میں اداکار نے بہت بلیغ مکالمہ کہا کہ میں دلنشین کی عزت کی ہے، یہ پیغام پاکستانی ڈرامے میں زیادہ آنا چاہیے۔
دلیپ کی کرداروں کی رقابت انڈین فلم انڈسٹری کا بڑا سبجیکٹ ہے، مگر آج اس کی تنگ نظرانہ تشریح ہوری ہے۔ دلیپ کے دور کی انڈین عورت اور آج کے ڈرامے کی عورت کے سماجی رول میں مشرقی اقدار پر غیرضروری بحث نے اسکرین کو ذہنی دباؤ کا باعث بنا دیا ہے۔ دلیپ نے اپنی تقاریر میں عورت کی شخصیت پر مثبت اظہارخیال کو پیش کیا ہے۔
وہ متنازع باتوں سے بچتے تھے، یہ وسیع المشربی ان کے مزاج اور کردار کا حصہ ہے۔ وہ شاعرانہ لفظوں میں ''قتیل تیغ جفا تھے'' وہ کسی کے دام سے نکل کر بھی اپنے مقام سے کبھی نیچے نہیں گرے، ان کی غم و اندوہ سے لبریز اداکاری کا سارا حسن ان کی ذات کے اسی غم کدے سے عبارت ہے جو درحقیقت انڈین فلم انڈسٹری تھی۔ جب وہ ''شیرف کے عہدے پر فائز ہوئے تو یہ اعزاز بھی ایک اداکار کو اس کی ذاتی زندگی کی شائستگی، وقار اور انسانی رویے کی بدولت انہیں عطا ہوا تھا، ورنہ فٹ بالر میرا ڈونا کتنا بڑا کھلاڑی تھا صرف پیلے اس کے مقال ٹھہر سکا، لیکن میرا ڈونا نے خود کو اخلاقاً اندر سے بلاسٹ کردیا۔
دلیپ کی الم ناک اداکاری نے انہیں ان کرداروں کے لیے موزونیت کا شاہ کار بنا دیا جس میں انسانی مسرتیں اسکرین پر دلیپ کے قہقہوں، شادمانیوں، دکھ سکھ، عروج آدم کی کہانیوں کے ہوش ربا ودل ربا کرداروں سے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔'' بڑے اداکاروں کا یہی شیوہ ہوتا ہے کہ ان کا فن سماجی اقدار اور انسانوں کے روزمرہ کے معاملات سے الگ نہیں ہوتا، ان کا فن سماج کی ترجمانی میں بخل سے کام نہیں لیتا، اور دلیپ کمار کی فیاضی اور مروت و انسان دوستی کا کمال ہے کہ نفرت بھری اس دنیا میں پیار و محبت کی علامت بنے رہے، ان کی ذات سے غریب و امیر فکری اور فنی اعتبار سے آسودگی اور ثقافتی طمانیت پاتے رہے، ان کی مسکراہٹ اور عاجزی ضرب المثل تھی۔ ان کی پیشہ ورانہ زندگی ایک آئیڈیل فن کار کی کا بہترین گلدستہ ہے۔
ایک فلمی نقاد کا کہنا تھا کہ دلیپ کمار کے فن کا ادارہ جاتی مسلک نے انڈین فلم انڈسٹری کو تخلیقی اعتبار سے بلند کیا، جب وہ پاکستان کے دورے پر آئے تو ان سے کئی یادیں امڈ کر آئیں، ملک کے بہترین فلمی نقاد اور سینئر صحافی ان سے کراچی پی ٹی وی سینٹر پر انٹرویو کے لیے بے قرار تھے، ان سے گفتگو پاکستان کے لیے ایک بڑی خبر تھی لیکن، دلیپ نے بوجوہ انٹرویو سے گریز کیا اور انہوں نے کرکٹ کمنٹیٹر منیر حسین سے گفتگو کی خواہش ظاہر کی او منیر حسین نے ایک گھنٹے کا انٹرویو لیا۔ منیر حسین نے راقم کو بتایا کہ دلیپ کمار کی گفتگو بے حد فصیح و بلیغ تھی، وہ فن اداکاری پر ایک باخبر اور ورلڈ ویو رکھنے والے دانش ور نظر آئے ، بڑے اداکار نہیں، انہوں نے فلمی مسائل اور فلم کے ماضی و حال کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔
دلیپ کمار نے اپنے حسن ادائیگی اور فن یا اسٹائل پر کبھی تفاخرانہ بیان نہیں دیا۔ وہ عجز بیاں میں بھی دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے اور یہی اصول ان کا فلموں کے مکالموں یا ڈائیلاگ ڈلیوری میں بھی جھلکتا تھا۔ بعض ساؤنڈ ریکارڈسٹس کا کہنا تھا کہ دلیپ کی آواز مائک بند ہونے پر سامنے والا کیریکٹر بھی سن نہیں سکتا تھا، لیکن ان کی voice throw شان دار تھی، آواز دل نشیں تھی، ان سے یہ روایت بھی چلی کہ ان کی ڈائیلاگ ڈلیوری ہالی وڈ کے مایہ ناز اداکار مارلن برانڈو اور گریگوری پیک سے ملتی تھی، دنیا میں کئی اداکار یا ٹی وی اسٹار اپنے مکالموں کے اسلوب سے جانے جاتے ہیں۔ دلیپ کے مقابل پرتھوی راج ایک اہم نام ہے، ''مغل اعظم'' میں دلیپ اور پرتھوی راج کے تقابل سے ایک عہد کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
امیتابھ کا اپنا اسٹائل ہے، اسی طرح فلم ''ہم لوگ'' میں بلراج ساہنی کا یہ مکالمہ اہل پاکستان کبھی بھلا نہیں سکتے، جس دیے میں تیل نہ ہو اسے جلنے کا کیا ادھیکار، سر ایلک گینس برطانیہ کے گریٹ ایکٹرز میں شمار ہوتے ہیں، ان کی اداکاری احساسات کی سرحدوں کو پھلانگ لیتی ہے، فال آف دی رومن ایمپائر میں ان کا متحارب رومن ریاستوں سے خطاب رومن فلسفی حکم ران مارکس اوریلیئس کے عہد کو سامنے لاتا ہے، اسی طرح سر لارنس اولیویئر، پیٹر اوٹول، رچرڈ برٹن جیمس میسن و دیگر اداکاروں یہ خوبی منفرد ہے، طلعت حسین کی ڈائیلاگ ڈلیوری میں حُسن ہے، دلیپ کا فلم دیو داس میں مشہور مکالمہ تھا کہ ''کون کم بخت برداشت کرنے کو پیتا ہے، میں تو پیتا ہوں تاکہ سانس لے سکوں۔''
طرزفغاں ایجاد کرنے کا جہاں تک تعلق ہے تو ہمارے ضیا محی الدین کیا کسی سے کم ہیں، کسی فلم کا جائزہ لیں تو 80 کے اوائل میں پی ٹی وی سے ایک سیریز چلی تھی جس کا نام ''ہاؤ دی ویسٹ واز ون'' تھا یہ سیاہ فاموں کو روند کر امریکا آباد کرنے کے موضوع پر بنائی گئی سیریز تھی، اس کے بعد روٹس نامی سیریز آئی جس میں سیاہ فاموں نے اداکاری کے وہ جوہر دکھائے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، پھر آسٹریلیا سے ایک سیریز آئی وہ بھی اسکرین پلے اور کیمرے کی جادوگری سے مرصع تھی، اس سیریز کا نام تھا '' آل دی ریورز رن۔''
آج جب پاک وہند کے کروڑوں اور ایشیا، مشرق وسطیٰ اور دنیا کے فلمی شائقین دلیپ کمار کے انتقال پر دل گرفتہ ہیں ، اس لیجنڈری اداکار کے غم میں امیتابھ بچن اور ہزاروں ہیروئنوں نے دلیپ کے مشفقانہ کردار، اخلاق ، وضع داری اور شرافت کے حوالے دیے ہیں، ان کے تاثرات ایک عہد کی دستک سے عبارت رکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ بڑا اداکار ایک بڑی تہذیبی وسعتوں کا حامل ہوتا ہے، وہ اپنے کردار میں موجود عہد کی نمائندگی اپنے فن سے ممکن بناتا ہے، اب اس بات کا فیصلہ ہمارے فلم اور ٹی وی چینلز کے اداکار اور اداکارائیں کریں گی کہ انہیں کون سا طرزفغاں ایجاد کرنا ہے؟
دلیپ کمار نے تو اپنا کردار ادا کر دیا، یہ کام وہ ہے جس کی طرف معروف اداکارہ ثانیہ سعید نے اشارہ کیا ہے کہ ٹی وی رائٹرز کو بدل دو، اسکرپٹ میں روح ڈالنے کی ضرورت ہے، یکسانیت اور زلف ورخسار کی جنت کی تلاش میں سرگرداں ، بے منزل ڈرامے اور پاکستانی فلمیں اپنے اصل کلچر کی عکاسی کریں۔ پاکستانی فلم اور ڈرامے کو نشاۃ ثانیہ کا انتظار ہے۔