کچھ کرگزرنا ہو تو عمر رکاوٹ نہیں
بدقسمتی لے کر پیدا ہونے والے شخص کی روداد جس نے مثبت طرز عمل سے شاندار مثال قائم کی۔
ISLAMABAD:
کیا آپ نے کبھی سوچا کے اگر آپ اپنی زندگی کا آدھے سے زیادہ حصہ محرومیوں، تکلیفوں اور آزمائشوں میں گزار دیں تو آپ کیسے جیئیں گے؟ کیا آپ عام انسانوں کی طرح جی پائیں گے؟ کیا آپ زندگی کے حوالے سے مثبت رویہ رکھ پائیں گے؟ آپ مایوسی کے بجائے امید کا دامن تھام سکیں گے؟
شاید اکثریت کا جواب اس میں مثبت نہ ہو ، اور اس کی دلیل یہ بھی ہو کہ جب زندگی نے انھیں کچھ بھی مثبت نہیں دیا اور دنیا کا منفی چہرہ ہی دیکھا ہے تو بھلا کیسے بدلے میں کچھ اچھا کرنے کی سوچیں۔
شاید بہت سے لوگ اس دلیل سے متفق بھی ہوں مگر ضروری نہیں کہ آپ ویسا ہی کریں جیسا کسی نے آپ کے ساتھ کیا ہو۔ زندگی بعض اوقات آپ کو کچھ لے کہ آزماتی ہے اور بعض اوقات کچھ دے کر۔ یہ انسان کے اوپر منحصر ہوتا ہے کہ اس نے کیسے اپنا کردار نبھانا ہے،یہ تو آپ نے بھی سن رکھا ہوگا کہ جس کہ پاس جو ہوتا ہے وہ وہی کچھ دیتا ہے۔
زندگی کہ منفی رویوں سے انسان بہت کچھ سیکھتا بھی ہے جیسے کہ وہی منفی رویہ جس نے اسے تکلیف دی وہ کسی اور کہ ساتھ نہ اختیار کرے۔ ایسی سوچ عموماً بہت کم لوگوں کی ہوتی ہے مگر ایسے ہی لوگ زندگی کا مختلف اور خوب صورت رخ پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
آج ہم آپ کو ایک ایسے ہی مثبت طرزِ عمل اپنا کر اپنی منفرد پہچان قائم کرنے والے باہمت شخص سے ملوانے جا رہے ہیں جس نے صعوبتوں بھری زندگی گزارنے کے باوجود ہار نہیں مانی اور دنیا کو بدلے میں ایک بہتر عمل کر کے دکھایا۔بحر اوقیانوس سے متصل گلا پا گوس جزیرے جہاں دنیا کہ منفرد اور ناپید جانوروں کو آج بھی دیکھنے کا اہم ترین مقام سمجھا جاتا ہے ، می گیچو نے وہاں 1949 میں ایکواڈور کے ایک علاقہ میں آنکھ کھولی۔
کچھ لوگوں کی زندگی میں مشکلات کے گہرے بادل ہر موڑ پہ چھائے رہتے ہیں اور می گیچو بھی ان میں سے ایک ہی تھے۔ جب وہ صرف تین دن کے تھے تو ایک زلزے نے می گیچو سے ان کی ماں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھین لیا۔ اور یہاں سے ان کی زندگی کی مصیبتوں کا اک نہ ختم ہونے والا سفر شروع ہوا۔
می گیچو کہ والد ایک غریب انسان تھے اور جس کی وجہ سے می گیچو اپنی عمر کے دوسرے بچوں کی طرح سکول نہیں جا سکے۔ایک روز ایک امیر آدمی ان کی والد سے ملا اور کہا کہ وہ گلا پا گوس جزائر پہ می گیچو کو اپنے ساتھ لے جا کر تعلیم دلوائے گا۔ باپ نے بیٹے کے اچھے مستقبل کا سوچ کر یہ جانے بنا کہ وہ جگہ می گیچوکی زندگی میں کس قدر مشکلات لا سکتی ہے اس شخص کہ ہمراہ بھیج دیا مگر بدقسمتی سے وہ می گیچو کو سمندر میں تنہا چھوڑ کرچلا گیا۔ اور یہاںسے می گیچو نے جینے کے لئے عزم کا ارادہ کیا۔
وہ اس سمندر کے بیچ یوں مرنا نہیں چاہتے تھے اور انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ایک مچھیرے کے طور پر اپنی روزی روٹی کا بندوبست کریں گے اور جینے کا سہارا اپنے کام کو بنائیں گے۔ مگر جب می گیچو 35برس کہ تھے تو مصیبتوں نے ایک بار پھر سے ان پہ حملہ کیا۔ اس بار قسمت کا وار بہت شدید تھا وہ ایک روز اپنی کشتی پر سمندر میں جا رہے تھے کہ کشتی کا انجن فیل ہوگیا اور وہ سمندر کے بیچوں بیچ اکیلے بھٹک گئے ۔
وہ 77دن تک سمندر کے بیچ بھٹکتے رہے اور جب واپس پلٹے تو ایک بار پھر زندگی نے ان کے ساتھ اچھا نہ کیا۔ جو قرض انھوں نے اٹھا رکھا تھا اسے واپس نہ کر سکنے کے باعث انھیں جیل بھیج دیا گیا اورلمبے عرصے تک جیل کاٹنے کے بعد جب وہ واپس لوٹے تو اس قدر ڈپریشن میں چلے گئے کہ شراب کی لت لگ گئی۔ اور زندگی کے بارہ مزید قیمتی برس اس شراب کی نذر ہو کر برباد ہوگئے۔ لیکن می گیچو کی زندگی میں اس بدترین وقت نے ان سے جینے کا حوصلہ نہ چھینا بلکہ جادوئی طور پر ان کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔
انہوں نے ایسی حوصلہ شکن صورتحال اپنی زندگی سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی بجائے اپنی زندگی کو مثبت کرنے کا سوچا۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیںکہ کوئی شخص جس نے زندگی کہ باون برس سکول کی شکل نہ دیکھی ہووہ کتاب لکھ سکتا ہے؟ یقیناً اکثریت کے خیال میں جواب 'نہیں 'ہوگا۔ مگر می گیچو ایسے انسان ہیں جنہوں نے 52برس کی عمر میں لکھنا پڑھنا سیکھا،اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے ورزش کرنا شروع کی، اچھا کھانا شروع کیا اوراپنے آپ پر توجہ دی۔ وہ اس قدر چست اور تندرست ہو گئے کہ انھوں نے میرتھون ریس میں 68برس کی عمر میںحصہ لیا اور20کلو میڑتک دوڑ لگائی۔
BITACORA SIN DESTINO (Captian's Log without destination)کے نام سے لکھی جانے والی اپنی کتا ب میں می گیچونے سمندر میں اپنے کھو جانے کی رودار لکھی ۔ وہ ماحول کو آلودگی سے پاک رکھنے میں اس قدر سنجیدہ ہے کہ انھوں نے اپنے جزئرے کو آلودگی سے پاک کرنے کی ٹھانی۔ وہ گلیوں، بازاروں اور ہر جگہ سے سگریٹوں کے بچے ہوئے ٹکروں کو جمع کرنے لگے اور پانچ برس کے بعد وہ ایک ملین سگرٹوں کے ٹکڑے جمع کر چکے تھے۔اور یہ کام صرف جمع کرنے تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ وہ ان ٹکڑوں کو آرٹ کے نمونوں میں بدل چکے ہیں۔اور ان سگریٹ کے بنے مجسموں کو نہ صرف وہاں کہ مقامی لوگ بلکہ دنیا ابھر کے لوگ دیکھنے آتے ہیں۔
می گیچو کا کہنا ہے کہ وہ سگریٹ کے ٹکڑے اس لئے چنتے ہیں کہ ایک ٹکڑے میں چالیس سے زیادہ خطرناک کیمیکلز ہوتے ہیں جو زمین میں جاکر زمیں کی زرخیزی کو متاثر کرتے ہیں جس سے ناصرف انسانوں کے لئے مسائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ دوسرے جانداروں جیسے کہ حیوانات اور نباتات کے لئے بھی خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
می گیچو کی زندگی پر نگاہ ڈالیں تو ہمیںمعلوم ہوتا ہے کہ مثبت سوچ کا تعلق آپ کو ملنے والی اس سوچ سے ہے جو آپ کہ اپنے اندر سے جنم لیتی ہے ،حالات چاہے جیسے بھی کیوں نہ ہوں آپ زندگی کو کیسے جینا چاہتے ہیں یہ آپ کہ مثبت طرزِ عمل پر انحصار کرتا ہے ۔می گیچواگرباون برس کی عمر میں پڑھنا لکھنا سیکھ سکتے ہیں، دوماہ کے لئے سمنددمیں کھو کر جیل کی صعوبتیں برداشت کر کے ، شراب کی لت کے باوجود بھی اپنی زندگی کو بدل سکتے ہیں تو ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اس کی درست تشریع اس مقولے سے کی جاسکتی ہے کہ دیر آید درست آید۔ ابھی دیر نہیں ہوئی۔ آپ بھی مثبت سوچ رکھ کر دنیا کے لئے ایک نئی مثال قائم کر سکتے ہیں، آج ہی!!!
کیا آپ نے کبھی سوچا کے اگر آپ اپنی زندگی کا آدھے سے زیادہ حصہ محرومیوں، تکلیفوں اور آزمائشوں میں گزار دیں تو آپ کیسے جیئیں گے؟ کیا آپ عام انسانوں کی طرح جی پائیں گے؟ کیا آپ زندگی کے حوالے سے مثبت رویہ رکھ پائیں گے؟ آپ مایوسی کے بجائے امید کا دامن تھام سکیں گے؟
شاید اکثریت کا جواب اس میں مثبت نہ ہو ، اور اس کی دلیل یہ بھی ہو کہ جب زندگی نے انھیں کچھ بھی مثبت نہیں دیا اور دنیا کا منفی چہرہ ہی دیکھا ہے تو بھلا کیسے بدلے میں کچھ اچھا کرنے کی سوچیں۔
شاید بہت سے لوگ اس دلیل سے متفق بھی ہوں مگر ضروری نہیں کہ آپ ویسا ہی کریں جیسا کسی نے آپ کے ساتھ کیا ہو۔ زندگی بعض اوقات آپ کو کچھ لے کہ آزماتی ہے اور بعض اوقات کچھ دے کر۔ یہ انسان کے اوپر منحصر ہوتا ہے کہ اس نے کیسے اپنا کردار نبھانا ہے،یہ تو آپ نے بھی سن رکھا ہوگا کہ جس کہ پاس جو ہوتا ہے وہ وہی کچھ دیتا ہے۔
زندگی کہ منفی رویوں سے انسان بہت کچھ سیکھتا بھی ہے جیسے کہ وہی منفی رویہ جس نے اسے تکلیف دی وہ کسی اور کہ ساتھ نہ اختیار کرے۔ ایسی سوچ عموماً بہت کم لوگوں کی ہوتی ہے مگر ایسے ہی لوگ زندگی کا مختلف اور خوب صورت رخ پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
آج ہم آپ کو ایک ایسے ہی مثبت طرزِ عمل اپنا کر اپنی منفرد پہچان قائم کرنے والے باہمت شخص سے ملوانے جا رہے ہیں جس نے صعوبتوں بھری زندگی گزارنے کے باوجود ہار نہیں مانی اور دنیا کو بدلے میں ایک بہتر عمل کر کے دکھایا۔بحر اوقیانوس سے متصل گلا پا گوس جزیرے جہاں دنیا کہ منفرد اور ناپید جانوروں کو آج بھی دیکھنے کا اہم ترین مقام سمجھا جاتا ہے ، می گیچو نے وہاں 1949 میں ایکواڈور کے ایک علاقہ میں آنکھ کھولی۔
کچھ لوگوں کی زندگی میں مشکلات کے گہرے بادل ہر موڑ پہ چھائے رہتے ہیں اور می گیچو بھی ان میں سے ایک ہی تھے۔ جب وہ صرف تین دن کے تھے تو ایک زلزے نے می گیچو سے ان کی ماں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھین لیا۔ اور یہاں سے ان کی زندگی کی مصیبتوں کا اک نہ ختم ہونے والا سفر شروع ہوا۔
می گیچو کہ والد ایک غریب انسان تھے اور جس کی وجہ سے می گیچو اپنی عمر کے دوسرے بچوں کی طرح سکول نہیں جا سکے۔ایک روز ایک امیر آدمی ان کی والد سے ملا اور کہا کہ وہ گلا پا گوس جزائر پہ می گیچو کو اپنے ساتھ لے جا کر تعلیم دلوائے گا۔ باپ نے بیٹے کے اچھے مستقبل کا سوچ کر یہ جانے بنا کہ وہ جگہ می گیچوکی زندگی میں کس قدر مشکلات لا سکتی ہے اس شخص کہ ہمراہ بھیج دیا مگر بدقسمتی سے وہ می گیچو کو سمندر میں تنہا چھوڑ کرچلا گیا۔ اور یہاںسے می گیچو نے جینے کے لئے عزم کا ارادہ کیا۔
وہ اس سمندر کے بیچ یوں مرنا نہیں چاہتے تھے اور انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ایک مچھیرے کے طور پر اپنی روزی روٹی کا بندوبست کریں گے اور جینے کا سہارا اپنے کام کو بنائیں گے۔ مگر جب می گیچو 35برس کہ تھے تو مصیبتوں نے ایک بار پھر سے ان پہ حملہ کیا۔ اس بار قسمت کا وار بہت شدید تھا وہ ایک روز اپنی کشتی پر سمندر میں جا رہے تھے کہ کشتی کا انجن فیل ہوگیا اور وہ سمندر کے بیچوں بیچ اکیلے بھٹک گئے ۔
وہ 77دن تک سمندر کے بیچ بھٹکتے رہے اور جب واپس پلٹے تو ایک بار پھر زندگی نے ان کے ساتھ اچھا نہ کیا۔ جو قرض انھوں نے اٹھا رکھا تھا اسے واپس نہ کر سکنے کے باعث انھیں جیل بھیج دیا گیا اورلمبے عرصے تک جیل کاٹنے کے بعد جب وہ واپس لوٹے تو اس قدر ڈپریشن میں چلے گئے کہ شراب کی لت لگ گئی۔ اور زندگی کے بارہ مزید قیمتی برس اس شراب کی نذر ہو کر برباد ہوگئے۔ لیکن می گیچو کی زندگی میں اس بدترین وقت نے ان سے جینے کا حوصلہ نہ چھینا بلکہ جادوئی طور پر ان کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔
انہوں نے ایسی حوصلہ شکن صورتحال اپنی زندگی سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی بجائے اپنی زندگی کو مثبت کرنے کا سوچا۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیںکہ کوئی شخص جس نے زندگی کہ باون برس سکول کی شکل نہ دیکھی ہووہ کتاب لکھ سکتا ہے؟ یقیناً اکثریت کے خیال میں جواب 'نہیں 'ہوگا۔ مگر می گیچو ایسے انسان ہیں جنہوں نے 52برس کی عمر میں لکھنا پڑھنا سیکھا،اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے ورزش کرنا شروع کی، اچھا کھانا شروع کیا اوراپنے آپ پر توجہ دی۔ وہ اس قدر چست اور تندرست ہو گئے کہ انھوں نے میرتھون ریس میں 68برس کی عمر میںحصہ لیا اور20کلو میڑتک دوڑ لگائی۔
BITACORA SIN DESTINO (Captian's Log without destination)کے نام سے لکھی جانے والی اپنی کتا ب میں می گیچونے سمندر میں اپنے کھو جانے کی رودار لکھی ۔ وہ ماحول کو آلودگی سے پاک رکھنے میں اس قدر سنجیدہ ہے کہ انھوں نے اپنے جزئرے کو آلودگی سے پاک کرنے کی ٹھانی۔ وہ گلیوں، بازاروں اور ہر جگہ سے سگریٹوں کے بچے ہوئے ٹکروں کو جمع کرنے لگے اور پانچ برس کے بعد وہ ایک ملین سگرٹوں کے ٹکڑے جمع کر چکے تھے۔اور یہ کام صرف جمع کرنے تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ وہ ان ٹکڑوں کو آرٹ کے نمونوں میں بدل چکے ہیں۔اور ان سگریٹ کے بنے مجسموں کو نہ صرف وہاں کہ مقامی لوگ بلکہ دنیا ابھر کے لوگ دیکھنے آتے ہیں۔
می گیچو کا کہنا ہے کہ وہ سگریٹ کے ٹکڑے اس لئے چنتے ہیں کہ ایک ٹکڑے میں چالیس سے زیادہ خطرناک کیمیکلز ہوتے ہیں جو زمین میں جاکر زمیں کی زرخیزی کو متاثر کرتے ہیں جس سے ناصرف انسانوں کے لئے مسائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ دوسرے جانداروں جیسے کہ حیوانات اور نباتات کے لئے بھی خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
می گیچو کی زندگی پر نگاہ ڈالیں تو ہمیںمعلوم ہوتا ہے کہ مثبت سوچ کا تعلق آپ کو ملنے والی اس سوچ سے ہے جو آپ کہ اپنے اندر سے جنم لیتی ہے ،حالات چاہے جیسے بھی کیوں نہ ہوں آپ زندگی کو کیسے جینا چاہتے ہیں یہ آپ کہ مثبت طرزِ عمل پر انحصار کرتا ہے ۔می گیچواگرباون برس کی عمر میں پڑھنا لکھنا سیکھ سکتے ہیں، دوماہ کے لئے سمنددمیں کھو کر جیل کی صعوبتیں برداشت کر کے ، شراب کی لت کے باوجود بھی اپنی زندگی کو بدل سکتے ہیں تو ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اس کی درست تشریع اس مقولے سے کی جاسکتی ہے کہ دیر آید درست آید۔ ابھی دیر نہیں ہوئی۔ آپ بھی مثبت سوچ رکھ کر دنیا کے لئے ایک نئی مثال قائم کر سکتے ہیں، آج ہی!!!