بیٹیوں والے بیٹیاں کہاں چھپا کر رکھیں

والدین کی آغوش سے نکل کر مدرسوں، اسکول، دکان اور بازار جانے والی بچیاں عدم تحفظ کا شکار ہو رہی ہیں۔

والدین کی آغوش سے نکل کر مدرسوں، اسکول، دکان اور بازار جانے والی بچیاں عدم تحفظ کا شکار ہو رہی ہیں۔ فوٹو : فائل

معاشرہ ذلت آمیز گراوٹ کی طرف تیزی سے گام زن ہے، معصوم بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد انہیں بے دردی سے قتل کرنے کے واقعات میں بہ تدریج اضافہ معاشرے کی سنگ دلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

والدین کی آغوش سے نکل کر مدرسوں، اسکول، دکان اور بازار جانے والی بچیاں عدم تحفظ کا شکار ہو رہی ہیں۔ والدین سر توڑ کوششوں کے باوجود کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کر پا رہے ہیں۔ گذشتہ چند دنوں میں دو معصوم بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا جب کہ گذشتہ دو ماہ کے دوران رحیم یار خان میں چار معصوم بچیوں کا قتل بچوں کے عدم تحفظ کی کہانی سنا رہا ہے۔ گذشتہ بدھ 22 جنوری کے روز فیروزہ اور لیاقت پور کی نواحی بستی جمعہ موہانہ میں الم ناک واقعہ پیش آیا، جس میں ایک انسان نما درندے نے چھے سال کی کم سن بچی طاہرہ کو زیادتی کا نشانہ بناتے ہوئے اسے بے دردی سے قتل کر دیا اور نعش کماد کی فصل میں پھینک دی۔ اس سے چند ہی روز قبل بھی(16 جنوری) تحصیل خان پور کی بستی کٹہ موضع گھنیہ میں ہندو گھرانے کی آٹھ سالہ ذہنی معذور بچی سمیرا دیوی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔


6 سالہ طاہرہ بی بی گھر کے قریب دکان سے ''چیز'' لینے گئی تھی کہ پلٹ کر نہ آئی۔ پریشان حال والدین بدھ کو دن بھر اس کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے، رات گئے تک تلاش جاری رہی لیکن ۔۔۔۔ طاہرہ اگلے دن (23 جنوری) ملی بھی تو لاش کی صورت، جسے ہوس کے پجاری درندے نے چیر پھاڑ دیا تھا۔ اسی طرح کا ایک دل خراش واقعہ کوڑا رام مینگوال کی 8 سالہ معصوم بچی سمیرا دیوی کے ساتھ پیش آیا۔ بھولی بھالی سمیرا فقیرانہ طبیعت کی تھی، مسلم آبادی میں 'اللہ لوک' اور ہندو قبیلے میں دیوی مانی جاتی تھی۔

16 جنوری کی شام 4 بجے سمیرا دیوی بھی اچانک غائب ہو گئی۔ اس سے پیار کرنے والے گھر والے اور بستی کے لوگ پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈتے رہے اور اس کی لاش بھی اگلے روز گنے کے کھیت سے ملی، اسے بھی زیادتی کا نشانہ بنا کر بیہمانہ طور پر قتل کر دیا گیا تھا۔ پولیس افسروں میں ریجنل پولیس آفیسر شاہد حنیف اور ڈی پی او سہیل ظفر چٹھہ جائے وقوعہ پر پہنچے اور متاثرین کے غم میں شریک بھی ہوئے۔ ایس ایچ او پکا لاڑاں چوہدری فقیر حسین نے طاہرہ بی بی سے زیادتی اور قتل کے الزام میں ملزمان محمد آصف اور محمد شاہد کو حراست میں لے رکھا ہے اور تفتیش میں مصروف ہیں تاہم سمیرا دیوی کے قاتلوں کا تاحال پولیس سراغ لگانے میں ناکام ہے، جس سے ہندو قبیلے کے افراد میں تشویش اور مایوسی پائی جا رہی ہے۔

گذشتہ جمعرات کو متاثرہ خاندان نے انصاف کے لیے آئی جی پنجاب خان بیگ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا، سماجی کارکن انصار برنی نے بھی متاثرہ خاندان کو انصاف کی جلد فراہمی کی یقین دہانی کرائی لیکن متاثرین تاحال انصاف سے محروم تھے۔ معصوم بچیوں سے زیادتی اور قتل کے پے در پے واقعات نے جہاں معاشرے کو پستیوں میں گرا ہوا پایا ہے وہیں والدین کو بھی پریشان کردیا ہے کہ وہ ان معصوم کلیوں کی حفاظت کریں تو کس طرح؟۔ کیا جرم کو روکنا اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا صرف پولیس کا کام ہے یا پھر ان واقعات کی روک تھام کے لئے معاشرے میں بسنے والی تمام اکائیوں کو یہ بیڑا اٹھانا ہوگا؟ ہمیں سوچنا ہے کہ ہم اپنی معصوم بیٹیوں کی حفاظت کس طرح کریں، درندوں سے بچانے کے لیے اقدامات کریں یا درندگی کے خاتمے کے لیے کوئی لائحۂ عمل ترتیب دیا جائے۔ آئیں مل بیٹھ کر سوچیں، قدم بڑھائیں تاکہ اس طرح کے افسوس ناک واقعات کا کوئی اوپائے ہو سکے۔
Load Next Story