شاعری میں چُھپے ماضی کے حقائق
شاعری سچ بولتی ہے.
قتیل شفائی نے کہا تھا:
لاکھ پردوں میں رہوں بھید مِرے کھولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
یہ سچ ہے کہ شاعری سچ بولتی ہے، اور جب شاعر کی قسمت ڈولتی ہے تو شاعری زیادہ ہی منہ پھٹ ہوکر سچ بولتی ہے اور شاعر کی اہلیہ کے سامنے اس کے راز کھولتی ہے، اس کے بعد بیوی کھولتی ہے اور کھول کھول کر اُبلتی ہے تو شاعری چپ ہوجاتی ہے بس زوجۂ شاعر بولتی ہے۔ خیر یہ تو شاعر کا گھریلو مسئلہ ہے، لیکن وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو اشعار اس دور کے سماجی اور سیاسی حقائق کی عکاسی کرتے ہیں جب وہ کہے گئے۔
یوں شعروں کی مدد سے آپ ماضی کے ادوار کی بابت کچھ اندازے ضرور لگا سکتے ہیں، ایسے ہی اندازے ہم نے لگائے ہیں اور اردو کے کچھ شعروں کی مدد سے گزرے ہوئے زمانوں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے، ملاحظہ کیجیے:
چند تصویر بتاں چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مِرے گھر سے یہ ساماں نکلا
اس شعر سے کُھلتا ہے کہ اُس دور میں خواتینِ خانہ امورِخانہ میں اتنی مصروف ہوتی تھیں کہ انھیں خانہ تلاشی کی فرصت نہیں ملتی تھی۔ خطوط کا تو خیر یہ ہے کہ بیویوں کی ناخواندگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں دھوبی کی رسید، ابا کی وصیت یا حکیم کا نسخہ قرار دے دیا جاتا ہوگا، مگر تصویر بتاں ہاتھ لگنے پر آج کی طرح یہ تو کہا نہیں جاسکتا تھا کہ ''خود ہی ڈاؤن لوڈ ہوگئیں'' اب پتا نہیں صورت حال سے نمٹنے کے لیے کیا تدبیر کی جاتی ہوگی، لیکن شعر سے تو صاف ظاہر ہے کہ ایسا موقع آتا ہی نہیں تھا، اور یہ سارا قابل گرفت سامان بعد مرنے کے نکلتا تھا، جسے دیکھتے ہی مرحوم کے حق میں مغفرت کی دعا کرتی بیوہ کے منہ سے جہاں اور بہت کچھ نکلتا تھا وہیں وہ آسمان کی طرف منہ کرکے کہتی تھی،''بس ایک بار زندہ ہوجاؤ، چند گھنٹوں کے لیے۔''
یہ دور موبائل فون کا ہے ، چناں چہ ''بْتوں'' کی سیلفیاں اور ان کے واٹس ایپ میسیج وصول کنندہ کے جیتے جی نکل آنے کی صورت میں موت کی وجہ ''چند تصویر بتاں، چند حسینوں کے خطوط'' قرار پاتی ہے۔
تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو
تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں
اس شعر میں شاعر نے اپنی خواہشات کو دیکھنے اور بات کرنے تک محدود رکھا ہے، جس سے گمان ہوتا ہے کہ شاعر یہ شعر کہتے ہوئے وڈیو کال پر تھا۔ لیکن ایسا نہیں، یہ امر طے شدہ ہے کہ اس وقت موبائل فون ایجاد نہیں ہوا تھا پھر ''قریب بھی ہو'' سے واضح ہے کہ یہ ملاقات بالمشافہ تھی۔ اس شعر سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اُس زمانے میں لوگ ایک وقت میں صرف ایک ہی کام کرتے تھے، کسی کو صرف دیکھنا ہوتا تو اس سے بات نہیں کرتے تھے، بات کرنا ہوتی تھی تو دیکھتے نہیں تھے، اور اتنے مہذب تھے کہ اگر ان کے کسی فعل میں دوسرا کسی طور بھی شریک ہو تو اس سے پوچھ لیتے تھے ''کی کرنا اے۔'' یہ نکتہ اس زمانے میں کیمرے کا نہ ہونا یا عام دسترس سے باہر ہونا بھی ثابت کرتا ہے، ورنہ عاشق معشوق کی تصویر جی بھر کر دیکھ لیتا اور سامنے بٹھا کر کنفیوز نہ ہورہا ہوتا کہ دیکھنا ہے یا بات کرنی ہے۔
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
اس شعر سے معلوم ہوا کہ اُس دور میں فیس بک اور واٹس ایپ وغیرہ نہیں تھے، اس لیے لوگ اپنے جیسے افراد کی خبر ملتے ہی ان کے ساتھ مل بیٹھنے نکل جاتے تھے۔ اگر مذکورہ سماجی ویب سائٹس ہوتیں تو شاعر کو کسی اور دیوانے سے ملنے کے لیے جنگل جانے کی ضرورت نہ پڑتی بلکہ وہ ''دیوانہ گروپ''، ''دیوانوں کی محفل'' یا ''بزم دیوانگی'' جیسے نام سے گروپ بناکر قیس اور دیگر دیوانوں کو ایڈ کرلیتا۔ ''مجھے جانے دو'' کے الفاظ سے یہ سراغ ملتا ہے کہ اس وقت ''میرے جسم پر میری مرضی'' اتنی بھی نہیں تھی کہ بندہ کسی سے ملنے ملانے جنگل تک چلا جائے، اور لوگ ایک دوسرے کی اجازت ہی سے کہیں جاسکتے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس وقت ''دو یا دو سے زیادہ'' دیوانوں کے کسی جگہ جمع ہونے پر دفعہ ایک سو چوالیس عاید کردی جاتی ہو کہ دیوانوں کا جمع ہونا خطرناک ہوتا ہے۔
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
مومن کا یہ شعر اس دور کی بی بیوں کے بالوں کی قامت بتارہا ہے۔ یعنی ان دنوں خواتین کے بال اتنے لمبے ہوتے تھے کہ ان کے پیروں سے جا الجھتے تھے۔ یوں سمجھیں کہ یہ آج کے دور کی کسی دھرنے سے انتخابات تک پھیلی چال کی طرح تھے جو چال چلنے والے ہی کو الجھادے۔
اس شعر سے ہم یہ بھی جان سکتے ہیں کہ اُس زمانے میں سالنوں میں کس مقدار میں بال نکلتے ہوں گے۔
اتنے لمبے بالوں کا سنوارنا، کھولنا باندھنا بچے پالنے جیسی ایک کل وقتی مصروفیت ہوگی یقیناً اسی لیے ''بال بچے'' کا محاورہ وجود میں آیا۔ اتنے بڑے بالوں کے ذکر پر آپ حیران نہ ہوں، بات بس اتنی سی ہے کہ ان دنوں پرائیویٹ اسکول نہیں ہوتے تھے، سو نہ مائیں فیسوں اور ہوم ورک سے تنگ آکر اپنے بال نوچتی تھیں نہ انھیں لگتا تھا بچے بڑے ہونے میں اتنی دیر کیوں لگا رہے ہیں، سو بے فکری کی وجہ سے بال نہیں جھڑتے تھے، اور اسی باعث تب بال بھی جلدی بڑے ہوجاتے تھے بچے بھی۔
بات پوری بھی منہ سے نکلی نہیں
آپ نے گالیوں پہ کھولا منہ
شعر صاف صاف بتا رہا ہے کہ سیاست داں اور پارلیمنٹ تب بھی اپنے پورے چال چلن اور لب ودہن سمیت پائے جاتے تھے اور ٹاک شو بھی ہوتے تھے۔ اس وقت کی قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بھی عوام کو گولی اور ایک دوسرے کو گالی دینے کی روایت پوری ذمے داری سے نبھائی جاتی ہوگی۔
ایک اور شعر سے یہ آگاہی ہوتی ہے کہ اس دشنام طرازی کے اثرات اتنے دور رس تھے کہ شیریں لب معشوق بھی منہ بھر کے گالیاں دیتے تھے، جنھیں سن کر عادی ہونے کی وجہ سے شاعر کے رقیب ذرا بھی بے مزا نہیں ہوتے تھے، اور معشوق کے دیگر امیدوار اس خیال سے مزے لیتے تھے گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
پچھلے شعر کی طرح یہ شعر بھی صاف صاف بتارہا ہے کہ وہ بادشاہت کا نہیں جمہوریت کا عہد تھا اور شاعر نے اس شعر میں جمہوری حکم رانوں اور اہل سیاست کی ترجمانی کی ہے۔
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے
اپنی صورت آپ بگاڑنے کا ایک ہی طریقہ ہے جسے سیلفی کہتے ہیں۔ تو طے پایا کہ اگرچہ وہ موبائل فون کا زمانہ نہیں تھا مگر کسی نہ کسی طریقے سے سیلفی جاتی تھی اور یہ شعر شاعر نے سیلفی لینے اور اسے دیکھنے کے بعد ہی کہا ہے۔
سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذکر کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
یہ شعر بتا رہا ہے کہ تبدیلی کے وعدے اس زمانے میں بھی ہوتے تھے تاہم شعر سے بھی پتا چلتا ہے کہ شاعر کے ہم عصر سیاست داں ایک آدھ ہی جھوٹا وعدہ کرتے تھے وقت کے ساتھ ساتھ ان میں زیادہ تبدیلی آگئی۔
کئی سال بعد جب عوام کو یقین ہوجاتا تھا کہ جو کہا گیا وہ وعدہ کم گپ زیادہ تھی تو وہ جان لیتے تھے کہ اس وعدے کو نبھانے کا کوئی امکان نہیں، لیکن عوام وعدے یاد دلاکر شرمندہ کرتے تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ تب سیاست داں شرمندہ ہوجایا کرتے تھے۔
یہ نشان عشق ہیں جاتے نہیں
داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا
اس شعر سے یہ حقیقت علم میں آئی کہ تب تک ڈیٹرجنٹ تولد نہیں ہوئے تھے ورنہ عشق کے نشان بھی بس ایک دھلائی میں دُھل جایا کرتے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اس دور میں داغ اچھے نہیں ہوتے تھے چناں چہ انھیں رگڑ رگڑ کر دھویا جاتا تھا۔
لاکھ پردوں میں رہوں بھید مِرے کھولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
یہ سچ ہے کہ شاعری سچ بولتی ہے، اور جب شاعر کی قسمت ڈولتی ہے تو شاعری زیادہ ہی منہ پھٹ ہوکر سچ بولتی ہے اور شاعر کی اہلیہ کے سامنے اس کے راز کھولتی ہے، اس کے بعد بیوی کھولتی ہے اور کھول کھول کر اُبلتی ہے تو شاعری چپ ہوجاتی ہے بس زوجۂ شاعر بولتی ہے۔ خیر یہ تو شاعر کا گھریلو مسئلہ ہے، لیکن وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو اشعار اس دور کے سماجی اور سیاسی حقائق کی عکاسی کرتے ہیں جب وہ کہے گئے۔
یوں شعروں کی مدد سے آپ ماضی کے ادوار کی بابت کچھ اندازے ضرور لگا سکتے ہیں، ایسے ہی اندازے ہم نے لگائے ہیں اور اردو کے کچھ شعروں کی مدد سے گزرے ہوئے زمانوں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے، ملاحظہ کیجیے:
چند تصویر بتاں چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مِرے گھر سے یہ ساماں نکلا
اس شعر سے کُھلتا ہے کہ اُس دور میں خواتینِ خانہ امورِخانہ میں اتنی مصروف ہوتی تھیں کہ انھیں خانہ تلاشی کی فرصت نہیں ملتی تھی۔ خطوط کا تو خیر یہ ہے کہ بیویوں کی ناخواندگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں دھوبی کی رسید، ابا کی وصیت یا حکیم کا نسخہ قرار دے دیا جاتا ہوگا، مگر تصویر بتاں ہاتھ لگنے پر آج کی طرح یہ تو کہا نہیں جاسکتا تھا کہ ''خود ہی ڈاؤن لوڈ ہوگئیں'' اب پتا نہیں صورت حال سے نمٹنے کے لیے کیا تدبیر کی جاتی ہوگی، لیکن شعر سے تو صاف ظاہر ہے کہ ایسا موقع آتا ہی نہیں تھا، اور یہ سارا قابل گرفت سامان بعد مرنے کے نکلتا تھا، جسے دیکھتے ہی مرحوم کے حق میں مغفرت کی دعا کرتی بیوہ کے منہ سے جہاں اور بہت کچھ نکلتا تھا وہیں وہ آسمان کی طرف منہ کرکے کہتی تھی،''بس ایک بار زندہ ہوجاؤ، چند گھنٹوں کے لیے۔''
یہ دور موبائل فون کا ہے ، چناں چہ ''بْتوں'' کی سیلفیاں اور ان کے واٹس ایپ میسیج وصول کنندہ کے جیتے جی نکل آنے کی صورت میں موت کی وجہ ''چند تصویر بتاں، چند حسینوں کے خطوط'' قرار پاتی ہے۔
تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو
تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں
اس شعر میں شاعر نے اپنی خواہشات کو دیکھنے اور بات کرنے تک محدود رکھا ہے، جس سے گمان ہوتا ہے کہ شاعر یہ شعر کہتے ہوئے وڈیو کال پر تھا۔ لیکن ایسا نہیں، یہ امر طے شدہ ہے کہ اس وقت موبائل فون ایجاد نہیں ہوا تھا پھر ''قریب بھی ہو'' سے واضح ہے کہ یہ ملاقات بالمشافہ تھی۔ اس شعر سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اُس زمانے میں لوگ ایک وقت میں صرف ایک ہی کام کرتے تھے، کسی کو صرف دیکھنا ہوتا تو اس سے بات نہیں کرتے تھے، بات کرنا ہوتی تھی تو دیکھتے نہیں تھے، اور اتنے مہذب تھے کہ اگر ان کے کسی فعل میں دوسرا کسی طور بھی شریک ہو تو اس سے پوچھ لیتے تھے ''کی کرنا اے۔'' یہ نکتہ اس زمانے میں کیمرے کا نہ ہونا یا عام دسترس سے باہر ہونا بھی ثابت کرتا ہے، ورنہ عاشق معشوق کی تصویر جی بھر کر دیکھ لیتا اور سامنے بٹھا کر کنفیوز نہ ہورہا ہوتا کہ دیکھنا ہے یا بات کرنی ہے۔
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
اس شعر سے معلوم ہوا کہ اُس دور میں فیس بک اور واٹس ایپ وغیرہ نہیں تھے، اس لیے لوگ اپنے جیسے افراد کی خبر ملتے ہی ان کے ساتھ مل بیٹھنے نکل جاتے تھے۔ اگر مذکورہ سماجی ویب سائٹس ہوتیں تو شاعر کو کسی اور دیوانے سے ملنے کے لیے جنگل جانے کی ضرورت نہ پڑتی بلکہ وہ ''دیوانہ گروپ''، ''دیوانوں کی محفل'' یا ''بزم دیوانگی'' جیسے نام سے گروپ بناکر قیس اور دیگر دیوانوں کو ایڈ کرلیتا۔ ''مجھے جانے دو'' کے الفاظ سے یہ سراغ ملتا ہے کہ اس وقت ''میرے جسم پر میری مرضی'' اتنی بھی نہیں تھی کہ بندہ کسی سے ملنے ملانے جنگل تک چلا جائے، اور لوگ ایک دوسرے کی اجازت ہی سے کہیں جاسکتے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس وقت ''دو یا دو سے زیادہ'' دیوانوں کے کسی جگہ جمع ہونے پر دفعہ ایک سو چوالیس عاید کردی جاتی ہو کہ دیوانوں کا جمع ہونا خطرناک ہوتا ہے۔
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
مومن کا یہ شعر اس دور کی بی بیوں کے بالوں کی قامت بتارہا ہے۔ یعنی ان دنوں خواتین کے بال اتنے لمبے ہوتے تھے کہ ان کے پیروں سے جا الجھتے تھے۔ یوں سمجھیں کہ یہ آج کے دور کی کسی دھرنے سے انتخابات تک پھیلی چال کی طرح تھے جو چال چلنے والے ہی کو الجھادے۔
اس شعر سے ہم یہ بھی جان سکتے ہیں کہ اُس زمانے میں سالنوں میں کس مقدار میں بال نکلتے ہوں گے۔
اتنے لمبے بالوں کا سنوارنا، کھولنا باندھنا بچے پالنے جیسی ایک کل وقتی مصروفیت ہوگی یقیناً اسی لیے ''بال بچے'' کا محاورہ وجود میں آیا۔ اتنے بڑے بالوں کے ذکر پر آپ حیران نہ ہوں، بات بس اتنی سی ہے کہ ان دنوں پرائیویٹ اسکول نہیں ہوتے تھے، سو نہ مائیں فیسوں اور ہوم ورک سے تنگ آکر اپنے بال نوچتی تھیں نہ انھیں لگتا تھا بچے بڑے ہونے میں اتنی دیر کیوں لگا رہے ہیں، سو بے فکری کی وجہ سے بال نہیں جھڑتے تھے، اور اسی باعث تب بال بھی جلدی بڑے ہوجاتے تھے بچے بھی۔
بات پوری بھی منہ سے نکلی نہیں
آپ نے گالیوں پہ کھولا منہ
شعر صاف صاف بتا رہا ہے کہ سیاست داں اور پارلیمنٹ تب بھی اپنے پورے چال چلن اور لب ودہن سمیت پائے جاتے تھے اور ٹاک شو بھی ہوتے تھے۔ اس وقت کی قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بھی عوام کو گولی اور ایک دوسرے کو گالی دینے کی روایت پوری ذمے داری سے نبھائی جاتی ہوگی۔
ایک اور شعر سے یہ آگاہی ہوتی ہے کہ اس دشنام طرازی کے اثرات اتنے دور رس تھے کہ شیریں لب معشوق بھی منہ بھر کے گالیاں دیتے تھے، جنھیں سن کر عادی ہونے کی وجہ سے شاعر کے رقیب ذرا بھی بے مزا نہیں ہوتے تھے، اور معشوق کے دیگر امیدوار اس خیال سے مزے لیتے تھے گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
پچھلے شعر کی طرح یہ شعر بھی صاف صاف بتارہا ہے کہ وہ بادشاہت کا نہیں جمہوریت کا عہد تھا اور شاعر نے اس شعر میں جمہوری حکم رانوں اور اہل سیاست کی ترجمانی کی ہے۔
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے
اپنی صورت آپ بگاڑنے کا ایک ہی طریقہ ہے جسے سیلفی کہتے ہیں۔ تو طے پایا کہ اگرچہ وہ موبائل فون کا زمانہ نہیں تھا مگر کسی نہ کسی طریقے سے سیلفی جاتی تھی اور یہ شعر شاعر نے سیلفی لینے اور اسے دیکھنے کے بعد ہی کہا ہے۔
سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذکر کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
یہ شعر بتا رہا ہے کہ تبدیلی کے وعدے اس زمانے میں بھی ہوتے تھے تاہم شعر سے بھی پتا چلتا ہے کہ شاعر کے ہم عصر سیاست داں ایک آدھ ہی جھوٹا وعدہ کرتے تھے وقت کے ساتھ ساتھ ان میں زیادہ تبدیلی آگئی۔
کئی سال بعد جب عوام کو یقین ہوجاتا تھا کہ جو کہا گیا وہ وعدہ کم گپ زیادہ تھی تو وہ جان لیتے تھے کہ اس وعدے کو نبھانے کا کوئی امکان نہیں، لیکن عوام وعدے یاد دلاکر شرمندہ کرتے تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ تب سیاست داں شرمندہ ہوجایا کرتے تھے۔
یہ نشان عشق ہیں جاتے نہیں
داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا
اس شعر سے یہ حقیقت علم میں آئی کہ تب تک ڈیٹرجنٹ تولد نہیں ہوئے تھے ورنہ عشق کے نشان بھی بس ایک دھلائی میں دُھل جایا کرتے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اس دور میں داغ اچھے نہیں ہوتے تھے چناں چہ انھیں رگڑ رگڑ کر دھویا جاتا تھا۔