پنجاب اسمبلی کا استحقاق بل دوبارہ منظور

حال ہی میں رونما ہونے والے ایک واقعہ نے اس بل کی اہمیت کو مزید اجاگر کر دیا ہے۔

msuherwardy@gmail.com

پنجاب اسمبلی نے گورنر پنجاب کی جانب سے استحقاق بل مسترد کرنے کے بعد دوبارہ منظور کر لیا ہے۔ اب بل دوبارہ گورنر کو توثیق کے لیے بھیجنے کی ضرورت نہیں رہی۔ گورنر پنجاب نے بل مسترد کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ یہ بل آئین کی متعدد شقوں سے متصادم ہے اور اسمبلیوں کو آئین سے متصادم قانون سازی کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

پنجاب اسمبلی نے اپنے نئے استحقاق بل میں اسمبلی کی جوڈیشل کمیٹی کو کسی بھی رکن اسمبلی کا استحقاق مجروح کرنے اور اسمبلی کی کارروائی سے عدم تعاون پر سزا دینے کا اختیار دیا ہے۔ جوڈیشل کمیٹی کی جانب سے سنائی جانے والی اس سزا کے خلاف اسپیکر پنجاب اسمبلی کے پاس اپیل کی جا سکے گی تا ہم اسپیکر کے بعد اپیل کرنے کا کوئی فورم نہیں ہوگا۔

یوں نئے استحقاق بل میں پنجاب اسمبلی نے اپنی ایک کمیٹی کو ٹرائل کورٹ کادرجہ دے دیا ہے جہاں مقدمات کو سن کر ان پر فیصلے ہوں گے۔ اس بل میں پہلے صحافیوںکے بارے میںایسی ہی شق شامل تھی لیکن صحافیوں کے شور مچانے پر اس میں ترمیم کر کے شق نکال دی گئی تاہم گورنر پنجاب کے خیال میں استحقاق بل میں صحافیوں کو سزا دینے کی شق کی منظوری کے بعد ترمیم کافی نہیں تھی بلکہ نئی قانون سازی کی جانی چاہیے تھی تاہم پنجاب اسمبلی نے گورنر کے تحفظات کو نظر اندازکرتے ہوئے بل دوبارہ منظورکر لیا۔

آئین کے تحت پنجاب اسمبلی اس بل کو دوبارہ منظور کرتی ہے تو گورنر کے پاس اسے دوبارہ مسترد کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اب بل کوکوئی نہیں روک سکتا۔ کیا گورنر پنجاب نے صرف اپنی مرضی سے اس بل کو مستردکیا یا انھوں نے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ سے مشاور ت کے بعدایسا کیا تھا۔ بہر حال گورنر پنجاب کا تعلق بھی حکمران جماعت سے ہی ہے اور بل بھی حکمران جماعت نے ہی منظور کیا تھا۔ اس طرح گورنر نے اپنی ہی پارٹی کا منظور کر دہ بل مسترد کر دیا ہے اور پھر حکمران جماعت نے اپنے ہی گورنر کے فیصلے کے خلاف دوبارہ بل منظور کر لیا ہے۔

حال ہی میں رونما ہونے والے ایک واقعہ نے اس بل کی اہمیت کو مزید اجاگر کر دیا ہے۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے نذیر چوہان کے پروڈکشن آرڈر جاری کر دیے۔ لیکن حکومت نے اسپیکر پنجاب اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر پر عمل کرنے سے انکار کیا۔ دو دن مسلسل پروڈکشن آرڈر جاری ہوتے رہے اور دو دن حکومت ان پروڈکشن آرڈر کی نفی کرتی رہی۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی حکومت کی جانب سے حکم عدولی پر مکمل بے بس نظر آئے۔ انھوں نے دونوں دن اجلاس بغیر کسی کارروائی کے ملتوی کر دیا۔ اگر حکومت پارلیمنٹ کی بات نہ مانے تو پارلیمنٹ اپنی اہمیت کھو دیتی ہے۔


اس لیے پارلیمنٹ کے پاس نوکرشاہی کی جانب سے حکم عدولی پر سزادینے کا کوئی نہ کوئی اختیار تو ہونا چاہیے تا ہم دوسری طرف یہ اطلاعات بھی ہیں کہ بیوروکریسی اس قانون کے سخت خلاف ہے اور اس کے ساتھ چلنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہے۔ ان کا موقف ہے کہ کوئی بھی رکن اسمبلی جب کوئی ناجائز کام بھی لے کر آئے گا اوربیوروکریسی یہ کام نہیں کرے تو ایم پی اے صاحب یہی تڑی لگائے گا، اگر میرا کام نہیں کیا تو میں آپ کے خلاف استحقاق کی تحریک لے آؤں گا اور سزا دلوانے کی دھمکی دے گا۔ ساری بیوروکریسی نے اس بل کی کھل کر مخالفت کی ہے۔

وزیر اعلیٰ اور گورنر کو تحفظات سے آگاہ کیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم تک اس بل کے منفی نکا ت پہنچائے گئے۔ ایک تاثر بنایا گیا کہ اس بل کے بعد اسپیکر وزیر اعلیٰ سے بھی مضبوط ہو جائے گا۔ وزیر اعلیٰ کے پاس کسی بھی افسر کو قید کی سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں۔ لیکن اس بل کے بعد پہلے اسپیکر کی بنائی ہوئی جوڈیشل کمیٹی افسران کو سزا د ے گی اور اس سزا کے بعد اپیل بھی اسپیکر ہی سنیں گے۔ یوں پوری حکومت مائنس ہو گئی۔ اس لیے اس بل کی موجودگی میں کام ممکن ہی نہیں ہے۔

لیکن اسپیکر نے تمام تحفظات کے باجود بل دوبارہ منظور کر لیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ارکان اس بل کے حق میں ہیں ۔ افسران کواندازہ ہے کہ اگر اس بل کونہ روکا گیا تو پھر یہ بل سب صوبائی اسمبلیوں سے پاس ہو جائے گا۔ ایسے میں افسر شاہی پارلیمنٹ کے تابع بن کر رہ جائے گی۔ اس لیے پورے ملک کی ا فسر شاہی نے مل کر اس بل کو روکنے کی کوشش کی ہے۔ شاید اسی دباؤ میں گورنر پنجاب نے بل کو مستردکر دیا۔

موجودہ حکومت پہلے ہی افسر شاہی کے عدم تعاون کا شکار ہے۔ بیورکریسی کا مؤقف ہے کہ وہ نیب کی وجہ سے کام نہیں کر سکتے۔ افسران کوئی فائل دستخط کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دِنوں کا کام مہینوں میں ہو رہا ہے۔ ہر فائل کو نیب کے خوف سے اعتراض لگا کر واپس کر دیا جاتا ہے۔ حکومت اب افسران کو نیب کے دائرہ اختیار سے باہر کرنا چاہتی ہے لیکن سیاسی نقصان کے خوف سے ایسا نہیں کر رہی ہے۔ اب پنجاب اسمبلی کے استحقاق بل کی وجہ سے افسران مزیددباؤ شکار ہوں گے۔ بیورو کریسی کے پاس کام نہ کرنے کا ایک اور بہانہ آ جائے گا۔

حیرانگی کی بات ہے کہ اس بل پر اپوزیشن اور حکومت دونوں طرف کے ارکان متحد نظر آئے ہیں۔ بل دوبارہ بھی متفقہ طور پر پاس ہوا ہے۔ بل کی دوبارہ منظوری، کیا یہ حکومت کی شکست نہیں ہے۔کیا حکومت اس شکست کی متحمل ہو سکے گی۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی آج کل افسر شاہی پر برہم نظر آرہے ہیں۔

ان کا غصہ کافی واضح ہے۔ لیکن یہ غصہ حکومت کے لیے مسائل میں اضافہ بھی کر سکتا ہے۔ بہرحال ایک بات تو ثابت ہوئی ہے کہ ارکانِ اسمبلی نے بیورورکریسی کے رویے کے خلاف جرأت کا مظاہرہ کیا ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر نوکرشاہی منتخب اسمبلی کے اسپیکر کی عزت افزائی نہیں کرے گی تو پھر اس کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک ہو گا جیسا وہ ارکانِ اسمبلی کے ساتھ کرتی ہے۔
Load Next Story