پاکستان اور دہشت گردوں کی باقیات
ریاست کو مذہبی اور فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے والے ’معمول کے مشتبہ افراد‘ پر بھی نظر رکھنی چاہیے
یہ وہ وقت تھا جب کچھ عرصہ قبل عسکریت پسند گروہوں نے پاکستان میں دہشت گردی کا راج قائم کیا ہوا تھا، جس کے نتیجے میں پورے ملک میں بڑے پیمانے پر خون خرابہ ہوا۔ مساجد، امام بارگاہیں، چرچ، اسکول، پارک، جامعات، ایئر بیسز، جی ایچ کیو، حتیٰ کہ آئی ایس آئی کے بیس اور عسکری قافلے بھی ان پاکستان دشمنوں کے نشانے پر تھے۔
بعد ازاں، پاکستان نے فوج، پولیس اور سول انتظامیہ کی مشترکہ کوششوں اور عوام کے بھرپور تعاون سے دہشت گردی کے اس عفریت کا مقابلہ کیا۔ دہشت گردوں کو پسپا کرتے ہوئے شہری علاقوں سے دھکیل کر، لڑائی کو سابقہ قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں میں لے جایا گیا، جہاں فوجی آپریشنز کے ذریعے ان کا قلع قمع کیا گیا۔ جبکہ شہروں میں بہت سے سہولت کاروں کو بھی انٹیلی جنس پر مبنی کارروائیوں کے ذریعے بے اثر کیا گیا تھا۔
اب، جیسا کہ افغانستان میں حالات بگڑ رہے ہیں اور طالبان پیش قدمی کر رہے ہیں، اور نئی دہلی میں ہندوتوا نواز حکومت بیٹھی ہے، پاکستان کو اپنی سرحدوں میں دہشت گرد تنظیموں کے دوبارہ ظہور کو روکنے کےلیے محتاط رہنا ہوگا۔ دو ہفتے قبل ایک مقامی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں آئی ایس پی آر کے ترجمان نے دہشت گرد گروہوں کے سلیپنگ سیلز کی طرف سے ملک کو لاحق خطرے کی طرف اشارہ کیا۔ خاص طور پر میجر جنرل بابر افتخار نے بلوچستان میں تخریبی سرگرمیوں کے امکانات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مئی کے بعد سے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں 150 کے قریب دہشت گردی کے واقعات دیکھے گئے ہیں۔ مزید یہ کہ حالیہ داسو بس سانحہ میں دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان کی سرحدوں سے باہر جو کچھ بھی ہورہا ہے یا ہوتا چلا آیا ہے، وہ یقیناً اس ملک کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ تاہم، پاکستان کے اندرونی حالات کو تو یقینی طور پر مانیٹر کیا جاسکتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے تباہی پھیلانے سے پہلے دہشت گرد تنظیموں کے خطرات کا مقابلہ کیا جائے۔ فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ ہم عسکریت پسندوں کے خلاف فعال اور جارحانہ کارروائیاں کررہے ہیں۔ درحقیقت، آگے بڑھنے کا یہی طریقہ ہے، اس سے قبل کہ دہشت گرد گروہوں کو پھر سے اپنے ''ڈارمنٹ خلیوں'' کو فعال کرنے کا موقع مل جائے۔ لہٰذا، پاکستانی حکام کو دہشت گردی کی کارروائیوں سے قبل مشتبہ افراد کے خلاف انٹیلی جنس پر مبنی کارروائی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جہادی اور فرقہ وارانہ گروہ، جن میں سے بیشتر اگرچہ پچھلے کچھ سال میں کم پروفائل ہوئے ہیں مگر اب وہ بھی پاکستان کےلیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ اگر افغان طالبان کابل پر قبضہ کرلیتے ہیں اور وہ پاکستان میں خود کو فعال کرلیتے ہیں تو خطے میں فعال دیگر دہشت گرد تنطیموں کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی۔ لہٰذا ریاست کو مذہبی اور فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے والے 'معمول کے مشتبہ افراد' پر نظر رکھنی چاہیے، جنہوں نے ماضی میں بھی ریاست، اس کے آئین اور اس کے اداروں کو کھلے عام چیلنج کیا ہے۔
جہاں تک پاکستان دشمن غیر ملکی عناصر کا تعلق ہے، ان کی سرگرمیوں کو بھی قریب سے دیکھا جانا چاہیے اور بیرون ملک ان کے ہینڈلرز کےلیے پیغام واضح ہونا چاہیے کہ پاکستان اپنی سرحدوں میں لاقانونیت کو ہوا دینے کےلیے بنائی گئی سرگرمیوں کو برداشت نہیں کرے گا۔ نیز انتظامیہ اور سویلین و ملٹری سیکیورٹی ایجنسیوں کو دہشت گردی کے ممکنہ خطرے سے نمٹنے کےلیے اپنے منصوبوں اور اقدامات کو مربوط کرنا ہوگا۔
یہ ضروری ہے کہ پاکستان میں ایک بار پھر بے گناہوں کا خون بہانے کے قابل ہونے سے قبل ہی ان درندہ صفت دہشت گردوں و غیر ریاستی عناصر کو پکڑا جائے اور ان کا سر ایک بار پھر کچلا جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بعد ازاں، پاکستان نے فوج، پولیس اور سول انتظامیہ کی مشترکہ کوششوں اور عوام کے بھرپور تعاون سے دہشت گردی کے اس عفریت کا مقابلہ کیا۔ دہشت گردوں کو پسپا کرتے ہوئے شہری علاقوں سے دھکیل کر، لڑائی کو سابقہ قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں میں لے جایا گیا، جہاں فوجی آپریشنز کے ذریعے ان کا قلع قمع کیا گیا۔ جبکہ شہروں میں بہت سے سہولت کاروں کو بھی انٹیلی جنس پر مبنی کارروائیوں کے ذریعے بے اثر کیا گیا تھا۔
اب، جیسا کہ افغانستان میں حالات بگڑ رہے ہیں اور طالبان پیش قدمی کر رہے ہیں، اور نئی دہلی میں ہندوتوا نواز حکومت بیٹھی ہے، پاکستان کو اپنی سرحدوں میں دہشت گرد تنظیموں کے دوبارہ ظہور کو روکنے کےلیے محتاط رہنا ہوگا۔ دو ہفتے قبل ایک مقامی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں آئی ایس پی آر کے ترجمان نے دہشت گرد گروہوں کے سلیپنگ سیلز کی طرف سے ملک کو لاحق خطرے کی طرف اشارہ کیا۔ خاص طور پر میجر جنرل بابر افتخار نے بلوچستان میں تخریبی سرگرمیوں کے امکانات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مئی کے بعد سے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں 150 کے قریب دہشت گردی کے واقعات دیکھے گئے ہیں۔ مزید یہ کہ حالیہ داسو بس سانحہ میں دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان کی سرحدوں سے باہر جو کچھ بھی ہورہا ہے یا ہوتا چلا آیا ہے، وہ یقیناً اس ملک کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ تاہم، پاکستان کے اندرونی حالات کو تو یقینی طور پر مانیٹر کیا جاسکتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے تباہی پھیلانے سے پہلے دہشت گرد تنظیموں کے خطرات کا مقابلہ کیا جائے۔ فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ ہم عسکریت پسندوں کے خلاف فعال اور جارحانہ کارروائیاں کررہے ہیں۔ درحقیقت، آگے بڑھنے کا یہی طریقہ ہے، اس سے قبل کہ دہشت گرد گروہوں کو پھر سے اپنے ''ڈارمنٹ خلیوں'' کو فعال کرنے کا موقع مل جائے۔ لہٰذا، پاکستانی حکام کو دہشت گردی کی کارروائیوں سے قبل مشتبہ افراد کے خلاف انٹیلی جنس پر مبنی کارروائی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جہادی اور فرقہ وارانہ گروہ، جن میں سے بیشتر اگرچہ پچھلے کچھ سال میں کم پروفائل ہوئے ہیں مگر اب وہ بھی پاکستان کےلیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ اگر افغان طالبان کابل پر قبضہ کرلیتے ہیں اور وہ پاکستان میں خود کو فعال کرلیتے ہیں تو خطے میں فعال دیگر دہشت گرد تنطیموں کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی۔ لہٰذا ریاست کو مذہبی اور فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے والے 'معمول کے مشتبہ افراد' پر نظر رکھنی چاہیے، جنہوں نے ماضی میں بھی ریاست، اس کے آئین اور اس کے اداروں کو کھلے عام چیلنج کیا ہے۔
جہاں تک پاکستان دشمن غیر ملکی عناصر کا تعلق ہے، ان کی سرگرمیوں کو بھی قریب سے دیکھا جانا چاہیے اور بیرون ملک ان کے ہینڈلرز کےلیے پیغام واضح ہونا چاہیے کہ پاکستان اپنی سرحدوں میں لاقانونیت کو ہوا دینے کےلیے بنائی گئی سرگرمیوں کو برداشت نہیں کرے گا۔ نیز انتظامیہ اور سویلین و ملٹری سیکیورٹی ایجنسیوں کو دہشت گردی کے ممکنہ خطرے سے نمٹنے کےلیے اپنے منصوبوں اور اقدامات کو مربوط کرنا ہوگا۔
یہ ضروری ہے کہ پاکستان میں ایک بار پھر بے گناہوں کا خون بہانے کے قابل ہونے سے قبل ہی ان درندہ صفت دہشت گردوں و غیر ریاستی عناصر کو پکڑا جائے اور ان کا سر ایک بار پھر کچلا جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔