کام کی کمی گاڑیوں کے ڈینٹر پیشہ چھوڑ کرڈرائیور اور کنڈیکٹر بننے لگے
90 فیصد گاڑیوں کی انشورنس کے باعث گاڑیاں کمپنی کے رجسٹرڈ ڈینٹر کے پاس جاتی ہیں، ڈینٹروں کا موقف
نوجوانوں کی غلط اور تیز رفتار ڈرائیونگ کے سبب روزانہ 20 سے25 نئی گاڑیاں کراچی کی شاہراہوں پر مختلف چھوٹے اور بڑے حادثات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ان میں90 فیصد گاڑیوں کی انشورنس ہوتی ہے، حادثات کے بعد یہ گاڑیاں مقامی ڈینٹروں کے پاس مرمت کے بجائے واپس کمپنیوں یا ان کے رجسٹرڈ ڈینٹرز کے پاس مرمت کے لیے جاتی ہیں جس کی وجہ سے مقامی ڈینٹروں کا70 فیصد تک کام متاثر ہوا ہے، بیشتر ڈینٹر اس پیشے کو خیر آباد کہہ کر ڈرائیور اور کنڈیکٹر بن گئے ہیں۔
ایکسپریس نے کراچی میں گاڑیوں کی مرمت (ڈینٹنگ) کے پیشے سے متعلق ایک سروے کیا، سروے کے دوران لیاقت آباد میں اس پیشے سے25 سال سے منسلک ڈینٹر چوہدری محمد رضوان نے بتایا کہ کراچی میں ڈینٹنگ کے پیشے سے4 ہزار سے زائد کاریگر وابستہ ہیں اور تقریباً ایک ہزار سے زائد دکانیں ہیں، یہ دکانیں زینت اسکوائرلیاقت آباد، طارق روڈ، کیماڑی، شیریں جناح کالونی، لیاری، رنچھوڑلائن، رتن تلاؤ، پلازہ مارکیٹ ایم اے جناح روڈ، ڈیفنس، کورنگی، لانڈھی، ملیر، شاہ فیصل کالونی، اورنگی ٹاؤن، لسبیلہ روڈ، ناظم آباد، سائٹ، ماڑی پور، منگھوپیر، نیو کراچی، جمشید روڈ، جہانگیر آباد، سہراب گوٹھ اور دیگر علاقوں میں واقع ہیں، انھوں نے بتایا کہ اس پیشے سے40 فیصد اردو کمیونٹی اور60 فیصد دیگر کمیونٹی کے لوگ وابستہ ہیں، مقامی طور پر کراچی میں آباد لوگ ہی یہ کام کررہے ہیں، انھوں نے بتایا کہ اس پیشے سے وابستہ کاریگر نسل در نسل اور استاد شاگردی کے تعلق سے وابستہ ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ یہ کام انتہائی محنت طلب ہے جبکہ اس میں معاوضہ مناسب ملتا ہے، بڑے پیمانے پر جو گاڑیاں مرمت کرائی جاتی ہیں، اس میں معاوضے کی شرح زیادہ تو ہوتی ہے تاہم اس کا دورانیہ زائد ہونے کی وجہ سے اس معاوضے کی رقم قسطوں میں ملتی ہے، انھوں نے بتایا کہ جن گاڑیوں کی چھتوں، دروازوں اور دیگر حصوں میں چھوٹی موٹی ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے یہ کام کم دورانیے کا ہوتا ہے اور اس میں معاوضہ اچھا مل جاتا ہے، کراچی میں نوجوانوں میں نئی گاڑیاں خریدنے کا رجحان بڑھ گیا ہے اور قسطوں پر مختلف ماڈلز کی کاریں باآسانی مل جاتی ہیں جس کی وجہ سے سڑکوں پر نئی کاروں کی تعداد میں روزانہ اضافہ ہو رہا ہے، انھوں نے کہا کہ نوجوان نسل ڈرائیونگ کی تربیت حاصل نہیں کرتی ہے۔
نوجوان لاپروائی سے گاڑیاں چلاتے ہیں جس کے باعث گاڑیاں حادثات کا شکار ہو جاتی ہیں، ایسی نئی گاڑیاں مرمت کے لیے واپس کمپنیوں یا ان کے رجسٹرڈ ڈینٹروں کے پاس جاتی ہیں جس کی وجہ سے مقامی ڈینٹر مالی مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں، اس پیشے سے وابستہ30 فیصد ماہر کاریگر اس کام کو خیر آباد کہہ کر ڈرائیور یا کنڈیکٹر بن گئے ہیں یا وہ چنگ چی رکشہ چلا رہے ہیں، انھوں نے بتایا کہ کام کے دوران بار بار اٹھنے بیٹھنے اور لیٹ کر کام کرنے کی وجہ سے ڈینٹروں کی بڑی تعداد ریڑھ کی ہڈی کی تکلیف میں مبتلا ہو جاتی ہے، مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر ڈینٹر چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتے، انھوں نے کہا کہ ویلڈنگ پلانٹ استعمال کرنے کے دوران چشمہ نہ پہننے کی وجہ سے60 فیصد ڈینٹروں کی آنکھوں کی بینائی کمزور ہو گئی ہے اور کئی ڈینٹر آنکھوں کے امراض میں مبتلا ہو گئے ہیں، ان بیماریوں کے باعث بھی کئی ڈینٹروں نے اس پیشے کو خیر آباد کہہ دیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ڈینٹنگ کے کام میں گاڑی کے حساب سے ان کا معاوضہ بھی الگ الگ ہوتا ہے، ایک کار کی مکمل ڈینٹنگ کا معاوضہ15سے25 ہزار روپے، پبلک ٹرانسپورٹ کی مختلف گاڑیوں کا معاوضہ 35 ہزار سے ایک لاکھ روپے جبکہ مختلف بڑی کارگو گاڑیوں کا مکمل معاوضہ50 ہزارسے 3 لاکھ روپے تک لیا جاتا ہ، مقامی کاریگر کے مطابق کاروں، رکشہ، ٹیکسی اور لوڈنگ والی چھوٹی گاڑیوں کی چھوٹی موٹی ڈینٹنگ کا معاوضہ 500 سے 5000 تک لیا جاتا ہے، انھوں نے بتایا کہ ایک کار کی باڈی کے مختلف حصے10سے50 ہزار روپے تک میں مل جاتے ہیں جبکہ بڑی گاڑیوں کے باڈی کے حصوں کی قیمت 15 ہزار سے شروع ہو کر5 لاکھ روپے تک جاتی ہے۔
ایکسپریس نے کراچی میں گاڑیوں کی مرمت (ڈینٹنگ) کے پیشے سے متعلق ایک سروے کیا، سروے کے دوران لیاقت آباد میں اس پیشے سے25 سال سے منسلک ڈینٹر چوہدری محمد رضوان نے بتایا کہ کراچی میں ڈینٹنگ کے پیشے سے4 ہزار سے زائد کاریگر وابستہ ہیں اور تقریباً ایک ہزار سے زائد دکانیں ہیں، یہ دکانیں زینت اسکوائرلیاقت آباد، طارق روڈ، کیماڑی، شیریں جناح کالونی، لیاری، رنچھوڑلائن، رتن تلاؤ، پلازہ مارکیٹ ایم اے جناح روڈ، ڈیفنس، کورنگی، لانڈھی، ملیر، شاہ فیصل کالونی، اورنگی ٹاؤن، لسبیلہ روڈ، ناظم آباد، سائٹ، ماڑی پور، منگھوپیر، نیو کراچی، جمشید روڈ، جہانگیر آباد، سہراب گوٹھ اور دیگر علاقوں میں واقع ہیں، انھوں نے بتایا کہ اس پیشے سے40 فیصد اردو کمیونٹی اور60 فیصد دیگر کمیونٹی کے لوگ وابستہ ہیں، مقامی طور پر کراچی میں آباد لوگ ہی یہ کام کررہے ہیں، انھوں نے بتایا کہ اس پیشے سے وابستہ کاریگر نسل در نسل اور استاد شاگردی کے تعلق سے وابستہ ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ یہ کام انتہائی محنت طلب ہے جبکہ اس میں معاوضہ مناسب ملتا ہے، بڑے پیمانے پر جو گاڑیاں مرمت کرائی جاتی ہیں، اس میں معاوضے کی شرح زیادہ تو ہوتی ہے تاہم اس کا دورانیہ زائد ہونے کی وجہ سے اس معاوضے کی رقم قسطوں میں ملتی ہے، انھوں نے بتایا کہ جن گاڑیوں کی چھتوں، دروازوں اور دیگر حصوں میں چھوٹی موٹی ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے یہ کام کم دورانیے کا ہوتا ہے اور اس میں معاوضہ اچھا مل جاتا ہے، کراچی میں نوجوانوں میں نئی گاڑیاں خریدنے کا رجحان بڑھ گیا ہے اور قسطوں پر مختلف ماڈلز کی کاریں باآسانی مل جاتی ہیں جس کی وجہ سے سڑکوں پر نئی کاروں کی تعداد میں روزانہ اضافہ ہو رہا ہے، انھوں نے کہا کہ نوجوان نسل ڈرائیونگ کی تربیت حاصل نہیں کرتی ہے۔
نوجوان لاپروائی سے گاڑیاں چلاتے ہیں جس کے باعث گاڑیاں حادثات کا شکار ہو جاتی ہیں، ایسی نئی گاڑیاں مرمت کے لیے واپس کمپنیوں یا ان کے رجسٹرڈ ڈینٹروں کے پاس جاتی ہیں جس کی وجہ سے مقامی ڈینٹر مالی مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں، اس پیشے سے وابستہ30 فیصد ماہر کاریگر اس کام کو خیر آباد کہہ کر ڈرائیور یا کنڈیکٹر بن گئے ہیں یا وہ چنگ چی رکشہ چلا رہے ہیں، انھوں نے بتایا کہ کام کے دوران بار بار اٹھنے بیٹھنے اور لیٹ کر کام کرنے کی وجہ سے ڈینٹروں کی بڑی تعداد ریڑھ کی ہڈی کی تکلیف میں مبتلا ہو جاتی ہے، مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر ڈینٹر چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتے، انھوں نے کہا کہ ویلڈنگ پلانٹ استعمال کرنے کے دوران چشمہ نہ پہننے کی وجہ سے60 فیصد ڈینٹروں کی آنکھوں کی بینائی کمزور ہو گئی ہے اور کئی ڈینٹر آنکھوں کے امراض میں مبتلا ہو گئے ہیں، ان بیماریوں کے باعث بھی کئی ڈینٹروں نے اس پیشے کو خیر آباد کہہ دیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ڈینٹنگ کے کام میں گاڑی کے حساب سے ان کا معاوضہ بھی الگ الگ ہوتا ہے، ایک کار کی مکمل ڈینٹنگ کا معاوضہ15سے25 ہزار روپے، پبلک ٹرانسپورٹ کی مختلف گاڑیوں کا معاوضہ 35 ہزار سے ایک لاکھ روپے جبکہ مختلف بڑی کارگو گاڑیوں کا مکمل معاوضہ50 ہزارسے 3 لاکھ روپے تک لیا جاتا ہ، مقامی کاریگر کے مطابق کاروں، رکشہ، ٹیکسی اور لوڈنگ والی چھوٹی گاڑیوں کی چھوٹی موٹی ڈینٹنگ کا معاوضہ 500 سے 5000 تک لیا جاتا ہے، انھوں نے بتایا کہ ایک کار کی باڈی کے مختلف حصے10سے50 ہزار روپے تک میں مل جاتے ہیں جبکہ بڑی گاڑیوں کے باڈی کے حصوں کی قیمت 15 ہزار سے شروع ہو کر5 لاکھ روپے تک جاتی ہے۔