امریکا کی نائب صدر اور ووٹنگ مشین
حکمران ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کی تشکیل میں سنجیدہ نہیں ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتہ ٹیلیفون پر عوامی کچہری میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین کو انتخابات میں ہر قسم کی بدعنوانی کے خاتمہ کا حل بیان کیا ہے۔ انھوں نے یورپ میں مقیم ایک پاکستانی کے سوال کے جواب میں کہا کہ الیکٹرونک ووٹنگ مشین سے فوری طور پر نتیجہ آجائے گا اور ہر فریق کے خدشات دور ہوجائیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان جب شفاف انتخابات کا نسخہ بیان کررہے تھے ،اس سے 6دن قبل 26جولائی کو ملک میں انتخابات کے تمام عمل کو منظم کرنے والے آئینی ادارہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دو ممبر ریٹائر ہوگئے ۔ ان ارکان کا تعلق پنجاب اور خیبرپختون خوا سے تھا،کے ریٹائر ہونے سے الیکشن کمیشن نامکمل ہوگیا۔
اب الیکشن کمیشن اپنے سربراہ کے علاوہ دو اراکین پر مشتمل ہے۔ 1973 کے آئین کے تحت پہلے وفاقی حکومت چیف الیکشن کمشنر اور اس کے چاروں اراکین کا تقرر کرتی تھی۔ 2010میں کی گئی آئین کی 18ویں ترمیم کے تحت چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے چاروں اراکین کے شفاف تقرر کے لیے ایک طریقہ کار واضح ہوا تھا۔ 18ویں ترمیم پر پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کے نمائندوں نے جن میں تحریک انصاف کے نمائندے شامل تھے۔ اتفاق کا اظہار کیا تھا۔
اس طریقہ کار کے تحت چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے لیے وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف سے مشاورت کریں گے اور دونوں کے اتفاق رائے سے کسی نام پر اتفاق ہوگا، اگر وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف میں اتفاق نہ ہوا تو یہ معاملہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں حکومت اور حزب اختلاف کے نمائندوں پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی میں پیش ہوگا۔
اس کمیٹی میں فریقین کو مساوی نمائندگی حاصل ہوگی، اگر اس فورم پر بھی کسی نام پر اتفاق رائے نہ ہوسکا تو چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کا معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے پیش کیا جائے گا جن کا فیصلہ حتمی ہوگا۔ اسی طرح کمیٹی کے چاروں اراکین کے تقرر کے لیے وزیر اعظم قائد حزب اختلاف سے مشاورت کریں گے اور دونوں حضرات کسی نام پر متفق ہوں گے۔
اگر ایسا نہ ہوا تو یہ مسئلہ پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی کے سپرد کیا جائے گا جو دونوں ایوانوں میں حکومت اور حزب اختلاف کے نمائندوں پر مشتمل ہوگی۔ اس کمیٹی میں فریقین کو مساوی نمائندگی حاصل ہوگی۔ 2019میں چیف الیکشن کمشنر اور بلوچستان اور سندھ سے تعلق رکھنے والے ارکان ریٹائر ہوئے تو الیکشن کمیشن مکمل طور پر معطل ہوا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے پہلے قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے کسی قسم کی مشاورت سے انکار کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ قائد حزب اختلاف کرپٹ ہیں اور حزب اختلاف کے باقی اراکین بھی کرپٹ ہیں تو ان سے کوئی مشاورت نہیں ہوسکتی۔
ان کی ہدایت پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے شہباز شریف کو خط تحریر کیا۔ عمران خان کے اس غیر جمہوری رویہ کو پسند نہیں کیا گیا تھا۔ میاں شہباز شریف نے شاہ محمود قریشی کے خط کو مسترد کیا اور عمران خان شہباز شریف سے مشاورت کے لیے تیار ہوئے۔ عمران خان اور شہباز شریف میں چیف الیکشن اور الیکشن کمیشن کے اراکین کے معاملہ پر اتفاق نہ ہوا تو یہ معاملہ پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوا۔ پارلیمنٹ کی کمیٹی میں تحریک انصاف اور حزب اختلاف کے اراکین نے میرٹ پر فیصلہ کرنے کے بجائے آپس میں سمجھوتہ کرلیا۔
اس کے ساتھ ہی اچانک چیف الیکشن کمشنر کے نام پر اتفاق ہوگیا، یوں تقریباً 54دن تک الیکشن کمیشن عملی طور پر معطل رہا۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کسی صورت قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے مشاورت نہیں کریں گے ، یوں ایک دفعہ پھر الیکشن کمیشن کے دو ارکان کے تقرر کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ ریاست پر عوام کی بالادستی کا تصور اسی صورت عملی شکل اختیار کرسکتا ہے جب شفاف انتخابات کے ذریعہ منتخب اراکین اقتدار پر فائز ہوجائیں۔ شفاف انتخابات کے لیے ایک مکمل خودمختار الیکشن کمیشن کا قیام ضروری ہے۔
18ویں ترمیم کے بعد اب الیکشن کمیشن انتظامی اور مالیاتی طور پر خودمختار ہے۔ الیکشن کمیشن ووٹر لسٹ کی تیاری سے لے کر حلقہ بندیوںاور ریٹرننگ افسر، پریزائیڈنگ افسر اور پولنگ افسروں کے تقرر ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے انتخابات کے لیے شیڈول کا اعلان اور انتخابات والے دن پولنگ اور پھر ووٹوں کی گنتی پریزائیڈنگ افسروں کے فراہم کردہ نتائج کے مطابق انتخابی نتائج کے اعلان کا ذمے دار ہوتا ہے۔
صدر کے انتخابات کے انتظامات بھی الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے۔ پاکستان میں انتخابی دھاندلی کا آغاز سب سے پہلے اضلاع میں اپنے پسندیدہ امیدواروں کے پسندیدہ علاقوں کو شامل کرنے سے ہوتا ہے۔ نئے اضلاع بنانا اور ان میں مختلف علاقوں کی شمولیت کا معاملہ ضلع انتظامیہ طے کرتی ہے۔
الیکشن کمیشن ان اضلاع میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کا تعین کرتا ہے اور ووٹر لسٹ کو مکمل کرتا ہے۔ اب نادرا شناختی کارڈ کے ڈیٹا کی بنیاد پر ووٹر لسٹ ترتیب دیتا ہے مگر ووٹر لسٹ میں ناموں کے اندراج سے انتخابی بدعنوانیوں کا پہلا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندی میں سیاسی جماعتیں اثرانداز ہوتی ہیں۔
اس معاملہ میں ضلعی انتظامیہ کا بھی کردار ہوتا ہے۔ اسی طرح الیکشن کمیشن کو ریٹرننگ افسروں اور پریزائیڈنگ افسروں کے تقرر میں بھی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے 2018 کے انتخابات سے پہلے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کا فیصلہ کیا تھا۔
اس فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے پولنگ اسٹیشن میں کلوز ڈور کیمرے ،نادرا کی انتخابی فہرستیں جس میں ووٹر کی تصویر آویزاں ہوتی ہے، اسی طرح پریزائیڈنگ افسروں کی نتائج کی فوری ترسیل کے لیے RTS کا نظام شامل تھا، مگر انتخابی نتائج کے التواء ، تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں کے پولنگ اور کاؤنٹنگ ایجنٹوں کی پولنگ اسٹیشن سے بے دخلی اور RTS نظام کے اچانک معطل ہونے سے ان انتخابات میں شفافیت کا تصور سخت مجروح ہوا۔
حکومت اور حزب اختلاف نے اس دفعہ عدلیہ کے بجائے پارلیمنٹ کے ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی کے ارکان کی کمیٹی سے تحقیقات پر اتفاق ہوا تھا مگر وفاقی وزراء نے اس کمیٹی کو معطل کیا۔ اچانک الیکٹرونک ووٹنگ مشین ا قانون قومی اسمبلی سے یکطرفہ طور پر منظور ہوا مگر اب حکومت اور حزب اختلاف کے رہنما سینیٹ میں مشاورت کررہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے یہ بات تسلیم کی کہ الیکشن کمیشن کے اس قانون پر اعتراضات درست ہیں، یوں ابھی انتخابی اصلاحات کا معاملہ دور لگتا ہے۔ امریکا کی نائب صدر کملہ ہیرس کی کتاب "The Truths, An American Journey, We Hold"حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ کملہ نے اس کتاب میں الیکٹرونک مشین کا بڑا دلچسپ ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ انھیں یونیورسٹی آف مشی گن کے کمپیوٹر سائنس اور انجینئرنگ پروگرام میں مدعو کیا گیا۔ وہاں ایک پروفیسر صاحب نے پیپرلیس ووٹنگ مشین کا عملی مظاہرہ کیا۔ کملہ ہیرس کے اپنے الفاظ کچھ یوں ہیں:
"The professor simulated a vote for president, where we were given a choice between George Washington and the infamous Revolutionary War traitor Benedict Arnold. As you might imagine, all four of us voted for George Washington. But when the result came back Benedict Arnold had prevailed. The professor had used malicious code to hack the software of the voting machine in a way that assured Arnold's victory, no matter how the four of us had voted. He told us that the machine was very easily hacked, enough so that, in a demonstration elsewhere, he turned one into a video game console and played Pac-Man on it. Can you imagine?"
حکمران ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کی تشکیل میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ جب تک خودمختار الیکشن کمیشن قائم نہیں ہوتا طالع آزما قوتوں کی انتخابات میں مداخلت کو روکنے کے لیے جامع انتخابی اصلاحات نہیں ہونگی۔ اس وقت تک الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے ذریعہ شفاف انتخابات کا نعرہ محض نعرہ ہی رہے گا۔