جنسی تشدد کا نہ رکنے والا سلسلہ
وفاقی حکمران بھی اپنے بیان کے بعد اس سلسلے میں آگے نہیں بڑھے۔
ملک بھر میں جنسی تشدد کا شرمناک سلسلہ اب بڑے شہروں کے بعد چھوٹے شہروں اور گاؤں تک وسیع ہو رہا ہے اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ملک بھر ایسے شرم ناک واقعات کی خبریں میڈیا پر نظر نہ آرہی ہوں۔
اب تک وفاقی یا کسی ایک صوبائی حکومت کی طرف سے ایسا اقدام نہیں اٹھایا گیا سخت قانون نہیں بنایا گیا جس کے خوف سے جنسی درندے اپنی مکروہ حرکات سے باز آتے۔ وفاقی حکمران بھی اپنے بیان کے بعد اس سلسلے میں آگے نہیں بڑھے۔
روزنامہ ایکسپریس کی دو اندوہناک خبروں کے مطابق ضلع سانگھڑ سندھ کے گاؤں ٹھنڈی مشین میں دو لڑکوں کو اغوا کرکے برہنہ کرکے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی۔ آٹھ ملزموں نے جن کا تعلق ایک ہی برادری سے تھا دوسری برادری کے لڑکوں کو ایک اوطاق میں لے جا کر زیادتی کا نشانہ بھی بنایا۔
کھپرو پولیس نے تین ملزموں کو گرفتار کرکے باقی 5ملزموں کی تلاش شروع کردی۔ دیہی علاقوں میں برادریوں میں خونی جھگڑے ہوتے ہی رہتے ہیں مگر دوسری برادری کے لڑکوں سے زیادتی، تشدد اور شرم ناک اقدام کی ویڈیو وائرل کرنا منفرد فعل ہے جس سے برادریوں کے جھگڑے مزید بڑھیں گے اور قتل تک نوبت آئے گی۔
دوسری خبر کے مطابق کورنگی زمان ٹاؤن میں رات 9 بجے اغوا کی گئی 6 سالہ بچی کو پہلے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بعد میں لاش کچرا کنڈی میں پھینک دی گئی۔ معصوم بچی کو ناک اور منہ گھونٹ کر قتل کیا گیا جس کی گردن کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی۔
اس شرم ناک جنسی تشدد میں ملزموں کی سفاکیت کا اندازا لگایا جاسکتا ہے۔ جس ملک میں امریکی شہری ہو کر نوجوان لڑکی کو شادی سے انکار پر ملزم پہلے لڑکی کو برہنہ کرکے چاقو سے زخمی کرکے بعد میں اس کی گردن تن سے جدا کردیتا ہے اور اعتراف کے بعد اپنے وکلا کے مشورے پر قتل کی نئی کہانی بیان کرتا ہو اس بااثر ملزم سے پولیس دو روز میں کیا تفتیش کر پائی ہوگی جس کو عدالت نے جیل بھیج دیا جہاں جا کر کھرب پتی ملزم اور اس کے والدین پیسہ خرچ کرکے کون سی سہولت جیل میں حاصل نہیں کریں گے۔
یہ سوچنا حکومت کی ذمے داری ہے مگر جس ملک میں پیسے کے زور پر دبا لو یا خرید لو کی پالیسی چلتی ہو وہاں سب کچھ ہو رہا ہے جس سے دنیا میں پاکستان تماشا بن گیا ہے اور امریکی ادارہ ہماری عدلیہ پر سوال اٹھا رہا ہو اور ہماری حکومت سب کچھ جانتے بوجھتے تردید کر رہی ہو اور حکومت کو خود ملک کے وقار کا خیال نہ ہو وہاں یہی کچھ نہ صرف ہو رہا ہے بلکہ ایسے واقعات کنٹرول بھی نہیں ہو رہے۔
عثمان مرزا کے ویڈیو اسکینڈل سے ملک دنیا میں بدنام ہوا وہاں ہمارا نظام انصاف بھی دنیا دیکھ رہی ہے جہاں سنگین اور شرم ناک غیر انسانی وارداتوں کے ملزمان گرفتاری سے بچنے کے لیے ضمانتیں حاصل کرلیتے ہوں۔ جس ملک میں بااثر ہی نہیں بلکہ گاؤں کے اوباش افراد لڑکوں پر جنسی تشدد اور زیادتی کی ویڈیو بنا کر خود سوشل میڈیا پر وائرل کردیتے ہوں اور انھیں سزا کا خوف نہ ہو وہاں جنسی تشدد کا سلسلہ کیسے روکا جاسکتا ہے۔
اسلام آباد کے عثمان مرزا سے سندھ کے ایک گاؤں تک میں ملزمان اپنے شرم ناک فعل کی سوشل میڈیا پر تشہیر کرنے لگیں اور حکومت کچھ نہ کرسکے اور معاشرہ پرزور احتجاج کی بجائے صرف مذمت اور افسوس پر اکتفا کرلے وہاں جنسی جرائم حکومت نہیں بلکہ عدلیہ سے ملنے والی فوری اور کڑی سزا ہی سے جنسی تشدد کو روکا جاسکتا ہے۔ فوری سزا غیر انسانی نہیں ہوتی بلکہ انصاف کا تقاضا ہی یہی ہے کہ ایسے مجرم جلد کیفر کردار تک پہنچائے جائیں۔