سارے رنگ
میں لُٹ گیا۔۔۔ لیکن میں خوش ہوں۔۔۔!
آداب عرض کرنا خوشامدانہ چلن نہیں!
خانہ پُری
ر۔ ط ۔ م
گذشتہ دنوں ایک صاحب نے 'آداب' کرنے کو 'خوشامدانہ' اور 'دربارانہ' چلن کہہ کر ایک بھپتی کسی تو ہمیں ثمر بھائی یاد آگئے، جو 'حکومت سندھ' کے 'کورونا' کے حوالے سے ایک اشتہار پر شدید خفا تھے کہ اس میں زبانی اور اشاراتی سلام کرنے کی تلقین کے باب میں ہاتھ جوڑ کر تعظیم کرنا تو بتا دی گئی، لیکن دایاں ہاتھ ماتھے تک اٹھا کر ہاتھ سے سلام کرنے کی ایک تہذیبی روایت کا تذکرہ یک سر گول کر دیا ہے۔۔۔ ہم نے اخباری اشتہار دیکھا، تو واقعی ایسا ہی تھا، ہمیں اس پر تعجب ہوا بھی اورپھر نہیں بھی ہوا کہ شاید توقع ہی یہی تھی۔۔۔
مگر 'آداب' عرض کرنے کو خوشامدی اور درباری طور قرار دینے پر ہم ضرور کچھ عرض کرنا چاہیں گے۔ چوں کہ دائیں ہاتھ کو ہتھیلی کے رخ سے چہرے کی طرف کر کے اسے ماتھے تک اٹھانا، اس کے ساتھ ساتھ گردن یا کمر کو خمیدہ کرنا یا جھکانا اگرچہ تعظیم کا ایک بھرپور اور خوب صورت اظہار ہے۔۔۔ شاید بہت سے بادشاہوں نے اپنے دربار میں آنے والے عامیوں کے لیے یہ لازمی بھی کیا ہو تو وہاں تو یقیناً یہ ایک جبر اور خوشامدی یا درباری رویہ ہے۔
جس میں 'عالی جاہ' کی داد وتحسین سے لے کر ان کی تعریف وتوصیف کے وہ جھوٹے ڈونگرے بھی شامل کیے جا سکتے ہیں، جو کہ بہت سے بادشاہوں کے دربار میں روا رکھے جاتے تھے، لیکن اس کی آڑ میں ایک تہذیبی وصف کو صرف اسی وجہ سے خوشامد یا دربار کی چھاپ لگا دینا ہمارے خیال میں خاصی نا انصافی ہے۔۔۔ کچھ لوگ اِسے صرف لکھنؤ کی تہذیب کا خاصہ شمار کرتے ہیں۔
اور دبستان لکھنؤ کی مرصع اور ثقیل اردو کی طرح اس میں بھی 'تصنع' اور 'بناوٹ' کا رنگ کہہ کر آداب عرض کرنے کے تہذیبی وصف کو بھی بالکل قبول نہیں کرتے۔۔۔ جب کہ ہمارا آبائی تعلق تو دلی سے ہے اور ہمارے والدین کراچی میں ہی پیدا ہوئے، لیکن اس کے باوجود ہمیں بچپن میں بڑون کو آداب کرنا سکھایا گیا۔ ہمیں آج بھی اپنے نانا جی کو جھک کر آداب عرض کرنا خوب یاد ہے۔۔۔ گویا یہ چھوٹوں کی طرف سے اپنے بزرگوں اور بڑوں کو مرتبہ دینے اور ان کی بڑائی تسلیم کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا گیا۔
کچھ لوگ اِسے سلام کا متبادل کہہ کر بھی اس پر اعتراضات کرنے لگتے ہیں، لیکن ہمارے خیال میں سلام اپنی جگہ ہے اور آداب کا اپنا ایک مقام ہے۔۔۔ بھئی ہمارے مشاعروں میں جب تک تہذیب کا چلن رہا، تب تک شاعر سامعین کی 'واہ واہ'، 'کیا کہنے' اور 'سبحان اللہ' کے جواب میں آداب کر کے ہی اِن سے اظہار تشکر کیا کرتا تھا، بہت سے وضع دار شعرا آج بھی یہ چلن اپنائے ہوئے ہیں۔۔۔ اِسے آپ کسی فن پر تعریف کے جواب میں شکریے کا ایک نہایت تہذیبی طریقہ بھی کہہ سکتے ہیں۔
کیوں کہ نصرت فتح علی خان بھی ایک تقریب میں اپنی توصیف کا جواب ایسے ہی دیتے ہیں، حالاں کہ ان کا تعلق لکھنؤ یا 'یو پی' اور 'سی پی' وغیرہ سے نہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آداب کو 'درباری' یا 'خوشامدی' چلن قرار دینا درست بات نہیں۔ یہی نہیں بہت سے گھرانے عید کی مبارک باد دینے کے لیے بھی آداب کرتے ہیں اور پان کا بیڑہ اٹھا کر آداب عرض کرنا تو مہمان داری کی بھی ایک روایت رہی ہے۔ بچے اپنے بزرگوں سے عیدی لے کر آداب کرتے ہیں، کسی سے تحفہ وصول کرنے کے بعد بھی آداب عرض کیا جاتا ہے۔۔۔ یہ سامنے والے کی پذیرائی اور اُسے بھرپور مقام دینے کی ایک دل نشیں سی ادا ہے۔
اس لیے آداب کرنے کو صرف خوشامدانہ طرز قرار دینا ہمارے خیال میں خاصا غیر مناسب طرز عمل ہے۔ یہ تو ہمارے گھروں سے لے کر ہماری معاشرت تک کا ایک ایسا تہذیبی اور ثقافتی جزو ہے کہ جس کا عزت واحترام سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اتنا گہرا تعلق کہ ہم اکثر 'ادب وآداب' کی ترکیب استعمال کرتے ہیں، یعنی آداب عرض کرنا کسی کو عزت دینے سے براہ راست منسلک عمل قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے اسے غلط کہہ کر دھتکارنے کے بہ جائے اپنانے کی ضرورت ہے، کیوں کہ سماج میں جب ہم اپنے بڑوں کی اور اپنوں سے اِس خلوص اور اپنائیت کا بھرپور اظہار کرتے ہیں، تو دوسرے کے دل میں ہمارے لیے بھی عزت اور اچھے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
۔۔۔
میں لُٹ گیا۔۔۔ لیکن میں خوش ہوں۔۔۔!
نواب مشتاق احمد خان
جنوری 1948ء میں ایبٹ آباد سے واپسی پر میں نے چند روز پھر راول پنڈی میں قیام کیا۔ اسی دوران آزادی کے بعد عید میلادالنبی کی متبرک تقریب پہلی بار منائی گئی۔ خون کے دریاؤں کو پار کر کے اور عزیز و اقارب اور اپنے پیاروں کو مسخ شدہ نعشوں کی چھوٹی بڑی پہاڑیوں کو عبور کر کے مہاجرین کو سرزمین پاکستان میں آکر چند مہینے ہی ہوئے تھے۔ اس موقع پر عوام میں بڑا جوش اور جذبہ تھا۔ افواج پاکستان کے چھوٹے بڑے جلوس شہر کی سڑکوں اور بازاروں میں سے گزر رہے تھے۔
میں بھی جلوس دیکھنے کے لیے ایک جگہ کھڑا ہوگیا۔ میرے پاس ہی ایک سفید ریش بزرگ پھٹے پرانے کپڑے پہنے کھڑا تھا۔ جیسے ہی فوج کا ایک دستہ اﷲ اکبر کے نعرے بلند کرتا اور درود و سلام پڑھتا ہوا پاس سے گزرا، اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ یہ سماں دیکھ کر ایک نوجوان جو پاس ہی کھڑا تھا ان سے مخاطب ہو کر بولا ''بھائی صاحب، یہ تو خوشی کا موقع ہے۔
آپ روتے کیوں ہیں؟'' سفید ریش بزرگ نے آنسوؤں کے سیلاب میں بہتے ہوئے جواب دیا: ''عزیز من، یہ رنج کے نہیں۔ یہ خوشی اور مسرت کے آنسو ہیں۔ ورنہ وحدۂ لاشریک کی قسم ۔ محمد رسول اﷲ ﷺ کے اس غلام کے پاس رنج کے آنسو بہانے کے لیے کافی جواز ہے۔ بیٹا، تم یقین مانو کہ یہ ناچیز گناہ گار، جو آپ کے سامنے کھڑا ہے، بھِک منگا نہیں ہے۔ وہ 'چاندنی چوک' دہلی کا ایک خوش حال سوداگر تھا، لیکن اب اس کے پاس ان چیتھڑوں کے سوا کچھ نہیں، جو اس کی سَتر پوشی کر رہے ہیں۔ اس کی دکان کو نذر آتش اور اس کے جدی مکان کو ملیا میٹ کر دیا گیا۔ ساری عمر کی پونجی لوٹ لی گئی۔ اس کی گھر والی کو ظالموں نے اس کے سامنے قیمہ قیمہ کر ڈالا۔ اس کی جوان بیٹی کو اس کی آنکھوں کے سامنے پکڑ کر لے گئے۔
اس کے دودھ پیتے بچے کا جو حشر کیا اس کو بیان کرنے کی اس میں طاقت نہیں۔ عزیز من، میں ضرورت مند ہوں، مظلوم ہوں، اﷲ کی اس وسیع دنیا میں تنہا اور بے یار ومددگار ہوں، لیکن باوجود اس کے میں خوش ہوں ۔ اپنے کانوں سے سروَر دوعالم ﷺ پر درود و سلام سن رہا ہوں۔ الحمدﷲ سب کچھ کھونے کے بعد میں راضی برضا ہوں۔ میرا ایمان الحمدﷲ سلامت ہے اور میں اپنے آپ کو خسارہ میں نہیں پاتا۔'' سوال کرنے والا نوجوان یہ سن کر اس عمر رسیدہ بزرگ سے لپٹ گیا۔ آس پاس جتنے بھی لوگ تھے ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ (خود نوشت ''کاروان حیات'' کا ایک ورق)
۔۔۔
''تمھارے لیے پاکستان بن گیا ہے، وہاں چلے جاؤ!''
شاہد احمد دہلوی
ایک دوست کی وساطت سے دلّی کا ایک چکر لگانے کا موقع ملا۔ اخباروں کے ذریعے معلوم ہوا تھا کہ دلّی کی ساری مسجدیں خالی کرا لی گئی ہیں، لیکن دیکھا یہ کہ آدھی سے زیادہ اب بھی آباد ہیں۔ پولیس انھیں آکر نکال جاتی ہے اور تالا توڑ کر یہ پھر آباد ہو جاتے ہیں، جو مسجدیں شہید کر دی گئیں، وہاں ان کے اب آثار بھی باقی نہیں ہیں۔ 'چرخے والان' کی سرخ پتھر کی مسجد کا اب کوئی نشان باقی نہیں۔ ایک صاحب نے وہاں گھر یا مندر تعمیر کرانا شروع کر دیا تھا، مگر حکومت نے تعمیر رکوا دی۔ 'پہاڑ گنج' اور 'سبزی منڈی' میں سب مسجدیں آباد ہیں۔
ان کے نل اور بجلی کے سلسلے کاٹ دیے گئے ہیں، لیکن مکین اب بھی انھیں نہیں چھوڑتے۔۔۔ چھوڑیں تو جائیں کہاں۔۔۔؟ مسلمانوں کے جتنے مکان تھے، ان پر قبضے پہلے کیے جا چکے تھے، جو بچے ہوئے تھے، ان پر 'کسٹوڈین' کا قبضہ ہوگیا، پھر مسلمانوں نے خود پیشگی کرائے اور پگڑیاں لے کر 'شرنارتھیوں' کو آباد کر دیا کہ 'کسٹوڈین' کی گھتی میں جائیداد نہ پڑ جائے۔
دلّی میں امن کی خبریں سن کر اکثر دلّی والے پاکستان سے واپس آرہے تھے، لیکن ان کے رہنے کے لیے مکان نہیں تھے، جو ان کے ذاتی مکان تھے وہ یا تو 'شرنارتھیوں' کو الاٹ ہو چکے تھے یا شرنارتھیوں سے کچھ لے کر خود مسلمانوں نے انھیں بسا دیا تھا۔ ان کے خالی ہونے کی کوئی صورت نہیں تھی اور حکومت نے بھی اعلان کر دیا تھا کہ مکان واپس نہیں دلائے جا سکتے۔ واپس آنے والے مسلمان مارے مارے پھررہے تھے، جو صاحبِ جائیداد تھے، وہ چاہتے تھے کہ اپنی جائیدادیں بیچ ڈالیں، تو حکومت اس کی بھی اجازت نہیں دیتی تھی۔
نہ بیچنے کی اور نہ تبادلے کی۔ اس بات میں حکومت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا اور نہ اب تک کوئی فیصلہ ہوا ہے۔ کہا یہ جاتا تھا کہ انکم ٹیکس والوں سے واجبات سے بری الذمہ ہونے کا سرٹیفکیٹ لے آؤ تو جائیداد بک سکتی ہے، لیکن ان کے باوجود 'کسٹوڈین' کی طرف سے اجازت نہیں ملتی۔ اس کے برخلاف کراچی میں ہندوؤں نے اپنی جائیدادیں اور کاروبار خوب پگڑیاں لے لے کر بڑے بڑے منافعوں پر بچیں اور گھر کی ایک ایک چیز پورے داموں پر فروخت کی۔ حد یہ کہ جھاڑو تک بیچی اور آرام سے پاکستان کو اور جناح کو کوستے اور گالیاں دیتے ہوئے بمبئی روانہ ہوگئے۔
کراچی میں مجال ہے کسی کی کہ کسی گھر پر قبضہ تو کرلے، اسی وقت پولیس آکر ہتھکڑی لگا دیتی ہے۔ دلّی میں مسلمانوں کو زبردستی گھروں سے نکال کر 'شرتارتھی' بس جاتے ہیں اور جو تھانہ پولیس کرو تو یہی مشورہ دیا جاتا ہے کہ ''تمھارے لیے پاکستان بن گیا ہے، وہاں چلے جاؤ اور ان غریبوں کو یہاں رہنے دو، خوشی سے نہیں تو ناخوشی سے رہنے دوگے۔ زندہ چلے جاؤ، ورنہ کوئی مار مور دے گا۔''
(مشہور تصنیف 'دلی کی بپتا' سے ماخوذ)
۔۔۔
ایک تصوراتی 'یوم آزادی'
ڈاکٹر فرید اللہ صدیقی
آج 14 اگست 2047ء ہے۔۔۔ آج سے ٹھیک 100 سال پہلے 14 اگست 1947ء کو ہمارے عظیم قائد محمد علی جناح کی ان تھک جدوجہد اور اس وقت کے اکابرین اور برِصغیر کے لاکھوں مسلمانوں کی بے لوث اور پرجوش تحریک کے نتیجے میںہمارا پیارا وطن پاکستان عالم وجود میں آیا تھا۔
آج ہمارے لیے یہ بات کتنی مسرت اور اطمینان کی ہے کہ ہماری مسلسل جدوجہد اور اقوام عالم کے سامنے اپنا جائز حق اور مطالبہ و مقدمہ پیش کرنے کے بعدہم نے اس خطۂ زمین پر کہ جہاں کہ مسلم آبادی نے اپنی ولولہ انگیز تحریک اور جدوجہد سے یہاں پاکستانی پرچم لہرا دیا۔ حق کا ہمیشہ بول بالا ہوتا ہے، آج کشمیر بھی ہمارا ہے۔ یعنی 'کشمیر بن گیا پاکستان!' الحمد اللہ، ہماری محنت اور سچائی کام آئی، آج ہم اس شہید برھان وانی اسٹیڈیم (سری نگر) میں بلا خوف وخطر اپنے معبودِ حقیقی کے سامنے سجدہ زیر ہو کر اپنی اِس کام یابی پر فخر کر سکتے ہیں۔ آج یہاں کسی کو قابض افواج کا خوف نہیں ہے!
گزشتہ دہائیوں میں پاکستانی قوم نے اپنے صراط مستقیم پر چلنے والے بلند سوچ اور اپنے آپ کو پاکستان کی سربلندی کے لیے وقف کرنے والے سربراہان کی راہ نمائی میں ترقی کر کے آسمان کو چھو لیا ہے، اس ضمن میں مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے اور فخر ہے کہ ایک ہفتے پہلے ہمارے خلائی ادارے 'سپارکو' نے اپنے جدید ترقی یافتہ راکٹ 'بدر' پر سوار کر کے خلانورد کو چاند پر اتارا۔۔۔ آج دنیا جہاں سے لوگ امیگریشن، تعلیم اور کاروبار کے لیے پاکستانی ویزے کے حصول کے لیے سر گرداں رہتے ہیں، مقام شکر ہے کہ آج پاکستان کا شمار کرپشن سے پاک انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔
پانی، بجلی اور گیس کا بحران قصۂ پارینہ بن چکا ہے، ہماری کرنسی کا شمار مضبوط ترین کرنسی میں ہوتا ہے، آج ہم اپنے عظیم ملک کے تمام صوبوں کو جس میں نیا صوبہ کشمیر بھی شامل ہے، تیز رفتار بلٹ ٹرین سے منسلک ہیں، سیاسی بصیرت اور حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے اور اپنی طاقت اور اقتصادی مضبوطی کے بل بوتے پر ہم نے اقوام متحدہ کی تنظیم میں ویٹو کا حق بھی حاصل کر لیا ہے، یہ ساری ترقی جو میں بیان کر رہا ہوں۔
وہ اب سے پہلے ایک خواب کی طرح دکھائی دیتا تھا، مگر جیسے شاعر مشرق علامہ اقبال نے 1930ء کے خطبہ الہ آباد کے خواب کو سچ کر دکھایا، جس میں ہمارے قائد اور دیگر اکابرین ہندوستان کی جدوجہد شامل تھی، اسی طرح گزشتہ سالوں میں گزرے ہوئے اور موجودہ سیاسی دیگر شعبوں کے مفکرین نے آج پاکستان کو مضبوط مستحکم اور ترقی یافتہ ملک بنا دیا ہے۔ آپ سے رخصت ہونے سے پہلے ایک خوش خبری اور سنانا چاہتا ہوں کہ 'ورلڈ اولمپک کمیٹی' نے ہماری درخواست پر ہمارے ملک پاکستان اور یہاں کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد اس بات کا فیصلہ کر لیا ہے کہ اگلے اولمپک مقابلے پاکستان میں منعقد کرائے جائیں گے۔ اللہ ہم سب کو یوں ہی ترقی کی شاہ راہ پر گام زن رکھے، آمین۔
خانہ پُری
ر۔ ط ۔ م
گذشتہ دنوں ایک صاحب نے 'آداب' کرنے کو 'خوشامدانہ' اور 'دربارانہ' چلن کہہ کر ایک بھپتی کسی تو ہمیں ثمر بھائی یاد آگئے، جو 'حکومت سندھ' کے 'کورونا' کے حوالے سے ایک اشتہار پر شدید خفا تھے کہ اس میں زبانی اور اشاراتی سلام کرنے کی تلقین کے باب میں ہاتھ جوڑ کر تعظیم کرنا تو بتا دی گئی، لیکن دایاں ہاتھ ماتھے تک اٹھا کر ہاتھ سے سلام کرنے کی ایک تہذیبی روایت کا تذکرہ یک سر گول کر دیا ہے۔۔۔ ہم نے اخباری اشتہار دیکھا، تو واقعی ایسا ہی تھا، ہمیں اس پر تعجب ہوا بھی اورپھر نہیں بھی ہوا کہ شاید توقع ہی یہی تھی۔۔۔
مگر 'آداب' عرض کرنے کو خوشامدی اور درباری طور قرار دینے پر ہم ضرور کچھ عرض کرنا چاہیں گے۔ چوں کہ دائیں ہاتھ کو ہتھیلی کے رخ سے چہرے کی طرف کر کے اسے ماتھے تک اٹھانا، اس کے ساتھ ساتھ گردن یا کمر کو خمیدہ کرنا یا جھکانا اگرچہ تعظیم کا ایک بھرپور اور خوب صورت اظہار ہے۔۔۔ شاید بہت سے بادشاہوں نے اپنے دربار میں آنے والے عامیوں کے لیے یہ لازمی بھی کیا ہو تو وہاں تو یقیناً یہ ایک جبر اور خوشامدی یا درباری رویہ ہے۔
جس میں 'عالی جاہ' کی داد وتحسین سے لے کر ان کی تعریف وتوصیف کے وہ جھوٹے ڈونگرے بھی شامل کیے جا سکتے ہیں، جو کہ بہت سے بادشاہوں کے دربار میں روا رکھے جاتے تھے، لیکن اس کی آڑ میں ایک تہذیبی وصف کو صرف اسی وجہ سے خوشامد یا دربار کی چھاپ لگا دینا ہمارے خیال میں خاصی نا انصافی ہے۔۔۔ کچھ لوگ اِسے صرف لکھنؤ کی تہذیب کا خاصہ شمار کرتے ہیں۔
اور دبستان لکھنؤ کی مرصع اور ثقیل اردو کی طرح اس میں بھی 'تصنع' اور 'بناوٹ' کا رنگ کہہ کر آداب عرض کرنے کے تہذیبی وصف کو بھی بالکل قبول نہیں کرتے۔۔۔ جب کہ ہمارا آبائی تعلق تو دلی سے ہے اور ہمارے والدین کراچی میں ہی پیدا ہوئے، لیکن اس کے باوجود ہمیں بچپن میں بڑون کو آداب کرنا سکھایا گیا۔ ہمیں آج بھی اپنے نانا جی کو جھک کر آداب عرض کرنا خوب یاد ہے۔۔۔ گویا یہ چھوٹوں کی طرف سے اپنے بزرگوں اور بڑوں کو مرتبہ دینے اور ان کی بڑائی تسلیم کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا گیا۔
کچھ لوگ اِسے سلام کا متبادل کہہ کر بھی اس پر اعتراضات کرنے لگتے ہیں، لیکن ہمارے خیال میں سلام اپنی جگہ ہے اور آداب کا اپنا ایک مقام ہے۔۔۔ بھئی ہمارے مشاعروں میں جب تک تہذیب کا چلن رہا، تب تک شاعر سامعین کی 'واہ واہ'، 'کیا کہنے' اور 'سبحان اللہ' کے جواب میں آداب کر کے ہی اِن سے اظہار تشکر کیا کرتا تھا، بہت سے وضع دار شعرا آج بھی یہ چلن اپنائے ہوئے ہیں۔۔۔ اِسے آپ کسی فن پر تعریف کے جواب میں شکریے کا ایک نہایت تہذیبی طریقہ بھی کہہ سکتے ہیں۔
کیوں کہ نصرت فتح علی خان بھی ایک تقریب میں اپنی توصیف کا جواب ایسے ہی دیتے ہیں، حالاں کہ ان کا تعلق لکھنؤ یا 'یو پی' اور 'سی پی' وغیرہ سے نہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آداب کو 'درباری' یا 'خوشامدی' چلن قرار دینا درست بات نہیں۔ یہی نہیں بہت سے گھرانے عید کی مبارک باد دینے کے لیے بھی آداب کرتے ہیں اور پان کا بیڑہ اٹھا کر آداب عرض کرنا تو مہمان داری کی بھی ایک روایت رہی ہے۔ بچے اپنے بزرگوں سے عیدی لے کر آداب کرتے ہیں، کسی سے تحفہ وصول کرنے کے بعد بھی آداب عرض کیا جاتا ہے۔۔۔ یہ سامنے والے کی پذیرائی اور اُسے بھرپور مقام دینے کی ایک دل نشیں سی ادا ہے۔
اس لیے آداب کرنے کو صرف خوشامدانہ طرز قرار دینا ہمارے خیال میں خاصا غیر مناسب طرز عمل ہے۔ یہ تو ہمارے گھروں سے لے کر ہماری معاشرت تک کا ایک ایسا تہذیبی اور ثقافتی جزو ہے کہ جس کا عزت واحترام سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اتنا گہرا تعلق کہ ہم اکثر 'ادب وآداب' کی ترکیب استعمال کرتے ہیں، یعنی آداب عرض کرنا کسی کو عزت دینے سے براہ راست منسلک عمل قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے اسے غلط کہہ کر دھتکارنے کے بہ جائے اپنانے کی ضرورت ہے، کیوں کہ سماج میں جب ہم اپنے بڑوں کی اور اپنوں سے اِس خلوص اور اپنائیت کا بھرپور اظہار کرتے ہیں، تو دوسرے کے دل میں ہمارے لیے بھی عزت اور اچھے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
۔۔۔
میں لُٹ گیا۔۔۔ لیکن میں خوش ہوں۔۔۔!
نواب مشتاق احمد خان
جنوری 1948ء میں ایبٹ آباد سے واپسی پر میں نے چند روز پھر راول پنڈی میں قیام کیا۔ اسی دوران آزادی کے بعد عید میلادالنبی کی متبرک تقریب پہلی بار منائی گئی۔ خون کے دریاؤں کو پار کر کے اور عزیز و اقارب اور اپنے پیاروں کو مسخ شدہ نعشوں کی چھوٹی بڑی پہاڑیوں کو عبور کر کے مہاجرین کو سرزمین پاکستان میں آکر چند مہینے ہی ہوئے تھے۔ اس موقع پر عوام میں بڑا جوش اور جذبہ تھا۔ افواج پاکستان کے چھوٹے بڑے جلوس شہر کی سڑکوں اور بازاروں میں سے گزر رہے تھے۔
میں بھی جلوس دیکھنے کے لیے ایک جگہ کھڑا ہوگیا۔ میرے پاس ہی ایک سفید ریش بزرگ پھٹے پرانے کپڑے پہنے کھڑا تھا۔ جیسے ہی فوج کا ایک دستہ اﷲ اکبر کے نعرے بلند کرتا اور درود و سلام پڑھتا ہوا پاس سے گزرا، اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ یہ سماں دیکھ کر ایک نوجوان جو پاس ہی کھڑا تھا ان سے مخاطب ہو کر بولا ''بھائی صاحب، یہ تو خوشی کا موقع ہے۔
آپ روتے کیوں ہیں؟'' سفید ریش بزرگ نے آنسوؤں کے سیلاب میں بہتے ہوئے جواب دیا: ''عزیز من، یہ رنج کے نہیں۔ یہ خوشی اور مسرت کے آنسو ہیں۔ ورنہ وحدۂ لاشریک کی قسم ۔ محمد رسول اﷲ ﷺ کے اس غلام کے پاس رنج کے آنسو بہانے کے لیے کافی جواز ہے۔ بیٹا، تم یقین مانو کہ یہ ناچیز گناہ گار، جو آپ کے سامنے کھڑا ہے، بھِک منگا نہیں ہے۔ وہ 'چاندنی چوک' دہلی کا ایک خوش حال سوداگر تھا، لیکن اب اس کے پاس ان چیتھڑوں کے سوا کچھ نہیں، جو اس کی سَتر پوشی کر رہے ہیں۔ اس کی دکان کو نذر آتش اور اس کے جدی مکان کو ملیا میٹ کر دیا گیا۔ ساری عمر کی پونجی لوٹ لی گئی۔ اس کی گھر والی کو ظالموں نے اس کے سامنے قیمہ قیمہ کر ڈالا۔ اس کی جوان بیٹی کو اس کی آنکھوں کے سامنے پکڑ کر لے گئے۔
اس کے دودھ پیتے بچے کا جو حشر کیا اس کو بیان کرنے کی اس میں طاقت نہیں۔ عزیز من، میں ضرورت مند ہوں، مظلوم ہوں، اﷲ کی اس وسیع دنیا میں تنہا اور بے یار ومددگار ہوں، لیکن باوجود اس کے میں خوش ہوں ۔ اپنے کانوں سے سروَر دوعالم ﷺ پر درود و سلام سن رہا ہوں۔ الحمدﷲ سب کچھ کھونے کے بعد میں راضی برضا ہوں۔ میرا ایمان الحمدﷲ سلامت ہے اور میں اپنے آپ کو خسارہ میں نہیں پاتا۔'' سوال کرنے والا نوجوان یہ سن کر اس عمر رسیدہ بزرگ سے لپٹ گیا۔ آس پاس جتنے بھی لوگ تھے ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ (خود نوشت ''کاروان حیات'' کا ایک ورق)
۔۔۔
''تمھارے لیے پاکستان بن گیا ہے، وہاں چلے جاؤ!''
شاہد احمد دہلوی
ایک دوست کی وساطت سے دلّی کا ایک چکر لگانے کا موقع ملا۔ اخباروں کے ذریعے معلوم ہوا تھا کہ دلّی کی ساری مسجدیں خالی کرا لی گئی ہیں، لیکن دیکھا یہ کہ آدھی سے زیادہ اب بھی آباد ہیں۔ پولیس انھیں آکر نکال جاتی ہے اور تالا توڑ کر یہ پھر آباد ہو جاتے ہیں، جو مسجدیں شہید کر دی گئیں، وہاں ان کے اب آثار بھی باقی نہیں ہیں۔ 'چرخے والان' کی سرخ پتھر کی مسجد کا اب کوئی نشان باقی نہیں۔ ایک صاحب نے وہاں گھر یا مندر تعمیر کرانا شروع کر دیا تھا، مگر حکومت نے تعمیر رکوا دی۔ 'پہاڑ گنج' اور 'سبزی منڈی' میں سب مسجدیں آباد ہیں۔
ان کے نل اور بجلی کے سلسلے کاٹ دیے گئے ہیں، لیکن مکین اب بھی انھیں نہیں چھوڑتے۔۔۔ چھوڑیں تو جائیں کہاں۔۔۔؟ مسلمانوں کے جتنے مکان تھے، ان پر قبضے پہلے کیے جا چکے تھے، جو بچے ہوئے تھے، ان پر 'کسٹوڈین' کا قبضہ ہوگیا، پھر مسلمانوں نے خود پیشگی کرائے اور پگڑیاں لے کر 'شرنارتھیوں' کو آباد کر دیا کہ 'کسٹوڈین' کی گھتی میں جائیداد نہ پڑ جائے۔
دلّی میں امن کی خبریں سن کر اکثر دلّی والے پاکستان سے واپس آرہے تھے، لیکن ان کے رہنے کے لیے مکان نہیں تھے، جو ان کے ذاتی مکان تھے وہ یا تو 'شرنارتھیوں' کو الاٹ ہو چکے تھے یا شرنارتھیوں سے کچھ لے کر خود مسلمانوں نے انھیں بسا دیا تھا۔ ان کے خالی ہونے کی کوئی صورت نہیں تھی اور حکومت نے بھی اعلان کر دیا تھا کہ مکان واپس نہیں دلائے جا سکتے۔ واپس آنے والے مسلمان مارے مارے پھررہے تھے، جو صاحبِ جائیداد تھے، وہ چاہتے تھے کہ اپنی جائیدادیں بیچ ڈالیں، تو حکومت اس کی بھی اجازت نہیں دیتی تھی۔
نہ بیچنے کی اور نہ تبادلے کی۔ اس بات میں حکومت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا اور نہ اب تک کوئی فیصلہ ہوا ہے۔ کہا یہ جاتا تھا کہ انکم ٹیکس والوں سے واجبات سے بری الذمہ ہونے کا سرٹیفکیٹ لے آؤ تو جائیداد بک سکتی ہے، لیکن ان کے باوجود 'کسٹوڈین' کی طرف سے اجازت نہیں ملتی۔ اس کے برخلاف کراچی میں ہندوؤں نے اپنی جائیدادیں اور کاروبار خوب پگڑیاں لے لے کر بڑے بڑے منافعوں پر بچیں اور گھر کی ایک ایک چیز پورے داموں پر فروخت کی۔ حد یہ کہ جھاڑو تک بیچی اور آرام سے پاکستان کو اور جناح کو کوستے اور گالیاں دیتے ہوئے بمبئی روانہ ہوگئے۔
کراچی میں مجال ہے کسی کی کہ کسی گھر پر قبضہ تو کرلے، اسی وقت پولیس آکر ہتھکڑی لگا دیتی ہے۔ دلّی میں مسلمانوں کو زبردستی گھروں سے نکال کر 'شرتارتھی' بس جاتے ہیں اور جو تھانہ پولیس کرو تو یہی مشورہ دیا جاتا ہے کہ ''تمھارے لیے پاکستان بن گیا ہے، وہاں چلے جاؤ اور ان غریبوں کو یہاں رہنے دو، خوشی سے نہیں تو ناخوشی سے رہنے دوگے۔ زندہ چلے جاؤ، ورنہ کوئی مار مور دے گا۔''
(مشہور تصنیف 'دلی کی بپتا' سے ماخوذ)
۔۔۔
ایک تصوراتی 'یوم آزادی'
ڈاکٹر فرید اللہ صدیقی
آج 14 اگست 2047ء ہے۔۔۔ آج سے ٹھیک 100 سال پہلے 14 اگست 1947ء کو ہمارے عظیم قائد محمد علی جناح کی ان تھک جدوجہد اور اس وقت کے اکابرین اور برِصغیر کے لاکھوں مسلمانوں کی بے لوث اور پرجوش تحریک کے نتیجے میںہمارا پیارا وطن پاکستان عالم وجود میں آیا تھا۔
آج ہمارے لیے یہ بات کتنی مسرت اور اطمینان کی ہے کہ ہماری مسلسل جدوجہد اور اقوام عالم کے سامنے اپنا جائز حق اور مطالبہ و مقدمہ پیش کرنے کے بعدہم نے اس خطۂ زمین پر کہ جہاں کہ مسلم آبادی نے اپنی ولولہ انگیز تحریک اور جدوجہد سے یہاں پاکستانی پرچم لہرا دیا۔ حق کا ہمیشہ بول بالا ہوتا ہے، آج کشمیر بھی ہمارا ہے۔ یعنی 'کشمیر بن گیا پاکستان!' الحمد اللہ، ہماری محنت اور سچائی کام آئی، آج ہم اس شہید برھان وانی اسٹیڈیم (سری نگر) میں بلا خوف وخطر اپنے معبودِ حقیقی کے سامنے سجدہ زیر ہو کر اپنی اِس کام یابی پر فخر کر سکتے ہیں۔ آج یہاں کسی کو قابض افواج کا خوف نہیں ہے!
گزشتہ دہائیوں میں پاکستانی قوم نے اپنے صراط مستقیم پر چلنے والے بلند سوچ اور اپنے آپ کو پاکستان کی سربلندی کے لیے وقف کرنے والے سربراہان کی راہ نمائی میں ترقی کر کے آسمان کو چھو لیا ہے، اس ضمن میں مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے اور فخر ہے کہ ایک ہفتے پہلے ہمارے خلائی ادارے 'سپارکو' نے اپنے جدید ترقی یافتہ راکٹ 'بدر' پر سوار کر کے خلانورد کو چاند پر اتارا۔۔۔ آج دنیا جہاں سے لوگ امیگریشن، تعلیم اور کاروبار کے لیے پاکستانی ویزے کے حصول کے لیے سر گرداں رہتے ہیں، مقام شکر ہے کہ آج پاکستان کا شمار کرپشن سے پاک انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔
پانی، بجلی اور گیس کا بحران قصۂ پارینہ بن چکا ہے، ہماری کرنسی کا شمار مضبوط ترین کرنسی میں ہوتا ہے، آج ہم اپنے عظیم ملک کے تمام صوبوں کو جس میں نیا صوبہ کشمیر بھی شامل ہے، تیز رفتار بلٹ ٹرین سے منسلک ہیں، سیاسی بصیرت اور حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے اور اپنی طاقت اور اقتصادی مضبوطی کے بل بوتے پر ہم نے اقوام متحدہ کی تنظیم میں ویٹو کا حق بھی حاصل کر لیا ہے، یہ ساری ترقی جو میں بیان کر رہا ہوں۔
وہ اب سے پہلے ایک خواب کی طرح دکھائی دیتا تھا، مگر جیسے شاعر مشرق علامہ اقبال نے 1930ء کے خطبہ الہ آباد کے خواب کو سچ کر دکھایا، جس میں ہمارے قائد اور دیگر اکابرین ہندوستان کی جدوجہد شامل تھی، اسی طرح گزشتہ سالوں میں گزرے ہوئے اور موجودہ سیاسی دیگر شعبوں کے مفکرین نے آج پاکستان کو مضبوط مستحکم اور ترقی یافتہ ملک بنا دیا ہے۔ آپ سے رخصت ہونے سے پہلے ایک خوش خبری اور سنانا چاہتا ہوں کہ 'ورلڈ اولمپک کمیٹی' نے ہماری درخواست پر ہمارے ملک پاکستان اور یہاں کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد اس بات کا فیصلہ کر لیا ہے کہ اگلے اولمپک مقابلے پاکستان میں منعقد کرائے جائیں گے۔ اللہ ہم سب کو یوں ہی ترقی کی شاہ راہ پر گام زن رکھے، آمین۔