مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت 70 فیصد رہ گئی ہے

370 کے خاتمے کے بعد 18 لاکھ ڈومیسائل جاری کئے جا چکے جن سے ہندوں کا تناسب مزید بڑھے گا۔


عبید اللہ عابد August 05, 2021
370 کے خاتمے کے بعد 18 لاکھ ڈومیسائل جاری کئے جا چکے جن سے ہندوں کا تناسب مزید بڑھے گا ۔ فوٹو : فائل

کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے دو سال مکمل، اس دوران جہاں کشمیر میں تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں وہیں بھارت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی غیر مستقل ممبر شپ ملنا ہماری سفارتی ناکامی اور عالمی بے حسی ہے۔

5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے اپنے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے آئین کی دفعہ 370 اور ذیلی دفعہ 35A کو ختم کیا جس کے بعد ریاست جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے دو حصوں یونین ٹیریٹری لداخ اور یونین ٹیریٹری جموں و کشمیر شامل ہیں اور ان دونوں علاقوں کا انتظام و انصرام لیفٹیننٹ گورنر چلا رہے ہیں۔

جموں کشمیر میں قانون ساز اسمبلی ہو گی جس کیلئے اس وقت نئی حلقہ بندیاں کی جا رہی ہیں تاکہ انتخابات کروائے جائیں، لداخ میں کوئی اسمبلی نہیں ہے اس کا مقامی انتظام لداخ ہل کونسل ہی چلائے گی۔ اس کے انتخابات نہ کروائے جا سکے۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد ہندوستان کے تمام مرکزی قوانین جو پہلے ریاستی اسمبلی کی منظوری کے محتاج تھے اب علاقے میں خودبخود نافذ ہو جاتے ہیں اور اسی طرح انڈین سپریم کورٹ کے فیصلوں کا اطلاق بھی اب براہِ راست ہوتا ہے۔

بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد ہندوستان کے سینکڑوں قوانین ریاست میں لاگو کئے جا چکے ہیں جن میں سب سے بڑا قانون اسٹیٹ سبجیکٹ سرٹیفکیٹ کو ختم کر کے بھارتی ڈومیسائل کا اجراء ہے، جس کے بعد ریاست جموں کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کیا جا رہا ہے اور ریاست میں دس سال سے زاہد عرصہ سے رہنے والوں کو ڈومیسائل جاری کئے گئے ہیں۔ ان دو سالوں میں لاکھوں ڈومیسائل جاری ہوئے اور لاکھوں بھارتی ہندووں کو ریاست جموں کشمیر کا شہری قرار دیا گیا۔

ایک اندازے کے مطابق 5 اگست 2019 کے بعد سے ابتک 18 لاکھ ڈومیسائل غیر کشمیری باشندوں کو جاری کئے گئے ہیں۔ ریاستی انتظامیہ کے ترجمان نے کچھ عرصہ قبل میڈیا بریفنگ میں بتایا تھا کہ ریاست کو ڈومیسائل کیلئے تقریبا 22 لاکھ درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے تقریبا 18 لاکھ درخواستوں کو قانونی ضوابط پورے کرنے پر ڈومیسائل جاری کئے گئے ہیں۔ ان میں سے 4,97,238 ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کشمیر ڈویڑن جبکہ 13,35,643 جموں ڈویڑن کے اضلاع میں جاری کیے گئے ہیں۔ جموں میں زیادہ ڈومیسائل مغربی پاکستان کے مہاجرین کو جاری کئے گئے جو کئی دہائیوں سے وہاں آباد تھے۔

واضح رہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی کل آبادی ساڑھے ایک کروڑ 25 لاکھ تھی۔ جس میں سے لداخ اور کارگل کو غیر قانونی طور پر علیحدہ کرنے کے بعد آبادی ایک کروڑ سے بھی کم ہو چکی ہے۔ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کا تناسب 70 فیصد کی قریب رہ گیا تھا۔ اب بھارت کی جانب سے اس قدر بڑی تعداد میں ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری ہونے کے بعد مسلمانوں کی آبادی 60 فیصد سے بھی کم ہو گئی ہے۔ جبکہ جموں ڈویڑن بشمول پیر پنجال میں ہندوؤں کا تناسب 70 فیصد سے زیادہ ہو چکا ہے۔

ان حالات میں اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد ہوتا ہے تو آبادی کا تناسب تبدیل ہونے کے باعث پاکستان کیلئے شدید نقصان دہ ہو گا۔ ایک قانونی پہلو یہ بھی ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری میں وہی اپنی رائے دے سکے گا جس کے پاس ریاست کے پشتی باشندہ ہونے کا سرٹیفکیٹ ہو گا۔ جب پشتی باشندگی قانون کو ختم کیا گیا تو کیا ڈومیسائل والے ووٹ دینے کے مجاز ہونگے یہ تاحال سوالیہ نشان ہے۔

آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں کشمیر کو حاصل خصوصی اختیارات پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے۔ تقسیمِ برصغیر کے وقت جموں و کشمیر کے حکمران راجہ ہری سنگھ نے پہلے تو خودمختار رہنے کا فیصلہ کیا لیکن بعدازاں مشروط طور پر انڈیا سے الحاق پر آمادگی ظاہر کر دی تھی۔ اس کے لئے انڈیا کے آئین میں شق 370 کو شامل کیا گیا جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ اور اختیارات دیے گئے۔ ریاست کی جانب سے علیحدہ آئین کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا جس پر 1951 میں وہاں ریاستی آئین ساز اسمبلی کے قیام کی اجازت بھی دے دی گئی۔

ہندوستانی آئین کی دفعہ 370 عبوری انتظامی ڈھانچے کے بارے میں ہے اور یہ دراصل مرکز اور ریاستِ جموں و کشمیر کے تعلقات کے خد وخال کا تعین کرتی تھی۔ یہ آرٹیکل ریاست جموں و کشمیر کو انڈین یونین میں خصوصی نیم خودمختار حیثیت دیتی تھی۔

اس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خاص مقام حاصل تھا اور انڈیا کے آئین کی جو دفعات دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتی ہیں اس آرٹیکل کے تحت ان کا اطلاق ریاست جموں و کشمیر پر نہیں ہو سکتا تھا۔

اس کے تحت ریاست کو اپنا آئین بنانے، الگ پرچم رکھنے کا حق دیا گیا تھا جبکہ انڈیا کے صدر کے پاس ریاست کا آئین معطل کرنے کا حق بھی نہیں تھا۔

اس آرٹیکل کے تحت دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کے علاوہ کسی اور معاملے میں مرکزی حکومت یا پارلیمان ریاست میں ریاستی حکومت کی توثیق کے بغیر بھارتی قوانین کا اطلاق نہیں کر سکتی تھی۔

بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی ریاست میں یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے لیکن آرٹیکل 370 کی وجہ سے بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ساتھ ہی صدارتی حکم کے تحت اس میں شامل کیا جانے والا آرٹیکل 35 اے بھی ختم ہو گیا ہے جس کے تحت ریاست کے باشندوں کی بطور مستقل باشندہ پہچان ہوتی تھی اور انھیں بطور مستقل شہری خصوصی حقوق ملتے تھے۔

بھارت کے آئین میں جموں و کشمیر کی خصوصی شہریت کے حق سے متعلق دفعہ 35A کا مسئلہ کشمیر سے بھی پرانا تھا یہ قانون مہاراجہ نے 1927 میں لاگو کیا تھا جس کی رْو سے جموں و کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیرمنقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا تھا، یہاں سرکاری نوکری حاصل نہیں کرسکتا اور نہ کشمیر میں آزادانہ طور سرمایہ کاری کرسکتا ہے تاہم اس کے خاتمے سے کسی بھی بھارتی شہری کو یہ تمام حقوق حاصل ہو گئے ہیں۔

یہ قوانین ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے سنہ 1927 سے 1932 کے درمیان مرتب کیے تھے اور ان ہی قوانین کو سنہ 1954 میں ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعہ آئین ہند میں شامل کر لیا گیا تھا۔

کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ آئینِ ہند میں موجود یہ حفاظتی دیوار گرنے کے نتیجے میں تو وہ فلسطینیوں کی طرح بے وطن ہو جائیں گے، کیونکہ بیرونی آبادکاروں کی کشمیر آمد کے نتیجے میں ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قبضہ ہو سکتا ہے۔

ان قوانین کے خاتمے کے بارے میں بھارتی حکومت یہ ڈھونگ رچاتی ہے کہ دفعہ 370 کشمیریوں کی ترقی اور خوشحالی میں ایک رْکاوٹ تھی اور اس کے ہٹنے سے پاکستانی حمایت یافتہ علیحدگی پسندی اور ہند مخالف سوچ ختم ہوجائے گی۔ لیکن اس فیصلے کے بعد نہ صرف کشمیر کو تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا سامنا رہا بلکہ اظہار آزادی پر شدید پابندیوں کا سامنا رہا ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ وہاں کے کسی صحافی کو کھل کر بولنے کی اجازت نہیں ہے۔ بھارتی بیانیہ کے مخالف بولنے والوں کو پوچھ تاچھ کیلئے طلب کیا گیا۔ جن میں گوہر گیلانی، پیرزادہ عاشق، مسرت زہرا اور فہد شاہ جیسے بے شمار نام شامل ہیں۔

بھارت کی حکومت کا دعوی تھا آرٹیکل 370 ریاست کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ اور خاتمے پر 50 ہزار نوکریوں سمیت سرمایہ کاری کے دعوے کئے گئے تھے۔ جس پر تاحال عمل نہ ہوا۔ اس کے بعد ریاست میں سیاسی جمود طاری ہے حالانکہ پنچائتی اور ضلعی ترقیاتی کونسلز کے انتخابات ہوئے لیکن اسمبلی انتخابات کا انعقاد نہ ہو سکا۔

سری نگر کے کچھ صحافیوں کا کہنا ہے کہ نئی حد بندیاں ہو رہی ہیں جس کے بعد اسمبلی انتخابات کروائے جانے کا امکان ہے تاہم ان انتخابات کے ذریعے اب اسمبلی میں وادیء کشمیر کی اکثریتی برتری کو ختم کیا جائے گا اور جموں کو اسمبلی میں عددی برتری حاصل ہو جائے گی اس کا بنیادی مقصد وادی کشمیر کی سیاسی نمائندگی کو ختم کرنا ہے تاکہ یہاں جاری تحریک کی وقعت ختم ہو جائے۔

کشمیری صحافیوں کا کہنا ہے کہ ایسا ممکن ہے کہ اسمبلی انتخابات کے بعد جموں و کشمیر یونین ٹیریٹری کو ریاست کا درجہ دیا جائے تاہم اس ریاست کو وہ اختیارات حاصل نہیں ہوں گے جو آرٹیکل 370 کے تحت ہوتے تھے۔

اس صورتحال میں پاکستان کا سفارتی سطح پر کردار انتہائی کمزور رہا اور دو سال کے اندر ہی بھارت کو دو سال کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل ممبر منتخب کر لیا گیا جس میں پاکستان کا ووٹ بھی بھارت کے حق میں ڈالا گیا۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ بھارت کے اس اقدام میں پاکستان کی رضامندی شامل تھی اسی وجہ سے پاکستان نے عالمی سطح پر کوئی بڑا ردعمل نہیں دیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔