کیا کشمیر کا سودا ہوچکا ہے

کشمیر کا مسئلہ 1948 میں جس مقام پر تھا، اب بھی اسی مقام پر اٹکا ہوا ہے


کامران امین August 06, 2021
یہ علاقہ آج 2021 میں بھی اتنا ہی متنازعہ ہے جتنا 1948 میں تھا۔ (فوٹو: فائل)

جب سے انڈیا نے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی کی، یہ سوال بہت زیادہ پوچھا گیا۔ کئی بار نظر انداز کیا لیکن اب تو میں پوچھنے والے سے یہ سوال لازمی کرتا ہوں کہ بھائی سودا ہونے سے آپ کی کیا مراد ہے؟

ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایک جذباتی قوم ہیں اور چیزوں کے سمجھنے سے زیادہ جذباتی اور کھوکھلے نعروں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے بعد تو کام اور بھی آسان ہوگیا ہے۔ اپنے سیاسی مخالفین پر ہر طرح کے اوچھے ہتھکنڈے آزمائے جاتے ہیں۔ پی پی والے حکومت میں تھے تو ان کے مخالفیں یہی کہتے تھے، پھر ن لیگ کےلیے بھی کہا گیا کہ انہوں نے کشمیر کا سودا کرلیا اور پھر اب پی ٹی آئی۔ یہ سب سیاسی مخالفت ہے اس کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں۔ کشمیر کا مسئلہ 1948 میں جس مقام پر تھا، اب بھی اسی مقام پر اٹکا ہے اور نہ آگے گیا نہ پیچھے۔ لیکن وہ مقام ہے کیا؟

اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر، بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ جنگ بندی (1948 والی جنگ) کے بعد جب امن ہوجائے اور دونوں ممالک مل کر میکانزم تشکیل دے دیں تو پھر کشمیریوں سے یہ پوچھا جائے گا کہ وہ بھارت کے ساتھ جانا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔ اور کشمیریوں کی اکثریت جو فیصلہ کرے گی دونوں ملک اسے منظور کریں گے۔ یہ ان ساری قراردادوں کا خلاصہ ہے جو اقوام متحدہ میں منظور ہوئیں، جنہیں اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اور یہ علاقہ آج 2021 میں بھی اتنا ہی متنازعہ ہے جتنا 1948 میں تھا۔ چونکہ یہ 2 طرفہ تنازعہ ہے اور دونوں ممالک نے اقوام متحدہ کی حد تک اس کی متنازع حیثیت تسلیم کی ہوئی ہے لہٰذا جب تک دونوں ممالک اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر متفقہ فیصلہ نہ کرلیں، کسی یک طرفہ فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ چاہے ایک ملک اپنی طرف سے کچھ بھی کہتا رہے۔

تو پھر یہ سارا تماشا کیا ہے؟ کشمیر کا کچھ حصہ پاکستان کے زیر انتطام ہے اور کچھ بھارت کے زیر انتظام ہے۔ دونوں ممالک نے اپنے اپنے آئین کے تحت کشمیر کو اپنے انتظام میں لیتے وقت کچھ خصوصی رعایتیں دے رکھی تھیں۔ بھارت نے کشمیر میں رائے شماری تک، کشمیر کو الگ ریاست کے طور پر بھارت کی یونین میں شامل کیا تھا اور پاکستان نے 1948 کے معاہدے کے تحت کشمیر کے کچھ حصے کو پاکستان کے زیر انتطام آزاد ریاست کے طور پر باقی رکھا اور گلگلت بلتستان براہ راست پاکستان نے اپنے انتظام میں لے لیا۔ ہمارے قوم پرست معاہدہ کراچی پر بہت تنقید کرتے ہیں لیکن گلگت بلتستان معاہدہ کراچی کی رو سے کشمیر کا حصہ تسلیم کرکے متنازعہ حیثیت میں رکھا گیا، ورنہ تو گلگت کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت آزادی لی تھی اور وہ اس وقت بھی اور آج بھی پاکستان کے صوبے کی حیثیت سے شامل ہونا چاہتے ہیں۔ ہمارے کشمیریوں نے سمجھ لیں کہ ایک طرح سے زبردستی گلگت پر بھی کشمیر کا قبضہ جما رکھا ہے۔ خیر حکومت پاکستان نے 1974 میں گلگت بلتستان سے اسٹیٹ سبجیکٹ قانون کا خاتمہ کردیا، جس کی رو سے پاکستان بھر کے لوگ گلگت میں جائیدادیں خرید سکتے تھے۔ 1974 سے آج تک کون سی قیامت آگئی؟ کچھ نہیں ہوا۔ زمانہ اور حالات ویسے ہی چل رہے ہیں۔

بھارت نے بھی ریاست کو جو خودمختاری دی ہوئی تھی وہ مختلف اوقات میں کم کرتے کرتے، 2019 میں جو ایک برائے نام کٹھ پتلی ریاست کی شکل تھی وہ بھی ختم کرکے اسے انڈیا میں ضم کردیا اور اسٹیٹ سبجیکٹ قانون کا بھی خاتمہ کردیا۔ میرے خیال میں جیسے 1974 سے آج تک کوئی قیامت نہیں آئی، ایسے ہی انڈیا کے اس اقدام سے بھی کوئی قیامت نہیں آنے والی۔ نہ ہی انڈیا کے اس یک طرفہ اقدام سے کشمیر کی بین الاقوامی حیثیت میں کوئی فرق پڑے گا۔

البتہ اسٹیٹ سبجیکٹ قانون کے خاتمے سے یہ تحفظات اپنی جگہ برقرار ہیں کہ بھارت مسلم اکثریتی علاقوں میں بڑی تعداد میں ہندو آباد کرکے آبادی کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اسی طرح کشمیریوں کو نوکریوں کے حوالے سے بھی حاصل امتیازی قوانین ختم ہونے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میری ذاتی رائے میں جب تک اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کا کوئی بھی فیصلہ ہوتا ہے، دونوں ممالک اپنے اپنے زیر انتظام علاقوں کو انتطامی طور پر بانٹنے میں آزاد ہیں لیکن ان سارے منصوبوں میں علاقے کے عوام کی اکثریت کی ضروریات اور خواہشات کا خیال رکھتے ہوئے ہی فیصلے کیے جانے چاہئیں، ورنہ خطے میں امن برقرار رکھنا مشکل ہوگا۔

 

کشمیری کیا کریں؟

اس موقع پر میرا خیال ہے کہ کشمیری کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی اور ویژن سے عاری بس اندھیرے میں تیر چلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ شاید کوئی تو لگ جائے۔ تمام کشمیریوں کی یہ خواہش ہے کہ ہمیں آزادی مل جائے۔ لیکن آزادی کیسے لیں گے اس بارے میں کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ آزادی کوئی ایسی چیز نہیں کہ ہمیں پلیٹ میں سجا کر پیش کی جائے۔ کشمیریوں کو بہت قربانیاں دینی ہوں گی جو وہ ابھی بھی دے رہے ہیں۔ لیکن ان قربانیوں کا رخ بھی طے کرنا ضروری ہے۔ میرے خیال کے مطابق کشمیریوں کو سیاسی، سفارتی اور عسکری تینوں محاذوں پر ایک ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان اور بھارت دونوں میں پارلیمانی جمہوریت ہے۔ کشمیریوں کو چاہیے کہ دونوں طرف نظام کا حصہ بنیں، پارلیمان میں جائیں اور وہاں اپنی قوم کے حقوق کا تحفظ کریں۔ اگر آپ پارلیمان میں نہیں جائیں گے تو کوئی اور چلا جائے گا اور وہ پھر اپنی مرضی کرے گا۔ میں آزاد کشمیر کے لوگوں سے بھی یہ کہتا ہوں کہ جب تک کوئی فیصلہ نہیں ہوتا آزاد کشمیر کو بھی پاکستان کا عبوری صوبہ بنا لیا جائے تاکہ ہمیں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی ملے اور قانون سازی میں ہماری بھی آواز شامل ہوسکے۔ موجود صورتحال میں بھی ہم پر پاکستان سے ہی حکومت کی جارہی ہے، لیکن صوبہ بننے کی صورت میں کم از کم ہماری آواز قانون ساز اسمبلیوں میں موجود ہوگی۔ لہٰذا دونوں طرف کشمیری فیصلہ سازی کے اہم مراکز پر پہنچنے کی کوشش کریں۔

اسی طرح کشمیریوں کو چاہیے کہ دنیا میں بھی اپنی حیثیت بنائیں۔ بڑی کمپنیوں میں بڑے عہدوں تک جائیں۔ لندن اور نیویارک میں اہم پوزیشن حاصل کریں۔ برطانیہ میں کشمیریوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے اور یہ لوگ اگر آپس میں اتفاق کرلیں تو ہر سال بڑی تعداد میں کشمیریوں کو منتخب کرکے برطانوی پارلیمنٹ میں بھیج سکتے ہیں
جہاں یہ مسئلہ کشمیر پر ایک موثر آواز بن سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ برطانیہ میں کشمیری کمیونٹی کی اکثریت بس مزدور پیشہ ہی ہے۔ شاید سب سے کم تعلیم یافتہ بھی یہی لوگ ہوں گے۔ انہیں اس بارے میں سوچنا چاہیے۔ اسی طرح منصوبہ بندی کرکے یورپ میں اپنے حمایتی اسمبلیوں تک پہنچائے جاسکتے ہیں۔

 

پاکستان کیا کرے؟

اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بعد پاکستان کا کشمیری عوام سے یہ وعدہ رہا ہے کہ وہ دنیا بھر میں کشمیریوں کی موثر سفارت کاری کرے گا اور ہمیں اخلاقی و سیاسی حمایت سے نوازے گا۔ یہ کوششیں کافی حد تک رہی بھی ہیں لیکن پاکستان میں ہر حکومت اپنی ترجیحات لے کر آتی ہے۔ تو کبھی مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال دیا جاتا رہا اور کبھی اسے ابھارا جاتا رہا۔ 2001 میں جب کشمیری کافی حد تک ایک فیصلہ کن موڑ پر تھے پرویز مشرف کی حکومت نے پیٹھ پر چھرا مارنے والا کام کیا۔ اس کے بعد کافی وقت یہ مسئلہ سرد خانے میں رہا تاوقتیکہ عمران خان اقتدار میں آئے اور ایک بار پھر کشمیر پر موثر ترجمانی اور جارحانہ سفارت کاری شروع کی۔

میرا خیال ہے پاکستانی ارباب اقتدار اس کو ایک اور نظر سے دیکھیں۔ کشمیر کی ریاستی حیثیت انڈیا نے ختم کردی۔اب ایک آزاد حکومت باقی بچی ہے جو مظفرآباد میں قائم ہے۔ اس حکومت کو کٹھ پتلی بنانے کے بجائے پاکستان اسے ایک واقعی آزاد حکومت کا درجہ دے کر دوست ممالک سے منظور کروا لے۔ پاکستانی بھائی ہمارے بارڈرز کے دفاع کا کام کریں اور کشمیر کی سفارت کاری کا کام کشمیریوں کے حوالے کردیں۔ اس سے نہ صرف یہ کہ پاکستان کو سفارتی برتری مل جائے گی بلکہ انڈیا پر بھی پریشر بڑھ جائے گا۔ اور ہم کشمیری جس کرب سے گزرتے ہیں وہ درد کوئی دوسرا کیسے بیان کرے گا؟َ ہم خود کریں گے تو زیادہ زوردار ہوگا۔

اسی طرح بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کو چاہیے کہ موثر انداز میں بھارت کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو مسلسل ہائی لائٹ کیا جائے۔ بالخصوص یورپ، برطانیہ اور امریکا۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا دونوں کا بھرپور استعمال کیا جائے۔ کشمیر پر فلمیں بنائی جائیں، ڈاکومینٹریز بنائی جائیں۔ مشہور اخباروں میں اداریے لکھے جائیں۔ انگریزی میں کتابیں لکھی جائیں۔ بین الاقوامی سفارت کاروں کے دورے کروائے جائیں۔ بارڈر پر اور پاکستان کے بیرون ممالک موجود سفارت خانوں کو کشمیرکے حوالے سے موثر کردار ادا کرنے پر زور دیا جائے۔

اس سال پانچ اگست کو یوم استحصال کے حوالے سے مختلف ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں نے مختلف پروگرام رکھے۔ مجھے ملنے والی معلومات کے مطابق کوریا میں پاکستانی سفارت خانے نے شاندار کام کیا ہے۔ کوریا کے بااثر لوگوں کو نہ صرف ای میلز لکھی گئیں بلکہ بھارت کے اس اقدام کی غیر قانونی حیثیت کو واضح کرنے کےلیے آن لائن سیمینار بھی معنقد کیا گیا۔ بیجنگ میں قیام کے پانچ سال میں پہلی مرتبہ پاکستانی سفارت خانے نے اس مرتبہ اس حوالے سے کوئی پروگرام رکھا۔ یہ تازہ ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ اللہ کرے ہمارے بیجنگ کے سفارت خانے والے بھی جاگ جائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں