پی ٹی آئی کےلیے اب بھی موقع ہے
پی ٹی آئی کےلیے دوبارہ اقتدار میں آنے کی منصوبہ بندی کرنے کا اس سے سنہری موقع نہیں ہوسکتا
آج سے تین سال قبل جب عمران خان مسند اقتدار پر براجمان ہوئے تو اپوزیشن بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ یعنی اگر ہم یوں کہیں کہ عمران خان کے سامنے ایک بے جان اپوزیشن تھی تو بے جا نہ ہوگا۔
اگر خان صاحب اور ان کی ٹیم میں تھوڑی سی جان ہوتی تو وہ پاکستان کو خوابوں کی جنت بناسکتے تھے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ان کی ٹیم کے بہترین کھلاڑی اسد عمر اس قدر اناڑی ثابت ہوئے کہ خان صاحب کی بھرپور سپورٹ (جو انہوں نے دوست ممالک سے امداد کی صورت میں مہیا کی) کے باوجود وہ امور خزانہ چلانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔
اگرچہ احباب کا خیال ہے کہ اسد عمر کی ناکامی گزشتہ حکومت کی مہربانی کی بدولت ممکن ہوئی، کیونکہ انہوں نے خزانے کو اس قدر بے دردی سے لوٹا کہ آنے والوں کےلیے نہ جائے رفتن نہ پائے ماند کی سی کیفیت تھی۔ اور خان صاحب کو پے در پے نئے وزیر خزانہ کی آزمائش کرنا پڑی۔ باقی ٹیم کی حالت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خان صاحب ہر کچھ عرصے کے بعد ان کے محکمے بدلتے رہے کہ شاید کچھ بات بن جائے۔ ایسا ہی کچھ ہوا سرکاری افسران کے معاملے میں۔ درست جگہ پر درست بندہ مقرر کرنے کےلیے خان صاحب اور ان کی ٹیم کو مسلسل تبادلوں کا سہارا لینا پڑا۔ اس طرح کے معمولی امور میں مشغولیت کی وجہ سے خان صاحب اور ان کی ٹیم نے اپنی اصل ذمے داریوں کو فراموش کردیا اور صورت حال آپ کے سامنے ہے۔
آج وہ لوگ جن کو تبدیلی کا خواب دکھا کر خان صاحب مسند اقتدار پر براجمان ہوئے تھے ان کے حالات تو تبدیل نہ ہوئے البتہ وہ خود تبدیل ہوچکے ہیں، یعنی جو روزگار میں تھے وہ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت ایک کروڑ سے زائد لوگ بے روزگار ہیں۔ اکثر لوگوں کے سروں سے چھت چھن چکی ہے۔ باقی ماندہ لوگ مہنگائی کی چکی میں اس قدر بری طرح پس رہے ہیں کہ اب گیا کہ تب گیا کی کیفیت میں ہیں۔ مہنگائی کنٹرول کرنے کے ذمے داران عوام کو طفل تسلیاں دیتے ہوئے یہ تسلیم کررہے ہیں کہ مہنگائی ان کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ حکومتیں اپوزیشن کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتی تھیں، مگر موجودہ حکومت میں چونکہ اپوزیشن سر بچاتی پھر رہی ہے، اس لیے اب یہ فریضہ مہنگائی سرانجام دے رہی ہے۔ اور اب تو خان صاحب نے یہ کہنا بھی ترک کردیا ہے کہ ''گھبرانا نہیں''۔ کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ ''ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے ایام'' اور ان تلخ ایام میں گھبرائیں نہ تو کیا کریں۔
لیکن اس سب کے باوجود خان صاحب دوبارہ وزیراعظم بن سکتے ہیں، کیونکہ آج کم و بیش تین سال کے بعد پی ٹی آئی سرکار پچ پر سیٹ ہوچکی ہے۔ وزارا کی مسلسل تبدیلیوں کے بعد اب بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ مزید تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے۔ اب بھی اگر کسی نے کارکردگی نہ دکھائی تو اسے کشتی سے اتار کر باقی ماندہ مسافروں کو بچانے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ سرکاری افسران کو بھی مسلسل تبادلوں اور ملک کی معروضی حالات کے بعد یہ بات سمجھ آچکی ہے کہ اگر کارکردگی نہ دکھائی تو وہ گردش میں ہی رہیں گے۔ اور خان صاحب کے دوبارہ وزیراعظم بننے میں سب سے بڑی رکاوٹ اپوزیشن ایک بار پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، جس کی تازہ ترین مثال آزاد کشمیر الیکشن ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ 'ن' کا شیرازہ تو اس قدر بکھرا ہوا ہے کہ بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف مستعفی ہونے کی دھمکی دے چکے ہیں۔
پی ٹی آئی کےلیے دوبارہ اقتدار میں آنے کی منصوبہ بندی کرنے کا اس سے سنہری موقع نہیں ہوسکتا۔ اگر عمران خان اور ان کی ٹیم آنے والے دو سال عوام کی دن رات خدمت میں صرف کردیں، شہباز شریف کی طرح دن رات ایک کرکے ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کیا جائے، کرپشن پر زیرو برداشت کی پالیسی اپنائی جائے، ذوالفقار علی بھٹو کی طرح عربوں سے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے اپنی افرادی قوت کو زیادہ سے زیادہ ان ممالک میں روزگار کے سلسلے میں بھیجا جائے، اپنے سفارتی مشنز کو متحرک کیا جائے، شوکت خانم کی طرح سرکاری اداروں میں صرف اور صرف میرٹ پر بھرتیاں کی جائیں، دوسروں کی غلطیوں پر نظر رکھنے کے بجائے اپنی غلطیوں پر نظر رکھی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ 2023 کے الیکشن میں بھی پی ٹی آئی کامیاب نہ ہو۔ اور اگر ایسا ہوگیا تو یہ ملک، قوم اور ہماری آنے والی نسلوں کےلیے دیرپا خوشخبریوں کا سبب ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر خان صاحب اور ان کی ٹیم میں تھوڑی سی جان ہوتی تو وہ پاکستان کو خوابوں کی جنت بناسکتے تھے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ان کی ٹیم کے بہترین کھلاڑی اسد عمر اس قدر اناڑی ثابت ہوئے کہ خان صاحب کی بھرپور سپورٹ (جو انہوں نے دوست ممالک سے امداد کی صورت میں مہیا کی) کے باوجود وہ امور خزانہ چلانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔
اگرچہ احباب کا خیال ہے کہ اسد عمر کی ناکامی گزشتہ حکومت کی مہربانی کی بدولت ممکن ہوئی، کیونکہ انہوں نے خزانے کو اس قدر بے دردی سے لوٹا کہ آنے والوں کےلیے نہ جائے رفتن نہ پائے ماند کی سی کیفیت تھی۔ اور خان صاحب کو پے در پے نئے وزیر خزانہ کی آزمائش کرنا پڑی۔ باقی ٹیم کی حالت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خان صاحب ہر کچھ عرصے کے بعد ان کے محکمے بدلتے رہے کہ شاید کچھ بات بن جائے۔ ایسا ہی کچھ ہوا سرکاری افسران کے معاملے میں۔ درست جگہ پر درست بندہ مقرر کرنے کےلیے خان صاحب اور ان کی ٹیم کو مسلسل تبادلوں کا سہارا لینا پڑا۔ اس طرح کے معمولی امور میں مشغولیت کی وجہ سے خان صاحب اور ان کی ٹیم نے اپنی اصل ذمے داریوں کو فراموش کردیا اور صورت حال آپ کے سامنے ہے۔
آج وہ لوگ جن کو تبدیلی کا خواب دکھا کر خان صاحب مسند اقتدار پر براجمان ہوئے تھے ان کے حالات تو تبدیل نہ ہوئے البتہ وہ خود تبدیل ہوچکے ہیں، یعنی جو روزگار میں تھے وہ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت ایک کروڑ سے زائد لوگ بے روزگار ہیں۔ اکثر لوگوں کے سروں سے چھت چھن چکی ہے۔ باقی ماندہ لوگ مہنگائی کی چکی میں اس قدر بری طرح پس رہے ہیں کہ اب گیا کہ تب گیا کی کیفیت میں ہیں۔ مہنگائی کنٹرول کرنے کے ذمے داران عوام کو طفل تسلیاں دیتے ہوئے یہ تسلیم کررہے ہیں کہ مہنگائی ان کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ حکومتیں اپوزیشن کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتی تھیں، مگر موجودہ حکومت میں چونکہ اپوزیشن سر بچاتی پھر رہی ہے، اس لیے اب یہ فریضہ مہنگائی سرانجام دے رہی ہے۔ اور اب تو خان صاحب نے یہ کہنا بھی ترک کردیا ہے کہ ''گھبرانا نہیں''۔ کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ ''ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے ایام'' اور ان تلخ ایام میں گھبرائیں نہ تو کیا کریں۔
لیکن اس سب کے باوجود خان صاحب دوبارہ وزیراعظم بن سکتے ہیں، کیونکہ آج کم و بیش تین سال کے بعد پی ٹی آئی سرکار پچ پر سیٹ ہوچکی ہے۔ وزارا کی مسلسل تبدیلیوں کے بعد اب بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ مزید تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے۔ اب بھی اگر کسی نے کارکردگی نہ دکھائی تو اسے کشتی سے اتار کر باقی ماندہ مسافروں کو بچانے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ سرکاری افسران کو بھی مسلسل تبادلوں اور ملک کی معروضی حالات کے بعد یہ بات سمجھ آچکی ہے کہ اگر کارکردگی نہ دکھائی تو وہ گردش میں ہی رہیں گے۔ اور خان صاحب کے دوبارہ وزیراعظم بننے میں سب سے بڑی رکاوٹ اپوزیشن ایک بار پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، جس کی تازہ ترین مثال آزاد کشمیر الیکشن ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ 'ن' کا شیرازہ تو اس قدر بکھرا ہوا ہے کہ بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف مستعفی ہونے کی دھمکی دے چکے ہیں۔
پی ٹی آئی کےلیے دوبارہ اقتدار میں آنے کی منصوبہ بندی کرنے کا اس سے سنہری موقع نہیں ہوسکتا۔ اگر عمران خان اور ان کی ٹیم آنے والے دو سال عوام کی دن رات خدمت میں صرف کردیں، شہباز شریف کی طرح دن رات ایک کرکے ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کیا جائے، کرپشن پر زیرو برداشت کی پالیسی اپنائی جائے، ذوالفقار علی بھٹو کی طرح عربوں سے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے اپنی افرادی قوت کو زیادہ سے زیادہ ان ممالک میں روزگار کے سلسلے میں بھیجا جائے، اپنے سفارتی مشنز کو متحرک کیا جائے، شوکت خانم کی طرح سرکاری اداروں میں صرف اور صرف میرٹ پر بھرتیاں کی جائیں، دوسروں کی غلطیوں پر نظر رکھنے کے بجائے اپنی غلطیوں پر نظر رکھی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ 2023 کے الیکشن میں بھی پی ٹی آئی کامیاب نہ ہو۔ اور اگر ایسا ہوگیا تو یہ ملک، قوم اور ہماری آنے والی نسلوں کےلیے دیرپا خوشخبریوں کا سبب ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔