مسجد نبوی ؐ کی تعمیری غرض و غایت و زیارات

رسول کریم ﷺ کے دست مبارک سے بنی مسجد کی تعمیر اور توسیع کی روشن تاریخ پر ایک نظر

رسول کریم ﷺ کے دست مبارک سے بنی مسجد کی تعمیر اور توسیع کی روشن تاریخ پر ایک نظر ۔ فوٹو : فائل

مسجد کے لغوی معنی سجدہ کرنے کی جگہ ہے ہر اس جگہ کو جہاں سجدہ کیا جاتا ہے مسجد کہہ سکتے ہیں جیسا کہ ایک حدیث سے بھی ثابت ہے ''حضور ؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ ''ہمارے لیے ساری زمین مسجد (سجدہ گاہ) بنائی گئی ہے۔'' (بخاری۔ مسلم )

اصطلاح شریعت میں مسجد اس عمارت یا جگہ کو کہتے ہیں جو اللّہ کی عبادت اور نماز باجماعت کے لیے مستقل طور پر وقف کردی گئی ہو۔ قرآن حکیم میں تقریباً 34 مقامات پر یہ ذکر آیا ہے۔

یہاں دو مقامات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے: ارشاد باری ہے ترجمہ''بیشک مسجدیں اللّہ ہی کے لیے ہیں، پس اس کے ساتھ کسی اور کونہ پکارو۔'' (سورۂ نوح آیت18)۔ دوسرے مقام پر ارشاد ہوا ترجمہ ''اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو اللّہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اس کانام لینے سے روکے۔'' (سورہ البقرہ آیت 114) ان آیات سے ہمیں یہ نکتہ ملتا ہے کہ روئے زمین پر مسجد کی تعمیر شرط ہے۔

ہمارے پیارے بنیؐ نے ہجرت کے بعد سب سے پہلے جو فریضہ انجام دیا وہ مسجد کی تعمیر تھا۔ تعمیر کی غرض و غایت بھی ہمیں قرآن حکیم نے بتائی ترجمہ ''البتہ جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے اس قابل ہے کہ اس میں جایا کرو (اور نماز پڑھایا کرو) اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنے کو پسند کرتے ہیں اور خدا پاک رہنے والوں ہی کو پسند کرتا ہے۔'' (سورہ التوبہ آیت 108) یہ حکم الٰہی مدینہ کی پہلی مسجد قباء کے بارے میں آیا ہے۔ ارشادات نبویؐ میں بھی مساجد کی اہمیت و عظمت کو واضح کیا گیا ہے۔

آپؐ نے فرمایا ''بے شک مسجدیں اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے بنائی گئی ہیں۔'' دوسری حدیث میں فرمایا ''بدترین مجلس گاہیں بازار اور راستے ہیں اور بہترین مجلس گاہیں مسجد ہیں۔'' آپؐ نے مسجد میں نماز ادا نہ کرنے والوں پر تہدید کرتے ہوئے فرمایا ''بلاشبہہ جی چاہتا ہے کہ نو جوانوں کو حکم دوں کہ وہ میرے پاس لکڑیوں کا ڈھیر لگادیں پھر میں ان میں جاؤں اور جو اپنے گھروں میں بلاعذر (فرض) نماز پڑھتے ہیں انہیں گھروں سمیت پھونک دوں۔ (بخاری)

دنیاوی زندگی میں مسجد مسلمان کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور یہ اسلامی معاشرے کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضورؐ نے مسجد قباء کے بعد مدینہ منورہ میں جس دوسری مسجد کا سنگ بنیاد رکھا اسے اپنی ہی نسبت سے موسوم کیا یعنی مسجد نبویؐ۔ یہ مسجد جس شہر میں تعمیر کی گئی تھی اس کا پرانا نام یثرب تھا۔ ہجرت نبویؐ کے بعد پھر یہ شہر مدینۃ النبی یعنی ''نبیؐ کا شہر'' کہلایا عربی میں مدینہ شہر کو کہتے ہیں۔ لوگ اس شہر کو بطورعقیدت بطحہ بھی کہتے ہیں جس کے معنی قدوقامت اور مسافت کے ہیں۔ یہ بطحا بھی لکھا جاتا ہے جس کے عربی میں معنی کشادہ وادی کے ہیں۔ یہ لفظ عربی اور اردو دونوں میں مستعمل ہے۔

تاریخ سے ثابت ہے کہ جب آنحضرت ﷺ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینے میں تشریف لائے تو مسجد کے لیے اس جگہ کا انتخاب فرمایا۔ یہ جگہ حضرت ابو ایوبؓ انصاری کے مکان کے سامنے ایک ناہموار قطعہ زمین جو دراصل نخلستان تھا یہاں خرما خشک کرکے تمر (کھجور ) بنایا کرتے تھے۔

یہی وہ مقام ہے جہاں آپؐ کی اونٹنی قصوٰی آکر بیٹھی تھی جو دو یتیم بچوں سہل اور سہیل کی ملکیت تھی۔ یہ دونوں بچے اسعد بن زرارہؓ کے زیرپرورش تھے۔ حضورؐ نے ان یتیم بچوں سے فرمایا یہ قطعۂ زمین ہمارے ہاتھ فروخت کر دو، ہم چاہتے ہیں کہ یہاں مسجد کی تعمیر کی جائے جو عام مسلمانوں کے لیے مرکز عبادت اور ان کی شناخت ہو۔ بچوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐؐ! ہم یہ زمین آپؐ کی خدمت میں بلامعاوضہ پیش کرتے ہیں قبول فرمائیے۔ مگر آپؐ راضی نہ ہوئے ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اس اراضی کی قیمت ادا فرمائی۔ اس قطعہ کی مالیت دس دینار بتائی جاتی ہے۔

قیمت کی ادائیگی کے بعد آپؐ نے اس کا سنگ بنیاد اپنے دست مبارک سے رکھا۔ یہ ماہ ربیع الاول01 ھ ؁ کی بات ہے۔ ابتدا میں مسجد گارے اور کچی اینٹوں سے تعمیر ہوئی تھی۔ ستون کی جگہ کھجور کے تنے (شہتیر) استعمال ہوئے اور چھت پر کھجور کی چھالیں اور ٹہنیاں تھیں جو بارش میں مسلسل ٹپکتی رہتی تھی اور مسجد میں کیچڑ ہوجاتا تھا۔

جیسا کہ لیلتہ القدر والی حدیث سے ثابت ہے۔ یہ دیکھ کر ایک صحابیؓ نے فرش پر کنکریاں بچھا دیں جس سے کیچڑ والی کیفیت ختم ہوگئی۔ آپؐ نے ان صحابی کے عمل کو پسند فرمایا پھر 07؁ھ میں آپؐ نے اس میں خود توسیع فرمائی۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً اس میں توسیع کا کام ہوتا رہا۔

اس مقدس مسجد کی تعمیر میں سرور کو نین ؐ نے دو مرتبہ مزدور کی حیثیت سے کام کیا اور اکا بر صحابہؓ سمیت پتھر اور گارا ڈھونے کا کام سر انجام دیتے رہے۔ ابتدا میں قبلہ بیت المقدس کی جانب رکھا گیا اور جب تحویل قبلہ کا حکم شعبان 02؁ھ میں آیا تو رخ بیت الحرام کی طرف کردیا گیا اور شمالی جانب ایک نئے دروازے کا اضافہ کردیا گیا۔ جب مسجد تعمیر ہوچکی تو آپؐ نے مسجد سے متصل ہی دو ازواج مطہرات کے لیے دو حجروں کی تعمیر کروائی جو حضرت سودہؓ اور حضرت عائشہ صدیقہؓ کے لیے تھے پھر جوں جوں آپؐ عقد فرماتے رہے توں توں امہات المومنین ؓ کے حجروں میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ مسجد اور حجروں کا طرزتعمیر اور اس میں استعمال ہونے والا لوازمہ ایک ہی تھا۔ یہ مکانات کیا تھے اعتکاف والی احادیث ملاحظہ فرمالیجیے۔

یعنی جب آپ ؐ معتکف ہوتے تو سر مسجد سے نکال دیتے اور ازواج مطہراتؓ اپنے گھر میں بیٹھے آپؐ کے بال دھو دیتیں۔ طبقات ابن سعد کے حوالے سے علامہ شبلی نعمانی ؒ سیرت النبی جلد اول میں رقم طراز ہیں کہ ''یہ مکانات چھے چھے، سات سات ہاتھ چوڑے اور دس ہاتھ لمبے تھے۔ چھت اتنی اونچی تھی کہ کھڑا ہوا آدمی بہ آسانی چھو لیتا تھا۔ دروازوں پر کمبل کا پردہ پڑا ہوا تھا رات کو چراغ نہیں جلتے تھے۔'' یہ تھی کاشانۂ نبوت کی منظرکشی۔

یہ مسجد کتنی فضلیت والی ہے، احادیث سے ملاحظہ فرمائیے۔ حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ تین مسجدوں کے سوا کسی اور مسجد کی طرف تم کجاوے نہ باندھو، یعنی ہر گز ہرگز سفر نہ کرو، ایک مسجد حرام کی جانب (کعبتہ اللہ) مسجد اقصیٰ کی طرف اور تیسرے میری اس مسجد نبوی کی طرف۔ (بخاری ۔ مسلم)

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ''حضورؐ نے فرمایا کہ میری اس مسجد میں یعنی مسجد نبوی میں ایک نماز بہتر ہے دوسری مساجد کی ہزار نمازوں سے سوائے مسجدالحرام کے۔'' (بخاری )

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ''آنحضور ؐ کا ارشاد ہے کہ جو شخص میری اس مسجد میں اس غرض سے آئے کہ نیکی سکھائے اور سیکھے تو اس کا مرتبہ اتنا ہوگا کہ جتنا خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے کا ہوتا ہے اور جو اس غرض سے نہ آئے یعنی کسی اور غرض سے آئے تو وہ شخص اس کی مانند ہو گا جو دوسرے کے مال کو حسرت کی نگاہ سے تکتا ہے۔'' (ابن ماجہ بیہقی) کہا جا تا ہے کہ جس جگہ پر آج مسجد نبوی ؐ کی عمارت قائم ہے اس پوری اراضی پر دورنبوتؐ میں پورا شہر مدینہ تھا۔

اسلام پھیلتا جارہا تھا، مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔ 017؁ھ میں خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓنے اس مسجد میں کچھ اضافے کرکے وسعت دی۔ پھر خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی ؓ نے اپنے دورخلافت میں نہ صرف توسیع کی بلکہ اس کی تعمیر میں پہلی بار چونے اور پتھر کو استعمال کیا۔

اس طرح اس مسجدمبارک کی تعمیر پختہ ہوگئی۔ اس کے بعد ہر دور میں سلاطین اسلام اور خیرالامم کے تاج دار اس میں اپنے اضافے کرتے رہے۔ مسجد کی موجودہ شکل ترکی کے سلطان عبدالحمید کی بنائی ہوئی ہے جس کو انہوں نے 1270؁ھ میں مکمل کروایا۔ اس وقت یہ مسجد خاصی وسیع و عریض تھی۔ اس کی شکل مستطیل تھی جس کی لمبائی 581 فٹ اور چوڑائی 430 فٹ تھی۔ 1370؁ھ میں مسجد نبویؐ کی عمارت کو نقصان پہنچا اور صحن اور برآمدوں کے ستون زمین میں دھنس گئے۔ اس وقت سعودی عرب کے حکم راں عبدالعزیز السعود تھے، انہوں نے اس کی مرمت کروائی اور کچھ حصے ازسرنو تعمیر کروائے، جس پر کہا جاتا ہے کہ چالیس کروڑ روپے خرچ آئے اور8 سال کی مدت میں یہ پایۂ تکمیل کو پہنچی۔

اب اس مسجد کا رقبہ تقریباً دس ایکٹر پر محیط ہے۔

اگر آپ مسجد کی زیارت کریں گے تو صاف دکھائی دے گا کہ مسجد تین حصوں میں ہے۔ ایک پرانی مسجد جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے، والیٔ ترک عبدالحمید خاں نے1849؁ء میں بنوائی جس پر گنبدوں کی چھت ہے جو ستونوں پر کھڑی ہے جو سترہ در چوڑی اور بارہ در گہری ہے۔



اس کے ستون اور گنبد سرخ پتھر کے بنے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کے موجودہ فرمانروا، جنہوں نے شاہ یاسلطان لقب ترک کر کے اپنے آپ کو خادمین حرمین شریفین (خادم مکہ ومدینہ) کہلانے کو فخر جانا ہے، نے ترکی کی حکومت سے درخواست کی تھی کہ پرانی طرز تعمیر کی جگہ موجودہ دور کی ضروریات کے مطابق جدید طرز کی تعمیر ضروری ہے جس کی خاطر پرانی عمارت کو شہید کرنا ضروری ہے۔ اس پر ترکی حکومت کا جواب آیا کہ ''یہ ہمارے اسلاف کی یادگار ہے اسے قائم رہنے دیا جائے۔''

گذشتہ پچیس سال میں جو ترقیاتی و تعمیراتی امور سرانجام پائے گئے وہ صرف بیرونی جوانب ہوئے پرانی عمارت کو چھیڑے بغیر اس کے حسن اور خوب صورتی میں اضافہ کیا گیا۔ جدید قسم کے آلات جو تمام کے تمام الیکٹرانک ہیں نصب کیے گئے ہیں۔ ان تنصیبات میں (Sound system) یعنی آواز کی ترسیل، ایئر کنڈیشنڈ پلانٹ جس کا کنٹرول شہر سے باہر ہے، خود کار کیمرے، برقی نظام جو حیرت انگیز طور پر ایک منٹ کے لیے بلکہ ایک لمحے کے لیے بھی تعطل کا شکار نہیں ہوتا شامل ہیں۔

مسجد میں تعداد استوان وابواب محراب و گنبد (خود کار گنبد جو روشنی اور ہوا کے لیے شام کو کھولے جاتے ہیں اور رات کو بند کیے جاتے ہیں، جیسے خود کار چھتریاں لگی ہوئی ہیں) ہر ایک پر کئی قمقمے، اسپیکر، کیمرے اور پھر ہر محراب میں بیش قیمت فانوس ہیں، جن میں ہر ایک میں درجنوں بلب اور ہر ایک پر22 قیراط کے سونے کے پترے لگے ہوئے ہیں۔ یہ ہزاروں کی تعداد میں لگے ہوئے ہیں، جو مسجد کو ہر وقت بقعۂ نور بنائے رکھتے ہیں۔ اگر یہ نہ بھی ہوں تب بھی ایک مسلمان ہونے کے ناتے ہمارا ایمان ہے کہ وہاں انواروتجلیات کی بارش ہر لمحے جاری و ساری رہتی ہے۔ صرف دل سے محسوس اور شعوری نظر کرنے کی دیر ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اب ہر سال یہاں دس لاکھ حجاج کرام کو اپنی چالیس نمازیں باجماعت ادا کرنے کا اہتمام و انتظام ہے۔ دور دور سے یہاں زائرین اور حجاج کرام کشاں کشاں آتے ہیں اور عبادت و ریاضت میں وقت گزارتے ہیں۔ حدیث مبارک میں آ یا ہے کہ ''میری مسجد میں کسی شخص کا نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور مسجد الحرام میں نماز پڑھنا ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔''

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی

میرے جرم خانہ خراب کو ترے عفوبندہ نواز میں

مکہ معظمہ سے277 میل کے فاصلے پر اور جدّہ سے 264 میل کی دوری پر اب سے 1400برس قبل سرور کائناتؐ نے اپنے دست مبارک سے اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ اپنے حسن و جمال کے لحاظ سے، خوبی ومحبوبی کے لحاظ سے، زیبائی و دل کشی کے لحاظ سے پردۂ زمین پر اس مسجد نبویؐ کا جواب نہیں۔ بس ہر وقت دل چاہتا ہے کہ صحن مسجد میں بیٹھ کر گنبد خضرا کو دیکھتے رہیں۔

اللہ اللہ یہ کس محبوب کی مسجد ہے کیسے کیسے محبوبوں نے اپنی جبینیں اور ماتھے یہاں ٹیکے ہیں۔ منبر ٹھیک اسی جگہ رکھا ہوا ہے جہاں عہد نبوت میں تھا۔ سبحان اللہ کیا خوب صورت مسجد ہے جس میں شاہ خوباں کا جمال ہے اور حسنِ یوسف کا نکھار ہے۔ بھیڑ ہوتی ہے مگر سکون زیادہ ہے۔ اس مقدس مقام پر اگر ہم سرکے بل بھی جائیں تو بھی گناہ گار غلام اپنے اشتیاق کو کم نہیں کرسکتے۔ اس کی گلیوں میں مدتوں تک اولیائے کرام نے جوتے نہیں پہنے کیوںکہ اس کا چپہ چپہ مقدس ہے اس لیے کہ ہمارے پیارے نبیؐ کے یہاں قدم مبارک پڑے ہیں۔


مسجد کے ہال میں داخلے کے لیے چالیس ابواب ہیں۔ اس میں سڑک پر بنے ہوئے بیرونی گیٹ شامل نہیں ہیں۔6خودکار زینے بھی اس سے علیحدہ ہیں۔ ان سب پر نام نمبر لکھے ہوئے ہیں۔ باب السلام، باب جبرئیل، باب مکہ، باب جنت البقیع، باب الرحمت، باب بدر، باب احد، باب قباء، باب الھجرہ، خلفائے راشدین کے نام سے ہر خلیفہ کے نام پر کئی کئی باب ہیں پھر سلطان عبدالمجید (ترکی) ملک السعود، ملک فہد، ملک عبدالعزیز، باب ابوذر، سب سے قریب ترین باب جو روضۂ رسول کی جانب ہے وہ باب جبرئیل ہے۔ متعدد روایات میں آیا ہے کہ حضرت جبرئیل ؑ وحی لے کر اسی باب سے آنحضورؐ کی خدمت میں پیش ہوا کرتے تھے۔

بس یہی وجہ تسمیہ ہے اس باب کی کہ اس کا نام باب جبرئیل کیوں ہوا؟ اسی طرح ہر باب کی کوئی نہ کوئی وجہ ہے جواس نام پر رکھا گیا ہے۔ اس کے لیے علیحدہ مضمون درکار ہے۔ روایات کے مطابق مسجد نبویؐ میں داخلے کے لیے اگر باب السلام کو استعمال کیا جائے تو زیادہ افضل ہے۔ خواتین صرف باب النساء سے داخل ہوتی ہیں جو انہیں ریاض الجنتہ تک پہنچاتا ہے۔

مسجد کے صحنوں میں اکثر درس و تدریس کا سلسلہ مختلف زبانوں میں چلتا رہتا ہے جس میں پاکستانی علماء بھی شرکت فرماتے ہیں۔ اس کے علاوہ مسجد کے اندر ہی ایک عظیم الشان لائبریری قائم کی گئی ہے جہاں نادر اور نایاب قلمی نسخے دست یاب ہیں جنہیں دیکھ کر اور پڑھ کر یقیناً ایمان کو تازگی اور روح کو سرور ملتا ہے۔

یوں تو اس مسجد کا چپہ چپہ مقدس و محترم ہے مگر جن مقامات پر آپؐ نے خود عبادات کی ہوں، نمازیں پڑھی ہوں اور جہاں آپ کے سجود کے نشان ثبت ہوں، اس جگہ کی عظمت ورفعت کا کیا ٹھکانا؟ مسجدنبوی ؐ میں یہ نہایت مقدس اور متبرک جگہ ہے جو ریاض الجنتہ کہلاتی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ آنحضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ ''میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر حوض پر ہے۔'' (بخاری و مسلم ) حضوؐر کے زمانے کے یہاں سات ستون ہیں جنہیں سنگ مر مر اور سنہری مینا کاری سے نمایاں کیا گیا ہے جو دور ہی سے پہچانے جاتے ہیں، کیوںکہ مسجدنبوی کے جو دیگر ستون ہیں ان پر کچھ اور رنگ ہے۔ وہ ستون جو ریاض الجنتہ میں ہیں یہ ہیں۔

۱۔ ستون حنانہ: یہ محراب النبی کے قریب ہے۔ حضورؐ اس ستون کے پاس کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ روایت میں آیا ہے کہ جب تک مسجد نبوی میں منبر تیار نہ ہوا تھا تو آپؐ اس سے ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ یہ کھجور کے ایک تنے کا تھا۔ جب منبر تیار ہوگیا تو آپؐ اس سے ٹیک لگا کر خطبہ دینے کے لیے نئے منبر پر چڑھے تو اس ستون سے آپؐ کی جدائی کی وجہ سے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے کی آواز آئی۔ آپ ؐ اس ستون کے قریب گئے، اس پر ہاتھ رکھا اور دعا فرمائی کہ ''اللہ! جنت میں یہ میرا ساتھی ہو۔'' تب وہ خاموش ہوا۔ پھر اس تنے کو یہیں دفن کردیا گیا۔

۲۔ ستون عائشہ صدیقہؓ:ایک مرتبہ حضورؐ نے فرمایا کہ میری مسجد میں ایک ایسی جگہ ہے کہ اگر لوگوں کو وہاں نماز پڑھنے کی فضیلت کا علم ہوجائے تو وہ قرعہ اندازی کرنے لگیں'' اس جگہ کی نشان دہی حضرت عائشہؓ نے فرمائی تھی۔ اس لیے اس کا نام استوانۂ عائشہ پڑگیا (طبرانی)

۳۔ ستون ابی لبابہؓ:ایک صحابی حضرت ابی لبابہؓ سے ایک بھول ہوئی تو انہوں نے اس کی سزا کے طور پر ازخود اپنے کو اس ستون سے باندھ لیا تھا اور توبہ استغفار کرتے رہے۔ آخر اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی حضوؐر نے انہیں کھول دیا۔ اس مقام کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ آپؐ پر جتنا قرآن نازل ہوتا رہتا تھا وہ اسی مقام پر سناتے تھے اور آپؐ نوافل بھی یہیں ادا فرماتے تھے۔

۴۔ ستون سریر:یہاں سرکارِدو عالمؐ اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کا بستر بھی یہیں لگا ہوتا تھا یہ ستون نظر نہیں آتا شاید جالی کے اندر ہے۔

۵۔ ستون علیؓ: اسے استوانہ حر س بھی کہتے ہیں۔ یہاں حضرت علیؓ نماز پڑھتے تھے اور حضور اکرمؐؐ کی پاسبانی یہیں سے کرتے تھے کہ کوئی دشمن آپؐ کو گزندنہ پہنچا سکے۔

۶۔ستون وفود: باہر سے آنے والے وفود یہاں حضورؐ کی خدمت میں حاضری دیتے تھے۔ آپؐ ان سے تبادلۂ خیال فرماتے تھے اور ان میں سے اکثر اسی مقام پر مسلمان ہوتے تھے۔

۷۔ ستون تہجد:نبی کریم ؐ اس مقام پر نماز تہجد ادا فرماتے تھے۔

۸۔ حضور ؐکا منبر: حضورؐ اس پر کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ یہ غالباً آٹھ یا نو ہجری میں بنایا گیا تھا اور آج تک اسی مقام پر قائم ہے۔ اسی کے بارے میں ارشاد گرامی ہے کہ میرا یہ منبر حوض کوثر پر ہے اور یہ جنت کے زینوں میں سے ایک زینہ ہے۔

۹۔محراب النبیؐ: ریاض الجنتہ میں ہی سرورکونینؐ کا مصلّٰی بھی ہے۔ اسی مقام پر کھڑے ہوکر آپؐ امت مسلمہ کی امامت فرمایا کرتے تھے۔ یہاں ایک محراب بنی ہوئی ہے جو محراب النبیؐ کہلاتی ہے۔ ولیدبن عبدالملک کے دور میں ولید کے حکم سے حضرت عمر ؓبن عبدالعزیز جو مسلمانوں کے پانچویں خلیفہ راشد کہلاتے ہیں نے جب مسجد نبویؐ کی توسیع فرمائی تو ٹھیک مصلیٰ ٔ رسول جیسی متبرک جگہ کی تعظیم کو برقرار رکھنے کی غرض سے مستقل بنوا دی اس سے قبل حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اس مقام پر سوائے قدم مبارک کی جگہ چھوڑ کر باقی جگہ پر دیوار بنوادی تھی، تاکہ آپ کے سجدے کے مقام لوگوں کے قدموں کے تلے سے محفوظ رہیں۔

آج کل بھی یہ جگہ محفوظ ہے اور سجدہ گاہ پر کئی رحل میں قرآن حکیم رکھے ہوئے ہیں اور قدموں کی جگہ خالی ہے۔ عقیدت مند قطار لگاکر آپؐ کے قدموں کے نشانات پر اپنے ماتھے ٹیک کر نوافل ادا کرنا عظیم سعادت گردانتے ہیں۔ اب جو محراب ہم دیکھتے ہیں وہ 888ھ؁ میں سلطان قاقیبائی کے دور کی ہے جو سنگ مرمر کے ایک ہی 9فٹ کے ٹکڑے کو تراش کر بنائی گئی ہے اس پر آبِ زر سے شان دار نقش و نگار بنائے گئے ہیں اس کی پیشانی پر یہ آیت کندہ ہے۔

إِنَّ أللَّہَ وَمَلَـٰٓئِکـَتَْہْ یُصَلُّونَ عَلَی اْلنَّبِیِّ یَـٰٓـأَ یُّھَا اْلَّذِینَ ئَ امَنُوا صَلُّوا عَلَیْہِ وَسَلِّمُواتَسْلِیمًا o(سورۃ الاحزاب آیت 56)۔ دائیں جانب محراب النبی بائیں جانب ﷺ اور مغربی جانب ھذا مصلیٰ رسول اللہ صلی علیہ وسلم اور مغربی جانب ھذا مصلیٰ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کندہ ہے۔

ستون سے قریب ترین وہ جگہ بھی محفوظ ہے جہاں سے حضوراکرم ؐکی ایک پسندیدہ شخصیت حضرت بلال حبشیؓ جو کہ مؤذن رسولؐ کہلاتے تھے انہیں یہ منفرد اعزاز حاصل ہوا کہ حرمین شریفین میں اذان کہی اسی طرح کہ مسجد نبوی کے مؤذن تو تھے ہی مگر جب مکہ فتح ہوا تو حضورؐ کے حکم پر وہاں بھی اذان آپؓ نے ہی کہی۔ مسجد نبوی ؐ وہ جگہ جہاں سے پنج وقتہ نماز کی اذان بلند ہوتی تھی وہ مقام آج بھی بلال ؓ ہی کے نام سے منسوب ہے۔ یہ ہے ایک حبشی کی قسمت جس پر جتنا ناز کیا جائے کم ہے۔

اذان سے متعلق ایک اور نکتہ کی بات کہ اس مبارک مسجد میں حضورؐ نے صرف امامت فرمائی مگر اذان ایک مرتبہ بھی نہ دی۔ حضرت بلالؓؓ کو دورفاروقی میں جب بیت المقدس فتح ہوا تو مسجد اقصیٰ میں بھی اذان کہنے کا منفرد اعزاز حاصل ہوا۔ یعنی ان تینوں مقدس مقامات پر حضرت بلالؓؓ کے سوا کسی اور اسلامی شخصیت کو اذان کہنے کا یہ منفرد اعزاز حاصل نہیں ہوا۔ وہ مقامات خانہ کعبہ، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ ہیں جنہیں حرمین شریفین کہا جاتا ہے۔

باب جبرئیل ؑسے مسجد میں داخل ہوں تو دائیں ہاتھ کی جانب زمین سے تقریباً دو فٹ اونچا چبوترہ بنا ہوا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں نبی کریم ؐ کے زمانے میں وہ صحابہ کرامؓؓ رہتے تھے جنہوں نے اپنے آپ کو تعلیم کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ حضوراکرمؐ اس جگہ بیٹھ کران مثالی طالب علموں کو قرآن وحدیث کے علاوہ دیگر علوم وفنون سے بھی آراستہ فرماتے تھے۔

ان جیدّ طلباء کی تعداد ستر (70) تھی۔ ان میں حضرت سلمان فارسیؓ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت ابوہریرہؓ جیسے اکا بر شامل تھے۔ انہی لوگوں میں سے حضورؐ عامل، گورنر، حاکم اور معلّم مقرر فرمایا کرتے تھے۔ سادہ لفظوں میں یہ نبیؐ کے پڑوسی کہلایا کرتے تھے۔ حضورؐ سے براہ راست تعلیم اور پھر آپؐ کے پڑوسی رہنا یقیناً ایک سعادت عظیم ہے۔

صفہ کا چبوترہ اس وقت مسجد سے باہر تھا۔ صفہ کے معنی گھر کے باہر بنی ڈیوڑھی کے ہیں۔ مسجد نبوی میں اصحاب صفہّ کا یہ چبوترہ تیس فٹ لمبا اور بیس فٹ چوڑا ہے۔ یہ تین اطراف سے کھلا ہے اور ایک سمت دیوار ہے جس کے ساتھ جالی دار شیلف رکھے ہوئے ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں قرآن حکیم رکھے ہوئے ہیں، جو دو رسم الخط میں ہیں۔ ان میں سے ایک رسم الخط جو پاکستان میں رائج ہے وہ طباعت کرواکر وہاں رکھوائے گئے ہیں کیوںکہ ایشیائی لوگ اس رسم الخط سے واقف ہیں۔

دوسرے خطوط میں انہیں دشواری پیش آتی تھی لہٰذا جنرل ضیاء الحق مرحوم کی کاوشوں سے وہاں یہ نسخہ جات رکھوائے گئے جو پاکستانی حکومت کی ایک بڑی دینی خدمت کہلاتی ہے۔ حرمین شریفین یعنی مکہ اور مدینہ میں قرآنی نسخے رکھنے کے علاوہ مرحوم صدر جنرل ضیاء الحق کی ایک خدمت یہ بھی ہے کہ انہوں نے عرفات کے چٹیل میدان میں نیم کے درخت لگوائے جو پاکستان سے ہزاروں کی تعداد میں بھیجے گئے تھے۔ ان کی کاشت کے لیے مٹی بھی یہیں سے بھجوائی گئی تھی۔ آج یہ درخت تناور ہوچکے ہیں اور حجاج کرام ان کے سائے میں وقوف کرتے ہیں اور دھوپ کی تمازت سے محفوظ رہتے ہیں۔ صفہ کے چبوترے پر پہلی صف میں علماء تشریف رکھتے ہیں جو مختلف زبانوں پر عبور رکھتے ہیں۔

یہ عوام الناس کو درپیش مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔ یہ علماء فارغ وقت میں قرآن حکیم ترتیب اور سلیقے سے شیلف میں رکھتے ہوئے نظر آئیں گے جنہیں عوام الناس جلدی میں ایسے ہی چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ یوں یہ اس مقام پر خادم بن کر تشریف رکھتے ہیں اور نبی کریمؐ کے مبارک دور آپؐ کے طلبہ اور درویش صفت صحابہ کرامؓؓ کی یادتازہ کرتے ہیں۔ اسی طرح حجاج کرام اور زائرین بھی اس مقدس مقام پر حضوؐر کی سنت اور صحابہ کرامؓؓ کی پیروی کرتے ہوئے عبادات میں فیوض و برکات حاصل کرتے ہیں۔

اصحاب صفہّ کے چبوترے کے بالکل سامنے باب جبرئیل کے قریب ترین ہی حضرت فاطمتہ الزہرہؓ کا دولت خانہ ہے، جس کے گرد جالی لگی ہوئی ہے اور جالی کے اوپر آپؓ کا نام کندہ ہے۔ یہ حجرہ بھی مستقل بند رہتا ہے۔ دائیں جانب دیوار پر ایک کتبہ لگا ہوا ہے جس سے حضرت ابوبکرصدیقؓ کے دروازے کا پتا چلتا ہے۔ یہ وہی دروازہ ہے جسے رسول اللّہؐ نے آخری دنوں میں کھلا رکھنے کی اجازت دی تھی اور باقی جتنے دروازے مسجد کی جانب کھلتے تھے بند کروادیے تھے۔

روضۂ اقدس کی پشت پر حضرت فاطمہ ؓ کے حجرے کا دروازہ ہے۔ اس جانب حضور اکرم ؐ کے قدم مبارک ہیں۔ اس وجہ سے اس دروازہ کا نام قدمین پڑ گیا ہے۔ اس مبارک دروازہ کی چابی حضرت بلال ؓ کے خاندان کے پاس تب سے چلی آ رہی ہے۔ وقفہ وقفہ سے یہ لوگ صفائی کی غرض سے اس دروازہ کو کھولتے ہیں یہاں آنحضورؐ اور ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کے استعمال کی روز مرہ کی اشیاء محفوظ ہیں جن کی صفائی کے بعد دروازہ پھر مقفل کردیا جاتا ہے۔ قفل بردار خاندان کے علاوہ کسی اور شخص کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔

روضۂ اقدس کو پیتل کی جالیوں سے اور دیگر اطراف کو لوہے کے جالی دار دروازوں سے بند کیا ہوا ہے۔ مواجہ شریف کی طرف ہر سہ مزاراتِ متبرکہ کے مقابل گول گول سے تقریباً چھے انچ قطر کے سوراخ ہیں۔ اس میں ایک دروازہ بھی ہے جو تمام دروازوں کی طرح بند رہتا ہے۔ بس اسی عمارت کو مقصورہ شریف کہتے ہیں۔ اس متبرک مقام پر حضرت ابو بکر صدیقؓ کا سر حضورؐ کے سینہ کے برابر ہے۔ روایت میں ہے کہ اس کے علاوہ اس مقدس مقام پر ایک قبر کی جگہ اور خالی ہے جو حضرت عیسٰی ؑ کے لیے محفوظ کی گئی ہے۔

روضہ اقدس (مقصورہ شریف) کی لمبائی باون فٹ اور چوڑائی اننچاس فٹ ہے، جس کے چاروں جانب سنگ مر مر کے ستون ہیں جو چھت تک بلند ہیں۔ سب سے پہلے 678؁ھ میں ملک منصور قلدون نے روضۂ اقدس پر ایک گنبد بنوایا تھا جو نیچے سے مربع اور اوپر سے 8 کونوں کا تھا۔ یہ لکڑی کے تختوں اور سیسہ کی پلیٹ سے بنوایا گیا تھا۔

886؁ھ میں ملک اشرف قائت بانی نے روضۂ اقدس اور مسجد کی تعمیر و توسیع کی خدمت پر سنقر جمالی کو مامور کیا جس نے تعمیر کے بعد گنبد کا رنگ سفید رکھا جسے قبتہ البیضاء کہا جاتا تھا۔ پھر دو سال بعد ملک قائت بانی نے روضہ اقدس میں ایک جھروکہ باب فاطمہؓ اور باب تہجد بنوائے لیکن فرش کو کچا رکھا جو بعد میں یعنی دسویں صدی ہجری کے وسط میں سلطان سلیمان رومی نے روضۂ اقدس کا فرش سنگ مرمر کا بنوایا جو آج تک موجود ہے۔ 980؁ھ میں سلطان سیلم ثانی نے روضہ اقدس کا قابل رشک گنبد تعمیر کروایا جیسے رنگیں پتھروں سے مزّین کیا اور گنبد کی پشت پر اپنا نام بھی لکھوایا۔ پھر 1233؁ھ میں سلطان محمود نے گنبد نبوی کو ازسر نو تعمیر کروایا۔ پہلے گنبد کا رنگ سفید تھا، مگر 1255؁ھ میں اس گنبد کا رنگ سبز کروادیا اور تب ہی سے اسے گنبد خضراء کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

مسجد مسلمانوں کا دینی شعار ہے۔ یہاں سے مسلمانوں کو طہارت، پاکیزگی، صفائی، سادگی، ہم دردی کا درس ملتا ہے۔ یہ مسلمانوں کو روحانی اور اخلاقی تربیت کے علاوہ نظم و ضبط کا پابند بناتی ہے۔ یہ ملت اسلامیہ کے اتحاد کی موجب ہے۔ عہدرسالت اور پھر خلفائے راشدین کے دور میں مسجدنبوی ؐ کو مرکزی حیثیت حاصل رہی۔ اسی مسجد میں مجلس شورٰی قائم ہوتی تھی۔ یہی جگہ عدالتی مرکز تھی، نبی کریمؐ یہیں سے سزا وجزا کے فیصلے صادر فرماتے تھے۔ دارالتبلیغ کے علاوہ مسلمانوں کے لیے یہ مہمان سرائے کا کام دیتی تھی۔ مہاجرین کے لیے قیام گاہ یہی ہوتی تھی۔

جنگ کی صورت میں ضروریات جنگ کا سامان، مجاہدین کی تربیت، آلات حرب اور زخمیوں کے لیے دارالشفاء کا کام یہیں پر ہوتا تھا۔ حکومت کا دیوان خانہ یعنی بیت المال بھی اسی جگہ ہوتا تھا۔ حکومتوں کے لیے سفیر، ایلچی یہیں سے بھیجے جاتے تھے اور اگر کسی ملک سے سفیر یا ایلچی آتے تو انہیں یہیں منتظر ہونا ہوتا تھا۔ یہ تھی آفاقی مذہب اسلام میں مسجد نبویؐ کی تعمیری غرض وغایت جس کی بنا پر مسلمانوں کو اور مذاہب وملت پر خصوصی امتیازی حیثیت حاصل رہی۔
Load Next Story