خطے میں عدم استحکام کی کوشش خود بھارت کیلئے تباہی لا سکتی ہے
پاکستان، چین، روس، ایران اور وسط ایشیائی ریاستیں افغانستان میں امن کے لیے کوشاں ہیں۔
درہ خنجرآب، ہمالہ کے سلسلہ کوہ قراقرم پر چینی علاقے سنکیانگ Xinjiang اور پاکستانی علاقے گلگت بلتستان و کشمیر کے درمیان قدیم شاہر ہ ریشم پر واقع ہے۔
یہ مقام سطح سمندر سے 4693 میٹر یعنی 15397 فٹ بلند ہے اور دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان اسٹرٹیجک مقام ہے، اس پورے علاقے بشمول تبت کو دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔
سنکیانگ یا شخجیانگ اویطورعوامی جمہوریہ کا ایک خود مختار علاقہ ہے یعنی چین کی حکومت کے بہت سے قوانین یہاں نرم ہیں یا یہاں کے عوام کی مذہبی ثقافتی صورت کے مطابق لاگو نہیں ہوتے، لیکن یہ چین کا ایک باقاعدہ صوبہ ہے جو رقبے میں کافی وسیع ہے، اس کا رقبہ 1664900 مربع کلومیٹر اور آبادی 25852345 اِن کی اکثریت ترک مسلمان ہے جو اویغور کہلاتے ہیں، ایک زمانے تک یہ پورا علاقہ جو سنٹرل ا یشیا کی دیگر ریاستوں پر بھی مشتمل تھا ترکستان کہلاتا تھا، 19 ویںصدی کے آخر سے یہ سنٹرل ایشیا کی ریاستیں روسی ترکستان اور سنکیانگ کا علاقہ چینی ترکستان کہلا نے لگا۔
سنکیانگ صوبے کا دارالحکو مت ارومچی ہے جب کہ کاشغر اس صوبے کا سب سے بڑا شہر ہے، سنکیانگ کی سرحدیں جنوب میں چین کے علاقے تبت، شنگائی اور گانسر کے صوبوں سے ملتی ہیں، مشرق میں منگولیا ہے اور شمال میں روس اور مغرب میں قازقستان ، کرغرستان، تاجکستان، افغانستان، پھر پا کستان کے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے علاوہ یہاں بھارت مقبوضہ کشمیر اور لداخ سے ملتی ہیں۔ جہاں تک چین اور بھارت کا تعلق ہے تو یہاں سے آگے ہمالہ ہی کے دوسرے پہاڑی سلسلوں پر تبت سے چین کی سرحدیں ہما چل پردیش تک ہیں اور لداخ اور ہماچل پر دیش سمیت اس پورے علاقے میں میک مون لائن اور ایکچول لائن آف کنٹرول پر بھارت کے زیرِ کنٹرول بہت سے علاقوں پر چین کا دعویٰ ہے۔
1962 ء کی جنگ میں بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر لداخ میں چین نے ہزاروں مربع کلو میٹر رقبہ بھارت سے چھین لیا تھا جو اب چین ہی کے پاس ہے۔ دنیا بھر میں جہاں آباد علاقوں کی بنیاد وں پر ایک ملک سے دوسرے ملک کی سرحدیں ملتی ہیں وہاں دونوں ملکوں میں سرحدوں کے پار چند کلو میٹر تک ایک ہی نسل ، قوم اور ثقافت کے حا مل لو گ آباد ہو تے ہیں اور پھر جیسے جیسے سرحد سے دوری ہوتی جاتی ہے یہ نسلی ، قومی اور ثقافتی رنگ پھیکے پڑتے جاتے ہیں اور آگے دو سرے نسلی، قومی اور ثقافتی رنگوں میں تبدیل ہو جا تا ہے۔
چینی ترکستان یعنی صوبہ سنکیانگ کی آبادی میں نسلی، ثقا فتی تقسیم یوں ہے اویغور کا تناسب مجموعی آبادی میں 45.84 فیصد ہے، ہان نسل 40.48% قازق6.50 فیصد ہیں، جو ئی 4.51فیصد اور دیگر کا تناسب 2.6% ہے۔ 2019 ء میں سنکیانگ کا سالانہ جی ڈی پی 197 بلین ڈالر اور فی کس سالانہ آمدنی 7868 امریکی ٖڈالر تھی۔ سنکیانگ اور پاکستانی علاقے میں دنیا کی دوسری بلند ترین چو ٹی K2 نزدیک واقع ہے جو سطح سمندر سے 8611 میٹر بلند ہے جب کہ یہاں کم سے کم بلند علاقہ Lake Ayding کا ہے، جو سطح سمندر سے 154 میٹر بلند ہے۔
1857 ء میں ہندوستان میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف جنگِ آزادی ناکام ہوئی اور ہندستان میں برائے نام مغل بادشاہت کا بھی اختتام ہو گیا، مگر اس سے قبل ہی اس پورے علاقے میں گریٹ گیم کا آغاز ہو گیا تھا۔ انگریزوں نے پنجاب میں رنجیت سنگھ کی وفات سے چند روز قبل اس کی بھاری فوجی مدد اور تعاون سے 1839 ء میں افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا۔ انگریزوں کو یہ معلوم تھا کہ روس کے باد شاہ زار پال نے 1801 ء میں اپنی وفات سے کچھ عرصے پہلے فرانسسی کمانڈر جنرل نیپولین بونا پارٹ کو دعوت دی تھی کہ وہ برطانوی ہند کے علاقوں حملہ کرئے تو روس یہاں سنٹرل ایشیا اور افغانستان سے ہوتے ہوئے بلو چستان تک پہنچ جا ئے گا۔
اُس وقت سے روس بحیرہ عرب تک پہنچنے کے خواب دیکھ رہا تھا، مگر ستم ظریفی دیکھیے کہ یہی نیپو لین جب فرانس کا بادشاہ بن گیا تو 1812 ء میں اس نے روس پر حملہ کیا جہاں روس نے موسم سر ما تک اُس کی فوجیوں کو آگے بڑھنے دیا اور پھر ماسکو شہر کو آگ لگا کر خوراک کے ذخائر ضائع کرکے پسپا ہو گئے اور نیپولین کے لاکھوں فوجیوں کو سخت سردی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ نیپولین ناکام واپس لوٹا اور اس کی فوج کا بڑا حصہ روسی فوج کے چھاپہ ماروں کے حملوں کی نذر ہوگیا۔ انگریز یہ چاہتا تھا کہ افغانستان پر قبضہ کر کے وہ روس کو یہاں سے آگے ہندوستان کی جانب بڑھنے سے روک دے۔
1839 ء میں فتح کے بعد 1842 ء کے موسم سرما میں افغانوں نے انگریز فوج کے کابل گیریژن پر دھاوا بولا اور وہاں مقیم انگریز فوج اور ان کے خاندانوں پر مشتمل بارہ ہزار افراد کو موت کی نیند سُلا دیا اور افغانستان کو آزاد کرا لیا۔ انگریزوں نے 1839 ء میںکابل سے واپسی پر بلو چستان میں خان آف قلات محراب خان کو جنگ میں شہید کر کے یہاں اپنے قبضے کو مضبوط کر نے کی کوشش شروع کردی تھی۔ دوسری انیگلو افغان جنگ 1878 میںہوئی۔ اسی سال انگریز نے بلوچستان میں کوئٹہ شہر اور بڑی چھاؤنی کی تعمیر مکمل کر لی ۔
1878 ء میں اٖفغانستان کی فتح کے بعد انگریزوں نے یہاں افغان بادشاہت ہی قائم رکھی مگر ایک بڑی سبسڈی کے عوض افغانستان کے خارجہ اور دفاعی امور اپنے ہا تھ میں لے لیے۔ تیسری افغان جنگ 1919 ء میں جنگ عظیم اوّل کے ایک سال بعد ہو ئی جس میں غازی امان اللہ نے انگریزوں کو شکست دے کر افغانستان کو دفاعی اور خارجہ پالیسی کے اعتبار سے بھی آزاد کر وا لیا۔
دوسری جانب 1839 سے روس بھی وسطی ایشیا کی طرف بڑھتا رہا۔ 1917 ء کے روسی کیمونسٹ انقلاب کے بعد روسی ترکستان یعنی سنٹرل ایشیا کے علاقے کو اسٹالن نے ثقافت کے نام پر آذربائجان ازبکستان ، تاجکستان ،ترکمانستان کرغیزستان ، قازقستان میں تقسیم کر دیا اور جبر و تشدد کی بنیاد پر ان کی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ جب 1919 ء میں تیسری اینگلو افغان جنگ کے بعد افغانستان کے بادشاہ غازی امان اللہ نے روس سے تعلقات استوار کئے تو جنگی طیاروں سمیت سوویت یونین نے دیگر جنگی سامان کے ساتھ افغانستان کی مدد کی۔ جواب میں انگریز نے جلد ہی سازش کے ذریعے امان اللہ کا تحتہ الٹ دیا اور یوں افغانستان کی بفر اسٹیٹ کی حیثیت بحال ہو گئی۔ 1949 ء میں ماو زے تنگ کی قیادت میںچین نے مسلح جد وجہد کے بعد آزادی حاصل کر لی۔
یوں سوویت یونین اور بھارت کے ہمسایہ میں آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پہلا اور رقبے کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک آزاد ہوا۔ اُس وقت چین کے بھارت اور سوویت یونین سے مثالی تعلقات تھے مگر1953 ء میں اسٹالن کی وفات کے بعد سوویت یونین اور چین کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہو گئے ۔
کیونکہ اسٹالن کے بعد خروشیف ماو زے تنگ کو اپنے سے کمتر اور چین کو اپنا ماتحت خیال کر تا تھا۔ یہ اختلافات 1959 ء میں انتہا کو پہنچے جب بھارت نے بھی چین سے آنکھیں پھر لیں، تبت کے دلائی لامہ کو بھارت میں سیاسی پنا ہ دے دی اور سوویت یونین نے بھارت کی حمایت کی۔ یہ وہ دور تھا جب چین کے بجائے اقوام متحدہ میں تائیوان کو سیکورٹی کونسل میں ویٹو پاور دے کر اقوام متحدہ سے عوامی جمہوریہ چین کو باہر رکھا گیا تھا اور عالمی برادری میں چین شدید تنہائی کا شکار تھا۔ جب 1964 ء میں چین نے ایٹمی دھماکے کی تیاریاں کر لیں تو بعض اطلاعات کے مطابق سوویت یونین نے دھمکی دی تھی کہ اگر دھماکہ کیا تو سوویت یونین چین پر حملہ کر دے گا۔
1962 ء کے بعد پاکستان کے لئے یہ پہلا موقع تھا کہ وہ بھارت کے خلاف چین کی حمایت حاصل کر سکے۔ 1965 ء کی پاک بھارت جنگ میں سوویت یونین اور امریکہ نے بھارت کی حمایت کی پاکستان نے اس کے باوجود چین اور امریکہ کو قریب لانے کی کامیاب کو شش کی اور9 جولائی1971 ء کو پاکستان امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کو پی آئی اے کے طیارے کے ذریعے خفیہ طور پر چین لے گیا۔ سوویت یونین نے امریکہ ،چین ،پاکستان کے ممکنہ سیاسی اتحاد کی پیش بندی کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ دفاعی معاہد ہ کر لیا جس کے باعث پاکستان کو مشرقی پاکستان کی علحیدگی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔
پاکستان میں جب جنرل ضیاالحق نے اسلامی نظام کا نعرہ لگا یا اور ساتھ ہی ایران میں بھی امام خمینی کا اسلامی انقلاب رونما ہوا تو سوویت یونین کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ اگر افغانستان میں بھی صدر سردار داؤد کی حکومت کی جگہ اسلا می حکومت آجاتی ہے تو اس کے اثرات وسطی ایشیا میں سوویت یونین کی مسلم اکثریت کی حامل ریا ستوں پر پڑیں گے، اسی خطرے کی پیش بندی کے لئے سوویت یونین نے افغانستان میں مداخلت کر تے ہو ئے اشتراکی انقلاب بر پا کیا اور جب یہاں اس کو چیلنج کیا گیا تو سوویت یونین نے اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کر دیں۔
چین سمیت اقوام متحدہ کی اکثریت نے اس کی متواتر مذمت کی اور یوں آخر افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے بعد دنیا سے سرد جنگ کا خاتمہ ہوا مگر افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ 11 ستمبر 2001 ء کو امریکہ میں نیویارک ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن میں پینٹاگان پرطیاروں کے حملوں کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر اسامہ بن لادن کو مجرم گردانتے ہو ئے حملہ کر دیا اور اسکے بعد دہشت گردی کی یہ جنگ ، عراق، شام ، اور لیبیا ، سوڈان تک پھیل گئی۔ پا کستان کو اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے 70000 افراد کا جانی نقصان کے علاوہ 150 ارب ڈالر کا مالی نقصان ہوا جب کہ 2008 ء سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے پا کستان کے مقابلے میں بھارت کو اپنا اسٹریٹجک پاٹنر قرار دیتے ہو ئے جنوبی ایشیا میں اپنی پالیسی کو تبدیل کر لیا۔
بھارت نے 'جو پہلے ہی چین کا نام لے کر پہلے سوویت یونین اور اب امریکہ کا اعلانیہ حلیف بن گیا ہے' اب چین کے مقابلے کا بہانہ بنا کر 5 اگست 2019 ء اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور ریاستی ڈومیسائل کے قانون 35A کو ختم کر کے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کر نے کا عمل شروع کردیا۔ دوسری جانب سابق امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں طالبان سے معاہدہ کیا اور افغانستان میں کھربوں ڈالر کے نقصان کے بعد 31 مئی 2021 ء تک افغانستان سے امریکہ سمیت تمام فوجیں نکانے کا اعلان کر دیا۔ مگر جب جو بائیڈن امریکہ کے صدر بنے تو اُنہوں نے مئی کی تاریخ کو آ گے بڑھایا اور اب تمام فوجوں کا انخلا 11 ستمبر 2021 ء مکمل ہو گا۔
1988 ء میں افغانستان سے روسی انخلا اقوام متحدہ ،امریکہ ، سابق سوویت یونین ،اُس وقت کی افغان حکومت اور پاکستان کے درمیان جنیوامعاہدہ کے تحت ہوا تھا جس پر عملدر آمد کی ذمہ داری سوویت یونین امریکہ اور اقوام متحدہ نے لی تھی مگر چند مہینوں بعد ہی افغانستان میں گریٹ گیم مزید شدت اختیار کر گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکہ افغانستان سے انخلا کرتے وقت ماضی کے حقائق سامنے رکھتا اور نیٹو کے انخلا سے پہلے افغانستان میں یہاں عوام کی مرضی کے مطابق کو ئی عبوری سیٹ اپ بنا کر رخصت ہو تا مگر ایسا نہیں ہو ا۔ طالبان افغان حکومت سے امن مذاکرات کرنا چاہتے ہیں لیکن اُن کی چند شرائط ہیں جن میں بنیاد شرط افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا مکمل انخلا ہے، جو لگتا ہے کہ 11 ستمبر 2021 ء پہلے مکمل ہو جا ئے گا۔
11 جولائی 2021 ء تک کی اطلاعات کے مطابق 95% غیر ملکی افواج افغانستان چھوڑ چکی ہیں جو بھاری مقدار میں اسلحہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی حکومت کو دے کر کسی بھی وقت مکمل طور پر افغانستان سے نکل جا ئیں گی۔ یہ صورتحال افغانستان کے ہمسایہ ملکوں پاکستان ،ایران ، چین ، تاجکستان ، ازبکستان ،ترکمنستان کے ساتھ ساتھ بعد ازاں روس اور بھارت کے لیے بھی تشویشناک ہو سکتی ہے کیونکہ ابھی یہ کہنا کہ یہاں امریکہ جنگ ہا ر گیا ہے قبل از وقت ہوگا، ہاں یہ ضرور ہے کہ امریکہ اور بھارت کی افغانستان سے پسپائی ہو ئی ہے۔ طالبان امریکہ معاہد ے کے وقت ہی یہ افواہیں عام تھیں کہ افغانستان سے نیٹو فوجوںکے انخلاکے بعد یہاں ہزاروں کی تعداد میں مو جود بلیک واٹر کے ایجنٹ مصروف ِعمل ہو جائیں گے۔
اب یہی اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ یہاں امریکہ اور اُس کے اتحادی 50 ہزار کنٹیکٹرز کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کر نے کی کوشش کر یں گے۔ اِن مقاصد میں سب سے اہم خطے میں بد امنی پیدا کر نا ہے تاکہ چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ اور اس کا ایک بنیادی جُز چین، پاکستان راہداری منصوبہ تعطل کا شکار ہو جائے اس کے ساتھ ہی یہاں طالبان کے مخالف ایسے گروپ تشکیل دیئے جائیں جو پاکستان ، ایران ،تاجکستان ، ازبکستان ، ترکمنستان اور چین کے صوبے سنکیانگ تک حالات کو اس قدر خراب کر دیں کہ چین سی پیک کے ذریعے اور روس ، ازبکستان ، تاجکستان ، ترکمنستان گوادر تک نہ پہنچ پا ئے۔ پھر چین اور روس کی اِن سرحدوں پر دہشت گردی کے ایسے واقعات اور حالات ہو ں کہ جس کی وجہ سے اِن دونوں بڑی قوتوں کی تیز رفتار ترقی سست پڑ جائے اس مقصد میں بھارت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا مدد گار و معاون ہو گا۔
اس ہدف کا نقطہ عروج یہ ہے کہ ایسے حالات پیدا کر دیئے جائیں کہ روس اور چین ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے کے مقابل آ کھڑے ہوں۔ دوسری جانب اس بار خطے کے ملکوں نے امریکہ کے مقابلے میں یہ حکمت عملی اختیار کی ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی سازشیوں کی رخصتی کے بعد پاکستان ، ایران ، ازبکستان ترکمنستان ، تاجکستان، چین اور روس ،ا فغانستان میں قیام ِ امن کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان نے اس مرتبہ مختلف عسکری حکمت عملی اپنائی ہے۔
اُنہوں نے سب سے پہلے افغانستان کے سرحدی علاقوں پر کنٹرول حاصل کیا، وہاں کے مقامی قبائل اور عوامی حلقوں کے تعاون اور شراکت سے اپنا قبضہ مضبو ط کیا اور ہمسایہ ملکوں کو یہ یقین دلایا ہے کہ طالبا ن کی جانب سے کی بھی ملک کے خلاف کوئی کاروائی ہو گی، نہ ہی کسی اور کرنے دی جائے گی۔ اگر چہ طالبان پر افغانستان کے تما م ہمسایہ ممالک اعتبار کر رہے ہیں مگر بات پھر 50 ہزار مسلح کنٹریکٹرز کی ہے جس کے لیے افغانستان کے تمام ہمسایہ ملک اپنے اپنے طور پر پیش بندی کر رہے ہیں۔
پاکستان کو خد شہ ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی کی صورت میں پاکستان میں دوبارہ700000 افغان مہاجرین پناہ لے سکتے ہیں جن کے لئے ایرانی ماڈ ل اپنانے کی بات کی جارہی ہے جب کہ پاکستان میں ایسی صورت میں دہشت گردی کے واقعات کے بڑھنے کا اندیشہ بھی ہے ،امریکہ کی حکومت روس کو،، تھریٹ ،،اور چین کو ''چیلنج'' قرار دے چکی ہے۔
جوالائی 2021 ء کے ٹائم رسالے میں چین کی تیاری کے بارے میں کہا گیا ہے کہ چین نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس ،،مصنوعی ذہانت،، میں کمال کی تر قی کر تے ہو ئے ،، بگ برین ،، کے نام سے اپنا سیکورٹی کا مربوط نظام تشکیل دیا ہے جس کی مدد سے کروڑوں لاکھوں کیمر وں کی مدد سے ملک کے چپے چپے پر اور ہر فرد پر نظر رکھ جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ چین امریکہ کے مقا بلے میں خلا میں اپنا خلائی اسٹیشن قائم کر چکا ہے اور اب وہ دنیا کے دیگر تمام ملکوں کی طرح امریکہ کامحتاج نہیں بلکہ روس اور پاکستان سمیت اب دنیا کے کئی ممالک امریکی خلائی اسٹیشن کی بجائے چین کا اسٹیشن استعمال کر یں گے، یوں چین صوبہ سنکیانگ سمیت اپنی تمام سرحدوں اور علاقوں پر گہری نظر رکھے گا ، اس نئے انداز کی ممکنہ جنگ میں اس پورے خطے میں بھارت امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کا معاون و مدد گار ہے اس لیے ضروری ہے کہ بھارت اور چین کا موازانہ کر لیا جائے۔
واضح رہے کہ چین اور بھارت دونوں کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت ہزاروں برس قدیم ہے اِن دونوں ملکوں کی تہذیب اور تاریخ میں ایک قدر ِ مشترک یہ ہے کہ یہ دونوں ملک تاریخ میں فاتحین پید ا نہ کر سکے یعنی یہاں سے کو ئی فاتح عالم نہیں اُبھرا جو سکندر اعظم ،جولیس سیز ، ہینیبال ، چنگیز خان ،امیر تیمور یا ماضی قریب کی طرح نیپولین بوناپارٹ اور ہٹلر کی طرح دنیا فتح کر نا چاہتا ہو ، ہاں یہ ضرور ہے کہ ہندوستان اور چین دونوں ملکوں میں بہت خونریز خانہ جنگیاں ہو تی رہیں اور اِن دونوں ملکوں پر بیرونی حملہ آور حملے بھی کر تے رہے اور پھر اِن دنوں ملکوں پر مغلوں یا منگولوں اور مغربی اور یورپی اقوم نے نہ صر ف حملے کئے بلکہ کا فی عرصے تک اِن دنیا کی سب سے بڑی آبادیوں پر حکومتیں بھی کیں۔
لیکن سائنسی ایجادت علم و تحقیق کے شعبوں میں ترقی اور بیرون ملک سفر اور تجارت کے اعتبار سے دنیا کی تاریخ میں چین بڑا نام رکھتا ہے اور اس لحاظ سے تاریخ کا سب سے بڑا عرصہ یا دورانیہ بھی چین ہی کا رہا غالباً یہی بنیادی وجہ رہی ہو گی جس کے سبب یہ حدیث مبارک ہمیشہ سے مسلمانوں کو حصول علم کی اہمیت یاد الاتی ہے کہ ،،علم حاصل کرو چاہے اس کے لیے تمہیں چین ہی کیو ں نا جانا پڑے،، چین کا موازانہ اگر ہندو ستان سے کیا جائے تو چین کے بعد آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا اور چین کا ہمسایہ ملک بھارت ہے جس کی تہذیب بھی لگ بھگ چین جتنی ہی پرانی ہے مگر یہاں پر ہندومت کے بنیاد ی نظام اور فلسفے کے مطابق چار ذاتوں کی تقسیم یعنی برہمن ، کشتری ، ویش اور شودر نے مذہب اور علم پر برہمن کو اجارہ داری دی۔
کشتری کو برہمن کی برتری کو تسلیم کر تے ہو ئے حکومت اور فوج کے امور بخشے گئے۔ ویش کے ذمے تجارت آئی پھر معاشرے میں اکثریت رکھنے والے مظلوم طبقے شودرکوغلام سے بدتر بنا کر ذلت آمیز زندگی کے ساتھ درج بالا تینوں طبقات کی خدمت کی ذمہ دار یاں سونپی گئیں۔
ہندوستا ن کی ڈھائی ہزاربرسو ںپر مشتمل تاریخ میں دو اعظم یعنی گریٹ Garet پیدا ہوئے ایک تقریباً ڈھائی ہزار برس پہلے اشوک اعظم تھا جس نے جنگ کلنکا میں اُس وقت جب پوری دنیا کی آبادی پا نچ سات کروڑ سے زیادہ نہیں تھی ایک لاکھ انسانوں کے ہلاک کرنے کے بعد جنگ سے توبہ کی اور اپنی رعایا سمیت اپنے پایہ تحت ٹیکسیلا میں بدھ مت اختیار کر لیا جو امن و آشتی کی ترغیب دیتا ہے مگر اس کی وفات کے بعد ہند مت کہیں زیادہ تنگ نظری اور شدت پسندی کے ساتھ ابھرا اور امن پسند اور جنگ سے نفرت کرنے والے بدھ مت کے ماننے والوں کا ایسا قتل عام کیا کہ اَن کی اکثریت قراقرم کے انہی دشوارگزار راستوں سے ہوتی ہوئی تبت اور چین اور پھر دوسرے راستوں سے ہو تی جاپان ، تھائی لینڈ ، ویتنام اور ہند چینی کے دوسرے علاقوں میں آباد ہو گئی آج دنیا میں بدھ مت کے ماننے والوں کی مجموعی تعداد 60 کروڑ تک بتائی جاتی ہے مگر بدھ مت کے ماننے والے بھارت کی آبادی میں آٹے میں نمک کے برابر یعنی محض 0.70% ہیں۔
اس کے مقابلے میں چین کی آبادی میں بدھ مت کے ماننے والوں کا تناسب 15.3% ہے اور ان کی مجموعی تعداد20 کروڑ کے قریب ہے۔ عیسائی آبادی 2.53% تاؤ ازم7.6% مسلما ن 0.45% اور لادین73.56% ہیں۔ 2011 ء میں ہو نے والی مردم شماری میں بھارت کی کل 1 ارب 21 کروڑ کی آبادی میں 79.80% ہندو 2.30% عیسائی 1.72% سکھ اور مسلمان14.24% تھے۔ اسی طرح نسلی اعتبار سے دیکھا جائے تو چین کی اکثریت چینی اور ہان نسل سے ہے جب کہ بھارت نسلی اور لسانی اعتبار سے کہیں زیادہ متنوع ہے۔
چین اور ہندوستان میں صدیوں تک ہمالہ جیسا دنیا کا بلند ترین پہاڑ حائل رہا اس لیے باوجود ہمسایہ ملک ہو نے کے چین کے ہند وستان اورہندوستان کے چین پر معاشرتی ، ثقافتی ، تہذیبی اور تاریخی اثرات بہت ہی کم پڑے ہیں،یوں ہندوستان اور چین میں ایک قدر مشترکہ تو یہی تھی کہ اِ ن دونوں بڑے ملکوں نے دنیا کے دیگر ملکوں پر حملے بہت ہی کم کئے اور کم ہی کسی ملک پر قبضہ کیا۔
چین تاریخ انسانی میں صد یوں علم و تحقیقی میں بھی دنیا کی رہنمائی کر تا رہا اور بہت وسیع چینی علاقے پر مشتمل چینی سلطنتوں نے بہت طاقت کے ساتھ حکمرانی کی جب کہ اشوک اعظم کے بعد مسلمانوں کی آمد تک ہند وستان میں مرکزی حکومت نہیں رہی اور وسیع ہندوستان کئی چھوٹی بڑی ریاستوں میں نہ صرف تقسیم رہا بلکہ یہ ہندو ریاستیں آپس ایک دوسرے کے لڑتے جھگڑتی رہیں اور جب مسلما ن اور پھر خصوصاً مغل حکومت جو ظہر الدین بابر1526 ء سے اورنگ زیب کی وفات 1707 ء تک ہندوستان ایک مضبوط اور وسیع سلطنت کے طور پر قائم رہی اس دوران اکبر اعظم مغل دور کا مضبوط اور طویل عرصے تک شہنشاہ رہا اس کے عہد میں ہند وستان دنیا کا خوشحال اور امیر ملک تھا۔
ہندوستانی معاشرے کے برعکس چین شروع ہی سے دنیا کی سب سے بڑی آبادی کے ساتھ ہی تاریخ کے بیشتر ادوار میں دنیا کا سب سے منظم معاشرہ رہا ہے چین یورپی اقوام کی جانب سے نو آبایاتی نظام کے مضبوط ہو نے تک ایک ترقی یافتہ ملک رہا ہے اور اس نے جہاں دنیا میں سینکڑوں ایجا دات اور دریافتیں کیں وہاں اسی قوم نے اپنے دفاع اور اپنی ریشم کی دریافت اوراس کی صنعت کو دنیا سے محفوظ کر نے کے لئے عظیم دیوار ِ چین تعمیر کی جو دنیا کے عجائبات میں شامل ہے اور دنیا میں انسانی ہاتھوں سے بنی یہ واحد تعمیر ہے جو چاند سے بھی دکھا ئی دیتی ہے۔
یہ درست ہے کہ چین اور بھارت نے دنیا کے کسی ملک پر قبضہ نہیں کیا لیکن نو آبادیا تی دور کے آنے تک اور خصوصاً اُس وقت جب چین اور بھارت آزاد اور خو دمختار ہو نے کے ساتھ ہی آبادی کے لحاظ سے دنیا کے یہ دونوں بڑے ملک اُس وقت دنیا کے امیر ترین ملک تھے مگر جیساکہ تاج محل اور دیوار ِچین کے فرق سے ظاہر ہے اِن دونوں ملکوں کے معاشروں اور معاشرتی ، سماجی ، تہذیبی اور سیاسی رحجانات اور رویوںبھی فرق رہا ہے مثلا تاج محل کسی مقامی ہندو حکمران نے نہیں بنایا پھر یہ بادشاہ کی ایک خواہش تھی اس سے عوام کو کوئی فائد ہ نہیں ہوا اس میں کو ئی قومی مفاد حاصل نہیں کیا گیا اور وہ بڑی رقم جو تاج محل پر خرچ کی گئی اگر ملکی دفاع پر خرچ کی جاتی تو یورپی اقوام خصوصاً انگریز ہندوستان میں اپنے قدم نہیں جما سکتے تھے۔
اس کے مقابلے میں دیوار چین ایک تو چین کو منگولوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے دفاعی نوعیت کی دنیا کی ایک اہم تعمیر تھی پھر اس کا ایک بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ چین ہی نے ریشم دریا فت کیا تھا اور صدیوں تک پوری دنیا میں ریشم اور ریشمی کپڑوں کی صنعت پر چین کی مکمل اجارہ داری یوں رہی کہ چین میں جو بھی آتا جب وہ واپس جا تا تو اس دیوار پر قائم چوکیوں پر اِس کی پوری تلاشی لی جا تی کہ کہیں وہ چین سے ریشم کے کیڑے کسی طرح چھپا کر نہ لے جا ئے۔
تصور کر یں کہ اُس زمانے میںپوری دنیا کے بادشاہ اور امرا ریشمی کپڑے کے استعمال کو اپنی شان سمجھتے تھے آخر صدیوں بعد دو یورپی پادریوں کے روپ میں چین آئے اور یہاں برسوں عیسائیت کی تبلیغ کرتے رہے اور پھر واپسی میں اپنے عصا کو کھوکھلا کرکے اِن میں ریشم کے کیڑے چھپا کر لے گئے اور یوں ریشم کا راز دنیا کو معلوم ہو گیا۔
چین کے تاجر تاریخی طور پر ہزاروں برسوں سے دنیا کے مختلف ملکوں میں تجارت کی غرض سے جاتے رہے مگر ہند وستان کے مقامی لوگ یعنی ہندو مذہب میں سمندر اور دریا پار کرنے سے اُن کا دھرم نشٹ یعنی ختم ہو جا تا تھا اور برہمن دنیا کے دیگر علوم سے نہ صرف خود کو بلکہ تمام ہندو ں کو محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔
ہندوستان پر مسلمانوںکی حکومت تقریباً آٹھ سوسال رہی بد قسمتی سے فاتحین جن کا تعلق سنٹرل ایشیا اور افغانستان سے رہا جہاں کوئی سمندر نہیں تھا، اس لیے ہند وستان کے مسلمان حکمرانوں نے بھی بحری فوج پر زیادہ توجہ نہیں دی اس کے مقابلے میں ہند وستان اور چین کے درمیان ہمالہ حائل رہا سنٹرل ایشیا منگولیہ اور روس سے جہاں سے چین پر حملوں کے خطرا ت رہتے تھے وہاں چین نے دفاعی انتظامات کئے۔ ساؤتھ چائینہ سی میں چین کی بحری قوت ایک طویل عرصے تک مستحکم رہی 1857 ء ہی کے دور میں چین پر نو آبادیاتی قوتیں زیادہ غالب آنے لگیں اور اسی دور میں بر طانیہ کی جانب سے دو افیون جنگیں ہو ئی ،پھر جب انگر یز ہندوستان اور چین پر قابض ہو ئے تو چین پر قبضے کے لیے انگریز سمیت یورپی اقوام نے مختلف حکمت عملی اپنائی۔
1857 ء کی جنگِ آزادی میں ہندوستان کی ہندو آبادی کا خیال یہ تھاکہ وہ پہلے مسلمانوں کی حکمرانی میں تھے اب انگریز کی حاکمیت میں ہیں اور وہ آزادی اور غلامی کے فرق کو بھلا بیٹھے جب کہ چین میں عوام نے نو آبایاتی نظام کو اپنی غلامی جانا اور اس کے خلاف جد وجہد جاری رکھی۔ مستقبل قریب میں اگر بھارت نے یہی روش اپنائے رکھی تو بھارت کے ٹوٹنے اور بکھرنے کے کے خطرات بہت بڑھ جائیں گے۔ مگر اس خطرے کے باوجود بھارت اپنے علاقے کے دیگر ملکوں سمیت پا کستان ، افٖغانستان اور چین کے عدم استحکام کے لیے امر یکہ اور اس کے اتحادیوں کا آلہ کار بن چکا ہے جو تاریخ کے ایک المیے سے کم نہیں۔ اس سے جو بھی سانحے جنم لے سکتے ہیں وہ خود بھارت کے لیے کہیں زیادہ نقصان دہ ہوں گے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ 74 سالہ جمہوری تاریخ رکھنے والا یہ ملک تاریخ کے اس اہم موڑ پر کیا رویہ اختیار کر تا ہے اور اس کے عوام کیا فیصلہ کر تے ہیں ۔ پاکستان کے اعتبار سے سنکیانگ ، کاشغر سے گوادر اہم ترین ہے۔
یہ مقام سطح سمندر سے 4693 میٹر یعنی 15397 فٹ بلند ہے اور دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان اسٹرٹیجک مقام ہے، اس پورے علاقے بشمول تبت کو دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔
سنکیانگ یا شخجیانگ اویطورعوامی جمہوریہ کا ایک خود مختار علاقہ ہے یعنی چین کی حکومت کے بہت سے قوانین یہاں نرم ہیں یا یہاں کے عوام کی مذہبی ثقافتی صورت کے مطابق لاگو نہیں ہوتے، لیکن یہ چین کا ایک باقاعدہ صوبہ ہے جو رقبے میں کافی وسیع ہے، اس کا رقبہ 1664900 مربع کلومیٹر اور آبادی 25852345 اِن کی اکثریت ترک مسلمان ہے جو اویغور کہلاتے ہیں، ایک زمانے تک یہ پورا علاقہ جو سنٹرل ا یشیا کی دیگر ریاستوں پر بھی مشتمل تھا ترکستان کہلاتا تھا، 19 ویںصدی کے آخر سے یہ سنٹرل ایشیا کی ریاستیں روسی ترکستان اور سنکیانگ کا علاقہ چینی ترکستان کہلا نے لگا۔
سنکیانگ صوبے کا دارالحکو مت ارومچی ہے جب کہ کاشغر اس صوبے کا سب سے بڑا شہر ہے، سنکیانگ کی سرحدیں جنوب میں چین کے علاقے تبت، شنگائی اور گانسر کے صوبوں سے ملتی ہیں، مشرق میں منگولیا ہے اور شمال میں روس اور مغرب میں قازقستان ، کرغرستان، تاجکستان، افغانستان، پھر پا کستان کے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے علاوہ یہاں بھارت مقبوضہ کشمیر اور لداخ سے ملتی ہیں۔ جہاں تک چین اور بھارت کا تعلق ہے تو یہاں سے آگے ہمالہ ہی کے دوسرے پہاڑی سلسلوں پر تبت سے چین کی سرحدیں ہما چل پردیش تک ہیں اور لداخ اور ہماچل پر دیش سمیت اس پورے علاقے میں میک مون لائن اور ایکچول لائن آف کنٹرول پر بھارت کے زیرِ کنٹرول بہت سے علاقوں پر چین کا دعویٰ ہے۔
1962 ء کی جنگ میں بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر لداخ میں چین نے ہزاروں مربع کلو میٹر رقبہ بھارت سے چھین لیا تھا جو اب چین ہی کے پاس ہے۔ دنیا بھر میں جہاں آباد علاقوں کی بنیاد وں پر ایک ملک سے دوسرے ملک کی سرحدیں ملتی ہیں وہاں دونوں ملکوں میں سرحدوں کے پار چند کلو میٹر تک ایک ہی نسل ، قوم اور ثقافت کے حا مل لو گ آباد ہو تے ہیں اور پھر جیسے جیسے سرحد سے دوری ہوتی جاتی ہے یہ نسلی ، قومی اور ثقافتی رنگ پھیکے پڑتے جاتے ہیں اور آگے دو سرے نسلی، قومی اور ثقافتی رنگوں میں تبدیل ہو جا تا ہے۔
چینی ترکستان یعنی صوبہ سنکیانگ کی آبادی میں نسلی، ثقا فتی تقسیم یوں ہے اویغور کا تناسب مجموعی آبادی میں 45.84 فیصد ہے، ہان نسل 40.48% قازق6.50 فیصد ہیں، جو ئی 4.51فیصد اور دیگر کا تناسب 2.6% ہے۔ 2019 ء میں سنکیانگ کا سالانہ جی ڈی پی 197 بلین ڈالر اور فی کس سالانہ آمدنی 7868 امریکی ٖڈالر تھی۔ سنکیانگ اور پاکستانی علاقے میں دنیا کی دوسری بلند ترین چو ٹی K2 نزدیک واقع ہے جو سطح سمندر سے 8611 میٹر بلند ہے جب کہ یہاں کم سے کم بلند علاقہ Lake Ayding کا ہے، جو سطح سمندر سے 154 میٹر بلند ہے۔
1857 ء میں ہندوستان میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف جنگِ آزادی ناکام ہوئی اور ہندستان میں برائے نام مغل بادشاہت کا بھی اختتام ہو گیا، مگر اس سے قبل ہی اس پورے علاقے میں گریٹ گیم کا آغاز ہو گیا تھا۔ انگریزوں نے پنجاب میں رنجیت سنگھ کی وفات سے چند روز قبل اس کی بھاری فوجی مدد اور تعاون سے 1839 ء میں افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا۔ انگریزوں کو یہ معلوم تھا کہ روس کے باد شاہ زار پال نے 1801 ء میں اپنی وفات سے کچھ عرصے پہلے فرانسسی کمانڈر جنرل نیپولین بونا پارٹ کو دعوت دی تھی کہ وہ برطانوی ہند کے علاقوں حملہ کرئے تو روس یہاں سنٹرل ایشیا اور افغانستان سے ہوتے ہوئے بلو چستان تک پہنچ جا ئے گا۔
اُس وقت سے روس بحیرہ عرب تک پہنچنے کے خواب دیکھ رہا تھا، مگر ستم ظریفی دیکھیے کہ یہی نیپو لین جب فرانس کا بادشاہ بن گیا تو 1812 ء میں اس نے روس پر حملہ کیا جہاں روس نے موسم سر ما تک اُس کی فوجیوں کو آگے بڑھنے دیا اور پھر ماسکو شہر کو آگ لگا کر خوراک کے ذخائر ضائع کرکے پسپا ہو گئے اور نیپولین کے لاکھوں فوجیوں کو سخت سردی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ نیپولین ناکام واپس لوٹا اور اس کی فوج کا بڑا حصہ روسی فوج کے چھاپہ ماروں کے حملوں کی نذر ہوگیا۔ انگریز یہ چاہتا تھا کہ افغانستان پر قبضہ کر کے وہ روس کو یہاں سے آگے ہندوستان کی جانب بڑھنے سے روک دے۔
1839 ء میں فتح کے بعد 1842 ء کے موسم سرما میں افغانوں نے انگریز فوج کے کابل گیریژن پر دھاوا بولا اور وہاں مقیم انگریز فوج اور ان کے خاندانوں پر مشتمل بارہ ہزار افراد کو موت کی نیند سُلا دیا اور افغانستان کو آزاد کرا لیا۔ انگریزوں نے 1839 ء میںکابل سے واپسی پر بلو چستان میں خان آف قلات محراب خان کو جنگ میں شہید کر کے یہاں اپنے قبضے کو مضبوط کر نے کی کوشش شروع کردی تھی۔ دوسری انیگلو افغان جنگ 1878 میںہوئی۔ اسی سال انگریز نے بلوچستان میں کوئٹہ شہر اور بڑی چھاؤنی کی تعمیر مکمل کر لی ۔
1878 ء میں اٖفغانستان کی فتح کے بعد انگریزوں نے یہاں افغان بادشاہت ہی قائم رکھی مگر ایک بڑی سبسڈی کے عوض افغانستان کے خارجہ اور دفاعی امور اپنے ہا تھ میں لے لیے۔ تیسری افغان جنگ 1919 ء میں جنگ عظیم اوّل کے ایک سال بعد ہو ئی جس میں غازی امان اللہ نے انگریزوں کو شکست دے کر افغانستان کو دفاعی اور خارجہ پالیسی کے اعتبار سے بھی آزاد کر وا لیا۔
دوسری جانب 1839 سے روس بھی وسطی ایشیا کی طرف بڑھتا رہا۔ 1917 ء کے روسی کیمونسٹ انقلاب کے بعد روسی ترکستان یعنی سنٹرل ایشیا کے علاقے کو اسٹالن نے ثقافت کے نام پر آذربائجان ازبکستان ، تاجکستان ،ترکمانستان کرغیزستان ، قازقستان میں تقسیم کر دیا اور جبر و تشدد کی بنیاد پر ان کی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ جب 1919 ء میں تیسری اینگلو افغان جنگ کے بعد افغانستان کے بادشاہ غازی امان اللہ نے روس سے تعلقات استوار کئے تو جنگی طیاروں سمیت سوویت یونین نے دیگر جنگی سامان کے ساتھ افغانستان کی مدد کی۔ جواب میں انگریز نے جلد ہی سازش کے ذریعے امان اللہ کا تحتہ الٹ دیا اور یوں افغانستان کی بفر اسٹیٹ کی حیثیت بحال ہو گئی۔ 1949 ء میں ماو زے تنگ کی قیادت میںچین نے مسلح جد وجہد کے بعد آزادی حاصل کر لی۔
یوں سوویت یونین اور بھارت کے ہمسایہ میں آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پہلا اور رقبے کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک آزاد ہوا۔ اُس وقت چین کے بھارت اور سوویت یونین سے مثالی تعلقات تھے مگر1953 ء میں اسٹالن کی وفات کے بعد سوویت یونین اور چین کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہو گئے ۔
کیونکہ اسٹالن کے بعد خروشیف ماو زے تنگ کو اپنے سے کمتر اور چین کو اپنا ماتحت خیال کر تا تھا۔ یہ اختلافات 1959 ء میں انتہا کو پہنچے جب بھارت نے بھی چین سے آنکھیں پھر لیں، تبت کے دلائی لامہ کو بھارت میں سیاسی پنا ہ دے دی اور سوویت یونین نے بھارت کی حمایت کی۔ یہ وہ دور تھا جب چین کے بجائے اقوام متحدہ میں تائیوان کو سیکورٹی کونسل میں ویٹو پاور دے کر اقوام متحدہ سے عوامی جمہوریہ چین کو باہر رکھا گیا تھا اور عالمی برادری میں چین شدید تنہائی کا شکار تھا۔ جب 1964 ء میں چین نے ایٹمی دھماکے کی تیاریاں کر لیں تو بعض اطلاعات کے مطابق سوویت یونین نے دھمکی دی تھی کہ اگر دھماکہ کیا تو سوویت یونین چین پر حملہ کر دے گا۔
1962 ء کے بعد پاکستان کے لئے یہ پہلا موقع تھا کہ وہ بھارت کے خلاف چین کی حمایت حاصل کر سکے۔ 1965 ء کی پاک بھارت جنگ میں سوویت یونین اور امریکہ نے بھارت کی حمایت کی پاکستان نے اس کے باوجود چین اور امریکہ کو قریب لانے کی کامیاب کو شش کی اور9 جولائی1971 ء کو پاکستان امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کو پی آئی اے کے طیارے کے ذریعے خفیہ طور پر چین لے گیا۔ سوویت یونین نے امریکہ ،چین ،پاکستان کے ممکنہ سیاسی اتحاد کی پیش بندی کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ دفاعی معاہد ہ کر لیا جس کے باعث پاکستان کو مشرقی پاکستان کی علحیدگی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔
پاکستان میں جب جنرل ضیاالحق نے اسلامی نظام کا نعرہ لگا یا اور ساتھ ہی ایران میں بھی امام خمینی کا اسلامی انقلاب رونما ہوا تو سوویت یونین کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ اگر افغانستان میں بھی صدر سردار داؤد کی حکومت کی جگہ اسلا می حکومت آجاتی ہے تو اس کے اثرات وسطی ایشیا میں سوویت یونین کی مسلم اکثریت کی حامل ریا ستوں پر پڑیں گے، اسی خطرے کی پیش بندی کے لئے سوویت یونین نے افغانستان میں مداخلت کر تے ہو ئے اشتراکی انقلاب بر پا کیا اور جب یہاں اس کو چیلنج کیا گیا تو سوویت یونین نے اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کر دیں۔
چین سمیت اقوام متحدہ کی اکثریت نے اس کی متواتر مذمت کی اور یوں آخر افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے بعد دنیا سے سرد جنگ کا خاتمہ ہوا مگر افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ 11 ستمبر 2001 ء کو امریکہ میں نیویارک ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن میں پینٹاگان پرطیاروں کے حملوں کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر اسامہ بن لادن کو مجرم گردانتے ہو ئے حملہ کر دیا اور اسکے بعد دہشت گردی کی یہ جنگ ، عراق، شام ، اور لیبیا ، سوڈان تک پھیل گئی۔ پا کستان کو اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے 70000 افراد کا جانی نقصان کے علاوہ 150 ارب ڈالر کا مالی نقصان ہوا جب کہ 2008 ء سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے پا کستان کے مقابلے میں بھارت کو اپنا اسٹریٹجک پاٹنر قرار دیتے ہو ئے جنوبی ایشیا میں اپنی پالیسی کو تبدیل کر لیا۔
بھارت نے 'جو پہلے ہی چین کا نام لے کر پہلے سوویت یونین اور اب امریکہ کا اعلانیہ حلیف بن گیا ہے' اب چین کے مقابلے کا بہانہ بنا کر 5 اگست 2019 ء اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور ریاستی ڈومیسائل کے قانون 35A کو ختم کر کے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کر نے کا عمل شروع کردیا۔ دوسری جانب سابق امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں طالبان سے معاہدہ کیا اور افغانستان میں کھربوں ڈالر کے نقصان کے بعد 31 مئی 2021 ء تک افغانستان سے امریکہ سمیت تمام فوجیں نکانے کا اعلان کر دیا۔ مگر جب جو بائیڈن امریکہ کے صدر بنے تو اُنہوں نے مئی کی تاریخ کو آ گے بڑھایا اور اب تمام فوجوں کا انخلا 11 ستمبر 2021 ء مکمل ہو گا۔
1988 ء میں افغانستان سے روسی انخلا اقوام متحدہ ،امریکہ ، سابق سوویت یونین ،اُس وقت کی افغان حکومت اور پاکستان کے درمیان جنیوامعاہدہ کے تحت ہوا تھا جس پر عملدر آمد کی ذمہ داری سوویت یونین امریکہ اور اقوام متحدہ نے لی تھی مگر چند مہینوں بعد ہی افغانستان میں گریٹ گیم مزید شدت اختیار کر گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکہ افغانستان سے انخلا کرتے وقت ماضی کے حقائق سامنے رکھتا اور نیٹو کے انخلا سے پہلے افغانستان میں یہاں عوام کی مرضی کے مطابق کو ئی عبوری سیٹ اپ بنا کر رخصت ہو تا مگر ایسا نہیں ہو ا۔ طالبان افغان حکومت سے امن مذاکرات کرنا چاہتے ہیں لیکن اُن کی چند شرائط ہیں جن میں بنیاد شرط افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا مکمل انخلا ہے، جو لگتا ہے کہ 11 ستمبر 2021 ء پہلے مکمل ہو جا ئے گا۔
11 جولائی 2021 ء تک کی اطلاعات کے مطابق 95% غیر ملکی افواج افغانستان چھوڑ چکی ہیں جو بھاری مقدار میں اسلحہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی حکومت کو دے کر کسی بھی وقت مکمل طور پر افغانستان سے نکل جا ئیں گی۔ یہ صورتحال افغانستان کے ہمسایہ ملکوں پاکستان ،ایران ، چین ، تاجکستان ، ازبکستان ،ترکمنستان کے ساتھ ساتھ بعد ازاں روس اور بھارت کے لیے بھی تشویشناک ہو سکتی ہے کیونکہ ابھی یہ کہنا کہ یہاں امریکہ جنگ ہا ر گیا ہے قبل از وقت ہوگا، ہاں یہ ضرور ہے کہ امریکہ اور بھارت کی افغانستان سے پسپائی ہو ئی ہے۔ طالبان امریکہ معاہد ے کے وقت ہی یہ افواہیں عام تھیں کہ افغانستان سے نیٹو فوجوںکے انخلاکے بعد یہاں ہزاروں کی تعداد میں مو جود بلیک واٹر کے ایجنٹ مصروف ِعمل ہو جائیں گے۔
اب یہی اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ یہاں امریکہ اور اُس کے اتحادی 50 ہزار کنٹیکٹرز کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کر نے کی کوشش کر یں گے۔ اِن مقاصد میں سب سے اہم خطے میں بد امنی پیدا کر نا ہے تاکہ چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ اور اس کا ایک بنیادی جُز چین، پاکستان راہداری منصوبہ تعطل کا شکار ہو جائے اس کے ساتھ ہی یہاں طالبان کے مخالف ایسے گروپ تشکیل دیئے جائیں جو پاکستان ، ایران ،تاجکستان ، ازبکستان ، ترکمنستان اور چین کے صوبے سنکیانگ تک حالات کو اس قدر خراب کر دیں کہ چین سی پیک کے ذریعے اور روس ، ازبکستان ، تاجکستان ، ترکمنستان گوادر تک نہ پہنچ پا ئے۔ پھر چین اور روس کی اِن سرحدوں پر دہشت گردی کے ایسے واقعات اور حالات ہو ں کہ جس کی وجہ سے اِن دونوں بڑی قوتوں کی تیز رفتار ترقی سست پڑ جائے اس مقصد میں بھارت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا مدد گار و معاون ہو گا۔
اس ہدف کا نقطہ عروج یہ ہے کہ ایسے حالات پیدا کر دیئے جائیں کہ روس اور چین ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے کے مقابل آ کھڑے ہوں۔ دوسری جانب اس بار خطے کے ملکوں نے امریکہ کے مقابلے میں یہ حکمت عملی اختیار کی ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی سازشیوں کی رخصتی کے بعد پاکستان ، ایران ، ازبکستان ترکمنستان ، تاجکستان، چین اور روس ،ا فغانستان میں قیام ِ امن کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان نے اس مرتبہ مختلف عسکری حکمت عملی اپنائی ہے۔
اُنہوں نے سب سے پہلے افغانستان کے سرحدی علاقوں پر کنٹرول حاصل کیا، وہاں کے مقامی قبائل اور عوامی حلقوں کے تعاون اور شراکت سے اپنا قبضہ مضبو ط کیا اور ہمسایہ ملکوں کو یہ یقین دلایا ہے کہ طالبا ن کی جانب سے کی بھی ملک کے خلاف کوئی کاروائی ہو گی، نہ ہی کسی اور کرنے دی جائے گی۔ اگر چہ طالبان پر افغانستان کے تما م ہمسایہ ممالک اعتبار کر رہے ہیں مگر بات پھر 50 ہزار مسلح کنٹریکٹرز کی ہے جس کے لیے افغانستان کے تمام ہمسایہ ملک اپنے اپنے طور پر پیش بندی کر رہے ہیں۔
پاکستان کو خد شہ ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی کی صورت میں پاکستان میں دوبارہ700000 افغان مہاجرین پناہ لے سکتے ہیں جن کے لئے ایرانی ماڈ ل اپنانے کی بات کی جارہی ہے جب کہ پاکستان میں ایسی صورت میں دہشت گردی کے واقعات کے بڑھنے کا اندیشہ بھی ہے ،امریکہ کی حکومت روس کو،، تھریٹ ،،اور چین کو ''چیلنج'' قرار دے چکی ہے۔
جوالائی 2021 ء کے ٹائم رسالے میں چین کی تیاری کے بارے میں کہا گیا ہے کہ چین نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس ،،مصنوعی ذہانت،، میں کمال کی تر قی کر تے ہو ئے ،، بگ برین ،، کے نام سے اپنا سیکورٹی کا مربوط نظام تشکیل دیا ہے جس کی مدد سے کروڑوں لاکھوں کیمر وں کی مدد سے ملک کے چپے چپے پر اور ہر فرد پر نظر رکھ جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ چین امریکہ کے مقا بلے میں خلا میں اپنا خلائی اسٹیشن قائم کر چکا ہے اور اب وہ دنیا کے دیگر تمام ملکوں کی طرح امریکہ کامحتاج نہیں بلکہ روس اور پاکستان سمیت اب دنیا کے کئی ممالک امریکی خلائی اسٹیشن کی بجائے چین کا اسٹیشن استعمال کر یں گے، یوں چین صوبہ سنکیانگ سمیت اپنی تمام سرحدوں اور علاقوں پر گہری نظر رکھے گا ، اس نئے انداز کی ممکنہ جنگ میں اس پورے خطے میں بھارت امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کا معاون و مدد گار ہے اس لیے ضروری ہے کہ بھارت اور چین کا موازانہ کر لیا جائے۔
واضح رہے کہ چین اور بھارت دونوں کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت ہزاروں برس قدیم ہے اِن دونوں ملکوں کی تہذیب اور تاریخ میں ایک قدر ِ مشترک یہ ہے کہ یہ دونوں ملک تاریخ میں فاتحین پید ا نہ کر سکے یعنی یہاں سے کو ئی فاتح عالم نہیں اُبھرا جو سکندر اعظم ،جولیس سیز ، ہینیبال ، چنگیز خان ،امیر تیمور یا ماضی قریب کی طرح نیپولین بوناپارٹ اور ہٹلر کی طرح دنیا فتح کر نا چاہتا ہو ، ہاں یہ ضرور ہے کہ ہندوستان اور چین دونوں ملکوں میں بہت خونریز خانہ جنگیاں ہو تی رہیں اور اِن دونوں ملکوں پر بیرونی حملہ آور حملے بھی کر تے رہے اور پھر اِن دنوں ملکوں پر مغلوں یا منگولوں اور مغربی اور یورپی اقوم نے نہ صر ف حملے کئے بلکہ کا فی عرصے تک اِن دنیا کی سب سے بڑی آبادیوں پر حکومتیں بھی کیں۔
لیکن سائنسی ایجادت علم و تحقیق کے شعبوں میں ترقی اور بیرون ملک سفر اور تجارت کے اعتبار سے دنیا کی تاریخ میں چین بڑا نام رکھتا ہے اور اس لحاظ سے تاریخ کا سب سے بڑا عرصہ یا دورانیہ بھی چین ہی کا رہا غالباً یہی بنیادی وجہ رہی ہو گی جس کے سبب یہ حدیث مبارک ہمیشہ سے مسلمانوں کو حصول علم کی اہمیت یاد الاتی ہے کہ ،،علم حاصل کرو چاہے اس کے لیے تمہیں چین ہی کیو ں نا جانا پڑے،، چین کا موازانہ اگر ہندو ستان سے کیا جائے تو چین کے بعد آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا اور چین کا ہمسایہ ملک بھارت ہے جس کی تہذیب بھی لگ بھگ چین جتنی ہی پرانی ہے مگر یہاں پر ہندومت کے بنیاد ی نظام اور فلسفے کے مطابق چار ذاتوں کی تقسیم یعنی برہمن ، کشتری ، ویش اور شودر نے مذہب اور علم پر برہمن کو اجارہ داری دی۔
کشتری کو برہمن کی برتری کو تسلیم کر تے ہو ئے حکومت اور فوج کے امور بخشے گئے۔ ویش کے ذمے تجارت آئی پھر معاشرے میں اکثریت رکھنے والے مظلوم طبقے شودرکوغلام سے بدتر بنا کر ذلت آمیز زندگی کے ساتھ درج بالا تینوں طبقات کی خدمت کی ذمہ دار یاں سونپی گئیں۔
ہندوستا ن کی ڈھائی ہزاربرسو ںپر مشتمل تاریخ میں دو اعظم یعنی گریٹ Garet پیدا ہوئے ایک تقریباً ڈھائی ہزار برس پہلے اشوک اعظم تھا جس نے جنگ کلنکا میں اُس وقت جب پوری دنیا کی آبادی پا نچ سات کروڑ سے زیادہ نہیں تھی ایک لاکھ انسانوں کے ہلاک کرنے کے بعد جنگ سے توبہ کی اور اپنی رعایا سمیت اپنے پایہ تحت ٹیکسیلا میں بدھ مت اختیار کر لیا جو امن و آشتی کی ترغیب دیتا ہے مگر اس کی وفات کے بعد ہند مت کہیں زیادہ تنگ نظری اور شدت پسندی کے ساتھ ابھرا اور امن پسند اور جنگ سے نفرت کرنے والے بدھ مت کے ماننے والوں کا ایسا قتل عام کیا کہ اَن کی اکثریت قراقرم کے انہی دشوارگزار راستوں سے ہوتی ہوئی تبت اور چین اور پھر دوسرے راستوں سے ہو تی جاپان ، تھائی لینڈ ، ویتنام اور ہند چینی کے دوسرے علاقوں میں آباد ہو گئی آج دنیا میں بدھ مت کے ماننے والوں کی مجموعی تعداد 60 کروڑ تک بتائی جاتی ہے مگر بدھ مت کے ماننے والے بھارت کی آبادی میں آٹے میں نمک کے برابر یعنی محض 0.70% ہیں۔
اس کے مقابلے میں چین کی آبادی میں بدھ مت کے ماننے والوں کا تناسب 15.3% ہے اور ان کی مجموعی تعداد20 کروڑ کے قریب ہے۔ عیسائی آبادی 2.53% تاؤ ازم7.6% مسلما ن 0.45% اور لادین73.56% ہیں۔ 2011 ء میں ہو نے والی مردم شماری میں بھارت کی کل 1 ارب 21 کروڑ کی آبادی میں 79.80% ہندو 2.30% عیسائی 1.72% سکھ اور مسلمان14.24% تھے۔ اسی طرح نسلی اعتبار سے دیکھا جائے تو چین کی اکثریت چینی اور ہان نسل سے ہے جب کہ بھارت نسلی اور لسانی اعتبار سے کہیں زیادہ متنوع ہے۔
چین اور ہندوستان میں صدیوں تک ہمالہ جیسا دنیا کا بلند ترین پہاڑ حائل رہا اس لیے باوجود ہمسایہ ملک ہو نے کے چین کے ہند وستان اورہندوستان کے چین پر معاشرتی ، ثقافتی ، تہذیبی اور تاریخی اثرات بہت ہی کم پڑے ہیں،یوں ہندوستان اور چین میں ایک قدر مشترکہ تو یہی تھی کہ اِ ن دونوں بڑے ملکوں نے دنیا کے دیگر ملکوں پر حملے بہت ہی کم کئے اور کم ہی کسی ملک پر قبضہ کیا۔
چین تاریخ انسانی میں صد یوں علم و تحقیقی میں بھی دنیا کی رہنمائی کر تا رہا اور بہت وسیع چینی علاقے پر مشتمل چینی سلطنتوں نے بہت طاقت کے ساتھ حکمرانی کی جب کہ اشوک اعظم کے بعد مسلمانوں کی آمد تک ہند وستان میں مرکزی حکومت نہیں رہی اور وسیع ہندوستان کئی چھوٹی بڑی ریاستوں میں نہ صرف تقسیم رہا بلکہ یہ ہندو ریاستیں آپس ایک دوسرے کے لڑتے جھگڑتی رہیں اور جب مسلما ن اور پھر خصوصاً مغل حکومت جو ظہر الدین بابر1526 ء سے اورنگ زیب کی وفات 1707 ء تک ہندوستان ایک مضبوط اور وسیع سلطنت کے طور پر قائم رہی اس دوران اکبر اعظم مغل دور کا مضبوط اور طویل عرصے تک شہنشاہ رہا اس کے عہد میں ہند وستان دنیا کا خوشحال اور امیر ملک تھا۔
ہندوستانی معاشرے کے برعکس چین شروع ہی سے دنیا کی سب سے بڑی آبادی کے ساتھ ہی تاریخ کے بیشتر ادوار میں دنیا کا سب سے منظم معاشرہ رہا ہے چین یورپی اقوام کی جانب سے نو آبایاتی نظام کے مضبوط ہو نے تک ایک ترقی یافتہ ملک رہا ہے اور اس نے جہاں دنیا میں سینکڑوں ایجا دات اور دریافتیں کیں وہاں اسی قوم نے اپنے دفاع اور اپنی ریشم کی دریافت اوراس کی صنعت کو دنیا سے محفوظ کر نے کے لئے عظیم دیوار ِ چین تعمیر کی جو دنیا کے عجائبات میں شامل ہے اور دنیا میں انسانی ہاتھوں سے بنی یہ واحد تعمیر ہے جو چاند سے بھی دکھا ئی دیتی ہے۔
یہ درست ہے کہ چین اور بھارت نے دنیا کے کسی ملک پر قبضہ نہیں کیا لیکن نو آبادیا تی دور کے آنے تک اور خصوصاً اُس وقت جب چین اور بھارت آزاد اور خو دمختار ہو نے کے ساتھ ہی آبادی کے لحاظ سے دنیا کے یہ دونوں بڑے ملک اُس وقت دنیا کے امیر ترین ملک تھے مگر جیساکہ تاج محل اور دیوار ِچین کے فرق سے ظاہر ہے اِن دونوں ملکوں کے معاشروں اور معاشرتی ، سماجی ، تہذیبی اور سیاسی رحجانات اور رویوںبھی فرق رہا ہے مثلا تاج محل کسی مقامی ہندو حکمران نے نہیں بنایا پھر یہ بادشاہ کی ایک خواہش تھی اس سے عوام کو کوئی فائد ہ نہیں ہوا اس میں کو ئی قومی مفاد حاصل نہیں کیا گیا اور وہ بڑی رقم جو تاج محل پر خرچ کی گئی اگر ملکی دفاع پر خرچ کی جاتی تو یورپی اقوام خصوصاً انگریز ہندوستان میں اپنے قدم نہیں جما سکتے تھے۔
اس کے مقابلے میں دیوار چین ایک تو چین کو منگولوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے دفاعی نوعیت کی دنیا کی ایک اہم تعمیر تھی پھر اس کا ایک بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ چین ہی نے ریشم دریا فت کیا تھا اور صدیوں تک پوری دنیا میں ریشم اور ریشمی کپڑوں کی صنعت پر چین کی مکمل اجارہ داری یوں رہی کہ چین میں جو بھی آتا جب وہ واپس جا تا تو اس دیوار پر قائم چوکیوں پر اِس کی پوری تلاشی لی جا تی کہ کہیں وہ چین سے ریشم کے کیڑے کسی طرح چھپا کر نہ لے جا ئے۔
تصور کر یں کہ اُس زمانے میںپوری دنیا کے بادشاہ اور امرا ریشمی کپڑے کے استعمال کو اپنی شان سمجھتے تھے آخر صدیوں بعد دو یورپی پادریوں کے روپ میں چین آئے اور یہاں برسوں عیسائیت کی تبلیغ کرتے رہے اور پھر واپسی میں اپنے عصا کو کھوکھلا کرکے اِن میں ریشم کے کیڑے چھپا کر لے گئے اور یوں ریشم کا راز دنیا کو معلوم ہو گیا۔
چین کے تاجر تاریخی طور پر ہزاروں برسوں سے دنیا کے مختلف ملکوں میں تجارت کی غرض سے جاتے رہے مگر ہند وستان کے مقامی لوگ یعنی ہندو مذہب میں سمندر اور دریا پار کرنے سے اُن کا دھرم نشٹ یعنی ختم ہو جا تا تھا اور برہمن دنیا کے دیگر علوم سے نہ صرف خود کو بلکہ تمام ہندو ں کو محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔
ہندوستان پر مسلمانوںکی حکومت تقریباً آٹھ سوسال رہی بد قسمتی سے فاتحین جن کا تعلق سنٹرل ایشیا اور افغانستان سے رہا جہاں کوئی سمندر نہیں تھا، اس لیے ہند وستان کے مسلمان حکمرانوں نے بھی بحری فوج پر زیادہ توجہ نہیں دی اس کے مقابلے میں ہند وستان اور چین کے درمیان ہمالہ حائل رہا سنٹرل ایشیا منگولیہ اور روس سے جہاں سے چین پر حملوں کے خطرا ت رہتے تھے وہاں چین نے دفاعی انتظامات کئے۔ ساؤتھ چائینہ سی میں چین کی بحری قوت ایک طویل عرصے تک مستحکم رہی 1857 ء ہی کے دور میں چین پر نو آبادیاتی قوتیں زیادہ غالب آنے لگیں اور اسی دور میں بر طانیہ کی جانب سے دو افیون جنگیں ہو ئی ،پھر جب انگر یز ہندوستان اور چین پر قابض ہو ئے تو چین پر قبضے کے لیے انگریز سمیت یورپی اقوام نے مختلف حکمت عملی اپنائی۔
1857 ء کی جنگِ آزادی میں ہندوستان کی ہندو آبادی کا خیال یہ تھاکہ وہ پہلے مسلمانوں کی حکمرانی میں تھے اب انگریز کی حاکمیت میں ہیں اور وہ آزادی اور غلامی کے فرق کو بھلا بیٹھے جب کہ چین میں عوام نے نو آبایاتی نظام کو اپنی غلامی جانا اور اس کے خلاف جد وجہد جاری رکھی۔ مستقبل قریب میں اگر بھارت نے یہی روش اپنائے رکھی تو بھارت کے ٹوٹنے اور بکھرنے کے کے خطرات بہت بڑھ جائیں گے۔ مگر اس خطرے کے باوجود بھارت اپنے علاقے کے دیگر ملکوں سمیت پا کستان ، افٖغانستان اور چین کے عدم استحکام کے لیے امر یکہ اور اس کے اتحادیوں کا آلہ کار بن چکا ہے جو تاریخ کے ایک المیے سے کم نہیں۔ اس سے جو بھی سانحے جنم لے سکتے ہیں وہ خود بھارت کے لیے کہیں زیادہ نقصان دہ ہوں گے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ 74 سالہ جمہوری تاریخ رکھنے والا یہ ملک تاریخ کے اس اہم موڑ پر کیا رویہ اختیار کر تا ہے اور اس کے عوام کیا فیصلہ کر تے ہیں ۔ پاکستان کے اعتبار سے سنکیانگ ، کاشغر سے گوادر اہم ترین ہے۔