سوانح نگار اور مکتوب نگار

کوئی عظیم انسان کسی دوسرے عظیم انسان کی زندگی کی تشریح کرتا ہے تو سوانح عمری کہتے ہیں۔

سوانح کا دائرہ بہت وسیع ہے اگر کسی نے اپنے بارے میں کچھ لکھا یا کچھ کہا تو اسے آپ بیتی یا خودنوشت سوانح کہتے ہیں، اگر ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات پر لکھا تو اسے جگ بیتی کہیں گے۔ سوانح کو فرد کی داستان حیات بھی کہتے ہیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئی عظیم انسان کسی دوسرے عظیم انسان کی زندگی کی تشریح کرتا ہے تو سوانح عمری کہتے ہیں۔

کسی شخصیت کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کی ایسی تصویر پیش کی جاتی ہے جو ہر لحاظ سے مکمل ہو، واقعات قارئین کے لیے پرکشش ہوں اس کے تقاضے ہیں، جو ان شرائط کو پورا کرے۔ اسے انداز بیان پر تاثرجو ان شرائط کو پورا کرے اسے کامیاب سوانح نگار کہا جاتا ہے۔

دیگر اصناف کے مقابل سوانح کی اہمیت زیادہ ہے کیونکہ سوانح سے لطف بھی حاصل ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک فکشن کی طرح ہے اور اس سے افادیت بھی ہوتی ہے۔ ہمیں عظیم شخصیتوں کے بارے میں معلومات ہوتی ہیں۔ سائنس دان، عالم، زعما، سیاسی رہنما، مفکر، مبلغ، محب الوطن، نڈر فوجی جوان، سماجی کارکن جن کے اختیارات بہت ہوتے ہیں پیش کرنے کا اس سے بہترین طریقہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ مولوی عبدالحق نے کہا ''عظیم انسانوں کی ہر عظمت اورکارناموں کو پڑھ کر ہمارے دلوں میں ایسا بننے کو کچھ کر گزرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔''

سوانح نگاری کا فن بہت نازک اور دشوار تھا اس کی دشواریاں ''ناول'' اور ''افسانہ'' سے کہیں بڑھ کر ہے کیونکہ کسی شخص کے سوانح مرتب کرنا اور پوری طرح سے عہدہ پر ہو جانا اس کی اظہار ہوں اسے پوری کردینا ایسا ہے جیسے کوئی تلوار کی دھار پر چل کر اس پار اتر جائے۔ قلم اٹھانے سے پہلے غور کرنا پڑتا ہے کہ کس ذرائع سے اور کیا کیا مواد حاصل ہوسکتا ہے۔ اردو سوانح نگاری کی ابتدا دکن سے ہوئی وہاں کی مثنویوں میں سوانح کے اولین نقوش دیکھے جاسکتے ہیں وہاں جو نظم کی صنف ہے اس میں اس کے نقش موجود ہیں۔


اس کے علاوہ رومی، روحی یہ الگ الگ دوسرے مثنوی نگاروں نے بھی اس طرف توجہ دی۔ اس کے بعد شعرا، اردو کے تذکروں کا دور محمد حسین آزاد کی ''آب حیات'' اردو ادب کی تعریف اور اردو ادب کے شعرا کا ذکر بھی ہے، لیکن ان دونوں سے زیادہ اس کی ایک اہم خصوصیت ہے انھوں نے بہت سی شخصیتوں کی ادبی سوانح بھی پیش کی۔ محمد حسین آزاد کی کتاب ''آب حیات'' میں اردو ادب کی بہت سی شخصیتیں سانس لیتی نظر آتی ہیں۔

مولانا الطاف حسین حالی اور شبلی نعمانی دو ایسی شخصیتیں ہیں جنھوں نے انگلش نہ جاننے کے باوجود ادب کے انگلش نمونوں سے سعی حاصل کی اور اردو ادب کے دامن کو وسیع کیا۔ انھوں نے اپنی تصنیف سے اردو ادب کو مزید آب یاری کی ہے۔ الطاف حسین حالی کی تین کتب اس سے منسلک ہیں۔ اردو ادب کی نثری اصناف میں مکتوب نگاری اہم بلکہ شوق اور ضرورت بھی ہے۔ خطوط کی دو اقسام نظر آتی ہیں۔1۔کاروباری۔2۔شوقیہ

دوسری جسے دل بہلانے اپنی دوسرے کی خیریت کی آگاہی میں خطوط تحریر کرتے ہیں۔ غالب کے بیشتر خطوط اس طرح کے ہیں۔ غالب اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ میں خطوط کے بھروسے پر رہتا ہوں یعنی جس کا خط آیا میں خدا کا احسان ہے کوئی دن ایسا نہیں رہتا، دو چار خط نہیں آتے۔ مولانا ابوالکلام آزاد جب احمد نگر کی جیل میں مقید تھے تو باہر کی دنیا سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔ کوئی ملنے آسکتا نہ وہ کسی کو خط لکھ سکتے تھے۔ تو ایسے میں دل کا غبار نکالنے کے لیے ایک دوست کو خطوط تحریر کرتے اور انھیں اپنے پاس محفوظ کرلیتے جو بعد میں ''غبار خاطر'' کے نام سے کتاب میں وہ تمام خطوط شایع ہوئے۔

اسلوب نگاری کے لحاظ سے بھی ان خطوط کو منقسم کیا جاسکتا ہے جیسے اس کے طریقہ تحریر کرنے کے انداز مختلف طریقوں سے بھی خطوط کو تقسیم کیا جاتا ہے۔ جیسے کاروباری خطوط کی زبان سادہ، سہل، عام فہم ہوتی ہے۔ یہاں زیادہ عرق ریزی، سوچ بچار کا موقعہ نہیں ہوتا۔ ضرورت پڑنے پر قلم اٹھایا اور خط تحریر کردیا، لیکن شوقیہ خطوط اپنے عزیز و اقربا، دوست احباب کو لکھے جاتے ہیں۔

اگر کسی عالم، مدیر، مفکر، مبلغ کو خط لکھ رہے ہیں تو اچھا، عالمانہ انداز ہوگا۔ معاشرتی، سیاسی خطوط کی مثال ہے۔ طبیعت نفاست پسند ہوگی تو شعری وسائل زیادہ حاصل کریں گے۔ مولانا ابوالکلام آزاد مہندی کے خطوط ان کی بڑی مثال ہے ان میں شعری وسائل زیادہ استعمال کیے گئے۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادی کا فلسفہ کی طرف رجحان تھا لہٰذا ان کے خطوط میں فلسفہ نظر آتا ہے۔
Load Next Story