مستقبل سنور سکتا ہے اگر…
ماننا ہوگا کہ سفارش، رشوت، تعلق، اقربا پروری کو ’’ نا‘‘اور اہلیت کو ’’ہاں‘‘ کہنا ہوگا تبھی مستقبل سنور سکتا ہے۔
ہم اپنی سوچ میں ایک بنیادی تبدیلی لے آئیں اور وہ تبدیلی یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم جب بھی اور جو بھی فیصلہ کریں وہ ذات، برادری، قبیلے، فرقے کی بنیاد پر نہیں ، بلکہ صرف اور صرف کردارکو بنیاد بناکر کریں۔اس اصول کو اس انتہائی حد تک اپنائیں کہ قریبی رشتے تک ہمارے فیصلوں میں حائل نہ ہوسکیں۔
سیاست،تجارت،ملازمت،الغرض کوئی بھی شعبہ زندگی ہو ہمارا انتخاب صرف میرٹ اور اصول پر ہونا چاہیے، کیونکہ زبان اور تہذیب کی بنیاد پر کیے گئے فیصلے کرداروں کو مسخ کردیتے ہیں ۔مثلاآپ کے علاقے سے کچھ اشخاص قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے امیدوار ہیں جبکہ آپ کے ذمے انتخاب ہے، یعنی آپ وہاں ایک ووٹر کی حیثیت رکھتے ہیں تو عمومی طور پر آپکی ترجیح وہ امیدوار ہوتا ہے جو اول آپکا ہم زبان ہو دوئم آپکا ہم قبیلہ ہو یا زیادہ بہتر اسے سمجھتے ہیں جو رشتے دار بھی ہو۔
تو آپ 100% اسے اپنے ووٹ کا جائز حقدار سمجھتے ہیں اور اسی کو ووٹ دیتے بھی ہیں اب خواہ اس شخص کا کردار کچھ بھی رہا ہو وہ شرابی ہو ،جواری ہو،راشی ہو، لیکن کیوںکہ آپکا کوئی نہ کوئی تعلق اس سے بنتا ہے تو آپ نے اپنا قیمتی ترین ووٹ جو آگے چل کر آپکا آپ کے بچوں کا ملک و قوم کا مستقبل بننے والا تھا اس امیدوار کو دے دیا۔ اب اگر وہ جیت گیا تو اس کی کارکردگی کیا ہوگی؟ اور اس نقطہ نظر کو لے کر جو اسمبلیاں وجود میں آئیں گی ان کا معیار کیا ہوگا؟
وہی جو آپ دیکھ رہے ہیں انہیں کوئی فکر اس لیے نہیں ہے کیوںکہ وہ آپکی کمزوری سے واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ آپ آئندہ بھی انہیں ووٹ دینے پر مجبور ہیں۔ یہ تعصب ہمیں لیکر ڈوب رہا ہے ہماری زندگی اس اعلی معیارسے محروم رہ جاتی ہے جس پر ہمارا حق ہے اگر ہم کردار کو ایک طرف رکھ کر محض رشتے کی بنیاد پر اشیاء کا یا لوگوں کا انتخاب کریں گے تو شاید دوبارہ غاروں کی دنیا آباد کرلیں گے اور دوسری طرف اللہ کی شریعت اور حضور ﷺکی سنتوں کی بھی صاف صاف خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے۔
اسی معاملے کا ایک اور پہلو آپسی رشتے داری بھی ہے کیوںکہ ہم وہاں پر بھی اسی روایت کا اعادہ کرتے ہیں اور بڑے پیمانے پر اپنے بچوں کی شادیاں اپنے بہت قریبی عزیزوں یا ذات برادری میں کرتے ہیں بلکہ بعض گھرانوں میں تو برادری سے باہر شادی کرنے کو ایک جرم قرار دیا جاتا ہے اور ایسا عمل کرنے والے گھر کو برادری سے نکال باہر کر دیا جاتا ہے یا اس خاندان سے لین دین ختم کرکے تعلقات منقطع کردیے جاتے ہیں۔
یہ سلسلہ اس قدر مضبوط ہے کہ روایت بدل جاتی ہیں لیکن نہیں تبدیل ہوتے تو ہمارے یہ خود ساختہ اصول جو سراسر جہالت پر مبنی ہیں جن کا کوئی تعلق نہ دین سے ہے نہ مہذب معاشروں سے کہ ایک لڑکی یا لڑکے کو پہلے تعلیم سے بہرہ ور کیا جائے پھر اپنی ذات میں کوئی اسکاہم پلہ رشتہ نہ ملے تو اسے کسی کم تعلیم یافتہ لڑکے یا لڑکی سے بیاہ دیا جائے اب نہ اسکی ذہنی سطح اس سے ملتی ہے نہ شعور کا level ایک ہے۔
لہذا وہ دونوں ہی ساری عمر ایک ایسے فیصلے کے قیدی بن کر زندگی گزارنے پر مجبور رہیں گے جس میں ان کا کوئی قصور نہ ہو۔اس معاملے میں خرابی کا عالم یہاں تک بڑھا اور پھیلا ہوا ہے کہ ہم اپنے گھر کا سودا سلف تک اس دکان سے لیتے ہیں جو ہمارا ہم زبان ہو، یعنی حد ہو گئی اخلاقی پستی اور جہالت کی، اور پھر امید یہ رکھیں کہ کبھی کوئی مسیحا آئے گا اور ایک انقلاب کے ذریعے سے سب کچھ دنوں میں ٹھیک کردے گا،لیکن کیا کبھی ہم نے یہ سوچنے کی زحمت بھی کی ہے کہ اس انقلابی شخص کی ذات برادری کیا ہوگی؟ وہ کس صوبے سے ہوگا؟ اس کا مسلک کیا ہوگا؟کیوںکہ ہم نے تو اس خیالی انقلابی کے لیے بھی بہت ساری رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں،تو دوستو ہم ان وجوہات کے سبب زمانے سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں ،ترقی کی ہر دوڑ میں بہت پیچھے کھڑے ہیں۔
زندگی میں کامیابی کا ایک ہی فارمولہ ہے اور وہ وہی ہے جو قرآن نے ہمیں دیا جو حضور ﷺنے ہمیں بتایا کہ ہماری نسل ،قوم ،ذات برادری ،قبیلہ صرف کلمہ توحید ہے جس کی بنیاد پر ہم سب آپس میں ایک ہیں اور یہی ہماری رشتے داری ہے یہی قوم ہے۔ہم میں کوئی بڑا ہے تو تقویٰ کی بنیاد پر کوئی اچھا ہے تو عمل کی بنیاد پر۔ ووٹ وہ امانت ہے جس کا ہمیں آخرت میں حساب دینا ہوگا ،اب یا تو یہ صدقہ جاریہ ہوگا عذاب جاریہ۔میں پہلے بھی اس معاملے کے ایک موضوع پر اپنے دلائل دے چکا ہوں ایک مرتبہ پھر آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کسی کو آٹا، چینی، گھی اس بنیاد پر کم قیمت میں ملے ہوں کہ وہ کسی مخصوص قوم یا قبیلے کا فرد ہے؟ ایسا نہیں ہے یہ آپ بھی جانتے ہیں تو پھر جب ظالم کی کوئی قوم نہیں ہوتی تو مظلوم کیوں ان میں تقسیم در تقسیم ہوتا ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب تک ہم خود کوایک قوم کی صورت میں نہیں ڈھال لیتے تب تک تو میں دعوے سے کہ سکتا ہوں کہ کسی اچھی تبدیلی کو بھول ہی جائیں۔مستقبل سنور سکتا ہے اگرچہ اس موضوع پر بہت کچھ قابل تحریر ہے لیکن میں اس بنیاد کو اصول بنانا چاہتا ہوں جو فوری طور پر کسی اچھی تبدیلی کی وجہ بن سکے ، لہذا جاب ، گریڈ ون کی ہو یا 21 گریڈ کی، اسے کمیشن کے توسط سے دیا جائے۔کیوں کہ سفارش یا رشوت دیکر نوکری لینے والا شخص ملک اور قوم کو وہ ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتا ہے جس کی اصلاح ممکن نہیں رہتی۔ایک طویل مدت سے یہ شور سنتے آئے ہیں کہ پولیس کا محکمے میں reforms کی جائیں گی اور آئندہ پولیس و فورسز کی نوکریوںکو اقرباء پروری، سفارش، رشوت سے محفوظ رکھا جائے گا۔
یہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں یہ شہریوں کو انصاف فراہم کرتے ہیں اسی طرح ججز کی تعیناتی پر سوال اٹھتے رہے کہ اس کے لیے طریقہ کار کو بدل کر زیادہ شفاف کیا جائے گا کیوںکہ یہ بھی عوام الناس کو بنیادی انصاف فراہم کرنے والا ادارہ ہے۔سرکاری و غیر سرکاری ٹیچرز اور لیکچرز کے انتخاب پر بھی اسی طرح کے دعوے سننے میں آئے۔لیکن ہوا کچھ نہیں اقرباء پروری جاری تھی، جاری ہے۔کسی تعلق کی بنیاد پرپہلے بھی فیصلے ہوا کرتے تھے آج بھی ہوتے ہیں۔ہم خود ہی ایسے ادارے تشکیل دے دیتے ہیں جو بعد میں خود ہمارے اور ہماری آنے والی نسل کے لیے عذاب کی صورت میں نازل ہوتے ہیں۔
قومیں تعلیم کو اپنا نصب العین بناتی ہیں ہم نے جہالت کو منزل کا درجہ دیا ہوا ہے خواتین اگر اپنے تحفظ کا دن منائیں تو انہیں آوارگی کا لقب ملتا ہے۔اور اس وقت اسلام کا استعمال بڑی فراوانی سے کیا جاتا ہے۔ صرف اتنا حصہ بیان کیا جاتا ہے جس سے آپ کا مطلب نکلتا ہو۔آخر مستقبل بہتر کیسے ہو؟ کیا باہر سے کوئی آکر مدد کرے گا؟ ظاہر ہے کہ ہمیں ہی اپنا جائزہ لینا ہوگا۔ہم کہاں غلط ہیں بحیثیت قوم اسکی اصلاح ہمارا ہی فرض بنتا ہے کہ ہم 22 کروڑ کی تعداد میں موجود لوگ چند حکومتی اہلکاروں کو یا کچھ حکومتی وزراء کو اسکا ذمے دار قرار دے کر خود کو بری نہیں کرسکتے۔ماننا ہوگا کہ سفارش، رشوت، تعلق، اقربا پروری کو '' نا''اور اہلیت کو ''ہاں'' کہنا ہوگا تبھی مستقبل سنور سکتا ہے۔