ریلوے میں پھر نجکاری آخر کیوں

کیا یہ منافع بخش ادارہ نہیں تھا، کیا ملازمین چور تھے؟ افسران بھی اچھے تھے ریلوے وزیر بھی اچھے تھے حکمران بھی ٹھیک تھے۔

ایک مرتبہ پھر نئے و فاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی نے اعلان کیا ہے کہ ''ہم ریلوے کو نہیں چلا سکتے اس لیے کہ محکمے میں اکثر افسران اور ملازمین چور ہیں'' یہ بات ہزاروں ریلوے ملازمین کی دل آزاری کا سبب بنی ہے، کیا ریلوے 1975 تک ایک بہترین ادارہ نہیں تھا۔

کیا یہ منافع بخش ادارہ نہیں تھا، کیا ملازمین چور تھے؟ افسران بھی اچھے تھے ریلوے وزیر بھی اچھے تھے حکمران بھی ٹھیک تھے۔ کیا پی آئی اے ملک کی بہترین ایئرلائن نہیں تھی، کیا پاکستان اسٹیل ملز بہترین ادارہ نہیں تھا۔ کیا کے ای ایس سی کی سروس بہتر نہیں تھی، کیا پی ٹی سی ایل کے افسران اور ملازمین اچھے نہ تھے۔

کیا واپڈا بہتر نہ تھا، کس کس کا ذکر کروں؟ حکومتی فیصلوں نے ان اداروں کا بیڑا غرق نہیں کیا۔ ملک کے عوام اچھی طرح جانتے ہیں، میں صرف اس وقت پاکستان ریلوے کے بارے ہی عرض کروں گا چونکہ میرا براہ راست ریلوے سے تعلق رہا ہے اور اب بھی ہے۔ میں نے ریلوے میں 32 سال سے زائد ملازمت کی، بطور بکنگ کلرک ریزرویشن کلرک اور ٹکٹ چیکر کی حیثیت سے سارے ملک کا چکر لگایا۔ یہ ایک قومی اور فلاحی ادارہ ہے اس میں ریلوے کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد ملازمین اور ان کے اہل خانہ اور اب ان کی تیسری نسل نے اس کو زندہ و جاوید رکھا ہوا ہے۔

ہم اسے کبھی بھی ٹھیکیداروں کے حوالے کرنے دیں گے۔ یہ فیصلہ لاہور میں ہونے والے ٹریڈ یونین اور ایسوسی ایشن کے اجلاس میں ہم نے مل کر کیا ہے کہ ورک ٹو رول کے تحت ریل کو چلائیں گے اور اگر ہو سکا تو لاک ڈاؤن کرکے ریل کا پہیہ بھی جام کردیں گے۔ اس لیے حکومت کو اس پر سنجیدگی سے فیصلہ کرنا چاہیے۔

کئی وزیر آئے اور چلے گئے مگر ریل چلتی رہی اور ابھی تک چل رہی ہے۔ خیر اب بات ہو جائے پرائیویٹ ٹکٹ بیچنے والوں کی جو صرف ٹکٹ بیچیں گے اور منافع کھا کر بھاگ جائیں گے، جیساکہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ اس کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں دو ایک مثال میں خود بتانا چاہتا ہوں چونکہ میں ازخود اور وزیر ریلوے حاجی غلام احمد بلور اور ریلوے کے اعلیٰ افسران ایک اسٹیشن پر موجود تھے یہ حکومت ملی جلی آصف زرداری کی تھی 2008 تا 2013 جس کے وزیر غلام احمد بلور تھے۔

انھوں نے بہترین اور منافع بخش ٹرین پاک بزنس ٹرین کا ٹھیکہ ، لاہور کی ایک کمپنی کو دیا تھا ہمارے دوستوں اور یونین نے فیصلہ کیا کہ اس ٹرین کو روکیں گے مظاہرہ کریں گے اور ٹرین نہیں چلنے دیں گے۔ خیر ہم نے اس دن بھرپور مظاہرہ کیا۔ ریلوے وزیر غلام احمد بلور سمیت ریلوے افسران کی فوج ظفر موج کیساتھ کمپنی کے اہلکار بھی موجود تھے، ہم نے ٹرین کو روکا۔ پولیس کی بھاری نفری بھی موجود تھی، ٹرین کا افتتاح وزیر نے کرنا تھا وہ ہمارے پاس آئے مجھے اور میرے ساتھیوں کو کہا کہ آپ ٹرین کو چلنے دیں، ریلوے کا پہلے ہی سابق وزیر ریلوے نے بیڑا غرق کر دیا ہے۔

ہمیں اس نئی اور جدید ٹرین کو چلانے دیں ، آپ کیساتھ میٹنگ کرکے آپ کے خدشات دور کریں گے۔ کمپنی معاہدے کے تحت ٹکٹ بیچے گی اور 28 فیصد کمیشن لے گی اور 72 فیصد ریلوے کو روزانہ کی بنیاد پر کراچی اور لاہور میں رقم جمع کرائے گی خیر کچھ دیر بعد ٹرین چل پڑی جس میں AC کی 16 بوگیاں تھیں اور کرایہ بھی 2010 میں سات ہزار مقرر کیا گیا تھا جس میں سفر کرنے والوں کو ناشتہ اور کھانا بھی شامل تھا خیر یہ سب پہلے بھی ہوتا رہا آخر کار اس ٹرین کا ٹھیکیدار ریلوے کی بھاری رقم لے کر بھاگ گیا اور معاملہ ختم اور مقدمہ عدالت میں چلا گیا تاحال ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔


2021 آگیا ہے گیارہ سال ہوگئے دیکھیں کب پیسے وصول ہوتے ہیں اور مالک کو کیا سزا ہوتی ہے یا کتنا جرمانہ ہوتا ہے۔ اب آتے ہیں ہم نئی صورتحال پر۔ یہ عمل 1988 سے جاری تھا کچھ دن پہلے وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی نے اعلان کیا ہے کہ ہم ریلوے کی تمام ٹرینوں کو پبلک پارٹنر شپ کے تحت چلائیں گے اور اخبارات میں اشتہارات دے دیے گئے اور کئی کمپنیاں اور ٹھیکیدار آگئے اس میں وہ بھی آگئے جو پہلے بھی اربوں روپے کھا گئے ہیں۔

ان کو تو کم ازکم بلیک لسٹ کرنا چاہیے تھا۔ جو ٹرینیں ٹکٹ بیچنے کے لیے ٹھیکیداروں کو دینی ہیں ان کی تفصیل دیکھ لیں۔ ریلوے نے 34 مسافر ٹرینوں کی نجکاری کردی ہے۔ ٹرینوں کی نجکاری کے حوالے سے موصول ہونیوالی 17 ٹرینوں کی فنانشنل بڈ (Bid) کھول دی گئی ہے۔ نجکاری میں نجی کمپنیوں کی عدم دلچسپی کے باعث 17 ٹرینوں میں سے 11 ٹرینوں کی سنگل بڈBid آگئی ہے۔ 6 ٹرینوں کے لیے ایک سے زائد کمپنیوں نے بولی دی ہے۔ 17 میں سے پاکستان ریلوے کی کمپنی پراکس (Pracks) نے 8 ٹرینیں لینی ہیں۔

جن میں ریلوے کی کسی زمانے کی مشہور ٹرین 7 اپ 8 ڈاؤن تیزگام جو کراچی تا راولپنڈی جاتی ہے ۔ہزارہ ایکسپریس کراچی تا حویلیاں، ملت ایکسپریس کراچی تا سرگودھا، قراقرم کراچی تا لاہور، پاکستان ایکسپریس کراچی تا راولپنڈی، سبک رفتار، ریل کار لاہور تا راولپنڈی اور لاثانی ایکسپریس شامل ہیں۔

تیزگام کی بولی 158 کروڑ روپے، قراقرم کی بولی 184 کروڑ روپے، ملت ایکسپریس کی بولی 118کروڑ روپے، پاکستان ایکسپریس کے لیے بولی 133کروڑ روپے، علامہ اقبال ایکسپریس کراچی تا سیالکوٹ کے لیے بولی 114 کروڑ روپے، 69 لاکھ روپے ہوگی شاہ حسین ایکسپریس کے لیے 126 کروڑ 60 لاکھ روپے ہوگی۔

کراچی تا لاہور۔ کراچی تا پشاور کے لیے چلنے والی رحمان بابا ایکسپریس 126 کروڑ روپے، ملتان اور کراچی کے درمیان چلنے والی بہاؤالدین ذکریا ایکسپریس کے لیے بولی 98 کروڑ روپے، لاہور اور اسلام آباد کے لیے چلنے والی ریل کار کی بولی 25 کروڑ روپے، میانوالی ایکسپریس کی بولی 90 کروڑ روپے، پشاور تا کوئٹہ جانیوالی جعفر ایکسپریس کی بولی 160 کروڑ روپے، لاہور تا راولپنڈی جانیوالی ریل کا سبک رفتار کی بولی 25 کروڑ، 27 لاکھ ہوگی۔ غوری ایکسپریس کی بولی 9 کروڑ 30 لاکھ روپے جو ملتان تا لاہور جائے گی۔ اب یہ کیسی نجکاری ہے کہ ٹکٹ بیچو اور بھاگ جاؤ۔

اگر آپ نجکاری ہی کرنا چاہتے ہیں تو پھر برائے مہربانی پہلے ایک یا دو ٹرینوں کی مکمل نجکاری کردیں تاکہ صرف ٹکٹ بیچنے کا ٹھیکہ لیں۔ ٹکٹ تو ہمارے بک رہے ہیں اور لوگ سفارش کرکے ٹکٹ خرید رہے ہیں بڑی مشکل سے ٹرینوں میں ریزرویشن ہوتی ہے۔

نجکاری کے لیے ضروری ہے کہ مالکان اپنی ٹرینیں لائیں اپنے انجن اور کوچز یا بوگیاں لائیں، اپنا اسٹاف لائیں، انجن اور بوگیاں ہم سے خرید لیں یا پھر ایران یا چین سے خرید کر ہمارے ٹریک پر چلائیں اور ہمیں اس کا کرایہ دیں۔ جس طرح ایئرلائن میں مقابلہ ہے اسی طرح پاکستان ریلوے بمقابلہ پرائیویٹ ٹرین یہ کیا کہ انجن ہمارا، ڈرائیور، فائرمین ہمارا، ڈیزل اور تیل ہمارا، ہماری کوچز، پنکھے، بجلی، اے سی ہمارا، باتھ روم پانی ہمارا، ٹرینوں کی مرمت مینٹی نینس ہماری، حادثہ ہو تو ہمارا انجن اور بوگیاں تباہ ہوں اور آپ ٹکٹ بیچ کر چلے جائیں ۔ یہ نجکاری نہیں دھوکہ ہے۔

جناب وزیراعظم عمران خان صاحب ،ریلوے کے ملازمین اور افسران چور نہیں ہیں۔ جو چور ہیں انھیں پکڑیں اور سزا دیں۔ ریلوے کو چلنے دیں خالی آسامیوں پر ریٹائرڈ ملازمین اور بیوہ کے بچوں کو بھرتی کیا جائے وہ نوجوان ریلوے کو چلائیں گے جن کے والدین ایک صدی سے بھی زائد ریلوے کو چلا رہے ہیں آپ ریلوے نہیں چلا سکتے اپنی حکومت چلائیں۔ عوام کو مہنگائی، بے روزگاری، بھوک، غربت، جہالت سے نکالیں اور اپنے 5 سال پورے کریں ملک میں انصاف کا بول بالا کریں ۔ر یل کی فکر نہ کریں یہ چل رہی ہے بس اس کو چلنے دیں۔
Load Next Story