محبّت و اطاعت رسول کریم ﷺ

اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے،مفہوم: ’’جن امور کا میرا رسول (ﷺ) تمہیں حکم دے وہ کام کرو اور جن باتوں سے روکے ان سے باز آ جاؤ۔‘‘

اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے،مفہوم: ’’جن امور کا میرا رسول (ﷺ) تمہیں حکم دے وہ کام کرو اور جن باتوں سے روکے ان سے باز آ جاؤ۔‘‘فوٹو : فائل

ﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں رسول اﷲ ﷺ کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ رسول اﷲ ﷺ کی تشریف آوری کا حقیقی مقصد اسلام کی اصل تعلیمات و ہدایات پر دل و جان سے عمل کرنا ہے۔

رسول اﷲ ﷺ کی ذات بابرکات واجب الاطاعت ہے، اسی اطاعت رسول ﷺ میں دنیوی و اخروی نجات مضمر ہے، اسی میں خدائے لم یزل کی رضا موجود ہے اور اسی پر انعام الٰہی کا وعدہ ہے۔


رسول کریم ﷺ کی اطاعت درحقیقت اﷲ کی اطاعت شمار ہوتی ہے کہ جس نے رسول کریم ﷺ کی اطاعت کی اس نے درحقیقت اﷲ کی اطاعت کی۔ اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے، مفہوم: ''جن امور کا میرا رسول (ﷺ) تمہیں حکم دے وہ کام کرو اور جن باتوں سے روکے ان سے باز آ جاؤ۔''

رسول اﷲ ﷺ کو اپنی امّت سے بے انتہاء محبّت اور شفقت ہے، بل کہ محبّت و شفقت کے الفاظ رسول اﷲ ﷺ کی قلبی کیفیات کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ اس لیے قرآن کریم نے اس کو حریص علیکم سے تعبیر کیا ہے، تو جو ذات بے انتہاء اور بے پایاں شفقت و محبّت کرتی ہو، ہمارے انجام سے بہ خوبی واقف ہو، بالخصوص جب کہ اس کی واقفیت وحی الہٰی اور مشاہدہ کی صورت میں ہو، تو وہ ذات لازمی طور پر اس قابل ہے کہ اس کی کامل اطاعت کی جائے۔

اور یہ اطاعت پیدا ہوتی ہے محبّت کی انتہاء سے، جس قدر محبّت میں کمال آتا جاتا ہے اسی قدر جذبۂ اطاعت باکمال اور لازوال ہوتا چلا جاتا ہے اور اس محبّت کو پیدا کرنے کی بہت ضرورت ہے جو ہمیں حقیقت کے قریب کردے۔ رسول کریم ﷺ کی اطاعت پر ابھارے، اﷲ کی فرماں برداری پر آمادہ کرے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ محبّت کرنے کی جتنی وجوہات ہو سکتی ہیں وہ ساری کی ساری رسول اﷲ ﷺ میں بہ درجہ کمال پائی جاتی ہیں۔

پہلی وجۂ کمال:

اگر محبّت کی وجہ کسی ذات کا باکمال ہونا ہے تو تمام کمالات میں اکمل ذات رسول اﷲ ﷺ کی ہے، عزت و عظمت، فضیلت و منقبت، شرف و مقام اور مرتبہ و کمال یہ سب کچھ اس باکمال ذات کا صدقہ ہے جن کی وجہ سے ان اوصاف کے حقائق سے دنیا واقف ہوئی ہے۔ عقل کامل، سوچ کامل، تدبر کامل، فکر کامل، شکر کامل، عبدیت کامل، انسانیت کامل، حیا کامل، سخا کامل، شجاعت کامل، وجاہت کامل، تمام اوصاف کامل۔

احسان:

اگر محبّت کی وجہ کسی ذات کا محسن ہونا ہے تو محسن کائنات ﷺ کے صرف مسلمانوں پر ہی نہیں تمام انسانوں پر بل کہ ساری مخلوقات پر آپ ﷺ کا احسان عظیم ہے۔ احسان کا یہ سلسلہ عالم ارواح سے عالم آخرت تک پھیلا ہوا ہے۔ عالَم ارواح میں جب اﷲ تعالیٰ نے تمام ارواح کو ایک جگہ جمع فرما کریہ سوال کیا: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ تو سب سے پہلے روح محمد ﷺ نے جواب عنایت فرمایا: کیوں نہیں! آپ ہی ہمارے رب ہیں۔ آپؐ کا جواب سن کر تمام انبیائے کرامؑ کی ارواح نے جواب دیا پھر درجہ بہ درجہ تمام ارواح نے اقرار کیا۔

عالم دنیا میں آپ ﷺ کے احسانات کا نہ ختم ہونے والا طویل سلسلہ ہے، انسان کی تخلیق سے لے کر انسانیت کی معراج تک سب کچھ رسول اﷲ ﷺ کے دم قدم سے ہے، وجہ تخلیق کائنات آپ ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ عالم آخرت چوں کہ سب سے بڑا عالَم ہے اس لیے اس میں آپ ﷺ کا احسان بھی سب سے بڑا ہوگا، آپؐ کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ حساب کتاب شروع فرمائیں گے، اتنا ہول ناک وقت ہوگا، انبیاء کرام علیہم السلام تک نفسی نفسی پکار رہے ہوں گے صرف آپ ﷺ کے مبارک لبوں پر یارب! امتی، یارب! امتی کی صدا ہوگی۔


خدا تعالی کے جلال کو جمال میں بدلنے کے لیے آپ ﷺ بہت طویل سجدہ فرمائیں گے، بالآخر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے گی: ''اے محمد! (ﷺ) اپنا سر مبارک اٹھائیے، مانگیے! آپؐ کو عطا کیا جائے گا، گناہ گاروں کی سفارش کیجیے، آپؐ کی سفارش کو قبول کیا جائے گا۔''

چناں چہ آپؐ میدان حشر میں جہاں کہیں (میزان، پل صراط) اپنی امّت کو مشکل میں دیکھیں گے وہاں پہنچ اﷲ تعالیٰ سے شفاعت کی درخواست کریں گے۔ اﷲ تعالیٰ آپؐ کی سفارش کو قبول فرما کر اس امّت کے گناہ گاروں کو جہنّم سے آزاد فرما کر جنّت عطا فرمائیں گے۔ اتنے بڑے محسن کا حق بنتا ہے کہ آپؐ کی کامل اطاعت کی جائے، تاکہ ہم آپؐ کی شفاعت کے حق دار بن جائیں۔

جمال:

اگر محبّت کی وجہ کسی کا خوب صورت ہونا ہے، حسین و جمیل ہونا ہے، تو کائنات میں سب سے زیادہ حسین و جمیل آپ ﷺ کی ذات بابرکات ہے، آپؐ پیکر حسن و جمال، مجسم حسن و جمال، منبع حسن و جمال اور مرکز حسن و جمال ہیں۔ آپؐ ہی کے جلوؤں سے کائنات کا حسن اپنی روشنیاں بکھیر رہا ہے، آپؐ کی تابانیاں اور رعنائیاں ہر سُو پھیل رہی ہیں، زمین و زمن، ارض و فلک، شمس و قمر اور شام و سحر ال غرض خدا تعالیٰ کی تمام خدائی کا آپؐ کے حسن و جمال نے احاطہ کر رکھا ہے۔

قرآن کریم پڑھ کر دیکھ لیجیے آپؐ کی ذات مبارک کس طرح حسن و جمال کی مالا میں پروئی ہوئی ہے۔ معلوم ہوا کہ اگر وجہ محبّت حسن و جمال بھی ہو تب بھی سب سے زیادہ محبّت آپ ﷺ سے کرنا چاہیے۔

اخلاق:

اگر محبّت کی وجہ اخلاق و کردار ہے، تو پھر انک لعلیٰ خلق عظیم کے حقیقی مصداق ہی اس قابل ٹھہرتے ہیں کہ آپؐ سے محبّت کی جائے، جس کے خلق عظیم کی گواہی قرآن کریم میں خالق کائنات خود دے رہے ہیں، ایسی بااخلاق ہستی دنیا کہاں سے لائے گی جس کے اخلاق حسنہ کا اعتراف اس کے دشمن بھی کریں۔ صادق، امین، صلح جُو، ہم درد، مونس و غم خوار اور سخی و فیاض ذات درحقیقت ذات حبیب کبریاء ﷺ ہے۔

ال غرض وجوہ محبّت کمالات ہوں یا احسانات، حُسن و جمال ہو یا اخلاق و کردار ہر حوالے سے آپ ﷺ پوری انسانیت کے لیے اسوۂ حسنہ ہیں۔ جب دل میں محبّت رسول کریمؐ موج زن ہو جائے تو اطاعت کرنا کوئی مشکل نہیں رہتا۔ آج ہمیں اپنے دل میں محبّت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ محبّت سے ہی اطاعت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اور اگر محبّت کو اطاعت کے قالب میں نہ ڈھالا جائے تو دعویٰ کرنا عبث ہے۔

افسوس! آج ہم اس جذبۂ اطاعت سے دُور ہو چکے ہیں، ہماری تنزّلی آج بھی ختم ہو سکتی ہے اگر ہم بغاوت کو چھوڑ کر اطاعت کو اپنا لیں، اپنی زندگی کے ہر پہلو کو اطاعت رسول کریم ﷺ کے سانچے میں ڈھال لیں، خوشی و غمی میں رسول اﷲ ﷺ کی تعلیمات کو اپنائیں، مقصد بعثت رسالت ﷺ پر غور کریں، سمجھیں، اور دل و جان سے عمل کریں۔ اطاعت کے بغیر دنیا میں ناکامی ہوگی، اگر اپنی روش کو نہ بدلا تو یہی ناکامی کل قیامت کو حسرت کا روپ دھار لے گی پھر انسان کہیں گے، مفہوم: ''اے کاش! ہم اﷲ کی اطاعت کرتے اور رسول ﷺ کی اطاعت کرتے۔''

اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اطاعت رسول ﷺ کا جذبہ عطاء فرمائے، اس کے تقاضوں پر عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
Load Next Story