مسلم لیگ ن کا جارحانہ بیانیہ

کیا مسلم لیگ نواز مزاحمتی اور جارحانہ پالیسی کے ساتھ اگلے انتخابات میں واقعی کامیابی حاصل کرسکتی ہے؟


احسن بودلہ August 07, 2021
میاں نواز شریف نے اپنی ٹویٹس میں اپنے روایتی مزاحمتی بیانیے کا اعادہ کیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ویسے تو سیاست کا میدان ایسا ہے کہ اس میں کچھ بھی حتمی نہیں ہوتا۔ لیکن مہذب دنیا نے اب اس میدان کے بھی کچھ قاعدے اور قوانین بنا لیے ہیں۔ وہاں پر سیاست ان ہی اصولوں کے اندر رہ کر کی جاتی ہے۔ مگر کیا کہیے ہمارے جیسے ایک ترقی پذیر ملک کا، جہاں پر سیاست ابھی تک بس ایک ہی قانون کے تحت کی جارہی ہے۔ اور وہ قانون ہے طاقت کا قانون۔ جس کے پاس طاقت ہوتی ہے وہی سیاست کے سارے فیصلے کرتا ہے۔ اور آپ کو تو پتا ہی ہے کہ ہمارے ہاں اصلی طاقت کس کے پاس ہے؟ اب آپ یہ پوچھیں گے کہ اس کا مطلب ہے ہمارے ہاں ہونے والے سب انتخابات کیا بس ڈھونگ ہی تھے؟

تو ایک آدھ کو چھوڑ کر تو تقریباً ایسا ہی معاملہ ہے۔ یہاں پر تو پہلے سے ہی صاحب بہادر یہ فیصلے کرلیتے ہیں کہ اگلی حکومت کس کی بنے گی؟ اور پھر اس حوالے سے ایسے اقدامات اٹھائے جاتے، ایسی فضا بنوا دی جاتی کہ نتائج کے بعد ویسا ہی ہوجاتا ہے۔ جیتنے والے خوشی کے شادیانے بجاتے ہیں اور ہارنے والے دھاندلی کی دہائی ڈال لیتے ہیں۔ اور بعض اوقات تو ایسا بھی ہوجاتا کہ ساری کی ساری سیاسی جماعتیں ہی ایک دوسرے پر دھاندلی کا الزام لگا دیتی ہیں اور فیصلہ ساز قوتیں ان پر ہنستی ہیں۔ اب حال ہی میں ہونے والے آزاد کشمیر کے انتخابات کو ہی دیکھ لیجئے۔

ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ نواز کی ہر دل عزیز رہنما مریم نواز نے وہاں جاکر کتنے بڑے اور شاندار جلسے کیے۔ اور چونکہ وہاں پر پچھلی حکومت بھی ان کی تھی تو ان کو ایک امید تھی کہ اس بار بھی عوام ان کو ہی منتخب کریں گے۔ کیونکہ مرکز میں موجود پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تو تین سال گزر جانے کے باوجود بھی حالات میں سدھار لانے کے بجائے الٹا اور بگاڑ لا بیٹھی تھی۔ مگر پی ٹی آئی کے سیاسی رہنما اس لیے بہت مطمئن تھے کہ چونکہ ان کو صاحب بہادر کی آشیرباد ابھی تک حاصل تھی۔ لہٰذا آزاد کشمیر میں بھی ان ہی کی سیاسی جماعت حکومت بنائے گی۔

اور پھر نتائج نے ان کو درست بھی ثابت کردیا۔ پاکستان تحریک انصاف سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی اور اس نے باآسانی اپنی حکومت بھی بنالی۔ اور اپوزیشن کی دونوں جماعتیں مل کر بھی اتنی سیٹیں نہ حاصل کرسکیں جتنی پاکستان تحریک انصاف نے اکیلے حاصل کیں۔ حیران کن طور پر پاکستان پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ نواز سے دگنی سیٹیں حاصل کرلیں۔ جس کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز میں ایک کھلبلی سی مچ گئی کہ انتخابی مہم تو ہم نے وہاں اپنی اتنی عمدہ چلائی، پہلے حکومت بھی وہاں ہماری تھی تو چلو سب سے زیادہ نہ سہی کم از کم پاکستان پیپلز پارٹی سے تو ان کی سیاسی جماعت کو زیادہ سیٹیں حاصل کرنی ہی چاہیے تھیں۔

مگر ایسا بھی نہ ہوسکا۔ جس کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز میں دو مختلف بیانیے جو پہلے سے ہی موجود تھے اور کھل کر سامنے آگئے۔ شہباز شریف اور ان کے مفاہمتی گروپ کی طرف سے آزاد کشمیر کے انتخابات اس قدر بری طرح ہارنے کا قصوروار مریم نواز اور ان کی جارحانہ پالیسی کو قرار دیا۔ کیونکہ وہ تو پہلے ہی ان انتخابات کی مہم کی قیادت مریم بی بی کے کرنے پر اتنے خوش نہیں تھے، اسی لیے وہ اس سے دور رہ کر چپ کرکے سب کچھ ہوتا ہوا دیکھتے رہے۔ جبکہ مریم بی بی اور ان کے مزاحمتی گروپ نے اس کو مقتدرہ قوتوں کی ہی ہاتھ کی صفائی سے تعبیر کیا۔

اس سب پر سیالکوٹ کے ایک صوبائی اسمبلی کے حلقہ کے ضمنی انتخاب میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی شکست نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اور شہباز شریف صاحب سے رہا نہ گیا۔ انہوں نے نجی چینل کے پروگرام میں انٹرویو دیتے ہوئے اپنے بیانیے کے حق میں کئی باتیں کہہ ڈالیں، جن میں 2018 کے انتخابات میں ناکامی کو اپنی جماعت کی ناقص کارکردگی کا نتیجہ قرار دے دیا۔ اور ماضی کو بھلا کر سب قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے کے بات کردی۔ گویا انہوں نے یہ واضح کردیا کہ ہمارے ملک میں اقتدار حاصل کرنے کےلیے ابھی بھی مقتدرہ حلقوں سے سمجھوتہ کرنا ضروری ہے۔

اس کے ساتھ انہوں نے اپنے بڑے بھائی اور جماعت کے سربراہ میاں نواز شریف اور اپنی بھتیجی مریم نواز کو یہ باور کروانے کی بھی کوشش کی کہ اگر انہوں نے مقتدرہ قوتوں کے حوالے سے اپنی مزاحمتی اور جارحانہ پالیسی ترک نہ کی تو شاید آئندہ آنے والے انتخابات میں بھی ان کی جماعت کو کامیابی حاصل نہ ہوسکے۔ جماعت کے کئی پرانے اور الیکٹیبلز سیاست کرنے والے رہنما بھی اس میں شہباز شریف کے ہمنوا نظر آئے۔ مگر اس کے فوراً بعد میاں نواز شریف نے اپنی ٹویٹس میں اپنے روایتی مزاحمتی بیانیے کا اعادہ کردیا۔

سیاسی تجزیہ کاروں اور پنڈتوں کے مطابق مسلم لیگ نواز اس وقت شدید کنفیوژن کا شکار نظر آتی ہے کہ اس کے سربراہ اور صدر کو میڈیا پر اپنے بیانیے کے حوالے سے ایک دوسرے کو جواب دینا پڑ رہا ہے۔ جس سے جماعت کے دیگر رہنماؤں، ورکروں اور ووٹروں میں مایوسی اور پریشانی پھیل رہی ہے۔ اس لیے شاید ایک سوال تو یہ پیدا ہوگیا ہے کہ جماعت کے بڑوں کے درمیان اگر بیانیے سے متعلق اختلافات مزید سنگین ہوگئے تو کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ جماعت دو دھڑوں میں بٹ جائے؟ تو اس سوال کا بڑا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہوگا۔

شہباز شریف کبھی بھی اپنے بڑے بھائی سے الگ ہونے کا رسک نہیں لیں گے۔ ان کو ذاتی طور پر بڑے میاں صاحب کی طرف سے واضح پیغام پہنچا دیا گیا ہے کہ وہ اپنی توجہ بطور صدر اور اپوزیشن لیڈر اپنی ذمے داریاں نبھانے پر مرکوز کریں اور اگلے انتخابات کے حوالے سے جماعت کی پالیسی کو اپنے بڑے بھائی پر چھوڑ دیں۔ دوسرا اور اہم ترین سوال جو یہاں پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ کیا مسلم لیگ نواز اسی مزاحمتی اور جارحانہ پالیسی کے ساتھ اگلے انتخابات میں واقعی کامیابی حاصل کرسکتی ہے؟ یا میاں نواز شریف بھی انتخابات میں کامیابی کےلیے اپنے چھوٹے بھائی، ان کے ہمنوا اور کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے کو مان کر اپنی اس جارحانہ پالیسی پر نظر ثانی کریں گے؟

میری دانست میں، میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کو اگلے انتخابات میں بھی اسی جارحانہ اور مزاحمتی بیانیے کے ساتھ ہی جانا چاہیے، کیونکہ انہیں اب سمجھ جانا چاہیے کہ جن مقتدرہ قوتوں کی نرسری میں وہ ایک سیاسی رہنما کی حیثیت سے پروان چڑھے، اقتدار میں تین بار آنے کے بعد انہی قوتوں کی طرف سے ان کو سویلین بالادستی کی پاداش میں اقتدار سے نکال دیا گیا۔ چاہے وہ 1993 ہو، 1999 یا پھر 2017، تینوں مرتبہ ہی وہ تب تک اقتدار میں رہے جب تک مقتدرہ قوتوں کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ لہٰذا اب اس سلسلے کو رک جانا چاہیے۔

ہاں ان کے اس جارحانہ بیانیے سے شاید ان کی جماعت اگلے انتخابات میں بھی اقتدار میں نہ آسکے، کیونکہ مقتدرہ قوتیں ایسا ہونے نہیں دیں گی۔ لیکن اس سے شاید ان کی جماعت اتنی سیٹیں ضرور جیت لے گی کہ بننے والی حکومت کو مشکلات سے دوچار کرسکے۔ اور وہ مقتدرہ قوتوں کو مزید ایکسپوز بھی کرسکیں گے۔ اس کے نتیجے میں شاید اس سے اگلے انتخابات میں عوام میں اس حوالے سے اتنا شعور آجائے کہ ان کی طاقت، مقتدرہ حلقوں کی طاقت پر غالب آجائے اور مقتدرہ قوتوں کو اس بات کا ادراک ہوجائے کہ عوام کو ہی اپنی مرضی سے اپنے نمائندے چننے کا اختیار ہونا چاہیے۔

اس وقت میاں صاحب کو اپنی جماعت کے سب رہنماؤں خصوصاً مفاہمتی گروپ والوں کو یہ ضرور واضح کردینا چاہیے کہ انہیں اور ان کی جماعت کو ایک لمبی اور مشکل لڑائی لڑنا ہے۔ اگر کوئی اس کا حصہ بن سکتا ہے تو وہ ساتھ رہے اور اگر نہیں بن سکتا تو بے شک چھوڑ کر چلا جائے۔ اس سے جماعت میں موجود ساری کنفیوژن دور ہوجائے گی۔

لیکن اگر میاں نواز شریف اپنی جماعت کو اقتدار میں لانے کےلیے اگلے انتخابات سے پہلے اپنے چھوٹے بھائی کی مفاہمتی پالیسی پر چلتے ہوئے مقتدرہ قوتوں سے پھر کوئی سمجھوتہ کرلیتے ہیں تو ہم یہی سمجھیں گے کہ انہوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا اور ان کا یہ مزاحمتی بیانیہ بھی محض ایک ڈھونگ ہی تھا۔ کیونکہ اگر اتنا کچھ سہہ کر یہی کچھ کرنا تھا تو پھر مقتدرہ قوتوں سے بگاڑنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔

اب یہ فیصلہ تو میاں نواز شریف کو ہی کرنا ہے کہ کیا وہ خود کو تاریخ میں ایک حقیقی لیڈر کے طور پر یاد رکھا جانا چاہیں گے یا پھر محض ایک اور مفاد پرست سیاسی رہنما کے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں