بوم رینگ

بوم رینگ میں کوئی ایسی قابل ذکر خصوصیت نہیں کہ اس کے بارے میں کچھ بھی لکھا جائے۔


راؤ منظر حیات August 07, 2021
[email protected]

بوم رینگ لکڑی کا ایک ترچھا سا ہتھیار ہے۔ جو دو ہزار سال قبل' آسٹریلیا کے مقامی باشندے' ابورجینز کے زیر استعمال رہتا تھا۔ اسے جنگ اور شکار کے دوران استعمال کیا جاتا تھا۔ بیس صدیاں قبل ٹیکنالوجی کیا ہو گی۔

انسانی زندگی بھی بنیادی سطح کی تھی۔ بوم رینگ میں کوئی ایسی قابل ذکر خصوصیت نہیں کہ اس کے بارے میں کچھ بھی لکھا جائے۔ مگر اس میں ایک حیرت انگیز خوبی ضرور تھی۔ یہ ہتھیار شکار یا دشمن پر پھینکنے والے شخص کے ہاتھ سے تیزی سے ہوا میں نکلتا تھا۔

کامیاب یا ناکام ضرب لگاتا تھا۔ اور پھر اسی برق رفتاری سے اپنے مالک کے ہاتھ میں واپس آ جاتا تھا۔ یعنی جو بھی شخص اسے استعمال کرتا تھا۔ یہ اپنا کام کر کے واپسی کا سفر شروع کرتا تھا۔ اور پھر اسی جگہ اور اسی ہاتھ میں دوبارہ موجود ہوتا تھا۔ یہ خوبی اسے بہت زیادہ کار آمد ' مہلک اور خطرناک بنا دیتی تھی۔دو ہزار برس پرانا یہ آلہ آج آسٹریلیا کے ہر میوزیم میں موجود ہے۔

ذہن میں سوال ہو گا کہ اتنے قدیم ہتھیار کے متعلق بتانا شاید آپ کے وقت ضایع کرنے کے مترادف ہو۔ مگر اس کے برعکس گزارش ہے' کہ انسانی زندگی دراصل بوم رینگ کا ہی دوسرا نام ہے۔ آپ جو عملی طور پر کرتے ہیں ۔ وہ سب کچھ پلٹ کر واپس ' اسی قاتل رفتار سے آپ کی طرف جھپٹتا ہے۔ انفرادی زندگی ہو یا قومی دھارا' عائلی معاملہ ہو یا طرز حکمرانی' ہر بات اور عمل واپسی کا سفر ضرور کرتا ہے۔

اس پر اسرار آلہ کا دوسرا نام ''کرما'' بھی ہے۔ ایک ایسا فلسفہ جس سے زندگی کی پیچیدگیاں سمجھنا کچھ آسان سا ہو جاتا ہے۔ اس میں سب سے بڑا آفاقی قانون' یہ ہے کہ ''آپ کے تمام خیالات اور عمل کا ایک قدرتی ردعمل ہوتا ہے''۔ یہ نیوٹن کے تیسرے قانون سے ہزاروں برس پہلے کا فلسفہ ہے۔ اسی کرما میں ایک اور قانون بھی پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے۔

اگر آپ کسی بھی چیز یا نظام کو بدلنا چاہتے ہیں توپہلے اسے تسلیم کریں تاکہ آپ کواس کے مضمرات کا بھرپور اندازہ ہو جائے۔ کرما ایک ایسی سنجیدہ نکتہ ہے جو بہر حال ایک کالم یا کتاب سے حد درجہ بڑھ کر ہے۔ مگر آج میں بوم رینگ لفظ یا کرما کو انسانی زندگی بالخصوص ہمارے موجودہ اور سابق سیاسی حکمرانوں کی عملی زندگی سے منسلک کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے معاشرے کی بنیاد ہی طاقت کے سامنے جھکنا اور اپنے سے کمزور پر برتری رکھنا ہے۔ یہ اصول حد درجہ ادنیٰ اور غیر معیاری ہے۔

مگر عملی طور پر موجود ہے اور اسے موجودہ صورت حال میں تبدیل کرنا ناممکن ہے۔ ہمارے نظام کا ایک حصہ بیوروکریسی حد درجہ طاقتور ہے۔ اس کے اختیارات بھی بہت زیادہ ہیں۔ بیوروکریسی کو ہر وقت تنقید کانشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ مگر ہمارے نظام کا ہر عقل مند انسان' اس طبقہ سے نسبت رکھناغیر معمولی طور پر عزت کامقام سمجھتا ہے۔ بیورو کریٹس ساٹھ سال کی عمرمیں ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ بیس بائیس برس حکمرانی کا مزا چکھ کر اپنے گھر واپس آجاتے ہیں۔ انفرادی طور پر یہ ایک شدید ذہنی جھٹکا ہوتا ہے جسے حد درجہ دانشمندی سے عبور کرنا چاہیے۔

مگر غور فرمائیے ۔ تقریباً ہر سرکاری ملازم نے اپنی عملی زندگی میں کوئی نہ کوئی غیر مناسب کام ضرور کیا ہوتا ہے۔ کسی نہ کسی کے قانونی حق کو ضرور دبایا ہوتا ہے۔ سب کی بات نہیں کررہا۔ اکثریت کی طرف اشارہ ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد' بیشتر سرکاری ملازمین' لوگوں میں اپنی نیکی اور عدل کی کہانیوں کا ہر وقت پرچار کرتے رہتے ہیں۔ مگر ایک عنصر کو فراموش کر دیتے ہیں کہ جو ناانصافی انھوں نے عام لوگوں سے روا رکھی ہوتی ہے۔ وہ بوم رینگ بن کر یک دم واپس انھی پر پلٹتی ہے۔ اس کی اشکال حد درجہ مختلف ہوتی ہیں۔ یک دم انھیں احساس ہوتا ہے کہ انکا کرما انھیں گھیر چکا ہے۔

بڑے بڑے جابر افسران' تنہائی ' شدید مایوسی اور لوگوں کے بدلے ہوئے رویوں سے شاکی نظر آتے ہیں۔ مگر کسی کو یہ بتانے کی ہمت نہیں رکھتے کہ جب وہ صوبہ یا ملک کے ا علیٰ ترین منصب پر تھے' تو مخلوق خدا کے ساتھ ان کا رویہ کتنا منفی تھا۔ جونیئر افسروں اور عوام الناس کے ساتھ کس تباہ کن لہجے میں بات کرتے تھے۔

انسان کو انسان کیوں نہیں سمجھتے تھے۔ عملی زندگی سے واپسی پر اپنے کرما کامقابلہ کرنے میں مکمل ناکام رہتے ہیں۔ نتیجہ حد درجہ ہولناک ہوتا ہے۔ کوئی مہلک ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور کوئی ویسے ہی عدم توجہ سے عضو معطل بن کر فنا ہو جاتا ہے۔ مگر ان میںسے ہر انسان' اندر سے بخوبی جانتا ہے کہ انھیں کس جرم کی سزا مل رہی ہے۔ ظلم کا بوم رینگ انھیں حد درجہ مظلومیت کی حالت میں واپس ملتا ہے۔ مگر اس وقت کچھ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ کھیل ختم ہو چکا ہوتا ہے۔

یہی عالم ہمارے جید حکمران سیاست دانوں کا ہے ۔ وہ وزراء اعلیٰ اور وزراء اعظم جو اپنے آپ کو زمینی خدا سمجھتے ہیں۔ حکمرانی ختم ہونے کے بعد صرف اور صرف داستان گو رہ جاتے ہیں۔ آج کل ملکی سیاست کو غور سے دیکھیں تو کرما کا فلسفہ پوری طرح متحرک نظر آتا ہے۔ پورا ملک اس کی لپیٹ میں ہے۔ سیاست دانوں پر غور فرمائیے۔ ہمارے ایک دہائی تک حکمران رہنے والے شخص' ایک اینکر کو انٹرویو دیتے ہوئے اتنی مدبرانہ گفتگو فرما رہے تھے کہ طالب علم تو حیران رہ گیا۔ کیونکہ ان کی تین چار بار کی حکمرانی میں موصوف نے اپنے بیان کردہ ایک بھی نکتے پر عمل نہیں کیا۔

طویل حکمرانی میں ان کی سوچ' عدل اورمیرٹ کے نزدیک تک نہیں پھٹکی۔ فرما رہے تھے کہ ہر سطح پر مفاہمت ہونی چاہیے۔ سیاسی متحارب فریقین کو اپنے ساتھ ملا کر چلنا چاہیے۔ ہر سطح پر مکالمہ کو فروغ دینا چاہیے۔ اور اجتماعی سیاسی سوچ سے مسائل کو حل کرنا چاہیے۔ مگر جب وہ حکمران تھے' تو ان کے منفی عمل سے کوئی بھی محفوظ نہیں تھا۔ اپنے پورے دور اقتدار میں سرکاری وسائل کو بے رحمی سے اپنے خاندان پر لٹایا۔ ان کے طویل ترین اقتدار میں اپوزیشن تو کیا حکمران جماعت کے اسمبلی ممبران بھی ان سے نہیں مل سکتے تھے۔

کئی ایسے ایم پی اے تھے جنھیں وہ سال ہا سال ''ون ٹو ون'' میٹنگ میں نہیں ملے۔ نام نہیں لکھناچاہتا۔ اہم ترین وزیر بھی کئی کئی گھنٹے ملاقات کے لیے بیٹھے رہتے تھے۔ اور اکثر ناکام واپس جاتے تھے۔ ہر طرف ایسے کارندے موجود تھے جو ٹرانسفر یا دیگر کام کروانے کی فیس وصول کرتے تھے۔

کیا لکھوں' کیا ذکر کروں۔ بخدا اتنا کچھ جانتا ہوں کہ عرض کرنا مشکل ہے۔ مگر وہی شخص' اقتدار سے صرف تین سال دور رہ کر اتنا بے حال ہو چکا ہے کہ یقین نہیں آتا کہ یہ دراصل وہی انسان ہے جو پورے صوبے کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔ کرپشن کے تمام ثبوت سامنے آنے کے بعد بھی لایعنی باتیں فرمانا عین فرض منصبی سمجھتا ہے۔ صرف عرض کرنا چاہوں گا۔ کہ وہ بلکہ پورا خاندان اپنے سیاسی اعمال کے بوم رینگ میں پھنس چکاہے۔

کرما' پوری طاقت سے ان تمام لوگوں کے اعصاب پر حاوی ہو چکا ہے۔ کل کیا ہوتا ہے' کسی کو معلوم نہیں۔ مگر انھیں اپنے اندر غور سے جھانکنا چاہیے۔ کہ انھوں نے اپنے دور حکمرانی میں کس کس کے ساتھ کتنی کتنی بڑی ناانصافی کی ہے۔ مگر وہ کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں سوچیں گے ۔ اور بوم رینگ کسی کو نہیں چھوڑتا۔ یہی کرما ہے۔جناب' یہی کرما ہے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں