پاکستان میں لیدر مصنوعات کی صنعت
مختلف برادریوں کے افراد کی اکثریت لیدر، مصنوعات کی پروڈکشن اور برآمدات کے شعبے سے منسلک ہے۔
پاکستان چمڑے کی صنعت کے لحاظ سے دنیا کا اہم ترین ملک ہے اور چمڑا اور اس کی مختلف مصنوعات کی برآمد کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں ملک ہے۔
یہاں بہت سے ایسے خاندان آباد ہیں جن کا صدیوں پرانا یہ پیشہ رہا ہے۔ اب بھی ان کی اکثریت نسل در نسل اسی پیشے سے وابستہ ہے۔ لیدر انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے نام اب لیدر ایکسپورٹ کی دنیا میں اپنا خاص مقام رکھتے ہیں۔
مختلف برادریوں کے افراد کی اکثریت لیدر، مصنوعات کی پروڈکشن اور برآمدات کے شعبے سے منسلک ہے۔ قیام پاکستان سے قبل پاکستان کے انھی خاندانوں کے بہت سے افراد برصغیر کے مختلف شہروں میں اسی پیشے کو اپنائے ہوئے تھے، جن میں کلکتہ جسے اب کول کتہ کہا جاتا ہے بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔
اس شہر میں چمڑے سے متعلقہ کاروبار کرنے والے افراد میں خواجہ برادری اور چکوال کی سہگل فیملی چنیوٹ کی برادری اور دیگر شامل ہیں، لہٰذا قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان کے اہم شہروں خصوصاً ڈھاکہ وغیرہ میں رہ کر مغربی پاکستان کے انھی خاندانوں کے افراد نے لیدر کے کاروبار کو ترقی دی۔
پاکستان کے اہم شہروں کراچی، لاہور، ملتان اور دیگر شہروں میں اب لیدر اور لیدر مصنوعات کی چھوٹی بڑی فیکٹریاں موجود ہیں جن کی تعداد 8 سو تک بھی بتائی جاتی ہے لیکن اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ 2015 کے بعد لیدر مصنوعات پر آنے والے بحران کے باعث بعض کارخانے بند بھی ہوچکے ہیں۔
پاکستان میں لیدر انڈسٹری کو کھالوں کی فراہمی کا اہم ترین ذریعہ قربانی کی کھالوں کا رہا ہے۔ ان کھالوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ سنت ابراہیمی کی پیروی میں لاکھوں جانوروں کی قربانی ہوتی ہے گزشتہ برس گائے، بیل، اونٹ، بکرے وغیرہ کی کھالوں کی تعداد 70 لاکھ بتائی گئی تھی، اس سال غیر حتمی رپورٹ کے مطابق 80 لاکھ کا تخمینہ بھی لگایا جا رہا ہے۔
کورونا وبا کے باوجود عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کے جانوروں کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔ خریداروں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ قربانی کا جانور گائے، بیل، اونٹ، بکرا وغیرہ کے گھر پہنچتے ہی بچے نوجوان اس کے میزبان بن جاتے ہیں، اسے نہلانا، دھلانا، گھمانا پھرانا، چارہ کھلانا وغیرہ ان کے ذمے ہو جاتا ہے جو ان امور کو بڑی تندہی سے انجام دیتے ہیں اور پھر قربانی کے بعد ان جانوروں کی کھال چمڑا منڈی تک پہنچا دی جاتی ہے۔ 2015 میں گائے، بیل اور قربانی کے دیگر جانوروں کی کھالوں کی اچھی قیمت ادا کی جا رہی تھی، لیکن اب ان کھالوں کی قیمت میں شدید گراوٹ آچکی ہے۔
حالانکہ قربانی کے جانوروں کی کھال بہت ہی بہتر اور عمدہ ہوتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ عام دنوں میں بکرے کی کھال چار تا ساڑھے چار مربع فٹ ہوتی ہے جب کہ عید قرباں پر بکرے کی کھال کا سائز ساڑھے آٹھ سے بارہ مربع فٹ تک بھی ہوتا ہے جب کہ گائے بیل کی کھال کا سائز عام دنوں میں 25 سے 27 مربع فٹ تک ہوتا ہے جب کہ قربانی کے جانوروں کی کھال کا سائز 40 سے 50 مربع فٹ تک بھی ہوتاہے۔ کچھ عرصے سے ٹیزیز والوں کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
کیونکہ ان کی فیکٹریز میں استعمال ہونے والے بڑی مقدار میں کیمیکلز کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے، کیونکہ بیشتر اشیا درآمد کی جاتی ہیں اور ملک میں ڈالر ریٹ میں روزبروز اضافے نے مالی سال کے علاوہ لاگت میں زبردست اضافہ کردیا ہے۔
لیدر انڈسٹری پاکستان کی اہم ترین انڈسٹری ہے، جو غالباً بلاواسطہ اور بالواسطہ 20 لاکھ افراد کے لیے روزگار کا ذریعہ ہے۔ جس میں کھالوں کے بیوپاری سے لے کر مصنوعات کی ریٹیل شاپ تک کے افراد کو شامل کیا جاسکتا ہے۔ یہ تعداد اس سے بھی بہت زیادہ ہوسکتی ہے لیکن فیکٹریز میں جو افراد برسر روزگار ہیں ان کی تعداد 6 لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے، لیکن یہاں زیادہ تر ٹھیکیداری نظام کے تحت مزدور رکھے جاتے ہیں۔ لہٰذا ان کی شرائط ملازمت بہتر نہیں ہو پاتی اور ملازمین مسائل کا شکار ہیں۔
پاکستان جوکہ لیدر ایکسپورٹ کا اہم ملک ہے۔ اگرچہ کل ایکسپورٹ میں لیدر اور اس کی مصنوعات کا حصہ 6 فیصد سے زائد نہ ہوگا لیکن برآمدات کے ذریعے زرمبادلہ کمانے کا اہم ذریعہ ہے سال 2020-21 کے دوران بتایا جاتا ہے کہ سوا کروڑ مربع میٹر کی لیدر Tammed کی برآمد سے 25 ارب 79 کروڑ روپے حاصل کیے گئے تھے۔ لیدر مصنوعات کی برآمد 80 ارب 17کروڑ روپے کی رہی۔ 2020-21 کے دوران 74 لاکھ فٹویئر کی برآمد کرکے 17 ارب 39 کروڑ روپے کا زرمبادلہ حاصل کیا گیا۔
پاکستان میں لیدر انڈسٹری کی ترقی پر کوئی خاص توجہ نہ دی جاسکی۔ حالانکہ بڑی بڑی لیدر انڈسٹری اپنا فنڈ جمع کرکے بڑے پیمانے پر نوجوانوں کو جدید لیدر ٹیکنالوجی کی تربیت کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں، اگرچہ ملک کے کئی شہروں میں لیدر ٹیکنالوجی کی تربیت کے ادارے موجود ہیں جہاں لیدر ٹیکنالوجی، فٹ ویئر ٹیکنالوجی اور لیدر مینوفیکچرنگ سے متعلق 3سالہ ڈپلومہ بھی کرایا جارہا ہے۔
لیدر کی مصنوعات کے بڑے خریدار یورپ کے مختلف ممالک امریکا، آسٹریلیا، کینیڈا وغیرہ ہیں، لیکن حالیہ کورونا وبا نے جہاں ہر شعبے کو متاثر کیا ہے وہیں لیدر مصنوعات کی خرید و فروخت بھی شدید متاثر ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کاروبار سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ دو سال سے بیشتر معاشی سرگرمیاں بند ہیں اور ایسے میں یورپ امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں لوگ گھر بیٹھ کر کام کر رہے ہیں۔ لہٰذا لیدر مصنوعات خصوصاً لیدر جیکٹ، لیدر گلووز، اور دیگر کئی مصنوعات کی طلب میں کمی ہوگئی ہے۔
پاکستان کے اہم خریدار ملکوں میں یورپی یونین کے ممالک بھی شامل ہیں۔ جی ایس پی پلس جوکہ 2023 تک کے لیے حاصل ہے ،اس سلسلے میں معاشی حکام مختلف ممالک کے ٹریڈ سے متعلق پاکستانی سفارتخانے کے افسران سے مل کر کام کرسکتے ہیں۔ پاکستانی سفارتخانے کے ان افسران و ملازمین کو متحرک کیا جاسکتا ہے کہ جی ایس پی پلس سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے۔
اگرچہ پاکستان میں بننے والی لیدر مصنوعات کا 99.5 فیصد ایکسپورٹ ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ مصنوعات بہت مہنگے ہوتے ہیں لیکن غیر ملکی سیاح لیدر مصنوعات کی خریداری میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔ پاکستان لیدر جیکٹ، گلووز، بیگز، سوٹ کیس اور دیگر کئی مصنوعات کا اہم ترین برآمد کنندہ ہے۔ اٹلی، فرانس، جرمنی، پولینڈ، اسپین، نیدر لینڈ، کینیڈا، امریکا اور دیگر کئی ممالک کو بڑی مقدار میں لیدر مصنوعات برآمد کی جاتی ہیں۔
پاکستان میں لیدر انڈسٹری کے ساتھ اس شعبے سے منسلک ملازمین کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ان کی حالت زار ان کی شرائط ملازمت اور معاوضہ کی بابت حکومت کو اقدامات کرنے چاہئیں اس کے ساتھ ہی لیدر انڈسٹری کے فروغ کے لیے صنعتکاروں سے مل کر مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔
یہاں بہت سے ایسے خاندان آباد ہیں جن کا صدیوں پرانا یہ پیشہ رہا ہے۔ اب بھی ان کی اکثریت نسل در نسل اسی پیشے سے وابستہ ہے۔ لیدر انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے نام اب لیدر ایکسپورٹ کی دنیا میں اپنا خاص مقام رکھتے ہیں۔
مختلف برادریوں کے افراد کی اکثریت لیدر، مصنوعات کی پروڈکشن اور برآمدات کے شعبے سے منسلک ہے۔ قیام پاکستان سے قبل پاکستان کے انھی خاندانوں کے بہت سے افراد برصغیر کے مختلف شہروں میں اسی پیشے کو اپنائے ہوئے تھے، جن میں کلکتہ جسے اب کول کتہ کہا جاتا ہے بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔
اس شہر میں چمڑے سے متعلقہ کاروبار کرنے والے افراد میں خواجہ برادری اور چکوال کی سہگل فیملی چنیوٹ کی برادری اور دیگر شامل ہیں، لہٰذا قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان کے اہم شہروں خصوصاً ڈھاکہ وغیرہ میں رہ کر مغربی پاکستان کے انھی خاندانوں کے افراد نے لیدر کے کاروبار کو ترقی دی۔
پاکستان کے اہم شہروں کراچی، لاہور، ملتان اور دیگر شہروں میں اب لیدر اور لیدر مصنوعات کی چھوٹی بڑی فیکٹریاں موجود ہیں جن کی تعداد 8 سو تک بھی بتائی جاتی ہے لیکن اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ 2015 کے بعد لیدر مصنوعات پر آنے والے بحران کے باعث بعض کارخانے بند بھی ہوچکے ہیں۔
پاکستان میں لیدر انڈسٹری کو کھالوں کی فراہمی کا اہم ترین ذریعہ قربانی کی کھالوں کا رہا ہے۔ ان کھالوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ سنت ابراہیمی کی پیروی میں لاکھوں جانوروں کی قربانی ہوتی ہے گزشتہ برس گائے، بیل، اونٹ، بکرے وغیرہ کی کھالوں کی تعداد 70 لاکھ بتائی گئی تھی، اس سال غیر حتمی رپورٹ کے مطابق 80 لاکھ کا تخمینہ بھی لگایا جا رہا ہے۔
کورونا وبا کے باوجود عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کے جانوروں کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔ خریداروں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ قربانی کا جانور گائے، بیل، اونٹ، بکرا وغیرہ کے گھر پہنچتے ہی بچے نوجوان اس کے میزبان بن جاتے ہیں، اسے نہلانا، دھلانا، گھمانا پھرانا، چارہ کھلانا وغیرہ ان کے ذمے ہو جاتا ہے جو ان امور کو بڑی تندہی سے انجام دیتے ہیں اور پھر قربانی کے بعد ان جانوروں کی کھال چمڑا منڈی تک پہنچا دی جاتی ہے۔ 2015 میں گائے، بیل اور قربانی کے دیگر جانوروں کی کھالوں کی اچھی قیمت ادا کی جا رہی تھی، لیکن اب ان کھالوں کی قیمت میں شدید گراوٹ آچکی ہے۔
حالانکہ قربانی کے جانوروں کی کھال بہت ہی بہتر اور عمدہ ہوتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ عام دنوں میں بکرے کی کھال چار تا ساڑھے چار مربع فٹ ہوتی ہے جب کہ عید قرباں پر بکرے کی کھال کا سائز ساڑھے آٹھ سے بارہ مربع فٹ تک بھی ہوتا ہے جب کہ گائے بیل کی کھال کا سائز عام دنوں میں 25 سے 27 مربع فٹ تک ہوتا ہے جب کہ قربانی کے جانوروں کی کھال کا سائز 40 سے 50 مربع فٹ تک بھی ہوتاہے۔ کچھ عرصے سے ٹیزیز والوں کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
کیونکہ ان کی فیکٹریز میں استعمال ہونے والے بڑی مقدار میں کیمیکلز کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے، کیونکہ بیشتر اشیا درآمد کی جاتی ہیں اور ملک میں ڈالر ریٹ میں روزبروز اضافے نے مالی سال کے علاوہ لاگت میں زبردست اضافہ کردیا ہے۔
لیدر انڈسٹری پاکستان کی اہم ترین انڈسٹری ہے، جو غالباً بلاواسطہ اور بالواسطہ 20 لاکھ افراد کے لیے روزگار کا ذریعہ ہے۔ جس میں کھالوں کے بیوپاری سے لے کر مصنوعات کی ریٹیل شاپ تک کے افراد کو شامل کیا جاسکتا ہے۔ یہ تعداد اس سے بھی بہت زیادہ ہوسکتی ہے لیکن فیکٹریز میں جو افراد برسر روزگار ہیں ان کی تعداد 6 لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے، لیکن یہاں زیادہ تر ٹھیکیداری نظام کے تحت مزدور رکھے جاتے ہیں۔ لہٰذا ان کی شرائط ملازمت بہتر نہیں ہو پاتی اور ملازمین مسائل کا شکار ہیں۔
پاکستان جوکہ لیدر ایکسپورٹ کا اہم ملک ہے۔ اگرچہ کل ایکسپورٹ میں لیدر اور اس کی مصنوعات کا حصہ 6 فیصد سے زائد نہ ہوگا لیکن برآمدات کے ذریعے زرمبادلہ کمانے کا اہم ذریعہ ہے سال 2020-21 کے دوران بتایا جاتا ہے کہ سوا کروڑ مربع میٹر کی لیدر Tammed کی برآمد سے 25 ارب 79 کروڑ روپے حاصل کیے گئے تھے۔ لیدر مصنوعات کی برآمد 80 ارب 17کروڑ روپے کی رہی۔ 2020-21 کے دوران 74 لاکھ فٹویئر کی برآمد کرکے 17 ارب 39 کروڑ روپے کا زرمبادلہ حاصل کیا گیا۔
پاکستان میں لیدر انڈسٹری کی ترقی پر کوئی خاص توجہ نہ دی جاسکی۔ حالانکہ بڑی بڑی لیدر انڈسٹری اپنا فنڈ جمع کرکے بڑے پیمانے پر نوجوانوں کو جدید لیدر ٹیکنالوجی کی تربیت کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں، اگرچہ ملک کے کئی شہروں میں لیدر ٹیکنالوجی کی تربیت کے ادارے موجود ہیں جہاں لیدر ٹیکنالوجی، فٹ ویئر ٹیکنالوجی اور لیدر مینوفیکچرنگ سے متعلق 3سالہ ڈپلومہ بھی کرایا جارہا ہے۔
لیدر کی مصنوعات کے بڑے خریدار یورپ کے مختلف ممالک امریکا، آسٹریلیا، کینیڈا وغیرہ ہیں، لیکن حالیہ کورونا وبا نے جہاں ہر شعبے کو متاثر کیا ہے وہیں لیدر مصنوعات کی خرید و فروخت بھی شدید متاثر ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کاروبار سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ دو سال سے بیشتر معاشی سرگرمیاں بند ہیں اور ایسے میں یورپ امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں لوگ گھر بیٹھ کر کام کر رہے ہیں۔ لہٰذا لیدر مصنوعات خصوصاً لیدر جیکٹ، لیدر گلووز، اور دیگر کئی مصنوعات کی طلب میں کمی ہوگئی ہے۔
پاکستان کے اہم خریدار ملکوں میں یورپی یونین کے ممالک بھی شامل ہیں۔ جی ایس پی پلس جوکہ 2023 تک کے لیے حاصل ہے ،اس سلسلے میں معاشی حکام مختلف ممالک کے ٹریڈ سے متعلق پاکستانی سفارتخانے کے افسران سے مل کر کام کرسکتے ہیں۔ پاکستانی سفارتخانے کے ان افسران و ملازمین کو متحرک کیا جاسکتا ہے کہ جی ایس پی پلس سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے۔
اگرچہ پاکستان میں بننے والی لیدر مصنوعات کا 99.5 فیصد ایکسپورٹ ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ مصنوعات بہت مہنگے ہوتے ہیں لیکن غیر ملکی سیاح لیدر مصنوعات کی خریداری میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔ پاکستان لیدر جیکٹ، گلووز، بیگز، سوٹ کیس اور دیگر کئی مصنوعات کا اہم ترین برآمد کنندہ ہے۔ اٹلی، فرانس، جرمنی، پولینڈ، اسپین، نیدر لینڈ، کینیڈا، امریکا اور دیگر کئی ممالک کو بڑی مقدار میں لیدر مصنوعات برآمد کی جاتی ہیں۔
پاکستان میں لیدر انڈسٹری کے ساتھ اس شعبے سے منسلک ملازمین کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ان کی حالت زار ان کی شرائط ملازمت اور معاوضہ کی بابت حکومت کو اقدامات کرنے چاہئیں اس کے ساتھ ہی لیدر انڈسٹری کے فروغ کے لیے صنعتکاروں سے مل کر مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔