’’میں نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘
قائد اعظم کے رفیق سید کاظم علی کی بیٹی، بیگم رضیہ سلیم کی یادداشتیں !
بیگم رضیہ سلیم کا تعلق دہلی کے اُس معروف گھرانے کے ساتھ ہے، جنہوں نے تحریک پاکستان میں بھر پور حصہ لیا۔
آزادی وطن کے لئے اُن کے گھرانے کے درجنوں افراد نے جام شہادت نوش کیا، وہ آگ اور خون کا دریا عبُور کر کے پاکستان پہنچیں، اُن کے والد محترم سید کاظم علی ماہنامہ کہکشاں دہلی کے بانی و مدیر اور دہلی مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے ، وہ دہلی کی ایک محترم و ہر دلعزیز شخصیت تھے ، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒکے جانثار ، ان کی تحریروں کی کاٹ تلوار جیسی تھی ان کے علمی و ادبی قد کی وجہ سے انھیں دہلی کے اہل علم و اہل قلم میں بڑی پذیرائی حاصل تھی ، ہندو ان کی تحریروں سے خائف بھی تھے اور ان کی مدلل تحریروں سے زچ بھی ہوتے تھے ۔
سید کاظم علی کی خدمات کا اعتراف بانی پاکستان محمد علی جناحؒ اور دوسرے اکابرین نے بھی کیا، اگرچہ ممتاز صحافی میر خلیل الر حمٰن ، عثمان آزاد اور حکیم محمد سعید، سید کاظم علی کے گہرے دوست تھے، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ میر خلیل الر حمٰن ، عثمان آزاد اور حکیم محمد سعید کی سید کاظم علی کے ساتھ دوستی کے ساتھ عقیدت کا رنگ بھی گہرا تھا ۔
بیگم رضیہ سلیم نے پاکستان بنتے بھی دیکھا ، خواب بکھرتے اور دل ٹوٹتے بھی دیکھے ، ان کا شمار اُن چند خواتین میں ہوتا ہے ، جو تحریک پاکستان کی عینی شاہد اور پاکستان بننے کے بعد بہت سے رازوں کی امین ہیں۔ 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد اُن کا دل کچھ اس طرح سے کرچی کرچی ہوا کہ وہ ایک دم سے گو شہ نشین ہو گئیں ، تمام معاملات سے لا تعلق ہو کر ایک عام گھریلوخاتون کی مانند زندگی گزارنے لگیں ، ہمیں علم ہوا کہ گمنامی کی زندگی گزارنے والی یہ خاتون بہت کچھ دل میں سموئے ہوئے ہیں تو ان سے تحریک پاکستان ، تقسیم ہندکے بعد کے واقعات کے حوالے سے ایک خصوصی نِشست کا اہتمام کیا گیا۔
ویسے تو بیگم رضیہ سلیم ایک کم گو خاتون ہیں مگر جب تحریک پاکستان اور حصول مقاصد پاکستان کے حوالے سے گفتگو کی گئی تو جیسے کوئی بند ٹوٹ گیا ہو، تحریک پاکستان کے دوران پیش آئے کچھ قابل ذکر واقعات کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تحریک پاکستان چند قابل ذ کر واقعات کا نام نہیں بلکہ تحریک پاکستان کے حوالے سے تمام مسلمانانِ ہند کا جذبہ ہی قابل ذکر ہے ، پاکِ و ہند کے ہر مسلمان کے جذبے ، جدوجہد اور قربانی کی داستان پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
میں نے نہ صرف پاکستان بنتے دیکھا بلکہ آزادی پاکستان کیلئے جو خلوص اور جدبہ مسلمانوں کے دِلوں میں تھا ، آ ج بھی اس کی تپش اور جذبوں کی آ نچ محسوس ہوتی ہے ، قربانیوں کی وہ داستانیں رقم کی گئیں کہ جن کی مثال تا ریخ میں پہلے موجود تھی نہ ہی کبھی دوبارہ قا ئم ہو گی ، ہمارے اپنے گھرانے کے لاتعداد افراد جن میں بچے بوڑھے جوان اور عورتیں شامل تھیں شہید کر دیئے گئے مگر جن گھرانوں کے افراد شہید ہوئے ان گھرانوں کو عزیزوںسے دائمی جدائی کا قلق نہیں بلکہ اُن کی قربانیوں پر فخر تھا ۔ قومیں اسی طرح آزاد ہوتی ہیں ۔ انہی جذبوں کو لئے ترقی کرتی ہیں مگر راہنما محمد علی جناحؒ اور لیاقت علی خان جسے ہونے چاہئیں ۔
اگر راہنما کی جگہ راہزن لے لیں تو قوم بددل بھی ہو جاتی ہے، جذ بہ قربانی بھی مایوسی اور احساس زِیاں میں بدل جاتا ہے ، اس کے بعد قومیں اس کیفیت سے دو چار ہوتی ہیں کہ جسے آ ج وطنِ عزیز ہے ۔ بانی پاکستان ، بابائے قوم قا ئداعظم محمد علی جناحؒ اس دنیا سے رخصت ہوئے ان کے پاس کوئی جائیداد اور مال و متاع نہ تھا حالانکہ وہ متحدہ ہندوستان کے مہنگے وکیل تھے ، وہ اپنی طے شدہ فیس پوری وصول کرتے تھے ، اگر آج کے قانون کے مطابق وہ اپنی آمدنی اور جائیداد کے '' گوشوارے '' جمع کرواتے تو لوگوں کو علم ہوتا کہ انھوں نے وکالت کے ذریعے کتنا کمایا اور کتنا بچایا ، انھوں نے اپنی کمائی اور زندگی کا ہر لمحہ تحریک پاکستان کے لئے وقف کیا۔
اسی طرح پاکستان کے پہلے وزیراعظم '' قائد مِلت لیاقت علی خان کو جب اکبر نامی بدبخت شخص نے شہید کیا، تو انہوں نے جو شیروانی پہنی ہوئی تھی اس پر تین پیوند لگے ہوئے تھے اور جیب میں چند سکے تھے ، جبکہ آ پ وزیراعظم پاکستان اور ان کی بیوی بیگم رعنا لیاقت علی کسی ملک میں پاکستان کی سفیر تھیں ، جبکہ اُن کے '' ڈکلیئر '' اثاثوں میں کچھ بھی نہ تھا ۔ یہ ہوتی ہے نظریاتی سیاست ، اسی طرح مسلم لیگیوں نے تحریک پاکستان کیلئے اپنا سب کچھ گنوا دیا ، حتیٰ کہ لاکھوں جانوں کی قربانی دی، دریائے ستلج شہیدوں کے خون سے سُرخ ہو گیا۔
آج کل کچھ مفاد پرست ، لالچی اور خود غرض لوگوں کا گروہ مل کر ''سیاسی پارٹی '' بناتا ہے یا پہلے سے قا ئم کسی سیاسی پارٹی پر قابض ہوتا ہے پھر لالچی سرکاری و غیر سرکاری افسران کو ساتھ ملایا جاتا ہے ، ابن الوقت قسم کے جا گیرداروں اور زمینداروں کو مفادات کا لالچ دے کر ساتھ شامل کیا جاتا ہے، قسمت اچھی ہوئی تو اقتدار میں آ گئے وگرنہ '' اسٹرانگ اپوزیشن'' بن گئے ، ملک وقوم کے خون کی آخری بوند تک نچوڑ لیتے ہیں ، اپنے ہی لوگوں سے لوٹا ہوا '' مال غنیمت '' دوسرے ملکوں میں جمع کرواتے اپنی آ خری عمر لندن ، یورپ یا امریکہ میں '' یا د الہی'' میں گزار دیتے ہیں ۔
تحریک پاکستان میں خواتین کے کردار کے حوالے سے بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تحریک پاکستان میں خواتین نے جو قربانیاں دیں ایسی مثال نہیں ملتی، ہمارے خاندان کے تمام مرد وخواتین تحریک پاکستان میں اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ شریک تھے، اس وقت میری عمر تو زیادہ نہیں تھی، میں پھوپھی بیگم خواجہ کی انگلی تھامے سا را دن مسلم لیگی کیمپوں کا دورہ کرتی تھی ، چونکہ میرے والد محترم مسلم لیگ دہلی کے جنرل سیکرٹری تھے ، مسلم لیگ دہلی کا جنرل سیکرٹری ہونا بڑے اعزاز کی بات تھی کہ دہلی کو برصغیر میں اہم مقام حاصل تھا۔
آ ج بھی بھارت کا دارا لخلافہ نیو دہلی ہے '' یوپی '' کے مسلمانوں کو علم تھا کہ '' یوپی'' (اُترپردیش) پاکستان میں شامل نہیں ہوگا مگر تمام مسلمان تحریک پاکستان میں شامل تھے ۔ متعصب ہندو مسلمانوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے تھے مگر مسلمانوں کے جنون وجذبے میں ان دھمکیوں سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا ۔ مسلمان عورتیں تحریک پاکستان کا ہراول دستہ تھیں ، ہم مسلمان بچیاں اور عورتیں دن رات ریلیاں اور جلوس نکالتی تھیں، '' چاہے جائے اپنی جان ، لے کر رہیں گے پاکستان '' کے نعروں سے فضا گرماتی تھیں ، ہندوؤں کو اس بات کا بڑا غصہ تھا ، چنانچہ جب پاکستان آ زاد ہوا تو ہندو سکھ مسلمانو ں پر پل پڑے ، لاکھوں مرد مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا، لاکھوں مسلمانوں عورتوں کو اغواء کر لیا گیا ، لاکھوں مسلمان عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔
مسلمان کی اسقدر تذلیل کی گئی کہ آ ج بھی انسانیت تو کیا حیوانیت بھی کانپ جاتی ہے ۔ سر عام مسلمان عورتوں کی عزتیں لوٹی جاتیں ، بلکہ سینکڑوں مناظر ایسے بھی دیکھنے میں آ تے تھے کہ ہندو سکھ لائنوں میں لگ کر مسلمان عورتوں کی عصمت دری کرتے ، ہزاروں مسلمان عورتوں نے اپنے ہاتھوں اپنے آ پ کو عزت بچانے کیلئے مار دیا ۔ ہزاروں مسلم عورتوں نے کنوؤں میں کود کر جا ن دیدی ، اس کے باوجود ہزاروں عورتوں کو ہندؤوں سکھوں نے اغواء کرکے اپنے گھروں میں قید کر لیا ، ہزاروں مسلم عورتوں کا جبری مذ ہب تبدیل کر دیا گیا اور '' امرت کور' بسنت کور' کامنی کوشل اور بلونت کور'' بننے پر مجبور کر دیا گیا ہے کہ جب ہم ہجرت کرکے پاکستان آ ئے تو ہم کرشن نگر کے ایک گھر میں بھی کچھ عرصہ رہے، سامنے والے گھر میں ایک پندرہ سولہ سال کی لڑکی رہتی تھی ، جس کا ایک ہاتھ ظالموں نے کاٹ دیا تھا ۔
تحریک پاکستان غالباً دنیا کی واحد تحریک ہے ، جس میں لاکھوں عورتوں نے اپنی عصمتوں اور جانوں کی قربانیاں دی ، اُس وقت دِلوں میں ایک ہی جذبہ تھا کہ ہم ایک ایسے وطن کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں کہ جہاں اسلام کا بول بالا ہوگا ، ریاست مدینہ کی طرز کی ایک مکمل اور خالصتاً اسلامی یاست ہو گی ، جہاں انصاف ہوگا ، جہاں غیر اسلا می شعائر نہیں ہوں گے ، جہاں مسلمان اپنے آ پ کو دین کے مکمل سانچے میں ڈھال سکیں گے ، حصول وطن کیلئے مسلمان عورتوں نے بڑ ی قربانیاں دی ہیں ۔
ہجرت کے دوران پیش آنے والے مسائل پر ان کا کہنا تھا کہ جب پاکستان کی آ زادی کا اعلان ہوا تو بھارت میں رہنے والے ہندو اور سکھ مسلمانوں پر پَل پڑے ، ممتاز صحافی میر خلیل الرحمٰن اکثر ہمارے گھر آتے اور والد صاحب کو بتاتے کہ اب یہ جگہ ہمارے لئے تنگ ہو چکی ہے، ہمیں اب پاکستان جانا ہی پڑے گا ، والد صاحب بھی اس بات پر متفق تھے وہ بھی سمجھتے تھے کہ اب دہلی میں رہنا ممکن نہیں ہے ، مگر انھیں یہ بھی خوش گمانی تھی کہ ساری زندگی وضع داری ، مذ ہبی رواداری اور انسانیت کے اُصولوں کے عین مطابق گزاری ہے اس لئے ہندو انھیں تنگ نہیں کریں گے ، مگر ہندؤ اس قدر تعصب رکھنے والی قوم ہے کہ ان کے دل کبھی بھی مسلمانوں کی طرف سے صاف نہیں ہو سکتے ، ویسے بھی '' خیر و شر '' کا ملاپ ہو ہی نہیں سکتا ۔
وہ گھڑی بڑی پُر کیف تھی کہ جب 14 اگست کو رات بارہ بجے براڈ کاسٹر شکیل ہمدانی کی آواز ریڈیو پرگونجی کہ '' یہ ریڈیو پاکستان ہے '' اس آواز نے رگوں میں نئی زندگی دوڑا دی ، مگر ہند کی زمین مسلمانوں کے لئے تنگ ہو چکی تھی ، انہی دنوں میر خلیل الرحمٰن ہمارے گھر آ ئے اور والد صاحب کو بتایا کہ پولیس انھیں گرفتار کرنے کی منصوبہ بندی کر چکی ہے، لہذا اب انھیں ہجرت کر کے پاکستان چلے جانا چاہیے ، پھرحکیم محمد سعید ، عثمان آزاد صاحب نے بھی یہی مشورہ والد بز رگوار کو دیا کہ اب ہند کے بُت کدے کی زمین مسلمانوں کے لئے تنگ ہوگئی ہے۔
والد صاحب کے دوستوں کا یہ مشورہ تھا کہ ہمیں پاکستان کی مضبوطی کیلئے کام کرنا چاہیے، اگر پاکستان مضبوط ہو گا تو بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی تحفظ حاصل ہوگا ، پھر ایک دن دوبارہ میر خلیل الرحمٰن ہمارے گھر تشریف لائے اور انھوں نے بتایا کہ ممتاز جریدوں کے فون کٹ چکے ہیں اب آ پ کے گھر کا محاصرہ ہونے والا ہے، صرف آ دھا گھنٹہ ہے، نکلنے کے لئے ، پولیس آ پ کو گرفتار کر لے گی ، آ پ ٹیکسی میں بیٹھیں اور فوراً کسی کیمپ میں چلے جائیں '' انھوں نے یہ بھی بتایا کہ تھانیدار مسلمان ہے اور آپ سے عقیدت بھی رکھتا ہے اُس نے یہ پیام بھجوایا ہے ۔'' یہ سُن کر والد صاحب نے ہجرت کا فیصلہ کر لیا ، گھر، کہکشاں کا دفتر ، سازوسامان سب کچھ چھوڑ دیا ، کچھ دیر بعد بے سروسامانی کے عالم میں ایک ٹیکسی میں بیٹھے تھے ، تھوڑی دیر بعد ہم ہمایوں کیمپ میں تھے۔
اس کیمپ میں ہم نے بائیس دن گزارے ، یہ دن کس طرح گزرے ، اندازہ لگایا جا سکتا ہے ، ایک بے یقینی کی کیفیت ، زندگی موت کا تصور ، خواہشات دم توڑ چکی تھیں ، کچھ بھی اندازہ نہیں تھا ، کہ اب کیا ہوگا ؟۔ والد صاحب ہماری طرف متوحش نگاہوں سے دیکھتے اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہتے ، ان بائیس دنوں پر محیط زندگی کی بھی پوری ایک جلد لکھی جا سکتی ہے ۔ پھر وہ وقت بھی آ گیا کہ ہم پاکستان روانہ ہونے کیلئے دہلی ریلوے اسٹیشن کی جانب محو ِسفر تھے ۔
ابا جی اور گھر والے ڈبڈ باتی نظروں سے دہلی کی سڑکوں اور عمارات کو دیکھ رہے تھے کہ اب یہ سب کچھ ہمیشہ کے لئے چھوٹ رہا تھا ۔ مگر کسی چیز کو کھونے کا قلق نہ تھا بلکہ خوشی تھی کہ ہمیں آ قائے نامدا ر ﷺ کی سُنت پر عمل کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے ، ہم بھی '' مدینہ'' کی جانب ہجرت کر رہے ہیں جہاں کے مسلمان اتنے مضبوط ہوں گے کہ چودہ سو سال بعد پھر پاکستان سے اسلام غلبہ حاصل کرے گا۔ جب ہم دہلی ریلوے اسٹیشن پہنچے توبے سروسامان افراد کا جم غفیر تھا ، یہ وہ لوگ تھے کہ جو پاکستان کے لئے اپنا سب کچھ گنوا بیٹھے تھے ، مگر کسی کو بھی اس بات کا افسوس نہیں تھا ، ایک ہی جذبہ تھا کہ ہم نے پاکستان پہنچنا ہے ۔ اس ملک کو بہت مضبوط بنانا ہے ۔
پاکستان سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا دور شروع ہو گا ، ہجرت کرنے والے تمام مسلمانوں کی سوچ ، ہر قسم کے تعصبات سے ماورا ء ہو کر ا ُمت محمدؐیہ کی سوچ میں بدل چکی تھی ۔ سب لوگ گروہ بندیوں ، ذات پات اور قبائل سے نکل کر اُ مت بن چکے تھے ، جو ٹرین بھی آ تی لمحوں میں کھچا کھچ بھر جاتی ، لوگ چھتوں پر بھی سوار ہوجاتے ، ہم اگلی ٹرین کا انتظار کر ہی رہے تھے کہ پولیس کا ایک دستہ ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا ، اسٹیشن پر اس قدر رش تھا کہ تِل دھرنے کی جگہ نہ تھی ، پولیس والے ابا جی کو ڈ ھونڈ رہے تھے ، لوگوں سے پوچھ رہے تھے کہ کسی نے سید کاظم علی کو دیکھا ہے ، ایک صاحب نے کہا کہ '' ہاں '' دیکھا ہے ابھی جو ٹرین گئی ہے وہ اس میں سوار تھے۔
پولیس کے جاتے ہی جیسے ہی اگلی نے ٹرین آئی لوگوں نے ہمارے گھرانے کو اس میں سوار کروا دیا ، والد صا حب ایک دفعہ پھر گرفتا ری سے بچ چکے تھے ۔ ٹرین مہاجرین سے بھری ہوئی تھی ، ستمبر کی گرمی اور حبس نے سانس لینا د وبھر کر رکھا تھا۔ کھڑکیاں ، دروازے بند تھے ، دم گھٹ رہا تھا ۔ احساس ہو رہا تھا کہ اگر ہندؤوں اور سِکھوں کے ہاتھوں بچ گئے تو دم گھٹنے سے موت واقع ہو جائے گئی ، ہماری خوش قسمتی تھی کہ قائداعظم کے حکم پر فوجی جوان بھی ٹرین کے ہمراہ تھے اس سے پہلے جو ٹرین بھی پاکستان کی طرف جاتی تھی ، ہندؤ سِکھ بلوائی راستے میں روک کر تما م مہاجرین کو گاجر ، مولی کی طرح کاٹ ڈالتے تھے۔
ہجرت کے بعد ہم کرشن نگر ایک شاہ صاحب کے گھر تھے ،کچھ عرصہ ہمیں میکلوڈ روڈ '' ریجنٹ سنیما '' کے برابر والی گلی میں گھر الاٹ ہوگیا ۔ اُن دنوں مہاجرین کے راشن کارڈ بن رہے تھے ، ہمارا بھی راشن کارڈ بن گیا ، اگرچہ کارڈ پر بھی راشن کے پیسے وصول کئے جاتے تھے مگر اتنے زیادہ نہیں ہوتے تھے ، جو پیسے ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے انھیں حکومت کی طرف سے مفت راشن ملتا تھا ۔ پھر ایک نئی زندگی کی شروعات ہوئی، والد صاحب کو مال روڈ لاہور '' روزنامہ شمشیر ہند '' کا دفتر الاٹ ہو گیا ، اس دفتر سے '' ماہنامہ کہکشاں '' اور '' ہفت روزہ کہکشاں '' کا اجراء ہوگیا ، اب '' کہکشاں '' کا '' فارمیٹ '' بھی تبدیل ہوگیا ، والد صا حب نے قلم کے ذریعے نئے وطن کی تعمیر وترقی کیلئے قوم کی راہنمائی اور تربیت کا فریضہ سنبھال لیا ، اُس زمانے کا ہر شمارہ وطن کی تعمیر وترقی کے لئے مشعل راہ تھا ۔ اُس وقت والد صاحب کو الائمنٹ کے محکمے میں اعزازی مجسٹریٹ بھی تعینات کر دیا گیا۔
انھوں نے مہاجرین کی بحالی کے لئے خصوصی خدمات سرانجام دیں ۔ 1950ء میں میرے والد محترم کو دوسری بار حج کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ، اس سے پہلے وہ 1946ء میں حج کر چکے تھے، دوسرا حج کرنے کے بعد جب وہ وطن واپس پہنچے تو ان کی کایا پلٹ چکی تھی ۔ اس کے بعد انھوں نے '' کہکشاں '' بند کردیا ، رزق حلال کمانے کیلئے کسی ہوٹل میں مینجر کی ملازمت کر لی ، اور اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت اور پرورش شروع کر دی ، میر خلیل الرحمٰن نے خاصا زور لگایا کہ وہ ان کے اخبار کی ادارت سنبھال لیں مگر انھوں نے انکار کر دیا ۔ 1951ء میں وہ شدید بیمار ہوئے ، پھر حکیم محمد سعید کے بصد اصرار پر وہ بغرض علاج کراچی چلے گئے ، جہاں وہ حکیم محمد سعید کے زیر علاج رہے اور آخرکار 9 نومبر 1952 ء میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔
کیا آپ سمجھتی ہیں، قائداعظم ؒ اور لیاقت علی خان کے بعد مخلص قیادت کا فقدان رہا جبکہ بے شمار سیاستدانوں کا تعلق قائداعظم ؒ اور تحریک پاکستان سے جڑا ہوا تھا، کے جواب میں وہ گویا ہوئیں کہ قائداعظم ؒ جیسا بااصول ، زیرک ، صاحب کردار اور صاحب بصیرت لیڈر کوئی اور نہ تھا ، وہ دلیل پر یقین رکھتے تھے ، وہ حصول مقصد اور حصول منزل پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے تھے ۔
ان کی تمام تقاریراور ارشادات پر غور کیا جائے تو واضح ہوگا کہ وہ حصول پاکستان کے ساتھ مسلمانوں کی کردار سازی ، اعلیٰ اقدار اور خصوصی صلاحیتوں پر بھی بہت توجہ دیتے تھے، اگر قدرت انھیںچند سال کی مہلت مزید دیتی تو وہ اس قوم کو ایک بہترین سا نچے میں ڈ ھال دیتے ۔ ان کے ساتھیوں میں وہ بصیرت ، خلوص اور لگن نہ تھی ، یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم ؒ اور لیا قت علی خان کی وفات کے بعد ملک عدم استحکام سے دوچار ہو گیا، گورنر جنرل اس تواتر سے تبدیل ہوئے کہ نہرو کو یہ کہنا پڑا کہ '' اتنی میں دھوتیاں نہیں بدلتا جتنے پاکستان کے گورنر جنرل تبدیل ہوتے ہیں '' ۔
حکومتوں کے اتنی جلدی بدلنے سے استحکام ہی نہیں پیدا ہوا ۔ نوزائیدہ مملکت میں جب ایسے معاملات پیدا ہوتے ہیں تو یقینا اس کے پس منظر میں بہت سی سازشیں چھپی ہوتی ہیں ۔ جن حالات میں پاکستان کوآ زادی مِلی اور بہت سارے علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور وہ پاکستان کا حصہ تھے بھارت کے حوالے کردئیے گئے ، جس کی وجہ سے عسکری اداروں کی اپنی اہمیت بن گئی ، مگر اُس زمانے میں فوج کی ضرورت سے زیادہ طاقت اور اہمیت ملک کے لئے نقصان دہ بھی ثابت ہوئی ، اسی وجہ سے سیاسی ادارے زیادہ مضبوط نہ ہو سکے ۔
تحریک پاکستان کا جذبہ قیام پاکستان کے بعد کیوں قائم نہ رہ سکا کے سوال پر بیگم رضیہ سلیم کا کہنا تھا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے یہ نعرہ تو لگایا گیا '' بن کے رہے گا پاکستان '' مگر پا کستان ن بننے کے بعد یہ نعرہ نہ لگایا گیا '' سنور کے رہے گا پا کستان '' ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان آزاد ہونے کے بعد جدو جہد کا دور بھی ختم ہو گیا ، ملک کو سنوارنے کا جذبہ ہی نہ پیدا ہو سکا ۔ ایسے راہنما بھی نہ آ ئے جو قوم کو ایک نئی سمیت دے سکتے ، آ ج ملک جس حال میں ہے اگر اس کی وجوہات کے متعلق لب کشائی کی جائے تو سینکڑ وں کتا بیں لکھی جا سکتی ہیں ۔۔۔۔۔۔! !!
آزادی وطن کے لئے اُن کے گھرانے کے درجنوں افراد نے جام شہادت نوش کیا، وہ آگ اور خون کا دریا عبُور کر کے پاکستان پہنچیں، اُن کے والد محترم سید کاظم علی ماہنامہ کہکشاں دہلی کے بانی و مدیر اور دہلی مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے ، وہ دہلی کی ایک محترم و ہر دلعزیز شخصیت تھے ، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒکے جانثار ، ان کی تحریروں کی کاٹ تلوار جیسی تھی ان کے علمی و ادبی قد کی وجہ سے انھیں دہلی کے اہل علم و اہل قلم میں بڑی پذیرائی حاصل تھی ، ہندو ان کی تحریروں سے خائف بھی تھے اور ان کی مدلل تحریروں سے زچ بھی ہوتے تھے ۔
سید کاظم علی کی خدمات کا اعتراف بانی پاکستان محمد علی جناحؒ اور دوسرے اکابرین نے بھی کیا، اگرچہ ممتاز صحافی میر خلیل الر حمٰن ، عثمان آزاد اور حکیم محمد سعید، سید کاظم علی کے گہرے دوست تھے، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ میر خلیل الر حمٰن ، عثمان آزاد اور حکیم محمد سعید کی سید کاظم علی کے ساتھ دوستی کے ساتھ عقیدت کا رنگ بھی گہرا تھا ۔
بیگم رضیہ سلیم نے پاکستان بنتے بھی دیکھا ، خواب بکھرتے اور دل ٹوٹتے بھی دیکھے ، ان کا شمار اُن چند خواتین میں ہوتا ہے ، جو تحریک پاکستان کی عینی شاہد اور پاکستان بننے کے بعد بہت سے رازوں کی امین ہیں۔ 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد اُن کا دل کچھ اس طرح سے کرچی کرچی ہوا کہ وہ ایک دم سے گو شہ نشین ہو گئیں ، تمام معاملات سے لا تعلق ہو کر ایک عام گھریلوخاتون کی مانند زندگی گزارنے لگیں ، ہمیں علم ہوا کہ گمنامی کی زندگی گزارنے والی یہ خاتون بہت کچھ دل میں سموئے ہوئے ہیں تو ان سے تحریک پاکستان ، تقسیم ہندکے بعد کے واقعات کے حوالے سے ایک خصوصی نِشست کا اہتمام کیا گیا۔
ویسے تو بیگم رضیہ سلیم ایک کم گو خاتون ہیں مگر جب تحریک پاکستان اور حصول مقاصد پاکستان کے حوالے سے گفتگو کی گئی تو جیسے کوئی بند ٹوٹ گیا ہو، تحریک پاکستان کے دوران پیش آئے کچھ قابل ذکر واقعات کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تحریک پاکستان چند قابل ذ کر واقعات کا نام نہیں بلکہ تحریک پاکستان کے حوالے سے تمام مسلمانانِ ہند کا جذبہ ہی قابل ذکر ہے ، پاکِ و ہند کے ہر مسلمان کے جذبے ، جدوجہد اور قربانی کی داستان پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
میں نے نہ صرف پاکستان بنتے دیکھا بلکہ آزادی پاکستان کیلئے جو خلوص اور جدبہ مسلمانوں کے دِلوں میں تھا ، آ ج بھی اس کی تپش اور جذبوں کی آ نچ محسوس ہوتی ہے ، قربانیوں کی وہ داستانیں رقم کی گئیں کہ جن کی مثال تا ریخ میں پہلے موجود تھی نہ ہی کبھی دوبارہ قا ئم ہو گی ، ہمارے اپنے گھرانے کے لاتعداد افراد جن میں بچے بوڑھے جوان اور عورتیں شامل تھیں شہید کر دیئے گئے مگر جن گھرانوں کے افراد شہید ہوئے ان گھرانوں کو عزیزوںسے دائمی جدائی کا قلق نہیں بلکہ اُن کی قربانیوں پر فخر تھا ۔ قومیں اسی طرح آزاد ہوتی ہیں ۔ انہی جذبوں کو لئے ترقی کرتی ہیں مگر راہنما محمد علی جناحؒ اور لیاقت علی خان جسے ہونے چاہئیں ۔
اگر راہنما کی جگہ راہزن لے لیں تو قوم بددل بھی ہو جاتی ہے، جذ بہ قربانی بھی مایوسی اور احساس زِیاں میں بدل جاتا ہے ، اس کے بعد قومیں اس کیفیت سے دو چار ہوتی ہیں کہ جسے آ ج وطنِ عزیز ہے ۔ بانی پاکستان ، بابائے قوم قا ئداعظم محمد علی جناحؒ اس دنیا سے رخصت ہوئے ان کے پاس کوئی جائیداد اور مال و متاع نہ تھا حالانکہ وہ متحدہ ہندوستان کے مہنگے وکیل تھے ، وہ اپنی طے شدہ فیس پوری وصول کرتے تھے ، اگر آج کے قانون کے مطابق وہ اپنی آمدنی اور جائیداد کے '' گوشوارے '' جمع کرواتے تو لوگوں کو علم ہوتا کہ انھوں نے وکالت کے ذریعے کتنا کمایا اور کتنا بچایا ، انھوں نے اپنی کمائی اور زندگی کا ہر لمحہ تحریک پاکستان کے لئے وقف کیا۔
اسی طرح پاکستان کے پہلے وزیراعظم '' قائد مِلت لیاقت علی خان کو جب اکبر نامی بدبخت شخص نے شہید کیا، تو انہوں نے جو شیروانی پہنی ہوئی تھی اس پر تین پیوند لگے ہوئے تھے اور جیب میں چند سکے تھے ، جبکہ آ پ وزیراعظم پاکستان اور ان کی بیوی بیگم رعنا لیاقت علی کسی ملک میں پاکستان کی سفیر تھیں ، جبکہ اُن کے '' ڈکلیئر '' اثاثوں میں کچھ بھی نہ تھا ۔ یہ ہوتی ہے نظریاتی سیاست ، اسی طرح مسلم لیگیوں نے تحریک پاکستان کیلئے اپنا سب کچھ گنوا دیا ، حتیٰ کہ لاکھوں جانوں کی قربانی دی، دریائے ستلج شہیدوں کے خون سے سُرخ ہو گیا۔
آج کل کچھ مفاد پرست ، لالچی اور خود غرض لوگوں کا گروہ مل کر ''سیاسی پارٹی '' بناتا ہے یا پہلے سے قا ئم کسی سیاسی پارٹی پر قابض ہوتا ہے پھر لالچی سرکاری و غیر سرکاری افسران کو ساتھ ملایا جاتا ہے ، ابن الوقت قسم کے جا گیرداروں اور زمینداروں کو مفادات کا لالچ دے کر ساتھ شامل کیا جاتا ہے، قسمت اچھی ہوئی تو اقتدار میں آ گئے وگرنہ '' اسٹرانگ اپوزیشن'' بن گئے ، ملک وقوم کے خون کی آخری بوند تک نچوڑ لیتے ہیں ، اپنے ہی لوگوں سے لوٹا ہوا '' مال غنیمت '' دوسرے ملکوں میں جمع کرواتے اپنی آ خری عمر لندن ، یورپ یا امریکہ میں '' یا د الہی'' میں گزار دیتے ہیں ۔
تحریک پاکستان میں خواتین کے کردار کے حوالے سے بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تحریک پاکستان میں خواتین نے جو قربانیاں دیں ایسی مثال نہیں ملتی، ہمارے خاندان کے تمام مرد وخواتین تحریک پاکستان میں اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ شریک تھے، اس وقت میری عمر تو زیادہ نہیں تھی، میں پھوپھی بیگم خواجہ کی انگلی تھامے سا را دن مسلم لیگی کیمپوں کا دورہ کرتی تھی ، چونکہ میرے والد محترم مسلم لیگ دہلی کے جنرل سیکرٹری تھے ، مسلم لیگ دہلی کا جنرل سیکرٹری ہونا بڑے اعزاز کی بات تھی کہ دہلی کو برصغیر میں اہم مقام حاصل تھا۔
آ ج بھی بھارت کا دارا لخلافہ نیو دہلی ہے '' یوپی '' کے مسلمانوں کو علم تھا کہ '' یوپی'' (اُترپردیش) پاکستان میں شامل نہیں ہوگا مگر تمام مسلمان تحریک پاکستان میں شامل تھے ۔ متعصب ہندو مسلمانوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے تھے مگر مسلمانوں کے جنون وجذبے میں ان دھمکیوں سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا ۔ مسلمان عورتیں تحریک پاکستان کا ہراول دستہ تھیں ، ہم مسلمان بچیاں اور عورتیں دن رات ریلیاں اور جلوس نکالتی تھیں، '' چاہے جائے اپنی جان ، لے کر رہیں گے پاکستان '' کے نعروں سے فضا گرماتی تھیں ، ہندوؤں کو اس بات کا بڑا غصہ تھا ، چنانچہ جب پاکستان آ زاد ہوا تو ہندو سکھ مسلمانو ں پر پل پڑے ، لاکھوں مرد مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا، لاکھوں مسلمانوں عورتوں کو اغواء کر لیا گیا ، لاکھوں مسلمان عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔
مسلمان کی اسقدر تذلیل کی گئی کہ آ ج بھی انسانیت تو کیا حیوانیت بھی کانپ جاتی ہے ۔ سر عام مسلمان عورتوں کی عزتیں لوٹی جاتیں ، بلکہ سینکڑوں مناظر ایسے بھی دیکھنے میں آ تے تھے کہ ہندو سکھ لائنوں میں لگ کر مسلمان عورتوں کی عصمت دری کرتے ، ہزاروں مسلمان عورتوں نے اپنے ہاتھوں اپنے آ پ کو عزت بچانے کیلئے مار دیا ۔ ہزاروں مسلم عورتوں نے کنوؤں میں کود کر جا ن دیدی ، اس کے باوجود ہزاروں عورتوں کو ہندؤوں سکھوں نے اغواء کرکے اپنے گھروں میں قید کر لیا ، ہزاروں مسلم عورتوں کا جبری مذ ہب تبدیل کر دیا گیا اور '' امرت کور' بسنت کور' کامنی کوشل اور بلونت کور'' بننے پر مجبور کر دیا گیا ہے کہ جب ہم ہجرت کرکے پاکستان آ ئے تو ہم کرشن نگر کے ایک گھر میں بھی کچھ عرصہ رہے، سامنے والے گھر میں ایک پندرہ سولہ سال کی لڑکی رہتی تھی ، جس کا ایک ہاتھ ظالموں نے کاٹ دیا تھا ۔
تحریک پاکستان غالباً دنیا کی واحد تحریک ہے ، جس میں لاکھوں عورتوں نے اپنی عصمتوں اور جانوں کی قربانیاں دی ، اُس وقت دِلوں میں ایک ہی جذبہ تھا کہ ہم ایک ایسے وطن کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں کہ جہاں اسلام کا بول بالا ہوگا ، ریاست مدینہ کی طرز کی ایک مکمل اور خالصتاً اسلامی یاست ہو گی ، جہاں انصاف ہوگا ، جہاں غیر اسلا می شعائر نہیں ہوں گے ، جہاں مسلمان اپنے آ پ کو دین کے مکمل سانچے میں ڈھال سکیں گے ، حصول وطن کیلئے مسلمان عورتوں نے بڑ ی قربانیاں دی ہیں ۔
ہجرت کے دوران پیش آنے والے مسائل پر ان کا کہنا تھا کہ جب پاکستان کی آ زادی کا اعلان ہوا تو بھارت میں رہنے والے ہندو اور سکھ مسلمانوں پر پَل پڑے ، ممتاز صحافی میر خلیل الرحمٰن اکثر ہمارے گھر آتے اور والد صاحب کو بتاتے کہ اب یہ جگہ ہمارے لئے تنگ ہو چکی ہے، ہمیں اب پاکستان جانا ہی پڑے گا ، والد صاحب بھی اس بات پر متفق تھے وہ بھی سمجھتے تھے کہ اب دہلی میں رہنا ممکن نہیں ہے ، مگر انھیں یہ بھی خوش گمانی تھی کہ ساری زندگی وضع داری ، مذ ہبی رواداری اور انسانیت کے اُصولوں کے عین مطابق گزاری ہے اس لئے ہندو انھیں تنگ نہیں کریں گے ، مگر ہندؤ اس قدر تعصب رکھنے والی قوم ہے کہ ان کے دل کبھی بھی مسلمانوں کی طرف سے صاف نہیں ہو سکتے ، ویسے بھی '' خیر و شر '' کا ملاپ ہو ہی نہیں سکتا ۔
وہ گھڑی بڑی پُر کیف تھی کہ جب 14 اگست کو رات بارہ بجے براڈ کاسٹر شکیل ہمدانی کی آواز ریڈیو پرگونجی کہ '' یہ ریڈیو پاکستان ہے '' اس آواز نے رگوں میں نئی زندگی دوڑا دی ، مگر ہند کی زمین مسلمانوں کے لئے تنگ ہو چکی تھی ، انہی دنوں میر خلیل الرحمٰن ہمارے گھر آ ئے اور والد صاحب کو بتایا کہ پولیس انھیں گرفتار کرنے کی منصوبہ بندی کر چکی ہے، لہذا اب انھیں ہجرت کر کے پاکستان چلے جانا چاہیے ، پھرحکیم محمد سعید ، عثمان آزاد صاحب نے بھی یہی مشورہ والد بز رگوار کو دیا کہ اب ہند کے بُت کدے کی زمین مسلمانوں کے لئے تنگ ہوگئی ہے۔
والد صاحب کے دوستوں کا یہ مشورہ تھا کہ ہمیں پاکستان کی مضبوطی کیلئے کام کرنا چاہیے، اگر پاکستان مضبوط ہو گا تو بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی تحفظ حاصل ہوگا ، پھر ایک دن دوبارہ میر خلیل الرحمٰن ہمارے گھر تشریف لائے اور انھوں نے بتایا کہ ممتاز جریدوں کے فون کٹ چکے ہیں اب آ پ کے گھر کا محاصرہ ہونے والا ہے، صرف آ دھا گھنٹہ ہے، نکلنے کے لئے ، پولیس آ پ کو گرفتار کر لے گی ، آ پ ٹیکسی میں بیٹھیں اور فوراً کسی کیمپ میں چلے جائیں '' انھوں نے یہ بھی بتایا کہ تھانیدار مسلمان ہے اور آپ سے عقیدت بھی رکھتا ہے اُس نے یہ پیام بھجوایا ہے ۔'' یہ سُن کر والد صاحب نے ہجرت کا فیصلہ کر لیا ، گھر، کہکشاں کا دفتر ، سازوسامان سب کچھ چھوڑ دیا ، کچھ دیر بعد بے سروسامانی کے عالم میں ایک ٹیکسی میں بیٹھے تھے ، تھوڑی دیر بعد ہم ہمایوں کیمپ میں تھے۔
اس کیمپ میں ہم نے بائیس دن گزارے ، یہ دن کس طرح گزرے ، اندازہ لگایا جا سکتا ہے ، ایک بے یقینی کی کیفیت ، زندگی موت کا تصور ، خواہشات دم توڑ چکی تھیں ، کچھ بھی اندازہ نہیں تھا ، کہ اب کیا ہوگا ؟۔ والد صاحب ہماری طرف متوحش نگاہوں سے دیکھتے اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہتے ، ان بائیس دنوں پر محیط زندگی کی بھی پوری ایک جلد لکھی جا سکتی ہے ۔ پھر وہ وقت بھی آ گیا کہ ہم پاکستان روانہ ہونے کیلئے دہلی ریلوے اسٹیشن کی جانب محو ِسفر تھے ۔
ابا جی اور گھر والے ڈبڈ باتی نظروں سے دہلی کی سڑکوں اور عمارات کو دیکھ رہے تھے کہ اب یہ سب کچھ ہمیشہ کے لئے چھوٹ رہا تھا ۔ مگر کسی چیز کو کھونے کا قلق نہ تھا بلکہ خوشی تھی کہ ہمیں آ قائے نامدا ر ﷺ کی سُنت پر عمل کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے ، ہم بھی '' مدینہ'' کی جانب ہجرت کر رہے ہیں جہاں کے مسلمان اتنے مضبوط ہوں گے کہ چودہ سو سال بعد پھر پاکستان سے اسلام غلبہ حاصل کرے گا۔ جب ہم دہلی ریلوے اسٹیشن پہنچے توبے سروسامان افراد کا جم غفیر تھا ، یہ وہ لوگ تھے کہ جو پاکستان کے لئے اپنا سب کچھ گنوا بیٹھے تھے ، مگر کسی کو بھی اس بات کا افسوس نہیں تھا ، ایک ہی جذبہ تھا کہ ہم نے پاکستان پہنچنا ہے ۔ اس ملک کو بہت مضبوط بنانا ہے ۔
پاکستان سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا دور شروع ہو گا ، ہجرت کرنے والے تمام مسلمانوں کی سوچ ، ہر قسم کے تعصبات سے ماورا ء ہو کر ا ُمت محمدؐیہ کی سوچ میں بدل چکی تھی ۔ سب لوگ گروہ بندیوں ، ذات پات اور قبائل سے نکل کر اُ مت بن چکے تھے ، جو ٹرین بھی آ تی لمحوں میں کھچا کھچ بھر جاتی ، لوگ چھتوں پر بھی سوار ہوجاتے ، ہم اگلی ٹرین کا انتظار کر ہی رہے تھے کہ پولیس کا ایک دستہ ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا ، اسٹیشن پر اس قدر رش تھا کہ تِل دھرنے کی جگہ نہ تھی ، پولیس والے ابا جی کو ڈ ھونڈ رہے تھے ، لوگوں سے پوچھ رہے تھے کہ کسی نے سید کاظم علی کو دیکھا ہے ، ایک صاحب نے کہا کہ '' ہاں '' دیکھا ہے ابھی جو ٹرین گئی ہے وہ اس میں سوار تھے۔
پولیس کے جاتے ہی جیسے ہی اگلی نے ٹرین آئی لوگوں نے ہمارے گھرانے کو اس میں سوار کروا دیا ، والد صا حب ایک دفعہ پھر گرفتا ری سے بچ چکے تھے ۔ ٹرین مہاجرین سے بھری ہوئی تھی ، ستمبر کی گرمی اور حبس نے سانس لینا د وبھر کر رکھا تھا۔ کھڑکیاں ، دروازے بند تھے ، دم گھٹ رہا تھا ۔ احساس ہو رہا تھا کہ اگر ہندؤوں اور سِکھوں کے ہاتھوں بچ گئے تو دم گھٹنے سے موت واقع ہو جائے گئی ، ہماری خوش قسمتی تھی کہ قائداعظم کے حکم پر فوجی جوان بھی ٹرین کے ہمراہ تھے اس سے پہلے جو ٹرین بھی پاکستان کی طرف جاتی تھی ، ہندؤ سِکھ بلوائی راستے میں روک کر تما م مہاجرین کو گاجر ، مولی کی طرح کاٹ ڈالتے تھے۔
ہجرت کے بعد ہم کرشن نگر ایک شاہ صاحب کے گھر تھے ،کچھ عرصہ ہمیں میکلوڈ روڈ '' ریجنٹ سنیما '' کے برابر والی گلی میں گھر الاٹ ہوگیا ۔ اُن دنوں مہاجرین کے راشن کارڈ بن رہے تھے ، ہمارا بھی راشن کارڈ بن گیا ، اگرچہ کارڈ پر بھی راشن کے پیسے وصول کئے جاتے تھے مگر اتنے زیادہ نہیں ہوتے تھے ، جو پیسے ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے انھیں حکومت کی طرف سے مفت راشن ملتا تھا ۔ پھر ایک نئی زندگی کی شروعات ہوئی، والد صاحب کو مال روڈ لاہور '' روزنامہ شمشیر ہند '' کا دفتر الاٹ ہو گیا ، اس دفتر سے '' ماہنامہ کہکشاں '' اور '' ہفت روزہ کہکشاں '' کا اجراء ہوگیا ، اب '' کہکشاں '' کا '' فارمیٹ '' بھی تبدیل ہوگیا ، والد صا حب نے قلم کے ذریعے نئے وطن کی تعمیر وترقی کیلئے قوم کی راہنمائی اور تربیت کا فریضہ سنبھال لیا ، اُس زمانے کا ہر شمارہ وطن کی تعمیر وترقی کے لئے مشعل راہ تھا ۔ اُس وقت والد صاحب کو الائمنٹ کے محکمے میں اعزازی مجسٹریٹ بھی تعینات کر دیا گیا۔
انھوں نے مہاجرین کی بحالی کے لئے خصوصی خدمات سرانجام دیں ۔ 1950ء میں میرے والد محترم کو دوسری بار حج کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ، اس سے پہلے وہ 1946ء میں حج کر چکے تھے، دوسرا حج کرنے کے بعد جب وہ وطن واپس پہنچے تو ان کی کایا پلٹ چکی تھی ۔ اس کے بعد انھوں نے '' کہکشاں '' بند کردیا ، رزق حلال کمانے کیلئے کسی ہوٹل میں مینجر کی ملازمت کر لی ، اور اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت اور پرورش شروع کر دی ، میر خلیل الرحمٰن نے خاصا زور لگایا کہ وہ ان کے اخبار کی ادارت سنبھال لیں مگر انھوں نے انکار کر دیا ۔ 1951ء میں وہ شدید بیمار ہوئے ، پھر حکیم محمد سعید کے بصد اصرار پر وہ بغرض علاج کراچی چلے گئے ، جہاں وہ حکیم محمد سعید کے زیر علاج رہے اور آخرکار 9 نومبر 1952 ء میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔
کیا آپ سمجھتی ہیں، قائداعظم ؒ اور لیاقت علی خان کے بعد مخلص قیادت کا فقدان رہا جبکہ بے شمار سیاستدانوں کا تعلق قائداعظم ؒ اور تحریک پاکستان سے جڑا ہوا تھا، کے جواب میں وہ گویا ہوئیں کہ قائداعظم ؒ جیسا بااصول ، زیرک ، صاحب کردار اور صاحب بصیرت لیڈر کوئی اور نہ تھا ، وہ دلیل پر یقین رکھتے تھے ، وہ حصول مقصد اور حصول منزل پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے تھے ۔
ان کی تمام تقاریراور ارشادات پر غور کیا جائے تو واضح ہوگا کہ وہ حصول پاکستان کے ساتھ مسلمانوں کی کردار سازی ، اعلیٰ اقدار اور خصوصی صلاحیتوں پر بھی بہت توجہ دیتے تھے، اگر قدرت انھیںچند سال کی مہلت مزید دیتی تو وہ اس قوم کو ایک بہترین سا نچے میں ڈ ھال دیتے ۔ ان کے ساتھیوں میں وہ بصیرت ، خلوص اور لگن نہ تھی ، یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم ؒ اور لیا قت علی خان کی وفات کے بعد ملک عدم استحکام سے دوچار ہو گیا، گورنر جنرل اس تواتر سے تبدیل ہوئے کہ نہرو کو یہ کہنا پڑا کہ '' اتنی میں دھوتیاں نہیں بدلتا جتنے پاکستان کے گورنر جنرل تبدیل ہوتے ہیں '' ۔
حکومتوں کے اتنی جلدی بدلنے سے استحکام ہی نہیں پیدا ہوا ۔ نوزائیدہ مملکت میں جب ایسے معاملات پیدا ہوتے ہیں تو یقینا اس کے پس منظر میں بہت سی سازشیں چھپی ہوتی ہیں ۔ جن حالات میں پاکستان کوآ زادی مِلی اور بہت سارے علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور وہ پاکستان کا حصہ تھے بھارت کے حوالے کردئیے گئے ، جس کی وجہ سے عسکری اداروں کی اپنی اہمیت بن گئی ، مگر اُس زمانے میں فوج کی ضرورت سے زیادہ طاقت اور اہمیت ملک کے لئے نقصان دہ بھی ثابت ہوئی ، اسی وجہ سے سیاسی ادارے زیادہ مضبوط نہ ہو سکے ۔
تحریک پاکستان کا جذبہ قیام پاکستان کے بعد کیوں قائم نہ رہ سکا کے سوال پر بیگم رضیہ سلیم کا کہنا تھا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے یہ نعرہ تو لگایا گیا '' بن کے رہے گا پاکستان '' مگر پا کستان ن بننے کے بعد یہ نعرہ نہ لگایا گیا '' سنور کے رہے گا پا کستان '' ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان آزاد ہونے کے بعد جدو جہد کا دور بھی ختم ہو گیا ، ملک کو سنوارنے کا جذبہ ہی نہ پیدا ہو سکا ۔ ایسے راہنما بھی نہ آ ئے جو قوم کو ایک نئی سمیت دے سکتے ، آ ج ملک جس حال میں ہے اگر اس کی وجوہات کے متعلق لب کشائی کی جائے تو سینکڑ وں کتا بیں لکھی جا سکتی ہیں ۔۔۔۔۔۔! !!