موبائل فون اور سیاستدانوں میں قدر مشترک
جب ان سیاستدانوں کو ’’ری سیٹ‘‘ کردیا جاتا ہے تو یہ پھر سے زیرو میٹر ہوکر اپنے مالک کو پہلی سی سہولیات پہنچانے لگتے ہیں
''جب موبائل فون آپ کو تنگ کرے یا آپ کی ہدایات کے مطابق نہ چل رہا ہو تو بہتر ہے آپ سے ''ری سیٹ'' کردیں، اس سے وہ ''ڈیفالٹ سیٹنگ'' پر چلا جائے گا اور یوں تمام وائرس یا ایررز اس میں سے نکل جائیں گے۔ یہ اب آپ کو تنگ نہیں کرے گا۔ میں نے اسے فارمیٹ کردیا ہے۔ یہ دیکھیے، انگلی اس کی ٹچ اسکرین پر اچھی طرح گھما پھرا کر چیک کرلیجئے۔ اب نہ تو یہ ہینگ ہورہا ہے اور نہ ہی ریں ریں کررہا ہے۔''
یہ کہہ کر دکاندار نے میرے موبائل فون کے ساتھ ایک بل بھی سامنے شیشے کے کاؤنٹر پر رکھ دیا جو بہرحال زیادہ تو تھا لیکن بیش قیمت موبائل فون کے سامنے اہمیت نہ رکھتا تھا۔
اس سارے عمل سے گزرنے کے بعد نجانے کیوں مجھے موبائل فون اور ہمارے سیاستدانوں میں بہت سی قدریں مشترک دکھائی دینے لگیں۔
جیسے یہ بھی اسی کی ملکیت ہوتے ہیں جس کے ہاتھ میں ہوں اور اسی کی خواہش پر کال ملاتے اور پھر منقطع کرتے ہیں۔ مالک جتنا بیلنس اس میں ڈلواتا ہے اور جب تک ڈلواتا رہتا ہے یہ اس کی خدمت سر انجام دیتے ہیں۔ یہ جہاں گڑبڑ کرنے لگیں، پہلے تو مالک اپنی سی کوشش سے اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر جب بات نہیں بنتی تو پھر اسے موبائل ورکشاپ لے جاتا ہے، جہاں آخرکار اسے ''فارمیٹ'' کردیا جاتا ہے اور یہ پھر سے زیرو میٹر ہوکر اپنے مالک کو پہلی سی سہولیات برق رفتاری سے پہنچانے لگتا ہے۔
اس کی بہت سی مثالیں ماضی میں بھی ملتی رہی ہیں اور حال میں بھی ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہی دکھائی دیتا ہے۔
اگر عہد حاضر کی بات کی جائے تو خوش قسمتی سے بیشتر سیاست دان اور ورکشاپ مالکان نہ صرف سلامت بلکہ آہنی ہاتھوں میں محفوظ بھی ہیں، اس لیے ان کا ذکر کرنے کا مطلب خود کو کنٹرول + آلٹ + ڈیلیٹ کرنے کے مترادف ہوگا۔ اب پھر کیا کیا جائے؟ ہو تو سب کچھ ایسا ہی رہا ہے، جیسے بات چینی (چین والا چینی سمجھا جائے) سے شروع ہوتی ہے اور بے چینی کی طرف سے ہوتی ہوئی ''ہارڈ ری سیٹ'' پر جاکر ختم ہوتی ہے۔
ہمارے سیاسی نظام میں سیل فون سسٹم سیٹنگ کی طرح یہ آپشن کب شامل ہوا اور کیونکر شامل ہوا اور اب تک اس کا استعمال کیوں جاری و ساری ہے؟ یہ نقطہ اہمیت کا حامل ہے کہ کہیں اس کی مرکزی وجہ سیاسی بساط پر ہر سیاستدان کی دوسرے سیاستدان سے محاذ آرائی کی سیاست تو نہیں؟ کیونکہ سیل فون بھی اسی صورت میں کارآمد ہے جب تک اس کی بیٹری میں چارج بھی ہے اور یہ اپنے نیٹ ورک سے جڑا بھی ہوا ہے۔
یہی بات ہمارے ان نام نہاد سیاستدانوں کو سمجھنا ہوگی کہ وہ کسی نظریاتی سیاست کی بدولت ان ایوانوں میں دندناتے نہیں پھر رہے بلکہ ان کا ایک مقصد خدمات و سہولیات مہیا کرنا ہے۔ بھلے زمانہ جدید میں ایسے سیل فون مارکیٹ میں کھلے عام دستیاب ہیں جن میں بیک وقت دو سم کارڈز استعمال ہوتے ہیں۔ مگر کال تو ایک وقت میں ایک ہی آئے گی یا جائے گی۔ اگر بیک وقت دونوں سم کارڈز پر کال آنے جانے لگے گی تو موبائل فون ہینگ ہوجائے گا اور نیتجہ پھر بقول عامر ندیم کے ''نہ سیاں کے رہے نہ میاں کے رہے''۔
جو اہم مقام موبائل فون سروسز میں سیل فون ٹاور کو حاصل ہے وہ اعلیٰ مقام ہماری سیاست میں کرپشن اور مہنگائی کو حاصل ہے۔ ان کا خاتمہ تو ملکی مفاد کےلیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس بات کی ہمیں سمجھ جانے کیوں نہیں آتی جبکہ ہر حاکم وقت اچھی طرح جانتا ہے کہ کرپشن کو اس ملک میں موبائل ٹاور کی سی حیثیت حاصل ہے۔ ٹاور ہی گرا دیا تو پھر یہ مختلف اقسام کے کیا مہنگے اور کیا سستے سیل فون دو ٹکے کے بھی نہیں رہیں گے۔ یہ بڑے بڑے ڈسپلے سینٹر جہاں تیز روشنیوں میں خوبصورت ماڈلز کے پوسٹرز لوگوں کو اپنی جانب کھینچتے دکھائی دیتے ہیں، ہر ٹی وی چینل پر ان کے اشتہارات کی بھرمار اور پھر حکومت کو کچھ نہ کچھ تو ٹیکس کی صورت میں حصہ ملتا ہی ہوگا، یہ سب تو ملیامیٹ ہوجائے گا۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ ان ڈسپلے سینٹرز یا برانڈڈ اسٹورز کے پچھواڑے میں جو موبائل ورکشاپس تربیت یافتہ کاریگروں سے بھری پڑی ہیں ان کا کیا ہوگا؟ چولہے ٹھنڈے کرنا اور بیروزگاری کو بڑھانا تو ہماری جمہوری روایات کے عین خلاف ہے۔
میرا خیال ہے آپ کو بھی اب موبائل فون اور سیاستدانوں میں مماثلت دکھائی دے رہی ہوگی۔ اب بندہ اور کتنا کھل کر سمجھائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ کہہ کر دکاندار نے میرے موبائل فون کے ساتھ ایک بل بھی سامنے شیشے کے کاؤنٹر پر رکھ دیا جو بہرحال زیادہ تو تھا لیکن بیش قیمت موبائل فون کے سامنے اہمیت نہ رکھتا تھا۔
اس سارے عمل سے گزرنے کے بعد نجانے کیوں مجھے موبائل فون اور ہمارے سیاستدانوں میں بہت سی قدریں مشترک دکھائی دینے لگیں۔
جیسے یہ بھی اسی کی ملکیت ہوتے ہیں جس کے ہاتھ میں ہوں اور اسی کی خواہش پر کال ملاتے اور پھر منقطع کرتے ہیں۔ مالک جتنا بیلنس اس میں ڈلواتا ہے اور جب تک ڈلواتا رہتا ہے یہ اس کی خدمت سر انجام دیتے ہیں۔ یہ جہاں گڑبڑ کرنے لگیں، پہلے تو مالک اپنی سی کوشش سے اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر جب بات نہیں بنتی تو پھر اسے موبائل ورکشاپ لے جاتا ہے، جہاں آخرکار اسے ''فارمیٹ'' کردیا جاتا ہے اور یہ پھر سے زیرو میٹر ہوکر اپنے مالک کو پہلی سی سہولیات برق رفتاری سے پہنچانے لگتا ہے۔
اس کی بہت سی مثالیں ماضی میں بھی ملتی رہی ہیں اور حال میں بھی ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہی دکھائی دیتا ہے۔
اگر عہد حاضر کی بات کی جائے تو خوش قسمتی سے بیشتر سیاست دان اور ورکشاپ مالکان نہ صرف سلامت بلکہ آہنی ہاتھوں میں محفوظ بھی ہیں، اس لیے ان کا ذکر کرنے کا مطلب خود کو کنٹرول + آلٹ + ڈیلیٹ کرنے کے مترادف ہوگا۔ اب پھر کیا کیا جائے؟ ہو تو سب کچھ ایسا ہی رہا ہے، جیسے بات چینی (چین والا چینی سمجھا جائے) سے شروع ہوتی ہے اور بے چینی کی طرف سے ہوتی ہوئی ''ہارڈ ری سیٹ'' پر جاکر ختم ہوتی ہے۔
ہمارے سیاسی نظام میں سیل فون سسٹم سیٹنگ کی طرح یہ آپشن کب شامل ہوا اور کیونکر شامل ہوا اور اب تک اس کا استعمال کیوں جاری و ساری ہے؟ یہ نقطہ اہمیت کا حامل ہے کہ کہیں اس کی مرکزی وجہ سیاسی بساط پر ہر سیاستدان کی دوسرے سیاستدان سے محاذ آرائی کی سیاست تو نہیں؟ کیونکہ سیل فون بھی اسی صورت میں کارآمد ہے جب تک اس کی بیٹری میں چارج بھی ہے اور یہ اپنے نیٹ ورک سے جڑا بھی ہوا ہے۔
یہی بات ہمارے ان نام نہاد سیاستدانوں کو سمجھنا ہوگی کہ وہ کسی نظریاتی سیاست کی بدولت ان ایوانوں میں دندناتے نہیں پھر رہے بلکہ ان کا ایک مقصد خدمات و سہولیات مہیا کرنا ہے۔ بھلے زمانہ جدید میں ایسے سیل فون مارکیٹ میں کھلے عام دستیاب ہیں جن میں بیک وقت دو سم کارڈز استعمال ہوتے ہیں۔ مگر کال تو ایک وقت میں ایک ہی آئے گی یا جائے گی۔ اگر بیک وقت دونوں سم کارڈز پر کال آنے جانے لگے گی تو موبائل فون ہینگ ہوجائے گا اور نیتجہ پھر بقول عامر ندیم کے ''نہ سیاں کے رہے نہ میاں کے رہے''۔
جو اہم مقام موبائل فون سروسز میں سیل فون ٹاور کو حاصل ہے وہ اعلیٰ مقام ہماری سیاست میں کرپشن اور مہنگائی کو حاصل ہے۔ ان کا خاتمہ تو ملکی مفاد کےلیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس بات کی ہمیں سمجھ جانے کیوں نہیں آتی جبکہ ہر حاکم وقت اچھی طرح جانتا ہے کہ کرپشن کو اس ملک میں موبائل ٹاور کی سی حیثیت حاصل ہے۔ ٹاور ہی گرا دیا تو پھر یہ مختلف اقسام کے کیا مہنگے اور کیا سستے سیل فون دو ٹکے کے بھی نہیں رہیں گے۔ یہ بڑے بڑے ڈسپلے سینٹر جہاں تیز روشنیوں میں خوبصورت ماڈلز کے پوسٹرز لوگوں کو اپنی جانب کھینچتے دکھائی دیتے ہیں، ہر ٹی وی چینل پر ان کے اشتہارات کی بھرمار اور پھر حکومت کو کچھ نہ کچھ تو ٹیکس کی صورت میں حصہ ملتا ہی ہوگا، یہ سب تو ملیامیٹ ہوجائے گا۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ ان ڈسپلے سینٹرز یا برانڈڈ اسٹورز کے پچھواڑے میں جو موبائل ورکشاپس تربیت یافتہ کاریگروں سے بھری پڑی ہیں ان کا کیا ہوگا؟ چولہے ٹھنڈے کرنا اور بیروزگاری کو بڑھانا تو ہماری جمہوری روایات کے عین خلاف ہے۔
میرا خیال ہے آپ کو بھی اب موبائل فون اور سیاستدانوں میں مماثلت دکھائی دے رہی ہوگی۔ اب بندہ اور کتنا کھل کر سمجھائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔