ناقدوں کے ناقد
وارث علوی کے بارے میں یہ خیال لگ بھگ مستحکم ہو چکا ہے کہ بات کرتے ہوئے وہ حملہ آور ہو جاتے ہیں۔
سات سال ہوتے ہیں، رات گئے منشایاد کا فون آتاہے، چھوٹتے ہی پوچھتے ہیں: ''آپ ای میل کا جواب کیوں نہیں دیتے؟'' حملہ اتنا اچانک تھاکہ میں ایک لمحے کو بھونچکا رہ گیا، سوچا کیا لیکن سمجھ میں نہ آیا تو الٹا سوال کر دیا : '' کون سی میل کا جواب منشا صاحب؟'' ''میں ساجد رشید کی میل کا ذکر کر رہا ہوں، ساجد نے ایک میل تین بار بھیجی آپ کو۔''
میرا میل اکاؤنٹ میرے سامنے کھلا پڑا تھا اور وہاں ساجدرشید (افسانہ نگار :مدیر'' نیا ورق'') کی کوئی میل نہیں تھی جس پر منشایاد نے ساجدرشید کی میل مجھے فارورڈ کر دی۔ اس میں میرے حوالے سے شکایت تھی اوراس کے ساتھ وہ ٹیکسٹ بھی لف تھا جو مجھے ساجد رشید بھیجنا چاہتے تھے۔ میری سرزنش کے دورانیے میں منشایاد نے مجھے مبارک دی تھی کہ میرے افسانے نے وارث علوی جیسے ''ٹیڑھے نقاد'' سے تحسین پائی تھی۔ واضح رہے کہ ''ٹیڑھا'' منشایاد نے کہا تھا۔ ساجد رشید نے لکھا تھا: ''وارث علوی نے تمہارے افسانے ''مرگ زار'' کو پڑھ کر اس کی تیکنیک کو بہت سراہا ہے اور خوش ہو کر کہا ہے کہ افسانہ تو پاکستان میں لکھا جا رہا ہے۔'' میں نے فوراً ساجد رشید کو معذرت کا فون کیا، شاید میں سارا قصہ ان کی زبانی سننا چاہتا تھا، پھر اگلے روز میں نے وارث علوی کو فون کیا، یہ پہلا موقع تھا کہ میں ان سے بات کر رہا تھا اور پھر گاہے گاہے ان سے باتیں ہوتی رہیں۔
ساجد رشید کے اچانک مرنے کی خبر آئی تھی تو منشایاد نے مجھے فون کرکے بلایا تھا اور ہم دیر تک ساجد کو یاد کرتے رہے تھے، پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ منشایاد بھی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ جی یہ سانحہ بھی اچانک ہوا تھا۔ ایسے میں ایکاایکی یاد آگئے، میں نے وارث علوی کو فون کیا، اُن تک منشایاد کی وفات کی خبر پہلے سے پہنچ چکی تھی، دیر تک منشایاد کی باتیں کرتے رہے۔ کچھ عرصہ پہلے دونوںکوعالمی فروغِ ادب ایوارڈ دیا گیا تھا اور اس سلسلے کی تقریب میں دونوںدوحہ میں ملے تھے۔ وارث علوی نے اس ملاقات کو بہ طور خاص یاد کیا اور کہا کہ اگر صحت نے اجازت دی تو وہ منشایاد پر کتاب لکھنا چاہیں گے۔ افسوس۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
وارث علوی کی تنقید کی جانب میری توجہ ان رابطوں سے بہت پہلے کی ہے۔ اوّل اوّل میں نے شمس الرحمٰن فاروقی کی کتاب '' افسانے کی حمایت میں '' پڑھی تو دیکھنا چاہتا تھا کہ اس کا ردعمل کیا رہا سو وارث علوی کی '' فکشن کی تنقید کا المیہ'' پڑھی اور پھر ''حالی مقدمہ اور ہم'' ، ''تیسرے درجے کا مسافر'' ، ''خندہ ہائے بے جا'' ، ''کچھ بچا لایا ہوں'' ، ''جدید افسانہ اور اس کے مسائل'' اور منٹو اور بیدی پر کتابیں۔ وارث علوی کو سمجھنے کے لیے پہلے ان کا تنقید کے حوالے سے نقطۂ نظر بھی جان لیجے! فرماتے ہیں : ''تنقید رابطہ ہے قاری اور قاری کے درمیان۔ اپنی آخری شکل میں تنقید گفتگو ہے اہل علم کی اہل علم سے، اہل دل کی اہل دل سے۔ خوش طبعی ہے یاروں کے بیچ۔ بے تکلفی ہے احباب کے درمیان۔ بحث و تکرار ہے ہم مشربوں سے۔ چھینا جھپٹی ہے مخالفوں سے۔ پھکڑ اور ٹھٹھول ہے حریفوں سے۔''
مجھے یاد آتا ہے جب میرے اور محمد عمر میمن کے درمیان ماریو برگس یوسا کے حوالے سے مکالمہ چل رہا تھا تو میمن صاحب نے لکھا تھا: ''ہمارے یہاں فکشن پراس طرح بہت کم لکھا گیا ہے۔ اچانک وارث علوی کا خیال آتا ہے جو میرے دوست ہیں اور مجھے ان کی ذہانت پر پورا اعتماد ہے۔ مشکل یہ ہے کہ جب وہ تنقید کرتے ہیں تو گو وہ کافی غلبہ آور لگتی ہے لیکن بعد میں پتا چلتا ہے کہ یہ ساری باتیں کسی کلیے کی پابند نہیں کہ ان سے چند قابل عمل اصول وضع نہیں کیے جاسکتے۔''
اس باب میں محمد عمر میمن کو فاروقی صاحب کا منطقی طریقہ پسند تھا۔ وارث علوی کے بارے میں یہ خیال لگ بھگ مستحکم ہو چکا ہے کہ بات کرتے ہوئے وہ حملہ آور ہو جاتے ہیں؛ سنجیدگی اور دھیمے پن سے بات آگے نہیں بڑھاتے۔ میں، میمن صاحب اور اس عمومی خیال کو درست نہیں سمجھتا لہٰذا جواب میں لکھا : ''پیارے! جب یہ ہی منظقی شمس الرحمٰن فاروقی 'افسانے کی حمایت میں' میں منطقی وتیرے کو ایک طرف دھر کر شاعری کے مقابلے میں فکشن کو نیچادکھانے کے لیے زور قلم کا سہارا لے رہے ہوتے ہیں یا پھر غلبہ آور تنقید والے وارث علوی منٹو کے افسانوں کاتجزیہ کرتے ہوئے منظقی ہوجاتے ہیں تو کیا تب بھی آپ کا فیصلہ یہ ہی رہتا ہے؟'' حقیقت یہ ہے کہ ہر حال میں منطقی رہنا ادب کے باب میں کوئی بہت بڑی خوبی نہیں بنتی، بسا اوقات تہذیبی تناظر منطق کو مات دے جایاکرتا ہے۔ اب جب کہ وارث علوی کی تنقید کے طریقۂ کار کی وضاحت ہو چکی، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ذکر ''فکشن کی تنقید کا المیہ'' کا ہو جائے۔ وارث علوی نے ''افسانے کی حمایت میں'' میں لگ بھگ اتنی ہی شدت سے شمس الرحمٰن فاروقی کی تنقید پر سوالات قائم کیے ہیں جتنی شدت سے فاروقی صاحب نے افسانے کی صنف کے حوالے سے منفی سوالات اُٹھائے تھے۔ جب فاروقی صاحب نے افسانے کوشاعری کے مقابل رکھ کر اس کا موازنہ کیا اور اس باب میں درجات قائم کیے تو وارث علوی نے اسے ''ناقدانہ خون خرابا'' سے تعبیر کیا۔ ایک ایسا خون خرابا جس میں افسانہ تو اپنے حقوق، ناقد سے مانگتا پھرتاہے، محض اپنے حقوق نہیں، اپنی شناخت بھی اور اس پر فاروقی جیسا نقاد بلاسبب بھڑک اٹھتا ہے۔ اس طیش میں ناقد صاحب انیس کو شیکسپیئر اور پریم چندکوگورکی اورسوگندھی کو ایناکارے نینا اورسلطانہ کو مادام بواری ثابت کرتے پھرتے ہیں۔ کوئی بھی نہیں ہے جو اس ناقد سے باز پرس کرے ۔ اگر کوئی بات کرنا چاہتا ہے تو ناقد کسی جاگیردار کی طرح آگ بگولہ ہوجاتا ہے۔
تو یوں ہے کہ وارث علوی نے نہ صرف اس ناقدانہ طرز عمل پر گرفت کی، اسے صاف لفظوں میں بے معنی اورمضحکہ خیز بھی قرار دے دیا اور یہاں تک کہ گزرے : ''فکشن ان کے بس کا روگ نہیں۔ دراصل فکشن میںوہ ڈوبے نظر آتے ہی نہیں توتیریں گے کیا؟ ڈوبے اوروہ بھی افسانے کے چلو بھرپانی میں''۔
وارث علوی نے ''فکشن کی تنقید کا المیہ '' میں خوب خوب چوٹیں لگائیں اور بہ قول محمد عمر میمن اپنی''غلبہ آور زبان'' میں بڑھ بڑھ کر حملے کیے ہیں، یہاں تک کہ دیا کہ فاروقی صاحب کے پاس تو بیدی، منٹو، عصمت، قرٖٖٖٖأۃ العین حیدر، غلام عباس اور انتظار حسین پرلکھنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔ خیر فاروقی صاحب نے وارث علوی کی اس چوٹ کے جواب میں منٹو صاحب پرحال ہی میں ایک کتاب لکھ دی ہے۔ وارث علوی کی چوٹ اور فاروقی صاحب کی کتاب کا ایک ساتھ ذکریوں آیا ہے کہ فاروقی صاحب اس تازہ کتاب میں بھی وارث علوی کو نہیں بھولے۔ خیر یہاں وارث علوی کی تحریر ''فکشن کی تنقید کا المیہ '' سے ایک دل چسپ ٹکڑا مقتبس کرنا چاہتا ہوں :
''ترقی پسند تنقید کاکوا اسی افسانہ پر منڈلاتا ہے جس میں سماج کی بھینس ڈکراتی ہے اورجدید تنقید کا گدھ اسی افسانہ پر لپکتا ہے جس میں افسانہ نگار اسطور کی گائے کے تھنوں سے منہ بھڑائے ہوئے ہے۔ ہمارے نقادوں نے ہمارے افسانہ نگاروں کے ساتھ کیا سلوک کیا وہ تو ہماری ادبی تاریخ کا ایک تاریک باب ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ دوسروں کے تفاعل کی تلافی فاروقی کی نظرعنایت نے اس طرح کی کہ افسانہ کو تھرڈ کلاس صنف سخن اورافسانہ نگاروں کو گھٹیا ادیب بناکر رکھ دیا ''۔
وارث علوی نے اسے بھی نادرست کہا کہ ترقی پسندوں نے افسانے کو اپنے مقاصد کے لیے فروغ دیا اور یہ کہ افسانہ پروپیگنڈے کے لیے موزوں ترین صنف تھا۔ ان کے مطابق یہ شاعری ہی ہے جس سے آج تک دنیا بھرمیں ہرنوع کاکام لیا گیاہے حتیٰ کہ طب اورکھیتی باڑی کی کتابیں بھی اس میں لکھی گئیں ۔۔۔۔۔۔۔ پہلے شاعری اور بعد میں نثر پروپیگنڈے میں استعمال ہوئی ۔۔۔۔۔ اور یہ بھی کہ شاعری میں پروپیگنڈے کے لیے تک بندی سے بھی کام چلا یا جاسکتا ہے جب کہ افسانے میں کہانی، پلاٹ اورکردار کو نہ نبھایا جائے اور افسانہ نگار اس میں ناکام ہو تو افسانہ ٹھپ ہوجاتاہے۔
خیر! اس کا اعتراف بھی کیا جانا چاہیے کہ شمس الرحمٰن فاروقی کی '' افسانے کی حمایت میں''، جس کی لگ بھگ سطر سطر اور نقطہ نقطہ وارث علوی نے رد کر دیا تھا اور '' وارث علوی کی ''فکشن کی تنقید کا المیہ'' جو محمد عمر میمن کی زبان میں ''غلبہ آور'' نثر کا نمونہ اور بہ قول فضیل جعفری ''مناظراتی'' ہو گئی تھی، دونوں کتابیں، فکشن کے مسائل کو سمجھنے میں بہت مددگار ہو جاتی ہیں۔ مثلاً دیکھیے وارث علوی اسی مناظرانہ کتاب میں نشان زد کر رہے ہیں کہ :
۱۔ ''کسی بھی فن کے میڈیم، طریقِ کار اورتکنیک کی حدود کو اس فن کے معائب بتانا حددرجہ غیر تنقیدی اورغیر عقلی رویہ ہے۔ دیکھا یہ جاتاہے کہ ہر فن اورہر صنف سخن اپنی حدود میں رہ کر کون سی تخلیق، معجزے دکھاتی ہے۔ افسانہ بیانیہ کا غلام سہی لیکن اس غلامی میں رہ کر اس نے کیسی بادشاہی کی ہے''۔
۲۔ '' زبان کاتناؤ اورزبان کا اجمال موضوع اورمواد سے الگ کوئی چیز نہیں اور مواد کو افسانے میں ڈھالنے کا ذریعہ تکنیک ہے۔ چونکہ ناول اورافسانے کا مواد زندگی کی مانند پھیلاہوتا ہے اسی لیے بیانیہ بھی تکنیک کی مناسبت سے پھیلتا اورسمٹتا ہے۔''
۳۔ ''ناول میںلفاظی بالکل نہیں چل پاتی۔ لفاظ ناول پیدا ہوتے ہی دَم توڑدیتا ہے، جبکہ شاعری میں لفاظی چلتی رہتی ہے۔ ناول زبان کا اسراف نہیں کرتا۔ محض قدرت زبان کی بنا پر کوئی ناول نگار ادب میں نہیں چلتا۔ جن کے پاس افسانوی تخیل نہیں ہوتا اور محض قدرت زبان ہوتی ہے، وہ افسانے اورناول نہیں لکھتے بلکہ انشائیے، سفرنامے، یاداشتیں، آپ بیتی، ڈائری یاخطیبانہ مضامین لکھتے ہیں۔ اس لیے میں ناول یا افسانے کو شاعری سے کم تر نہیں سمجھتا''۔
۴۔ ''نئے افسانہ نگاروں کی پیٹھ ٹھونکنے کی بجائے انہیں ڈانٹ پلانی چاہیے کہ تم جس چیز کے خلاف انحراف کر رہے ہو وہ تو خود حقیقت پسند افسانے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ فاروقی ایساکرتے تو پھر انہیں سینہ کوٹنے کی ضرورت نہ رہتی کہ نئے افسانہ نگاروں نے اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش نہیں کی جو تجسس کی عدم موجودگی سے پیدا ہوا۔ اب سینہ کوبی سے کچھ فائدہ نہیں، کیوں کہ جو خلا پیدا ہوا ہے وہ تجسس کی عدم موجودگی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس انسانی مواد کے فقدان کی وجہ سے ہے جس میں ایک ذہین قاری کو تھوڑی بہت بھی دل چسپی ہوسکتی ہے''۔
۵۔ ''جدید افسانہ انحراف تھا پریم چند اورمنٹو کے دور کے افسانے سے۔ لہٰذا فاروقی کو اس دور کے افسانے سے بے اطمینانی تو دکھانی ہی ہے اور وہ اطمینان سے بے اطمینانی دکھاتے ہیں اورتنقید کی لٹیا بھی بڑے اطمینان سے ڈوبتی ہے۔ نئے افسانے سے بھی وہ مطمئن نہیں اور سمجھ میں نہیں آتاکہ اُسے دل چسپ بنانے کے لیے کیاپیش کریں۔ افسانوی لوازمات مثلاً واقعہ،کہانی، کردار کے نام لینا نہیں چاہتے کہ نیت تجریدی امام کے پیچھے باندھی ہے''۔
۶۔ ''افسانہ کی صفتِ ذاتی افسانویت ہے، شعریت نہیں البتہ شعریت من جملہ دوسری صفات کے افسانہ کی صفتِ اضافی ہو سکتی ہے۔ ہماری تنقید نے شاعری کی کیسی ہوا باندھی کہ پورا جدید افسانہ شاعری بننے پر کمربستہ ہوگیا اور شاعرانہ اسلوب کے چاؤ میں اسالیب کے ان تمام ذخائر سے خود کو محروم کرلیا جنہیں نثری فکشن نے پروان چڑھایاتھا''۔
اپنے نظری مضامین میں وہ لگ بھگ ہر مضمون میں اس نقطے سے جڑے نظر آتے ہیں کہ ادب ہرحال میں مرکز میں رہنا چاہیے۔ انہوں نے ترقی پسندوں اور جدیدیوں کو وہاں وہاں رد کیا ہے جہاں جہاں تخلیقی عمل پر مواد اور موضوع حاوی ہوتا رہا ہے۔ ان کی نظر میں تخلیقی عمل اپنی آخری شکل میں لفظ کی تلاش ہے اور یہ کہ لفظ کی نزاکت، لطافت، جلال، جمال کا احساس فن پارے میں استعمال کے بعد ہی ہوتا ہے۔ لفظ رنگ نہیں ہوتے مگر لکھنے والا اس سے تصویر بنا سکتا ہے، یہ سنگ نہیں مگر اس سے مجسمہ تراشا جا سکتا ہے تاہم یہ بھی وارث علوی کا کہنا ہے کہ لفظ کا یہ جادوئی استعمال ادب کے آدرشی تصور والے آدمی سے ممکن نہیں ہے کہ فن کار آدمی کو محض کھال میں نہیں دیکھتا بلکہ اس کے سماجی اور سیاسی رشتوں کے پس منظر میں دیکھتا ہے لیکن دیکھتا ہے وہ آدمی ہی کو، اس آدمی کو جو ایک فرد ہے؛ اس خیالی پرچھائیں کو نہیں، جو کسی سیاسی، مذہبی یا فلسفیانہ آدرش کی تخلیق ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ادب، آدمی جو کچھ ہے وہ تو بیان کر سکتا ہے، آدمی کو کیا ہونا چاہیے وہ بیان کرنے سے قاصر ہے۔ وارث علوی کے مطابق ادب ایک شخصی تجربہ اور ایک انفرادی عمل ہے۔ ادب محض skill نہیں جسے سیکھا جا سکے بلکہ یہ تو منفرد شخصیات کی تخیلی معجز نمائیوں کا نتیجہ ہوتا ہے ادب کاآہنگ اور اس کی تکمیلی صورت بعض اوقات متضاد اور متناقض عناصر کی موجودگی کے باوجود چند ایسی اقدار کے کیمیائی عمل سے پیدا ہوتا ہے جنہیں ہم حسن و مسرت کی جمالیاتی قدریں کہتے ہیں ۔
تو یوں ہے کہ یہ تنقید بالکل ایک الگ لحن بناتی ہے، ایسا تنقیدی لحن جس کا تصور وارث علوی کی اپنی ذات سے جڑے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یا دآتا ہے کہ وارث علوی نے ''حالی، مقدمہ اور ہم'' کے آغاز میں کہا تھا کہ ''مقدمہ شعر و شاعری'' پڑھنے سے پیش تر بہتر ہو گا کہ حالی کی وہ تصویر ذہن میں حاضر رکھی جائے جو وحید قریشی والے ایڈیشن میں شامل تھی۔ اس میں وارث علوی کو حالی ایسے لگے تھے جیسے ایک نفیس، مہذب اور شائستہ شخص نے کسی اہتمام کے بغیر تصویر بنوالی تھی۔ ایسے آدمی کی تصویر جس میں نہ خود نمائی تھی، نہ نمائشی خود آگاہی، نہ بناوٹ ، نہ پوز اور تصویر ایسی بنی تھی کہ وہ حالی کی فطرت ثانیہ ہوجانے والی شائستگی کا مظہر ہو گئی۔ اسی تصویرسے جوڑ کر وارث نے حالی کے مقدمہ کو دیکھا تھا۔ اب میرا جی کرتا ہے کہ کہ دوں، وارث علوی کی تنقید کو بھی اس کی تصویر سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا تاہم یوں ہے کہ یہ تصویر کسی کیمرے نے نہیں بنائی خود اپنی فطرت کے عین مطابق وارث علوی کی تحریروں سے بن گئی ہے۔
یوں تو ایک تصویر اور بھی ہے جس میں وارث ٹیلی فون کے اس طرف سے رنگ بھرتا ہے۔ ایک عام آدمی جو اپنی ستائش سن کر کہ سکتا ہے کہ مجھے تو محلے کے لوگ بھی نہیں پہچانتے۔ یہ محض اوپر سے اوڑھی ہوئی انکساری نہیں ہے، ایسے جملے ان کی زبان سے یوں ہی ادا ہوتے رہتے ہیں اور یہ ان کے اپنے مزاج کے عین مطابق ہیں۔ وارث علوی کا کہنا ہے کہ نہ جانے لوگ انہیں کیوں خود پسند سمجھتے ہیں حال آںکہ وہ سول لائینز کی کسی کوٹھی میں نہیں رہتے، مسلمانوں کے ایک غریب محلے میں رہتے ہیں۔ وہ روزانہ گندی گلیوں پر فراغت پاتے بچوں کی قطار کو پھلانگتے لائبریری تک پہنچتے تو کتاب پڑھنے کا لطف اور بڑھ جاتا۔ وارث علوی کا کہنا ہے کہ یہ ہی گندگی اور حسن ان کی زندگی کا حصہ ہو گیا ہے۔ میں نے وارث علوی کی آواز میں زندگی کے اس چلن کی تصویر دیکھی مگر جس تصویر سے وارث علوی اور اس کی تنقید کو بہتر طور پر دیکھا جا سکتا ہے وہ اس کی تحریروں سے بنتی ہے۔
جی! وہی تحریریں جن میں کہیں وہ تنقید نگاروں کی زد پر ہیں اور کہیں تخلیق کاروں کے فن کا تجزیہ ہوتا ہے۔ منٹو اور بیدی کے فن پر جس پائے کی کتابیں وارث علوی نے لکھیں، کون ہے جو اس کا معترف نہیں۔ ان کتابوں میں غلبہ آور نثر کہیں پیچھے رہ جاتی ہے اور تجزیہ اور تعبیر کی ایک دل نشیںصورت ہنر سامنے آتی ہے۔ اسی طرح اقبال، جوش، فراق، مجاز،ن م راشد، فیض احمد فیض، سردار جعفری، ساحر، اخترالایمان، کرشن چندر، غلام عباس وغیرہ کی تخلیقات پر وہ جس اعلٰی عملی تنقیدی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔ شمس الرحمٰن فاروقی ہوں یا ان سے پہلے حسن عسکری اور ادھر ہمارے وزیر آغا، وہ سب سے مکالمہ کرتے اور سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں۔
میرا میل اکاؤنٹ میرے سامنے کھلا پڑا تھا اور وہاں ساجدرشید (افسانہ نگار :مدیر'' نیا ورق'') کی کوئی میل نہیں تھی جس پر منشایاد نے ساجدرشید کی میل مجھے فارورڈ کر دی۔ اس میں میرے حوالے سے شکایت تھی اوراس کے ساتھ وہ ٹیکسٹ بھی لف تھا جو مجھے ساجد رشید بھیجنا چاہتے تھے۔ میری سرزنش کے دورانیے میں منشایاد نے مجھے مبارک دی تھی کہ میرے افسانے نے وارث علوی جیسے ''ٹیڑھے نقاد'' سے تحسین پائی تھی۔ واضح رہے کہ ''ٹیڑھا'' منشایاد نے کہا تھا۔ ساجد رشید نے لکھا تھا: ''وارث علوی نے تمہارے افسانے ''مرگ زار'' کو پڑھ کر اس کی تیکنیک کو بہت سراہا ہے اور خوش ہو کر کہا ہے کہ افسانہ تو پاکستان میں لکھا جا رہا ہے۔'' میں نے فوراً ساجد رشید کو معذرت کا فون کیا، شاید میں سارا قصہ ان کی زبانی سننا چاہتا تھا، پھر اگلے روز میں نے وارث علوی کو فون کیا، یہ پہلا موقع تھا کہ میں ان سے بات کر رہا تھا اور پھر گاہے گاہے ان سے باتیں ہوتی رہیں۔
ساجد رشید کے اچانک مرنے کی خبر آئی تھی تو منشایاد نے مجھے فون کرکے بلایا تھا اور ہم دیر تک ساجد کو یاد کرتے رہے تھے، پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ منشایاد بھی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ جی یہ سانحہ بھی اچانک ہوا تھا۔ ایسے میں ایکاایکی یاد آگئے، میں نے وارث علوی کو فون کیا، اُن تک منشایاد کی وفات کی خبر پہلے سے پہنچ چکی تھی، دیر تک منشایاد کی باتیں کرتے رہے۔ کچھ عرصہ پہلے دونوںکوعالمی فروغِ ادب ایوارڈ دیا گیا تھا اور اس سلسلے کی تقریب میں دونوںدوحہ میں ملے تھے۔ وارث علوی نے اس ملاقات کو بہ طور خاص یاد کیا اور کہا کہ اگر صحت نے اجازت دی تو وہ منشایاد پر کتاب لکھنا چاہیں گے۔ افسوس۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
وارث علوی کی تنقید کی جانب میری توجہ ان رابطوں سے بہت پہلے کی ہے۔ اوّل اوّل میں نے شمس الرحمٰن فاروقی کی کتاب '' افسانے کی حمایت میں '' پڑھی تو دیکھنا چاہتا تھا کہ اس کا ردعمل کیا رہا سو وارث علوی کی '' فکشن کی تنقید کا المیہ'' پڑھی اور پھر ''حالی مقدمہ اور ہم'' ، ''تیسرے درجے کا مسافر'' ، ''خندہ ہائے بے جا'' ، ''کچھ بچا لایا ہوں'' ، ''جدید افسانہ اور اس کے مسائل'' اور منٹو اور بیدی پر کتابیں۔ وارث علوی کو سمجھنے کے لیے پہلے ان کا تنقید کے حوالے سے نقطۂ نظر بھی جان لیجے! فرماتے ہیں : ''تنقید رابطہ ہے قاری اور قاری کے درمیان۔ اپنی آخری شکل میں تنقید گفتگو ہے اہل علم کی اہل علم سے، اہل دل کی اہل دل سے۔ خوش طبعی ہے یاروں کے بیچ۔ بے تکلفی ہے احباب کے درمیان۔ بحث و تکرار ہے ہم مشربوں سے۔ چھینا جھپٹی ہے مخالفوں سے۔ پھکڑ اور ٹھٹھول ہے حریفوں سے۔''
مجھے یاد آتا ہے جب میرے اور محمد عمر میمن کے درمیان ماریو برگس یوسا کے حوالے سے مکالمہ چل رہا تھا تو میمن صاحب نے لکھا تھا: ''ہمارے یہاں فکشن پراس طرح بہت کم لکھا گیا ہے۔ اچانک وارث علوی کا خیال آتا ہے جو میرے دوست ہیں اور مجھے ان کی ذہانت پر پورا اعتماد ہے۔ مشکل یہ ہے کہ جب وہ تنقید کرتے ہیں تو گو وہ کافی غلبہ آور لگتی ہے لیکن بعد میں پتا چلتا ہے کہ یہ ساری باتیں کسی کلیے کی پابند نہیں کہ ان سے چند قابل عمل اصول وضع نہیں کیے جاسکتے۔''
اس باب میں محمد عمر میمن کو فاروقی صاحب کا منطقی طریقہ پسند تھا۔ وارث علوی کے بارے میں یہ خیال لگ بھگ مستحکم ہو چکا ہے کہ بات کرتے ہوئے وہ حملہ آور ہو جاتے ہیں؛ سنجیدگی اور دھیمے پن سے بات آگے نہیں بڑھاتے۔ میں، میمن صاحب اور اس عمومی خیال کو درست نہیں سمجھتا لہٰذا جواب میں لکھا : ''پیارے! جب یہ ہی منظقی شمس الرحمٰن فاروقی 'افسانے کی حمایت میں' میں منطقی وتیرے کو ایک طرف دھر کر شاعری کے مقابلے میں فکشن کو نیچادکھانے کے لیے زور قلم کا سہارا لے رہے ہوتے ہیں یا پھر غلبہ آور تنقید والے وارث علوی منٹو کے افسانوں کاتجزیہ کرتے ہوئے منظقی ہوجاتے ہیں تو کیا تب بھی آپ کا فیصلہ یہ ہی رہتا ہے؟'' حقیقت یہ ہے کہ ہر حال میں منطقی رہنا ادب کے باب میں کوئی بہت بڑی خوبی نہیں بنتی، بسا اوقات تہذیبی تناظر منطق کو مات دے جایاکرتا ہے۔ اب جب کہ وارث علوی کی تنقید کے طریقۂ کار کی وضاحت ہو چکی، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ذکر ''فکشن کی تنقید کا المیہ'' کا ہو جائے۔ وارث علوی نے ''افسانے کی حمایت میں'' میں لگ بھگ اتنی ہی شدت سے شمس الرحمٰن فاروقی کی تنقید پر سوالات قائم کیے ہیں جتنی شدت سے فاروقی صاحب نے افسانے کی صنف کے حوالے سے منفی سوالات اُٹھائے تھے۔ جب فاروقی صاحب نے افسانے کوشاعری کے مقابل رکھ کر اس کا موازنہ کیا اور اس باب میں درجات قائم کیے تو وارث علوی نے اسے ''ناقدانہ خون خرابا'' سے تعبیر کیا۔ ایک ایسا خون خرابا جس میں افسانہ تو اپنے حقوق، ناقد سے مانگتا پھرتاہے، محض اپنے حقوق نہیں، اپنی شناخت بھی اور اس پر فاروقی جیسا نقاد بلاسبب بھڑک اٹھتا ہے۔ اس طیش میں ناقد صاحب انیس کو شیکسپیئر اور پریم چندکوگورکی اورسوگندھی کو ایناکارے نینا اورسلطانہ کو مادام بواری ثابت کرتے پھرتے ہیں۔ کوئی بھی نہیں ہے جو اس ناقد سے باز پرس کرے ۔ اگر کوئی بات کرنا چاہتا ہے تو ناقد کسی جاگیردار کی طرح آگ بگولہ ہوجاتا ہے۔
تو یوں ہے کہ وارث علوی نے نہ صرف اس ناقدانہ طرز عمل پر گرفت کی، اسے صاف لفظوں میں بے معنی اورمضحکہ خیز بھی قرار دے دیا اور یہاں تک کہ گزرے : ''فکشن ان کے بس کا روگ نہیں۔ دراصل فکشن میںوہ ڈوبے نظر آتے ہی نہیں توتیریں گے کیا؟ ڈوبے اوروہ بھی افسانے کے چلو بھرپانی میں''۔
وارث علوی نے ''فکشن کی تنقید کا المیہ '' میں خوب خوب چوٹیں لگائیں اور بہ قول محمد عمر میمن اپنی''غلبہ آور زبان'' میں بڑھ بڑھ کر حملے کیے ہیں، یہاں تک کہ دیا کہ فاروقی صاحب کے پاس تو بیدی، منٹو، عصمت، قرٖٖٖٖأۃ العین حیدر، غلام عباس اور انتظار حسین پرلکھنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔ خیر فاروقی صاحب نے وارث علوی کی اس چوٹ کے جواب میں منٹو صاحب پرحال ہی میں ایک کتاب لکھ دی ہے۔ وارث علوی کی چوٹ اور فاروقی صاحب کی کتاب کا ایک ساتھ ذکریوں آیا ہے کہ فاروقی صاحب اس تازہ کتاب میں بھی وارث علوی کو نہیں بھولے۔ خیر یہاں وارث علوی کی تحریر ''فکشن کی تنقید کا المیہ '' سے ایک دل چسپ ٹکڑا مقتبس کرنا چاہتا ہوں :
''ترقی پسند تنقید کاکوا اسی افسانہ پر منڈلاتا ہے جس میں سماج کی بھینس ڈکراتی ہے اورجدید تنقید کا گدھ اسی افسانہ پر لپکتا ہے جس میں افسانہ نگار اسطور کی گائے کے تھنوں سے منہ بھڑائے ہوئے ہے۔ ہمارے نقادوں نے ہمارے افسانہ نگاروں کے ساتھ کیا سلوک کیا وہ تو ہماری ادبی تاریخ کا ایک تاریک باب ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ دوسروں کے تفاعل کی تلافی فاروقی کی نظرعنایت نے اس طرح کی کہ افسانہ کو تھرڈ کلاس صنف سخن اورافسانہ نگاروں کو گھٹیا ادیب بناکر رکھ دیا ''۔
وارث علوی نے اسے بھی نادرست کہا کہ ترقی پسندوں نے افسانے کو اپنے مقاصد کے لیے فروغ دیا اور یہ کہ افسانہ پروپیگنڈے کے لیے موزوں ترین صنف تھا۔ ان کے مطابق یہ شاعری ہی ہے جس سے آج تک دنیا بھرمیں ہرنوع کاکام لیا گیاہے حتیٰ کہ طب اورکھیتی باڑی کی کتابیں بھی اس میں لکھی گئیں ۔۔۔۔۔۔۔ پہلے شاعری اور بعد میں نثر پروپیگنڈے میں استعمال ہوئی ۔۔۔۔۔ اور یہ بھی کہ شاعری میں پروپیگنڈے کے لیے تک بندی سے بھی کام چلا یا جاسکتا ہے جب کہ افسانے میں کہانی، پلاٹ اورکردار کو نہ نبھایا جائے اور افسانہ نگار اس میں ناکام ہو تو افسانہ ٹھپ ہوجاتاہے۔
خیر! اس کا اعتراف بھی کیا جانا چاہیے کہ شمس الرحمٰن فاروقی کی '' افسانے کی حمایت میں''، جس کی لگ بھگ سطر سطر اور نقطہ نقطہ وارث علوی نے رد کر دیا تھا اور '' وارث علوی کی ''فکشن کی تنقید کا المیہ'' جو محمد عمر میمن کی زبان میں ''غلبہ آور'' نثر کا نمونہ اور بہ قول فضیل جعفری ''مناظراتی'' ہو گئی تھی، دونوں کتابیں، فکشن کے مسائل کو سمجھنے میں بہت مددگار ہو جاتی ہیں۔ مثلاً دیکھیے وارث علوی اسی مناظرانہ کتاب میں نشان زد کر رہے ہیں کہ :
۱۔ ''کسی بھی فن کے میڈیم، طریقِ کار اورتکنیک کی حدود کو اس فن کے معائب بتانا حددرجہ غیر تنقیدی اورغیر عقلی رویہ ہے۔ دیکھا یہ جاتاہے کہ ہر فن اورہر صنف سخن اپنی حدود میں رہ کر کون سی تخلیق، معجزے دکھاتی ہے۔ افسانہ بیانیہ کا غلام سہی لیکن اس غلامی میں رہ کر اس نے کیسی بادشاہی کی ہے''۔
۲۔ '' زبان کاتناؤ اورزبان کا اجمال موضوع اورمواد سے الگ کوئی چیز نہیں اور مواد کو افسانے میں ڈھالنے کا ذریعہ تکنیک ہے۔ چونکہ ناول اورافسانے کا مواد زندگی کی مانند پھیلاہوتا ہے اسی لیے بیانیہ بھی تکنیک کی مناسبت سے پھیلتا اورسمٹتا ہے۔''
۳۔ ''ناول میںلفاظی بالکل نہیں چل پاتی۔ لفاظ ناول پیدا ہوتے ہی دَم توڑدیتا ہے، جبکہ شاعری میں لفاظی چلتی رہتی ہے۔ ناول زبان کا اسراف نہیں کرتا۔ محض قدرت زبان کی بنا پر کوئی ناول نگار ادب میں نہیں چلتا۔ جن کے پاس افسانوی تخیل نہیں ہوتا اور محض قدرت زبان ہوتی ہے، وہ افسانے اورناول نہیں لکھتے بلکہ انشائیے، سفرنامے، یاداشتیں، آپ بیتی، ڈائری یاخطیبانہ مضامین لکھتے ہیں۔ اس لیے میں ناول یا افسانے کو شاعری سے کم تر نہیں سمجھتا''۔
۴۔ ''نئے افسانہ نگاروں کی پیٹھ ٹھونکنے کی بجائے انہیں ڈانٹ پلانی چاہیے کہ تم جس چیز کے خلاف انحراف کر رہے ہو وہ تو خود حقیقت پسند افسانے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ فاروقی ایساکرتے تو پھر انہیں سینہ کوٹنے کی ضرورت نہ رہتی کہ نئے افسانہ نگاروں نے اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش نہیں کی جو تجسس کی عدم موجودگی سے پیدا ہوا۔ اب سینہ کوبی سے کچھ فائدہ نہیں، کیوں کہ جو خلا پیدا ہوا ہے وہ تجسس کی عدم موجودگی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس انسانی مواد کے فقدان کی وجہ سے ہے جس میں ایک ذہین قاری کو تھوڑی بہت بھی دل چسپی ہوسکتی ہے''۔
۵۔ ''جدید افسانہ انحراف تھا پریم چند اورمنٹو کے دور کے افسانے سے۔ لہٰذا فاروقی کو اس دور کے افسانے سے بے اطمینانی تو دکھانی ہی ہے اور وہ اطمینان سے بے اطمینانی دکھاتے ہیں اورتنقید کی لٹیا بھی بڑے اطمینان سے ڈوبتی ہے۔ نئے افسانے سے بھی وہ مطمئن نہیں اور سمجھ میں نہیں آتاکہ اُسے دل چسپ بنانے کے لیے کیاپیش کریں۔ افسانوی لوازمات مثلاً واقعہ،کہانی، کردار کے نام لینا نہیں چاہتے کہ نیت تجریدی امام کے پیچھے باندھی ہے''۔
۶۔ ''افسانہ کی صفتِ ذاتی افسانویت ہے، شعریت نہیں البتہ شعریت من جملہ دوسری صفات کے افسانہ کی صفتِ اضافی ہو سکتی ہے۔ ہماری تنقید نے شاعری کی کیسی ہوا باندھی کہ پورا جدید افسانہ شاعری بننے پر کمربستہ ہوگیا اور شاعرانہ اسلوب کے چاؤ میں اسالیب کے ان تمام ذخائر سے خود کو محروم کرلیا جنہیں نثری فکشن نے پروان چڑھایاتھا''۔
اپنے نظری مضامین میں وہ لگ بھگ ہر مضمون میں اس نقطے سے جڑے نظر آتے ہیں کہ ادب ہرحال میں مرکز میں رہنا چاہیے۔ انہوں نے ترقی پسندوں اور جدیدیوں کو وہاں وہاں رد کیا ہے جہاں جہاں تخلیقی عمل پر مواد اور موضوع حاوی ہوتا رہا ہے۔ ان کی نظر میں تخلیقی عمل اپنی آخری شکل میں لفظ کی تلاش ہے اور یہ کہ لفظ کی نزاکت، لطافت، جلال، جمال کا احساس فن پارے میں استعمال کے بعد ہی ہوتا ہے۔ لفظ رنگ نہیں ہوتے مگر لکھنے والا اس سے تصویر بنا سکتا ہے، یہ سنگ نہیں مگر اس سے مجسمہ تراشا جا سکتا ہے تاہم یہ بھی وارث علوی کا کہنا ہے کہ لفظ کا یہ جادوئی استعمال ادب کے آدرشی تصور والے آدمی سے ممکن نہیں ہے کہ فن کار آدمی کو محض کھال میں نہیں دیکھتا بلکہ اس کے سماجی اور سیاسی رشتوں کے پس منظر میں دیکھتا ہے لیکن دیکھتا ہے وہ آدمی ہی کو، اس آدمی کو جو ایک فرد ہے؛ اس خیالی پرچھائیں کو نہیں، جو کسی سیاسی، مذہبی یا فلسفیانہ آدرش کی تخلیق ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ادب، آدمی جو کچھ ہے وہ تو بیان کر سکتا ہے، آدمی کو کیا ہونا چاہیے وہ بیان کرنے سے قاصر ہے۔ وارث علوی کے مطابق ادب ایک شخصی تجربہ اور ایک انفرادی عمل ہے۔ ادب محض skill نہیں جسے سیکھا جا سکے بلکہ یہ تو منفرد شخصیات کی تخیلی معجز نمائیوں کا نتیجہ ہوتا ہے ادب کاآہنگ اور اس کی تکمیلی صورت بعض اوقات متضاد اور متناقض عناصر کی موجودگی کے باوجود چند ایسی اقدار کے کیمیائی عمل سے پیدا ہوتا ہے جنہیں ہم حسن و مسرت کی جمالیاتی قدریں کہتے ہیں ۔
تو یوں ہے کہ یہ تنقید بالکل ایک الگ لحن بناتی ہے، ایسا تنقیدی لحن جس کا تصور وارث علوی کی اپنی ذات سے جڑے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یا دآتا ہے کہ وارث علوی نے ''حالی، مقدمہ اور ہم'' کے آغاز میں کہا تھا کہ ''مقدمہ شعر و شاعری'' پڑھنے سے پیش تر بہتر ہو گا کہ حالی کی وہ تصویر ذہن میں حاضر رکھی جائے جو وحید قریشی والے ایڈیشن میں شامل تھی۔ اس میں وارث علوی کو حالی ایسے لگے تھے جیسے ایک نفیس، مہذب اور شائستہ شخص نے کسی اہتمام کے بغیر تصویر بنوالی تھی۔ ایسے آدمی کی تصویر جس میں نہ خود نمائی تھی، نہ نمائشی خود آگاہی، نہ بناوٹ ، نہ پوز اور تصویر ایسی بنی تھی کہ وہ حالی کی فطرت ثانیہ ہوجانے والی شائستگی کا مظہر ہو گئی۔ اسی تصویرسے جوڑ کر وارث نے حالی کے مقدمہ کو دیکھا تھا۔ اب میرا جی کرتا ہے کہ کہ دوں، وارث علوی کی تنقید کو بھی اس کی تصویر سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا تاہم یوں ہے کہ یہ تصویر کسی کیمرے نے نہیں بنائی خود اپنی فطرت کے عین مطابق وارث علوی کی تحریروں سے بن گئی ہے۔
یوں تو ایک تصویر اور بھی ہے جس میں وارث ٹیلی فون کے اس طرف سے رنگ بھرتا ہے۔ ایک عام آدمی جو اپنی ستائش سن کر کہ سکتا ہے کہ مجھے تو محلے کے لوگ بھی نہیں پہچانتے۔ یہ محض اوپر سے اوڑھی ہوئی انکساری نہیں ہے، ایسے جملے ان کی زبان سے یوں ہی ادا ہوتے رہتے ہیں اور یہ ان کے اپنے مزاج کے عین مطابق ہیں۔ وارث علوی کا کہنا ہے کہ نہ جانے لوگ انہیں کیوں خود پسند سمجھتے ہیں حال آںکہ وہ سول لائینز کی کسی کوٹھی میں نہیں رہتے، مسلمانوں کے ایک غریب محلے میں رہتے ہیں۔ وہ روزانہ گندی گلیوں پر فراغت پاتے بچوں کی قطار کو پھلانگتے لائبریری تک پہنچتے تو کتاب پڑھنے کا لطف اور بڑھ جاتا۔ وارث علوی کا کہنا ہے کہ یہ ہی گندگی اور حسن ان کی زندگی کا حصہ ہو گیا ہے۔ میں نے وارث علوی کی آواز میں زندگی کے اس چلن کی تصویر دیکھی مگر جس تصویر سے وارث علوی اور اس کی تنقید کو بہتر طور پر دیکھا جا سکتا ہے وہ اس کی تحریروں سے بنتی ہے۔
جی! وہی تحریریں جن میں کہیں وہ تنقید نگاروں کی زد پر ہیں اور کہیں تخلیق کاروں کے فن کا تجزیہ ہوتا ہے۔ منٹو اور بیدی کے فن پر جس پائے کی کتابیں وارث علوی نے لکھیں، کون ہے جو اس کا معترف نہیں۔ ان کتابوں میں غلبہ آور نثر کہیں پیچھے رہ جاتی ہے اور تجزیہ اور تعبیر کی ایک دل نشیںصورت ہنر سامنے آتی ہے۔ اسی طرح اقبال، جوش، فراق، مجاز،ن م راشد، فیض احمد فیض، سردار جعفری، ساحر، اخترالایمان، کرشن چندر، غلام عباس وغیرہ کی تخلیقات پر وہ جس اعلٰی عملی تنقیدی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔ شمس الرحمٰن فاروقی ہوں یا ان سے پہلے حسن عسکری اور ادھر ہمارے وزیر آغا، وہ سب سے مکالمہ کرتے اور سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں۔