بُک شیلف
دو نسلوں کے ادبی ذوق کی آب یاری کرنے والے ’’سیپ‘‘ کو پچاس برس مکمل ہوچکے ہیں۔
آل انڈیا مسلم لیگ سرسید سے قائداعظم تک
مصنف: آزاد بن حیدر
ناشر: فضلی سنز،صفحات:1152،قیمت:1500روپے
دنیا میں لاتعداد ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جنہوں نے کسی خطے یا ملک کی آزادی کے لیے جدوجہد کی اور اس میں کام یابی حاصل کی، مگر آل انڈیا مسلم لیگ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کا اضافہ کر دکھایا اور وہ بھی عالم اسلام کا (اپنے قیام کے وقت) سب سے بڑی ریاست۔ مسلم لیگ نے یہ کارنامہ جنگ کے ذریعے نہیں بل کہ قائداعظم محمد علی جناح کی زیرقیادت پُرامن، سیاسی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے انجام دیا۔ یہ تاریخ سے ہماری بے پروائی کا شاخسانہ ہے کہ عالمی تاریخ میں اپنی نوع کی ایک منفرد تحریک چلانے اور اسے فتح یابی کی منزل عطا کرنے والی جماعت کے بارے میں کوئی مبسوط اور منضبط کتاب سامنے نہ آسکی۔
اس ضرورت کو تحریکِ پاکستان کے کارکن، معروف دانش ور، محقق اور قانون داں آزاد بن حیدر نے پیرانہ سالی اور گوناگوں مصروفیات کے باوجود نے پوری کردیا ہے۔ ان کی ضخیم کتاب ''آل انڈیا مسلم لیگ، سرسید سے قائداؑعظم تک'' برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق کی نگہبان اور نمائندہ بن جانے والی جماعت کی پوری تاریخ بیان کرتی ہے، کیوں کہ مسلم لیگ نے سرسید احمد خان کے پیش کردہ دو قومی نظریے اور مسلمانوں کو کانگریس سے الگ رہنے کے مشورے نے مسلم لیگ کے قیام کی راہ ہموار کی، چناں چہ مصنف نے اس جماعت کی تاریخ کا آغاز سرسید سے کیا ہے۔ یہ کتاب صرف آل انڈیا مسلم لیگ کی تاریخ نہیں، بل کہ اس میں تحریک پاکستان کے اہم واقعات اور اس تحریک سے متعلق اہم شخصیات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ یوں یہ تحقیقی کاوش تحریک پاکستان کی بابت ایک مفصل دستاویز بھی بن گئی ہے۔
آزاد بن حیدر ایک کثیر الجہت شخصیت ہیں۔ بہ طور قانون داں زندگی کرنے کے ساتھ وہ سیاست میں بھی متحرک رہے ہیں اور تصنیف وتالیف کا کام بھی تسلسل کے ساتھ انجام دیتے رہے ہیں۔ بہ طور مصنف ومحقق تحریک پاکستان ان کا خاص موضوع رہی ہے اور زیرتبصرہ کتاب بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ عرق ریزی اور برسوں کی محنت کے بعد تصنیف کی جانے والی یہ کتاب تاریخ خاص طور پر تاریخِ پاکستان سے شغف رکھنے والوں اور طلبہ کے لیے ایک نادر تحفہ ہے۔
''سیپ'' (ادبی جریدہ)
مدیر: نسیم درانی
قیمت:150،صفحات:326 روپے،ملنے کا پتا:418/18، فیڈرل بی ایریا، کراچی
اردو کے ادبی جراید کا تذکرہ ہو، اور ''سیپ'' کا ذکر نہ آئے، بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔ ''سیپ'' کے اثرات کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب تک اس رسالے پر پی ایچ ڈی کی سطح کا ایک اور ایم اے کے دس مقالات لکھے جاچکے ہیں۔
دو نسلوں کے ادبی ذوق کی آب یاری کرنے والے اس جریدے کو پچاس برس مکمل ہوچکے ہیں۔ اِس کی گولڈن جوبلی تقریب گذشتہ دنوں آرٹس کونسل میں منعقد ہوئی۔ پاک و ہند کے اس معتبر جریدے کی کام یابی کا سہرا اس کے مدیر، نسیم درانی کے سر ہے، جنھوں 1963 میں اس کا آغاز کیا، اور اپنی شب و روز محنت اُسے ایک اہم مقام پر لا کھڑا کیا۔ موجودہ عہد کے کئی بڑے تخلیق کاروں نے اپنے سفر کا آغاز ''سیپ'' ہی سے کیا۔
''سیپ'' کا تازہ شمارہ کچھ ہی عرصے قبل شایع ہوا ہے۔ یہ اِس کا 82 واں پرچہ ہے۔ اس بار بھی سرورق معروف مصور، جمیل نقش کے فن پارے سے سجا ہے۔ اشتہارات کی تعداد حوصلہ افزا ہے، جن کے طفیل جریدے کی زندگی کے امکانات روشن نظر آتے ہیں۔
شمارے میں چوبیس افسانہ شامل ہیں۔ رشید امجد اور سمیع آہوجا کے ساتھ نئے لکھنے والوں کو بھی جگہ دی گئی ہے۔ مضمون نگاروں میں بھی اہم نام شامل ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنے مقالے میں غالب کو امن اور محبت کا شاعر قرار دیا ہے۔ نظموں اور غزلوں کا حصہ متوازن ہے۔ معروف شاعر اور صحافی، شفیق عقیل سے متعلق تین مضامین شامل ہیں۔ نسیم درانی کے قلم سے نکلی تحریر ''بھائی جان'' پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
تاریخی اہمیت کے حامل اِس پرچے کی مسلسل اشاعت خوش آیند ہے۔ امید ہے کہ یہ سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔ تین سو سے زاید صفحات پر مشتمل اِس پرچے کی قیمت انتہائی مناسب ہے۔
''یوگا اور کمر درد''
مصنف: بیجو لکشمی ہوتا
مترجم: انیس احمد،صفحات:96،قیمت:200 روپے،ناشر: فرید پبلشرز، کراچی
جیسے کہ نام سے ظاہر ہے ، یہ کتاب یوگا کے اُن آسنوں سے متعلق ہے، جس سے کمردرد کی شکایت میں افاقہ ہوسکتا ہے۔ اسے ترجمہ کرنے کا ذمہ انیس احمد نے نبھایا ہے، جو اس سے قبل ریکی، یوگا اور تانترا پر کتب لکھ چکے ہیں۔ مذکورہ کتابیں بھی فرید پبلشرز ہی نے شایع کی تھیں۔ ان موضوعات کی اہمیت سے انکار نہیں، قارئین ان میں دل چسپی لیتے ہیں، مگر یہ بھی سچ ہے کہ ان موضوعات پر معیاری کتابیں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔
''یوگا اور کمر درد'' ہندوستانی یوگا ایکسپرٹ، بیجو لکشمی ہوتی کی کتاب کا ترجمہ ہے۔ ترجمے میں بہتری کا امکان موجود ہے۔ کتاب ڈسٹ کور کے شایع ہوئی ہے۔ باتصویری ہے، یعنی ہر آسن کی تصویر دی ہوئی ہے۔ اگلے ایڈیشن میں ان اسکیچز پر توجہ دینے اور انھیں بہتر بنانے کی ضرورت ہوگی۔ کمر درد کے شکار افراد کے لیے یہ اچھی کتاب ثابت ہوسکتی ہے۔ فرید پبلشرز کے روح رواں، فرید حسین ایک کتاب دوست انسان ہیں۔ امید ہے، مستقبل وہ اِس طرز کی کتابیں زیادہ بہتر اور موثر انداز میں شایع کریں گے۔
دس بڑے نظم نگار (تجزیاتی مضامین)
تدوین و ترتیب: ڈاکٹر اختر ہاشمی
صفحات:320
قیمت: 400
ناشر:رنگ ادب، کراچی
ڈاکٹر اختر ہاشمی ایک ہمہ جہت تخلیق کار ہیں۔ وہ کہنہ مشق شاعر اور ایک سنجیدہ افسانہ نگار کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ تحقیق و تنقید بھی ان کی شناخت کے مضبوط حوالے ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب ڈاکٹر صاحب کے تجزیاتی مضامین پر مشتمل ہے، جس میں اُنھوں نے اپنے نقطۂ نگاہ سے اردو کے دس بڑے نظم نگاروں کا تعین کیا ہے۔ منتخب کردہ شعرا کی فہرست علامہ اقبال، جوش ملیح آبادی، ن م راشد، فیض احمد فیض، میرا جی، احمد ندیم قاسمی، مجید امجد، حبیب جون پوری، فضا اعظمی اور امجد اسلام امجد پر مشتمل ہے۔ ترتیب یوں ہے کہ ہر شاعر کی بابت ایک بھرپور مضمون کتاب میں شامل ہے، پھر شعرا کی منتخب نظمیں دی گئی ہیں، جن کے طفیل قاری زیادہ گہرائی سے ان شعرا کے کلام کا جائزہ لے سکتا ہے۔
یوں تو اِس نوع کے انتخابات کا چلن عام ہے، البتہ اگر یہ انتخاب ایک سینئر قلم کار کی جانب سے ہو، تو اُسے اہمیت دی جاتی ہے۔ اس نقطۂ نگاہ سے یہ کتاب بھی قابل توجہ ہے۔ ہاں، جس طرح بڑے شعرا کے تعین کے معاملے میں دیگر انتخابات پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں، اِس کتاب پر بھی اٹھائے جاسکتے ہیں۔
کتاب کی طباعت اچھی ہے، کاغذ معیاری ہے، البتہ سرورق میں بہتری کا امکان موجود ہے۔ نظم کے قارئین کے لیے یہ ایک اچھی کتاب ہے۔
''شفائی توانائی''
مصنف: ڈاکٹر سید شہزاد علی نجمی
صفحات:128
قیمت:200 روپے
ناشر:الصحت فائونڈیشن، کراچی
زیر تبصرہ کتاب ایک خاص نوع کی ہیلنگ تکنیک کے گرد گھومتی ہے، جسے مصنف نے نجمی شفائی توانائی قرار دیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا اسلامی روحانی سائنسی طریقۂ علاج ہے۔ کتاب میں مصنف کی عظیمی سلسلے کے روح رواں، خواجہ شمس الدین عظیمی کے ساتھ تصویر ہے، جس کا کیپشن صاحب کتاب کو اُن کا مرید قرار دیتا ہے۔ واضح رہے کہ شمس الدین عظیمی بھی رنگ و نور اور مراقبے سمیت مختلف انواع کے روحانی طرز علاج سے متعلق جامع اور ضخیم کتاب لکھ چکے ہیں۔ اور اُن تکنیکوں کو بھی''اسلامی، روحانی اور سائنسی طریقۂ علاج'' ہی قرار دیا جاتا ہے۔
خیر، کتاب میں مصنف نے اس توانائی اور تیکنیک کی وضاحت کی ہے، اور اسے، اپنے ظاہر میں ریکی اور سمدا ہیلنگ سے مشابہ ہونے کے باوجود، خدا پر کامل یقین کے باعث مختلف قرار دیا ہے۔ کیس اسٹڈیز بھی کتاب میں شامل ہیں۔ جنات اور برموداٹرائی اینگل سے متعلق ابواب ہیں۔ یہ تعارفی کتاب ہے، عملی ہدایت نامہ نہیں۔ مصنف نے اپنانمبر دے رکھا ہے۔ اگر کوئی یہ تکنیک سیکھنا چاہیے، تو ان سے رابطہ کرے۔ کتاب غیر مجلد ہے۔ اشاعتی نقطۂ نگاہ سے بہتری کا امکان موجود ہے۔
''ابھی کچھ دیر باقی ہے'' (افسانے)تبصرہ
افسانہ نگار: اخلاق احمد
صفحات:159،قیمت:250 روپے،ناشر: امیج میکرز، کراچی
افسانہ اردو کی اہم ترین صنف ہے۔ ناقدین ادب کے مطابق گذشتہ پچاس برس میں اس صنف نے خاصی ترقی کی۔ افسانہ تجربات کی بھٹی سے گزر کر نئے سانچوں میں ڈھلا، اور تبدیلیوں کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔
زیر تبصرہ کتاب بھی ایک افسانوی مجموعہ ہے، جس کا عنوان ہے؛ ''ابھی کچھ دیر باقی ہے''، اور افسانہ نگار ہیں، اخلاق احمد۔
اخلاق احمد کا شمار اردو کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ متاثر کن کہانی بیان کرنے کا ہنر بہ خوبی جانتے ہیں۔ صحافت کا بھی وسیع تجربے رکھتے ہیں۔ یہ اُن کا چوتھا مجموعہ ہے۔ اِس سے پہلے اُن کے تین مجموعے ''خیال زنجیر''، ''خواب ساتھ رہنے دو'' اور ''ہم کہ خود تماشائی'' شایع ہو کر ناقدین سے پزیرائی حاصل کر چکے ہیں۔ دوسرے مجموعے میں شامل افسانے ''بائو وارث کی گم شدگی'' کو اُن کی اہم ترین تخلیق گردانا جاتا ہے۔
اخلاق احمد کہانی کے ابلاغ پر یقین رکھنے والے قبیلے سے ہیں۔ وہ انوکھے خیال کو کہانی کی بنیادی شرط گردانتے ہیں۔ ان کے ہاں افسانوں کے عنوانات بہت دل چسپ ہوتے ہیں، مثلاً ''دھند کا مسافر''، ''تھینک یو مولوی صاحب'' اور ''ایک عیار افسانے کی کہانی۔''
اس کتاب میں نو افسانے شامل ہیں۔ عنوانات یہاں بھی خوب ہیں؛ ''بنجر، بے رنگ زندگی والا''، ''رئیس کیوں چپ ہے'' اور ''کہانی ایک کردار کی'' اِس کی مثالیں ہیں۔ اس مجموعے میں ہمیں بیانیہ افسانوں کے تمام لوازمات ملتے ہیں۔ تہ داری ہے۔ زبان رواں اور سادہ ہے۔ خیال پیچیدگیوں اور ابہام سے پاک ہے۔ کہانی معاشرے کے گرد گھومتی ہے۔ کردار زمین سے جڑے ہوئے ہیں۔ اِس تہ دار بیانیے میں ہمیں دل چسپ تجربات ملتے ہیں۔ پہلی سطر ہی توجہ باندھ لیتی ہے۔ اور یہی عوامل اُن کی تخلیقات کو مطالعے کی مضبوط جہت عطا کرتے ہیں۔مجموعی طور پر یہ ایک اہم کتاب ہے، جس کا مطالعہ افسانے پڑھنے والوں کے لیے ضروری ہے۔
وہ آدمی (ڈرامے)
مصنف: جسٹس (ر) حاذق الخیری
ناشر: شہرزاد
صفحات:128
قیمت:280
جسٹس (ر) حاذق الخیری قانون جیسے ''خشک'' سمجھے جانے والے پیشے اور منصفی کے اعصاب شکن منصب پر فائز رہنے کے باوجود ادب تخلیق کرنے کا کارمشکل بھی انجام دے رہے ہیں۔
یہ ذاتی ذوق اور شوق کے ساتھ ان کا خاندانی پس منظر بھی ہے کہ انھوں نے قانونی موشگافیوں، دلائل اور بحثوں کے پتھریلے ماحول میں رہتے ہوئے بھی تخلیق کا سفر جاری رکھا۔ زیرتبصرہ کتاب جسٹس (ر) حاذق الخیری کے تین ڈراموں کا مجموعہ ہے۔ بہ طور ادیب اور ڈراما نگار حاذق الخیری صاحب نے قانون سے اپنی آگاہی کو ان میں سے دو ڈراموں ''دوسری کھائی'' اور ''وہ آدمی'' جس کا نام کتاب کے عنوان بنا ہے، کی بنت میں بڑی خوبی سے برتا ہے۔
یہ دونوں ڈرامے طب کے حوالے سے قانونی سوالات اور پیچیدگیوں کا احاطہ کیے ہوئے ہیں اور سائنس فکشن کے ذیل میں آتے ہیں۔ ''وہ آدمی'' کے پلاٹ کو ملا واحدی نے ''بالکل انوکھا، نرالا اور لاجواب'' قرار دیا تھا۔ کتاب میں شامل تیسرا ڈراما ''بندریا کی گود'' ایک الگ نوعیت کا ڈراما ہے۔ یہ مختصر ڈرامے اپنے پلاٹ اور اپنے تخلیق کار کے خوب صورت اسلوب کے باعث شروع سے آخر تک قارئین کی دل چسپی برقرار رکھتے ہیں۔ کتاب کا سرورق خوب صورت اور طباعت عمدہ ہے۔
(تبصرہ نگار: م۔ع۔ج)
''چہرہ چہرہ کہانیاں'' (مضامین)
مصنف: احمد زین الدین
صفحات:224،قیمت:350 روپے،ناشر:زین پبلی کیشنز، کراچی
ادب معاشرے سے جنم لیتا ہے، اور معاشرہ انسانوں سے۔ اس نقطۂ نگاہ سے ہر انسان، ہر چہرہ ایک کہانی ہے۔
معروف افسانہ نگار اور ادبی جریدے سہ ماہی روشنائی کے مدیر، احمد زین الدین کی تازہ کتاب بھی ایسی ہی کہانیاں بیان کرتی ہے۔ کتاب کا عنوان ہے؛ ''چہرہ چہرہ کہانیاں۔''
دیباچے میں انور سدید نے احمد زین الدین کو اردو کا پہلا غیر اعلانیہ نقاد قرار دیا ہے۔ خواجہ منظر حسن منظر، شارق بلیاوی اور ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کی احمد زین الدین کے فن سے متعلق آرا کتاب میں شامل ہیں۔ صاحبِ کتاب نے اپنے مضمون میں مطالعے کے گھٹتے رجحان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے؛ انھیں نہ تو صلے کی تمنا ہے، نہ تحسین کی خواہش۔ بس جن شخصیات پر جو کچھ لکھا، اُنھیں محفوظ کرنے کی آرزو تھی، جو اِس کتاب کی صورت پوری ہوئی۔
کتاب میں اقبال عظیم، افسر ماہ پوری، ڈاکٹر حنیف فوق، مشفق خواجہ، شہزاد منظر، سحر انصاری اور صبا اکرام سمیت تیس شخصیات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ کچھ مضامین طویل ہیں، چند مختصر۔ تمام ہی پر خاکوں کا رنگ غالب ہے۔ کتاب کا سرورق بھی اُن مضامین کو ''خاکہ نما مضامین'' قرار دیتا ہے۔صاحب کتاب کا طرز تحریر متوازن اور متاثر کن ہے۔ نثر جان دار اور جمالیاتی تقاضوں پر پوری اترتی ہے۔ افسانہ نگار ہیں، تو اِن مضامین میں افسانوی آہنگ بھی سنائی دیتا ہے، جو مطالعے کے عنصر کو مہمیز کرتا ہے۔ ڈسٹ کور کے ساتھ شایع والی یہ کتاب، ایک معنوں میں، خوب صورت فوٹو البم ہے، جو احمد صاحب کی یادوں سے سجا ہے، جس میں ہم پورے ایک عہد کی تصویر دیکھ سکتے ہیں۔
(تبصرہ نگار: اقبال خورشید)
مصنف: آزاد بن حیدر
ناشر: فضلی سنز،صفحات:1152،قیمت:1500روپے
دنیا میں لاتعداد ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جنہوں نے کسی خطے یا ملک کی آزادی کے لیے جدوجہد کی اور اس میں کام یابی حاصل کی، مگر آل انڈیا مسلم لیگ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کا اضافہ کر دکھایا اور وہ بھی عالم اسلام کا (اپنے قیام کے وقت) سب سے بڑی ریاست۔ مسلم لیگ نے یہ کارنامہ جنگ کے ذریعے نہیں بل کہ قائداعظم محمد علی جناح کی زیرقیادت پُرامن، سیاسی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے انجام دیا۔ یہ تاریخ سے ہماری بے پروائی کا شاخسانہ ہے کہ عالمی تاریخ میں اپنی نوع کی ایک منفرد تحریک چلانے اور اسے فتح یابی کی منزل عطا کرنے والی جماعت کے بارے میں کوئی مبسوط اور منضبط کتاب سامنے نہ آسکی۔
اس ضرورت کو تحریکِ پاکستان کے کارکن، معروف دانش ور، محقق اور قانون داں آزاد بن حیدر نے پیرانہ سالی اور گوناگوں مصروفیات کے باوجود نے پوری کردیا ہے۔ ان کی ضخیم کتاب ''آل انڈیا مسلم لیگ، سرسید سے قائداؑعظم تک'' برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق کی نگہبان اور نمائندہ بن جانے والی جماعت کی پوری تاریخ بیان کرتی ہے، کیوں کہ مسلم لیگ نے سرسید احمد خان کے پیش کردہ دو قومی نظریے اور مسلمانوں کو کانگریس سے الگ رہنے کے مشورے نے مسلم لیگ کے قیام کی راہ ہموار کی، چناں چہ مصنف نے اس جماعت کی تاریخ کا آغاز سرسید سے کیا ہے۔ یہ کتاب صرف آل انڈیا مسلم لیگ کی تاریخ نہیں، بل کہ اس میں تحریک پاکستان کے اہم واقعات اور اس تحریک سے متعلق اہم شخصیات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ یوں یہ تحقیقی کاوش تحریک پاکستان کی بابت ایک مفصل دستاویز بھی بن گئی ہے۔
آزاد بن حیدر ایک کثیر الجہت شخصیت ہیں۔ بہ طور قانون داں زندگی کرنے کے ساتھ وہ سیاست میں بھی متحرک رہے ہیں اور تصنیف وتالیف کا کام بھی تسلسل کے ساتھ انجام دیتے رہے ہیں۔ بہ طور مصنف ومحقق تحریک پاکستان ان کا خاص موضوع رہی ہے اور زیرتبصرہ کتاب بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ عرق ریزی اور برسوں کی محنت کے بعد تصنیف کی جانے والی یہ کتاب تاریخ خاص طور پر تاریخِ پاکستان سے شغف رکھنے والوں اور طلبہ کے لیے ایک نادر تحفہ ہے۔
''سیپ'' (ادبی جریدہ)
مدیر: نسیم درانی
قیمت:150،صفحات:326 روپے،ملنے کا پتا:418/18، فیڈرل بی ایریا، کراچی
اردو کے ادبی جراید کا تذکرہ ہو، اور ''سیپ'' کا ذکر نہ آئے، بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔ ''سیپ'' کے اثرات کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب تک اس رسالے پر پی ایچ ڈی کی سطح کا ایک اور ایم اے کے دس مقالات لکھے جاچکے ہیں۔
دو نسلوں کے ادبی ذوق کی آب یاری کرنے والے اس جریدے کو پچاس برس مکمل ہوچکے ہیں۔ اِس کی گولڈن جوبلی تقریب گذشتہ دنوں آرٹس کونسل میں منعقد ہوئی۔ پاک و ہند کے اس معتبر جریدے کی کام یابی کا سہرا اس کے مدیر، نسیم درانی کے سر ہے، جنھوں 1963 میں اس کا آغاز کیا، اور اپنی شب و روز محنت اُسے ایک اہم مقام پر لا کھڑا کیا۔ موجودہ عہد کے کئی بڑے تخلیق کاروں نے اپنے سفر کا آغاز ''سیپ'' ہی سے کیا۔
''سیپ'' کا تازہ شمارہ کچھ ہی عرصے قبل شایع ہوا ہے۔ یہ اِس کا 82 واں پرچہ ہے۔ اس بار بھی سرورق معروف مصور، جمیل نقش کے فن پارے سے سجا ہے۔ اشتہارات کی تعداد حوصلہ افزا ہے، جن کے طفیل جریدے کی زندگی کے امکانات روشن نظر آتے ہیں۔
شمارے میں چوبیس افسانہ شامل ہیں۔ رشید امجد اور سمیع آہوجا کے ساتھ نئے لکھنے والوں کو بھی جگہ دی گئی ہے۔ مضمون نگاروں میں بھی اہم نام شامل ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنے مقالے میں غالب کو امن اور محبت کا شاعر قرار دیا ہے۔ نظموں اور غزلوں کا حصہ متوازن ہے۔ معروف شاعر اور صحافی، شفیق عقیل سے متعلق تین مضامین شامل ہیں۔ نسیم درانی کے قلم سے نکلی تحریر ''بھائی جان'' پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
تاریخی اہمیت کے حامل اِس پرچے کی مسلسل اشاعت خوش آیند ہے۔ امید ہے کہ یہ سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔ تین سو سے زاید صفحات پر مشتمل اِس پرچے کی قیمت انتہائی مناسب ہے۔
''یوگا اور کمر درد''
مصنف: بیجو لکشمی ہوتا
مترجم: انیس احمد،صفحات:96،قیمت:200 روپے،ناشر: فرید پبلشرز، کراچی
جیسے کہ نام سے ظاہر ہے ، یہ کتاب یوگا کے اُن آسنوں سے متعلق ہے، جس سے کمردرد کی شکایت میں افاقہ ہوسکتا ہے۔ اسے ترجمہ کرنے کا ذمہ انیس احمد نے نبھایا ہے، جو اس سے قبل ریکی، یوگا اور تانترا پر کتب لکھ چکے ہیں۔ مذکورہ کتابیں بھی فرید پبلشرز ہی نے شایع کی تھیں۔ ان موضوعات کی اہمیت سے انکار نہیں، قارئین ان میں دل چسپی لیتے ہیں، مگر یہ بھی سچ ہے کہ ان موضوعات پر معیاری کتابیں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔
''یوگا اور کمر درد'' ہندوستانی یوگا ایکسپرٹ، بیجو لکشمی ہوتی کی کتاب کا ترجمہ ہے۔ ترجمے میں بہتری کا امکان موجود ہے۔ کتاب ڈسٹ کور کے شایع ہوئی ہے۔ باتصویری ہے، یعنی ہر آسن کی تصویر دی ہوئی ہے۔ اگلے ایڈیشن میں ان اسکیچز پر توجہ دینے اور انھیں بہتر بنانے کی ضرورت ہوگی۔ کمر درد کے شکار افراد کے لیے یہ اچھی کتاب ثابت ہوسکتی ہے۔ فرید پبلشرز کے روح رواں، فرید حسین ایک کتاب دوست انسان ہیں۔ امید ہے، مستقبل وہ اِس طرز کی کتابیں زیادہ بہتر اور موثر انداز میں شایع کریں گے۔
دس بڑے نظم نگار (تجزیاتی مضامین)
تدوین و ترتیب: ڈاکٹر اختر ہاشمی
صفحات:320
قیمت: 400
ناشر:رنگ ادب، کراچی
ڈاکٹر اختر ہاشمی ایک ہمہ جہت تخلیق کار ہیں۔ وہ کہنہ مشق شاعر اور ایک سنجیدہ افسانہ نگار کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ تحقیق و تنقید بھی ان کی شناخت کے مضبوط حوالے ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب ڈاکٹر صاحب کے تجزیاتی مضامین پر مشتمل ہے، جس میں اُنھوں نے اپنے نقطۂ نگاہ سے اردو کے دس بڑے نظم نگاروں کا تعین کیا ہے۔ منتخب کردہ شعرا کی فہرست علامہ اقبال، جوش ملیح آبادی، ن م راشد، فیض احمد فیض، میرا جی، احمد ندیم قاسمی، مجید امجد، حبیب جون پوری، فضا اعظمی اور امجد اسلام امجد پر مشتمل ہے۔ ترتیب یوں ہے کہ ہر شاعر کی بابت ایک بھرپور مضمون کتاب میں شامل ہے، پھر شعرا کی منتخب نظمیں دی گئی ہیں، جن کے طفیل قاری زیادہ گہرائی سے ان شعرا کے کلام کا جائزہ لے سکتا ہے۔
یوں تو اِس نوع کے انتخابات کا چلن عام ہے، البتہ اگر یہ انتخاب ایک سینئر قلم کار کی جانب سے ہو، تو اُسے اہمیت دی جاتی ہے۔ اس نقطۂ نگاہ سے یہ کتاب بھی قابل توجہ ہے۔ ہاں، جس طرح بڑے شعرا کے تعین کے معاملے میں دیگر انتخابات پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں، اِس کتاب پر بھی اٹھائے جاسکتے ہیں۔
کتاب کی طباعت اچھی ہے، کاغذ معیاری ہے، البتہ سرورق میں بہتری کا امکان موجود ہے۔ نظم کے قارئین کے لیے یہ ایک اچھی کتاب ہے۔
''شفائی توانائی''
مصنف: ڈاکٹر سید شہزاد علی نجمی
صفحات:128
قیمت:200 روپے
ناشر:الصحت فائونڈیشن، کراچی
زیر تبصرہ کتاب ایک خاص نوع کی ہیلنگ تکنیک کے گرد گھومتی ہے، جسے مصنف نے نجمی شفائی توانائی قرار دیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا اسلامی روحانی سائنسی طریقۂ علاج ہے۔ کتاب میں مصنف کی عظیمی سلسلے کے روح رواں، خواجہ شمس الدین عظیمی کے ساتھ تصویر ہے، جس کا کیپشن صاحب کتاب کو اُن کا مرید قرار دیتا ہے۔ واضح رہے کہ شمس الدین عظیمی بھی رنگ و نور اور مراقبے سمیت مختلف انواع کے روحانی طرز علاج سے متعلق جامع اور ضخیم کتاب لکھ چکے ہیں۔ اور اُن تکنیکوں کو بھی''اسلامی، روحانی اور سائنسی طریقۂ علاج'' ہی قرار دیا جاتا ہے۔
خیر، کتاب میں مصنف نے اس توانائی اور تیکنیک کی وضاحت کی ہے، اور اسے، اپنے ظاہر میں ریکی اور سمدا ہیلنگ سے مشابہ ہونے کے باوجود، خدا پر کامل یقین کے باعث مختلف قرار دیا ہے۔ کیس اسٹڈیز بھی کتاب میں شامل ہیں۔ جنات اور برموداٹرائی اینگل سے متعلق ابواب ہیں۔ یہ تعارفی کتاب ہے، عملی ہدایت نامہ نہیں۔ مصنف نے اپنانمبر دے رکھا ہے۔ اگر کوئی یہ تکنیک سیکھنا چاہیے، تو ان سے رابطہ کرے۔ کتاب غیر مجلد ہے۔ اشاعتی نقطۂ نگاہ سے بہتری کا امکان موجود ہے۔
''ابھی کچھ دیر باقی ہے'' (افسانے)تبصرہ
افسانہ نگار: اخلاق احمد
صفحات:159،قیمت:250 روپے،ناشر: امیج میکرز، کراچی
افسانہ اردو کی اہم ترین صنف ہے۔ ناقدین ادب کے مطابق گذشتہ پچاس برس میں اس صنف نے خاصی ترقی کی۔ افسانہ تجربات کی بھٹی سے گزر کر نئے سانچوں میں ڈھلا، اور تبدیلیوں کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔
زیر تبصرہ کتاب بھی ایک افسانوی مجموعہ ہے، جس کا عنوان ہے؛ ''ابھی کچھ دیر باقی ہے''، اور افسانہ نگار ہیں، اخلاق احمد۔
اخلاق احمد کا شمار اردو کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ متاثر کن کہانی بیان کرنے کا ہنر بہ خوبی جانتے ہیں۔ صحافت کا بھی وسیع تجربے رکھتے ہیں۔ یہ اُن کا چوتھا مجموعہ ہے۔ اِس سے پہلے اُن کے تین مجموعے ''خیال زنجیر''، ''خواب ساتھ رہنے دو'' اور ''ہم کہ خود تماشائی'' شایع ہو کر ناقدین سے پزیرائی حاصل کر چکے ہیں۔ دوسرے مجموعے میں شامل افسانے ''بائو وارث کی گم شدگی'' کو اُن کی اہم ترین تخلیق گردانا جاتا ہے۔
اخلاق احمد کہانی کے ابلاغ پر یقین رکھنے والے قبیلے سے ہیں۔ وہ انوکھے خیال کو کہانی کی بنیادی شرط گردانتے ہیں۔ ان کے ہاں افسانوں کے عنوانات بہت دل چسپ ہوتے ہیں، مثلاً ''دھند کا مسافر''، ''تھینک یو مولوی صاحب'' اور ''ایک عیار افسانے کی کہانی۔''
اس کتاب میں نو افسانے شامل ہیں۔ عنوانات یہاں بھی خوب ہیں؛ ''بنجر، بے رنگ زندگی والا''، ''رئیس کیوں چپ ہے'' اور ''کہانی ایک کردار کی'' اِس کی مثالیں ہیں۔ اس مجموعے میں ہمیں بیانیہ افسانوں کے تمام لوازمات ملتے ہیں۔ تہ داری ہے۔ زبان رواں اور سادہ ہے۔ خیال پیچیدگیوں اور ابہام سے پاک ہے۔ کہانی معاشرے کے گرد گھومتی ہے۔ کردار زمین سے جڑے ہوئے ہیں۔ اِس تہ دار بیانیے میں ہمیں دل چسپ تجربات ملتے ہیں۔ پہلی سطر ہی توجہ باندھ لیتی ہے۔ اور یہی عوامل اُن کی تخلیقات کو مطالعے کی مضبوط جہت عطا کرتے ہیں۔مجموعی طور پر یہ ایک اہم کتاب ہے، جس کا مطالعہ افسانے پڑھنے والوں کے لیے ضروری ہے۔
وہ آدمی (ڈرامے)
مصنف: جسٹس (ر) حاذق الخیری
ناشر: شہرزاد
صفحات:128
قیمت:280
جسٹس (ر) حاذق الخیری قانون جیسے ''خشک'' سمجھے جانے والے پیشے اور منصفی کے اعصاب شکن منصب پر فائز رہنے کے باوجود ادب تخلیق کرنے کا کارمشکل بھی انجام دے رہے ہیں۔
یہ ذاتی ذوق اور شوق کے ساتھ ان کا خاندانی پس منظر بھی ہے کہ انھوں نے قانونی موشگافیوں، دلائل اور بحثوں کے پتھریلے ماحول میں رہتے ہوئے بھی تخلیق کا سفر جاری رکھا۔ زیرتبصرہ کتاب جسٹس (ر) حاذق الخیری کے تین ڈراموں کا مجموعہ ہے۔ بہ طور ادیب اور ڈراما نگار حاذق الخیری صاحب نے قانون سے اپنی آگاہی کو ان میں سے دو ڈراموں ''دوسری کھائی'' اور ''وہ آدمی'' جس کا نام کتاب کے عنوان بنا ہے، کی بنت میں بڑی خوبی سے برتا ہے۔
یہ دونوں ڈرامے طب کے حوالے سے قانونی سوالات اور پیچیدگیوں کا احاطہ کیے ہوئے ہیں اور سائنس فکشن کے ذیل میں آتے ہیں۔ ''وہ آدمی'' کے پلاٹ کو ملا واحدی نے ''بالکل انوکھا، نرالا اور لاجواب'' قرار دیا تھا۔ کتاب میں شامل تیسرا ڈراما ''بندریا کی گود'' ایک الگ نوعیت کا ڈراما ہے۔ یہ مختصر ڈرامے اپنے پلاٹ اور اپنے تخلیق کار کے خوب صورت اسلوب کے باعث شروع سے آخر تک قارئین کی دل چسپی برقرار رکھتے ہیں۔ کتاب کا سرورق خوب صورت اور طباعت عمدہ ہے۔
(تبصرہ نگار: م۔ع۔ج)
''چہرہ چہرہ کہانیاں'' (مضامین)
مصنف: احمد زین الدین
صفحات:224،قیمت:350 روپے،ناشر:زین پبلی کیشنز، کراچی
ادب معاشرے سے جنم لیتا ہے، اور معاشرہ انسانوں سے۔ اس نقطۂ نگاہ سے ہر انسان، ہر چہرہ ایک کہانی ہے۔
معروف افسانہ نگار اور ادبی جریدے سہ ماہی روشنائی کے مدیر، احمد زین الدین کی تازہ کتاب بھی ایسی ہی کہانیاں بیان کرتی ہے۔ کتاب کا عنوان ہے؛ ''چہرہ چہرہ کہانیاں۔''
دیباچے میں انور سدید نے احمد زین الدین کو اردو کا پہلا غیر اعلانیہ نقاد قرار دیا ہے۔ خواجہ منظر حسن منظر، شارق بلیاوی اور ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کی احمد زین الدین کے فن سے متعلق آرا کتاب میں شامل ہیں۔ صاحبِ کتاب نے اپنے مضمون میں مطالعے کے گھٹتے رجحان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے؛ انھیں نہ تو صلے کی تمنا ہے، نہ تحسین کی خواہش۔ بس جن شخصیات پر جو کچھ لکھا، اُنھیں محفوظ کرنے کی آرزو تھی، جو اِس کتاب کی صورت پوری ہوئی۔
کتاب میں اقبال عظیم، افسر ماہ پوری، ڈاکٹر حنیف فوق، مشفق خواجہ، شہزاد منظر، سحر انصاری اور صبا اکرام سمیت تیس شخصیات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ کچھ مضامین طویل ہیں، چند مختصر۔ تمام ہی پر خاکوں کا رنگ غالب ہے۔ کتاب کا سرورق بھی اُن مضامین کو ''خاکہ نما مضامین'' قرار دیتا ہے۔صاحب کتاب کا طرز تحریر متوازن اور متاثر کن ہے۔ نثر جان دار اور جمالیاتی تقاضوں پر پوری اترتی ہے۔ افسانہ نگار ہیں، تو اِن مضامین میں افسانوی آہنگ بھی سنائی دیتا ہے، جو مطالعے کے عنصر کو مہمیز کرتا ہے۔ ڈسٹ کور کے ساتھ شایع والی یہ کتاب، ایک معنوں میں، خوب صورت فوٹو البم ہے، جو احمد صاحب کی یادوں سے سجا ہے، جس میں ہم پورے ایک عہد کی تصویر دیکھ سکتے ہیں۔
(تبصرہ نگار: اقبال خورشید)