اولمپک میڈل پاکستان کا 29سالہ انتظار ختم نہ ہو سکا
ارشد ندیم نوجوانوں کو ایتھلیٹکس کی جانب راغب کرنے کا ذریعہ بن گئے۔
SAN FRANCISCO:
ارشد ندیم کی ناکامی سے پاکستان کا اولمپک میڈل کیلیے 29سالہ انتظار ختم نہ ہو سکا جب کہ آخری مرتبہ کوئی تمغہ بارسلونا گیمز 1992 میں ہاتھ آیا تھا جب شہباز احمد کی زیرقیادت ہاکی ٹیم برانز میڈل حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
ارشد ندیم پاکستان کے پہلے ایتھلیٹ ہیں جنھوں نے اولمپکس کے لیے براہ راست کوالیفائی کرکے تاریخ رقم کی،وہ ٹریک اینڈ فیلڈ کے فائنل مقابلوں تک رسائی کرنے والی پہلے پاکستانی بھی بنے، انھوں نے نیپال کے شہر کھٹمنڈو میں ہونے والے ساؤتھ ایشین گیمز میں 86 اعشاریہ 29 میٹرز دور جیولین پھینک کر نہ صرف ان مقابلوں کا نیا ریکارڈ قائم کیا بلکہ اولمپکس کے لیے بھی براہ راست کوالیفائی کیا تھا،اس کیلیے فاصلہ 85 میٹرز مقرر ہے۔
ارشد اگر ساؤتھ ایشن گیمز کی کارکردگی دہرانے میں کامیاب ہوجاتے تب بھی اولمپکس میڈل حاصل کرسکتے تھے۔البتہ خالی ہاتھ رہنے کے باوجود بھی وہ نوجوانوں کو ایتھلیٹکس کی جانب راغب کرنے کا ذریعہ بن گئے،ٹوکیو میں ارشد کی غیرمعمولی کارکردگی کو پورے ملک میں سراہا گیا، فائنل راؤنڈ میں ان کا مقابلہ بھرپور توجہ کا مرکز بنا، عوام کی بڑی تعداد دعائیں کرتی نظر آئی، نوجوان ایتھلیٹکس اور جیولین تھرو کے قوانین کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے،مستقبل میں ایتھلیٹکس کی مقبولیت کیلیے اسے اہم پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔
خاتون ایتھلیٹ صاحبِ اسریٰ نے برطانوی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ارشد ندیم دیگر ایتھلیٹس کے لیے ایک مثال ہیں، ان کی سب سے بڑی خوبی عاجزی ہے، بین الاقوامی سطح پر کامیابیوں کے باوجود ارشد میں غرور نام کی کوئی چیز موجود نہیں، وہ واپڈا کے کیمپ میں ٹریننگ کر رہے ہوتے ہیں تو اپنے تمام ساتھیوں کو تکنیکی باتیں سمجھاتے ہوئے حوصلہ افزائی کرتے ہیں، ہم تمام ایتھلیٹس ان کی کارکردگی پر فخر محسوس کرتے ہیں اور اس سے سب میں بے پناہ جوش پیدا ہوا ہے۔
ارشد ندیم کی ناکامی سے پاکستان کا اولمپک میڈل کیلیے 29سالہ انتظار ختم نہ ہو سکا جب کہ آخری مرتبہ کوئی تمغہ بارسلونا گیمز 1992 میں ہاتھ آیا تھا جب شہباز احمد کی زیرقیادت ہاکی ٹیم برانز میڈل حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
ارشد ندیم پاکستان کے پہلے ایتھلیٹ ہیں جنھوں نے اولمپکس کے لیے براہ راست کوالیفائی کرکے تاریخ رقم کی،وہ ٹریک اینڈ فیلڈ کے فائنل مقابلوں تک رسائی کرنے والی پہلے پاکستانی بھی بنے، انھوں نے نیپال کے شہر کھٹمنڈو میں ہونے والے ساؤتھ ایشین گیمز میں 86 اعشاریہ 29 میٹرز دور جیولین پھینک کر نہ صرف ان مقابلوں کا نیا ریکارڈ قائم کیا بلکہ اولمپکس کے لیے بھی براہ راست کوالیفائی کیا تھا،اس کیلیے فاصلہ 85 میٹرز مقرر ہے۔
ارشد اگر ساؤتھ ایشن گیمز کی کارکردگی دہرانے میں کامیاب ہوجاتے تب بھی اولمپکس میڈل حاصل کرسکتے تھے۔البتہ خالی ہاتھ رہنے کے باوجود بھی وہ نوجوانوں کو ایتھلیٹکس کی جانب راغب کرنے کا ذریعہ بن گئے،ٹوکیو میں ارشد کی غیرمعمولی کارکردگی کو پورے ملک میں سراہا گیا، فائنل راؤنڈ میں ان کا مقابلہ بھرپور توجہ کا مرکز بنا، عوام کی بڑی تعداد دعائیں کرتی نظر آئی، نوجوان ایتھلیٹکس اور جیولین تھرو کے قوانین کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے،مستقبل میں ایتھلیٹکس کی مقبولیت کیلیے اسے اہم پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔
خاتون ایتھلیٹ صاحبِ اسریٰ نے برطانوی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ارشد ندیم دیگر ایتھلیٹس کے لیے ایک مثال ہیں، ان کی سب سے بڑی خوبی عاجزی ہے، بین الاقوامی سطح پر کامیابیوں کے باوجود ارشد میں غرور نام کی کوئی چیز موجود نہیں، وہ واپڈا کے کیمپ میں ٹریننگ کر رہے ہوتے ہیں تو اپنے تمام ساتھیوں کو تکنیکی باتیں سمجھاتے ہوئے حوصلہ افزائی کرتے ہیں، ہم تمام ایتھلیٹس ان کی کارکردگی پر فخر محسوس کرتے ہیں اور اس سے سب میں بے پناہ جوش پیدا ہوا ہے۔