سیاسی استقامت کا نشان ’’نذیر عباسی‘‘

آمر کے حکم پر نذیر عباسی کو تشدد کا نشانہ بنا کر 9 اگست 83 کو موت کی نیند سلا کر شاید مطمئن ہوجاتا ہے۔

Warza10@hotmail.com

میرے اس گائوں کے اندھیرے سے

جہل و افلاس کے گھروندے سے

ایک بچہ نذیر جس کا نام

لے کے نکلا وہ ذہن تشنہ کام

آگہی کی تلاش تھی اس کو

روشنی کی تلاش تھی اس کو

کاپیاں اور قلم لیے نکلا

آرزو کا علم لیے نکلا

سوچتا تھا وہ ذہن تشنہ کام

کیا یہی ہے حیات کا انجام

یہ امارت یہ مفلسی کیا ہے


رسم تخصیص آگہی کیا ہے

معروف ترقی پسند شاعر حسن حمیدی نے اس سماج کی ابتری میں نذیر عباسی کے احساس اور جذبوں کی ترجمانی کر کے د راصل اس نا ہموار اور بالا دست طاقتور سماج کی اس گھن زدہ سوچ کو عوام کے سامنے لائے ہیں جو اب تک عوام کے جمہوری اور سیاسی حقوق کو دبا کر بیٹھے ہیں،اس جبر کے دائرے کو توڑنے کی جو ابتدا کامریڈ حسن ناصر نے کی تھی، اس کے تتبع میں عوامی حقوق کی خاطر آمر ضیا الحق کے تشدد کو دھتکارنیوالے نذیر عباسی نے تمام تر آلام و مصائب کے باوجود ایک آمر کے سامنے کمیونسٹ نظریئے کی استقامت کو بر قرار رکھا اور اس کے بہیمانہ تشدد کو نیچا کرکے موت کو گلے لگانا بہتر جانا۔

یہ ہی اس ملک کی داستان غم والم ہے جو اپنی پیدائش کے بہتر سالوں میں بھی آمرانہ مزاج کے تحت آئین کی پاسداری،عوامی جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی کا گلہ گھوٹ کر قومی سلامتی کا ڈھول پیٹے جا رہی ہے،اذہان کو ''ہائبرڈ بیانیے''کی آڑ میں سرمائے کی جدید اصطلاحات میں الجھا کر طاقت کو ہی سماج کا مقدر بنانے کی ناکام کوشش جاری ہے،جو کہ جانبر ہونے کی تمنا میں اپنی رہی سہی عزت بھی گنوانے کی طرف بڑھ رہی ہے۔

یہ نہ کوئی ردولیوں کا کسی کی موت پرنوحہ ہے اور نہ ہی کسی طور مایوسی کا ماتم ...ہاں اگر کوئی بات ہے تو صرف اتنی کہ جورو ستم کی یہ قہر آلود طویل رات ایسے ایسے ہیرے اور جواہر نگل گئی جنہوں نے اپنی جاں کی پرواہ کیے بغیر اس دیس کے جمہور کی آواز کو طاق نسیاں سے نکال کر حوصلہ اور استقامت دینے کی کوشش کی اور اظہار کی آزادی کو آمرانہ پنجوں سے نکالنے کا شعور دیا۔

جی ہاں اس دیس کی تاریخ میں جمہوریت اور عوام کی رائے سر بلند ہونے کو سب سے پہلے جنرل ایوب خان نے اپنے بوٹوں تلے روند کر اپنے پیشرو کو پیغام دیا کہ اگر آمرانہ خوف اور قہر اس دیس میں نہ پھیلائو گے تو نہ اس دیس کو لوٹ سکو گے اور نہ اس پر قبضہ کر سکو گے اور نہ ہی عوام کو غلام بنا پائو گے...ان آئین شکن آمروں نے اپنے پیشرو کو بیانیہ دیا کہ اس ملک کا مقدر جمہوریت کے مقابلے میں دولت اور طاقت کو بنا کے رکھا جائے تاکہ کسی طور بھی یہ سماج جمہوری طریقے سے انصاف حاصل نہ کر سکے۔

یہی وجہ رہی کہ اقتدار میں رہنے والے آمروں اور آئین شکن آمروں کے علاوہ پس پردہ حکمرانی کرنیوالوں کے لیے ہر قہر اور ظلم قانون اور بوٹ کی دھمک بنا دیا گیا۔ تاریخ کے بہائو کو روکنا آمروں کے بس میں نہ رکھا گیا اور نہ یہ عوام کی جمہوری آزادی کو ڈسنے والے تاریخ کا شعور جان سکتے ہیں،جو اپنے ہی بہی خواہوں اور ہمدردوں کا حق کھا جائیں تو وہ بھلا عوام کو اس کا جمہوری حق کس طرح دیں گے،یہ سوال مسلسل تاریخ میں موجود ہے جس کا کوئی جواب آج تک نہیں دیا گیا۔

ان آمروں کے ہاں قانون اور انصاف گھر کی لونڈی بنا کر رکھ دیا گیا ہے،جس کی واضح مثال چھ آمروں کے اقتدار کا عرصہ صرف چھیالس برس پر محیط ہے، ان حقائق کی روشنی میں جمہوریت اور عوام کے حقوق مانگنے والوں کو ملک کا غدار گردان کر تہہ تیغ نہ کیا جائے گا تو بھلا کیا کریں گے یہ طاقت کے سورما،مگر اس تمام آمرانہ جبر و ستم کے باوجود پاکستان کی سیاسی و جمہوری تاریخ ان سرفروشوں کے خون سے آج بھی سرخرو ہے کہ جنہوں نے عوام کی حالت زار تبدیل کرنے اور ان کی زندگیوں میں خوشحالی لانے کی جدوجہد کی اور اپنے عوام دوست نظریات کے دوام کی خاطر موت کو گلے لگانے کو ترجیح دی۔

دیس کی جمہوری جدوجہد اور عوامی حقوق کی جنگ میں ریاست دکن کے والی کامریڈ حسن ناصر نے جب کمیونسٹ نظریئے کی سچائی تحت دیس میں جمہوریت اور عوامی حقوق کی آواز اٹھائی توعوامی آزادی مانگنے اور آئین کی بالا دستی کے خاطر اور عوام میں سیاسی شعور دینے کی پاداش میں وہی حسن ناصر سب سے پہلے دیس کی جمہوریت پر شب خون مارنیوالے آمر کے تشدد اور بندی خانوں کے ظلم و ستم کا شکار ہوا،مگر جمہوری حقوق مانگنے والوں کے قافلہ نے اپنے سیاسی اور نظریاتی شعور کی بنا پر اپنا سفر جاری رکھا اور آخر کار اس کی کمان ٹنڈو الہیار کے چھولے بیچ کر اعلی تعلیم حاصل کرنیوالے نذیر عباسی نے سنبھالی۔

سیاسی جدوجہد کے چراغ نذیر عباسی میں طبقاتی سماج کی تنگ نظر سوچ نے شعور پیدا کیا اور کالج میں داخلے کے دوران ہی ووٹر لسٹوں میں نا انصافی کے خلاف وہ سراپا احتجاج ہوا اور ماروڑا تنظیم کے تحت تحریک کی بنیاد رکھی جو بندوق بردار نظام کے کرتا دھرتائوں کو نہ بھائی اور اس طرح عوامی شعور کے خوف سے نذیر عباسی کو سینٹرل جیل میں بند کیا گیا،طاقتور اشرافیہ سیاسی کارکن کے شعور کے آگے جب بند ذہنوں سے فیصلے کرتی ہے تو نذیر عباسی عوامی حقوق کی دھن میں عوام کو جمع کرتا ہوا کمیونسٹ نظریئے سے جڑ جاتا ہے جہاں اسے عوامی استقامت اور جرات کا علم دے کر عوامی تحریک منظم کرنے کا کام دیا جاتا ہے۔

سرکاری اہلکارنذیر عباسی ایسے چھلاوے کی بو سونگھتے پھرتے ہیں مگر کسی نہ کسی طرح سرفروشی اور عوامی حقوق کا یہ قافلہ رواں دواں رہتا ہے کہ آمر کے حکم پر نذیر عباسی کو تشدد کا نشانہ بنا کر 9 اگست 83 کو موت کی نیند سلا کر شاید مطمئن ہوجاتا ہے۔یہ طاقت کے خدا کیا جانیں کہ آج عوام میں جمہوری حاصلات کی تحریک اور شعور انھی شہدا کے لہو سے بیدار ہوکر طاقت کے ان تمام ظل الہی کو للکار رہا ہے جو دولت طاقت اور جھوٹ کے بیانیے سے عوام کی تقسیم کو ہی اپنی فتح سمجھ رہے ہیں،وہ بھول بیٹھے ہیں کہ نذیر عباسی کی عوامی جدوجہد کی تو ابھی ابتدا ہے ابھی تو طاقت سے لڑنے کے نجانے کتنے پڑائو جمہوریت کے سرفروشوں کے راستے میں آئیں گے اور عوام آخر کار سرخرو ہی ہوگی۔

منظور یہ تلخی یہ ستم ہم کو گوارہ

دم ہے تو مداوائے علم کرتے رہیں گے
Load Next Story