اب کارکردگی کی ضرورت ہی نہیں
اگر کوئی سمجھتا ہے کہ بہترین کارکردگی جیت کی ضمانت ہوگی ایسا ممکن نہیں۔
سیالکوٹ کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدوار کی کامیابی پر سیاسی حلقوں میں یہ سوال شدت سے اٹھ رہا ہے کہ محض چند ماہ میں وفاقی اور پنجاب حکومت نے ایسی کون سی کارکردگی کا مظاہرہ کر دکھایا ہے کہ کراچی میں اپنی قومی اسمبلی کی نشست ہار کر سیالکوٹ میں مسلم لیگ (ن) کی صوبائی اسمبلی کی آبائی نشست کس طرح جیتنے میں کامیاب ہوگئی۔
جس پی ٹی آئی کے امیدوار نے نوشہرہ میں وزیر دفاع کے حلقے میں مسلم لیگ (ن) سے شکست کھائی ہو اور ایک کے سوا ملک بھر کے تمام ضمنی انتخابات میں شکست کھائی ہو وہاں پی ٹی آئی کی وفاقی اور پنجاب حکومت نے کیا کارنامہ کر دکھایا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنے گڑھ میں سخت مقابلے کے بعد سات ہزار ووٹوں سے ہار گئی ہو۔
جون میں اپنے بجٹ کو عوامی قرار دینے والی وفاقی حکومت نے اپنے اعلان کے برعکس فوری طور پر پٹرول کی قیمت ریکارڈ طور پر بڑھا کر ملک میں مہنگائی بڑھائی ہو اور یوٹیلیٹی اسٹور پر خود آٹے، چینی اور گھی جیسی بنیادی اشیائے ضرورت میں سب سے زیادہ اضافہ کردیا ہو وہاں عوام نے حکومتوں کے کون سے کارناموں سے متاثر ہو کر حکومتی امیدوار کو جتوا دیا ہو، وہاں کی جیت پر حکومتی حلقے خوشی سے نہال ہوگئے ہوں، وہاں کیا ضمنی انتخابات کے حلقے کے تمام بنیادی مسائل حکومت نے حل کرا دیے ہوں کہ مہنگائی سے بے زار عوام نے حکومتی امیدوار کو 62657 ووٹ دے دیے ہوں مگر شاید ایسا نہیں ہے۔ وفاق اور پنجاب کی حکومتوں کی کارکردگی ملک بھر میں عیاں ہے۔ وہاں حکومتی وعدے اور کچھ دکھاوے کے کام ضرور ہوئے ہوں گے۔
کہا جاتا ہے کہ 2008 کے انتخابات کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اپنی بہترین صوبائی کارکردگی اور لاہور میں میٹرو بس سسٹم کم وقت اور کم بجٹ سے بنا کر پنجاب کے عوام کو متاثر کیا تھا جب کہ وفاق میں حکومت پیپلز پارٹی کی تھی۔ بعد میں 2013 میں جب وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی تو وزیر اعلیٰ پنجاب نے زیادہ اچھی کارکردگی دکھائی ہوگی تو پنجاب میں 2018 میں مسلم لیگ (ن) حکومت کیوں نہ بنا سکی تھی، اچھی کارکردگی اور لوڈ شیڈنگ ختم کرانے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے حکومت نہ بناسکنے سے ثابت ہوا کہ حکومت بنانے کے لیے صرف اچھی کارکردگی ہی کافی نہیں بلکہ اس کی دیگر اہم وجوہات بھی ہیں۔
کے پی کے میں 2013 کی پرویز خٹک کی حکومت اچھی کارکردگی تو کیا دکھاتی وہ پشاور میں مقررہ مدت اور بجٹ میں بی آر ٹی بھی نہ بنا سکی تھی مگر اپنی ناقص کارکردگی کے باوجود پی ٹی آئی 2018 کے انتخابات میں کے پی کے میں دوبارہ اقتدار میں آنے کا ریکارڈ بنا چکی تھی جب کہ ماضی میں وہاں کوئی پارٹی دوبارہ اقتدار میں نہ آسکی تھی۔
کے پی میں وہاں کی پی ٹی آئی حکومت اور سندھ میں تیسری بار اقتدار حاصل کر لینے والی پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی کارکردگی کسی طرح بھی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے بہتر کیا برابر بھی نہیں تھی مگر ان دس سالوں میں بہترین کارکردگی دکھانے والی مسلم لیگ (ن) سب سے زیادہ اکثریت لے کر بھی تیسری بار حکومت نہ بنا سکی تھی مگر ناقص کارکردگی اور سنگین الزامات کے باوجود کے پی کے میں تحریک انصاف کی دوسری اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت بنوائی گئی۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں جاوید لطیف یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ'' چار ماہ پہلے تک تو پی ٹی آئی ملک بھر میں تمام ضمنی الیکشن ہار گئی تھی تو چار ماہ میں اس نے ایسا کون سا کارنامہ کر دکھایا کہ جس سے خوش ہو کر عوام انھیں ووٹ دے رہے ہیں۔ کیا انھوں نے مہنگائی کم اور بے روزگاری ختم کردی کہ وہ فرشتے ہوگئے ہیں اور لوگ انھیں ووٹ دے رہے ہیں۔''
بہترین کارکردگی پر ووٹ ملتے تو جماعت اسلامی بلدیاتی انتخابات کراچی میں نہ ہارتی حالانکہ ان کے سٹی ناظم نعمت اللہ خان کی کراچی میں کارکردگی بہترین تھی مگر وہ چند نشستیں ہی حاصل کرسکی تھی۔ اس طرح بلدیہ شکارپور کے آزاد منتخب ہونے والے چیئرمین عبدالستار شیخ کی کارکردگی بہترین تھی مگر تین جگہ سے لڑنے کے باوجود ایک جگہ سے دوبارہ کونسلر بھی منتخب نہ ہو سکے تھے یہ ملک میں کام کرنے والوں کی قدر ہے۔ ملک بھر میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔
جہاں ملک بھر کے ہر الیکشن میں کارکردگی دکھانے والے ہاتھ ہوں وہاں کارکردگی کی بنیاد پر دوبارہ منتخب ہونے کی خواہش ایک خواب ہی ہو سکتا ہے اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ بہترین کارکردگی جیت کی ضمانت ہوگی ایسا ممکن نہیں۔ اس کا ایک واضح ثبوت موجودہ حکومت کی تین سالہ کارکردگی ہے جسے اس کے مخالف نہیں مانتے مگر پھر بھی اب پی ٹی آئی کی کامیابی کے راستے کھل گئے ہیں۔