بانسریا بجائے جا

ساون کی رم جھم، سردیوں کی دھوپ، گرمیوں کی چھاؤں میں انھی کے گیت سرسرا رہے ہیں۔

خالق حقیقی نے کائنات کی بنیاد محبت کے مقدس جذبے پر رکھی، نور کی کرن ازل سے محبت کا روپ دھار کر زمین کے حسن کو دوبالا کر رہی ہے۔ ساون کی رم جھم، سردیوں کی دھوپ، گرمیوں کی چھاؤں میں انھی کے گیت سرسرا رہے ہیں۔

کبھی یہ سسی، پنوں کے صحرا میں خاک چھانتی ہے، کبھی سوہنی مہینوال بن کر دریا کی گہرائی، کبھی شیریں فرہاد کے روپ میں پتھروں کو موم بنا دیتی ہے، کبھی یہ سیف الملوک بنتی ہے، کبھی یوسف خان اور شہر بانو، کبھی جانی شاہ، شاہ مراد اور کبھی ہیر رانجھا بن کر بیلے میں پھول مہکاتی ہے۔

شیاطین اپنی تمام کوششوں کے باوجود اسے ختم نہ کرسکے اس کی سازشوں سے محبت کا جسم تو مر گیا مگر روح ابھی بھی زندہ ہے۔ ہیر رانجھا نور کی ایسی کرن ہے جس نے فلک سے اتر کر فرش کو منور کیا۔ ہیر رانجھا کا جسم تو مر گیا مگر اس کی روح آج محبت کا روپ دھار کر اس دار فانی میں موجود ہے۔ یہ کل زندہ تھی، آج زندہ ہے اور آنے والے کل بھی زندہ رہے گی۔

دریائے چناب کے کنارے آباد اس وقت اس گاؤں کا نام تخت ہزارہ تھا جہاں ذات کا جاٹ رانجھا سارا دن جنگل بیابانوں میں بانسری بجاتا ہوا گھومتا رہتا۔ ایک روز وہ دریائے چناب کے کنارے بانسری بجاتا اور آوارہ گردی کرتے ہوئے وہ ایک دن ہیر سیال کے گاؤں پہنچ گیا۔ ہیر سیال کا گاؤں دریائے چناب کے کنارے آباد تھا، گاؤں سے باہر ایک بڑا جنگل تھا جو چناب کے کنارے سو میل پر پھیلا ہوا تھا اسے مقامی زبان میں ''بیلا'' کہا جاتا۔ ہیر سیال کا باپ چوچک سیال گاؤں کا زمیندار تھا اس کے پاس پچاس کے قریب بھینسیں تھیں انھیں بیلا میں چرایا جاتا۔

رانجھا سفر کرتا تھک گیا اسے ایک پلنگ نظر آیا وہ اس پر لیٹ گیا، لیٹتے ہی نیند آگئی، رانجھے کی آنکھ ہیر سیال کی چھڑی سے کھل گئی۔ ہیر سیال ایک اجنبی کو اپنے پلنگ پر دیکھ کر آپے سے باہر ہوگئی۔ ہیر نے چھڑی زور سے ماری رانجھا تڑپ کر اٹھا تو اس کی پہلی نظر ہیر سیال پر پڑی۔ ایسا لگا کہ جھنگ کے بیلا میں چودہویں کا چاند سورج کی روشنی میں نکل آیا۔ رانجھا اپنی پلکیں جھپکنا ہی بھول گیا جس کے دوسری طرف ہیر سیال کا بھی یہی حال تھا۔ ہیر کا حسن پورے جھنگ میں مشہور تھا۔ رانجھا ہیر کو دیکھے جا رہا تھا اور نگاہیں جم سی گئی تھیں۔

ہیر بولی'' اجنبی مسافر کسی کی اجازت کے بغیر اس کی چیز استعمال نہیں کرتے میری اجازت کے بغیر میرے پلنگ پر سو گئے۔'' '' میں تھکا ہوا تھا اس لیے پلنگ دیکھ کر لیٹ گیا'' رانجھے نے جواب دیا۔ وہ ہیر کے پلنگ سے نیچے اتر گیا۔ ہیر اپنی سہیلیوں کے ساتھ گاؤں روانہ ہوئی۔ رانجھے نے بانسری ہونٹوں پر لگا کر بجانا شروع کی۔ بانسری کی آواز میں سحر تھا جس نے ہیر کے چلتے قدم روک دیے۔ دوسری سہیلیوں کے کہنے پر ہیر کو جانا پڑا۔


رانجھا ہیر کے پیچھے چل پڑا۔ وہ گھر میں داخل ہوئی، رانجھا ہیر کے دروازے کے سامنے ایک چبوترے پر دوزانوں ہوکر بیٹھ گیا۔ اس نے بانسری بجانا شروع کردی، ہیر گھر سے باہر آئی۔ رانجھے کی آنکھیں بند وہ بانسری بجا رہا تھا، ہیر بولی''! اے اجنبی مسافر ایسا لگتا ہے میں تجھ کو ازل سے جانتی ہوں اور ایسا لگتا ہے تو تخت ہزارہ کا رانجھا ہے۔ رانجھے نے ہیر کی آواز سنی تو بولا'' ہاں! میں تخت ہزارے کا رانجھا ہوں جو تمہاری محبت میں جنگل جنگل پھر رہا ہوں میں اپنی ہیر کا رانجھا ہوں'' ہیر گھر کے اندر چلی گئی جب کہ رانجھا واپس دوزانوں ہوکر بیٹھ گیا۔

شام کو ہیر کا باپ آیا تو اس نے رانجھے کو باہر چبوترے پر بیٹھا دیکھا وہ اس کو مانگنے والا سمجھا۔ ''شرم کر لڑکے اللہ نے تیرے ہاتھ پیر سلامت رکھے ہیں پھر بھی کام کرنے کی بجائے مانگ کر کھانا چاہتا ہے۔'' چوچک سیال نے رانجھے کو سر سے پاؤں تک دیکھا۔ رانجھا بولا ''چوہدری صاحب کام مانگنے آیا ہوں'' ہیر کے باپ چوچک سیال نے کچھ دیر سوچا اور پھر کہا ''آ جا گھر میں تجھے کام پر رکھ لیا'' یہ رانجھے کو ساتھ گھر لے آیا۔

ہیر اپنے باپ کے سامنے انجان بن گئی، چوچک سیال نے بیٹی سے کہا ''یہ نوکر ہے ہمارا، میں نے اس کو بھینسیں چرانے کے لیے رکھ لیا ہے'' بیٹی نے کہا'' ٹھیک ہے'' چوچک کا ایک چھوٹا بھائی بھی تھا، اس کو چاچا کیدو کہتے تھے۔ اس نے رانجھے کی طرف دیکھا اور بڑے بھائی سے بولا۔'' بھائی ! آپ نے یہ صحیح نہیں کیا، تم خربوزہ کی رکھوالی گیدڑ کو تھما رہے ہو ، تو بالکل بے غیرت ہو گیا ہے'' سارا دن بھنگ پی کر تیرا دماغ کام نہیں کرتا، ہیر کے باپ چوچک سیال نے غصے سے اپنے بھائی کو دیکھا۔

رانجھا بھینسوں کے پیچھے بیلے میں بانسری گھماتا رہتا، ہیر روزانہ سہیلیوں کا بہانہ کرکے بیلے کو نکلتی اور وہ اپنی سہیلیوں کو چھوڑ کر بیلے میں رانجھے کے پاس چلی جاتی۔ چوچک سیال نے ایک دن اپنی لڑکی کا پیچھا کیا اور دونوں کو اکٹھے بیٹھے دیکھ لیا، وہ ہیر پر غصہ میں ناراضگی کا اظہار کیا اس نے ہیر سیال کے بالوں کو جھٹکا دیا تو ہیر کی آہ نکل گئی۔ رانجھا بولا ''ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، یہ گناہ نہیں، چوہدری میں ذات کا رانجھا ہوں تخت ہزارہ کا رانجھا'' چوچک سیال نے رانجھے کی کسی بات پر توجہ نہ دی کوئی بات نہ سنی۔

چوچک سیال نے گھر جا کر چھوٹے بھائی سے کہا'' اب رانجھا گاؤں میں دکھائی نہ دے'' اس نے رانجھے کو اس قدر پٹائی لگوائی کہ وہ ادھ موا سا ہو گیا، اس کو گاؤں سے باہر پھینک دیا۔ دو ماہ بعد رانجھا صحیح حالت میں ہوا۔ چوچک سیال نے ہیر کا رشتہ رنگ پور کے خوبرو نوجوان سیدو کھیڑے سے کر دیا۔ رانجھے کو ہیر کی شادی کا معلوم ہوا، اس نے گاؤں آنے کی کوشش کی، اس کو کیدو کے آدمیوں نے روک دیا۔

ایک دن رانجھا ہندو جوگی گورکھ ناتھ کے آستانے پہنچ گیا۔ جوگی سے اس نے کہا'' مکتی چاہتا ہوں ''جوگی بولا'' بچہ تو گیانی ہو چکا ہے'' جوگی نے رانجھے کو کہا'' ظرف سے زیادہ کبھی مت مانگنا، بھوکا رہنا صرف زندہ رہنے کے لیے کھانا'' رانجھے کی بانسری لے لی۔

جوگی بن کر رانجھا سیدو کھیڑے کے گھر آیا، ہیر اور اس کی نند کو دیوار میں سوراخ کرکے ہیر اور رانجھا گاؤں سے شہر آئے۔ سیدو کھیڑے نے دونوں کو پکڑ لیا۔ سپاہیوں نے حاکم کے سامنے پیش کیا۔ حاکم نے رانجھے اور ہیر کے حق میں فیصلہ دیا اور دونوں کے نکاح کا انتظام کیا۔ دونوں کا نکاح ہوا لیکن رانجھے کو سیدو کھیڑے نے لڈو کھلائے، رانجھے نے ہیر کو مرتے دیکھا اسی وقت وہ بھی مر گیا۔
Load Next Story