محترمہ فاطمہ جناح اور ان کے شب و روز
محترمہ فاطمہ جناح نے سیاست میں بھرپور حصہ لیا انھوں نے مسلم خواتین کو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی ترغیب دی۔
عظیم رہنما محترمہ فاطمہ جناح کی ہمت، جوش و ولولہ تعمیر پاکستان کے لیے خدمات، ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی، جس طرح وہ قائد اعظم محمد علی جناح کی دست راست اور مشکل گھڑی میں قدم قدم پر ان کے ساتھ رہیں ہر آزمائش کی گھڑی میں ان کا حوصلہ بڑھاتی رہیں ایسے بہن بھائی کی مثال کم ہی کم نظر آتی ہے جنھوں نے اپنے وطن کی خاطر اپنا تن، دھن، من قربان کردیا، اس ایثار و قربانی کے عوض رہتی دنیا تک ان کا نام اور کام زندہ رہے گا۔
محترمہ فاطمہ جناح 31 جولائی 1893 کو کراچی میں پیدا ہوئیں، کم عمری ہی میں ان کے والد محترم اس دار فانی سے کوچ کرگئے لہٰذا بڑے بھائی قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی محبت اور شفقت کے ساتھ ان کی تعلیم و تربیت کا حق ادا کیا۔ محترمہ فاطمہ جناح نے میٹرک باندرا کونونٹ سے کیا اور اس کے بعد کلکتہ کے ''احمد ڈینٹل کالج'' میں داخلہ لے لیا۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد ممبئی میں اپنا ذاتی کلینک قائم کرلیا، لیکن زیادہ عرصے تک وہ کلینک نہیں چلا سکیں اور اپنی بھاوج مریم جناح کے انتقال کے بعد قائد اعظم کی دیکھ بھال، گھریلو اور دفتر ذمے داریوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے اپنے بھائی کے گھر منتقل ہوگئیں۔
محترمہ فاطمہ جناح نے سیاست میں بھرپور حصہ لیا انھوں نے مسلم خواتین کو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی ترغیب دی۔ 1940 میں محترمہ فاطمہ جناح قائد اعظم کے ساتھ مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں شریک ہوئیں۔ 23 مارچ بہ وقت ایک بجے دوپہر خواتین کی مرکزی کمیٹی کا پہلا اجلاس اسلامیہ کالج لاہور میں منعقد ہوا۔ صدارت کے فرائض بیگم مولانا محمد علی جوہر نے انجام دیے۔ اس اجلاس میں محترمہ فاطمہ جناح نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا۔
''میں بہت خوش ہوں کہ آج سے کچھ عرصہ قبل کوئی مسلم خاتون سیاسی میدان میں نظر نہیں آتی تھی لیکن آج مسلمان خواتین بھرپور انداز میں حصہ لے رہی ہیں۔ یہ وقت مسلمانوں کے لیے نازک ہے۔ قوم کو ہر فرد کی ضرورت ہے، آپ سے پرزور اپیل کرتی ہوں کہ آپ اپنی بہنوں کو مسلم لیگ میں شامل ہونے کی ترغیب دیں اور اپنے اندر اتحاد و یکجہتی پیدا کریں۔''
محترمہ فاطمہ جناح کے کردار و اخلاق اور سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے مجھے ایک کتاب کے چند اوراق یاد آگئے ہیں عنوان ہے ''محترمہ فاطمہ جناح کے شب و روز'' اس ڈائری نما کتاب کی مصنفہ ثریا خورشید صاحبہ ہیں اور وجہ اشاعت محترمہ نورالصباح بیگم ہیں۔ نورالصباح بیگم کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں ان کی تحریک پاکستان کے لیے بے مثال خدمات ہیں۔ اس کی تفصیل کسی اور دن سہی، اس وقت ہمارا موضوع سخن محترمہ فاطمہ جناح ہیں۔ثریا خورشید صاحبہ اپنے مضمون عرض حال میں لکھتی ہیں۔
''ماہ و سال اتنی جلدی گزر جاتے ہیں اس کا اندازہ ان واقعات سے ہوتا ہے جو اس عرصے میں رونما ہوتے رہتے ہیں، میری زندگی کے وہ چند ماہ یقینا میرے لیے یادگار ہیں، کیونکہ میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ مجھے قائد اعظم کی عظیم بہن کا اس طرح قرب حاصل ہوگا، خورشید جب بیرسٹری کی ڈگری لے کر انگلستان سے واپس آئیں تو محترمہ فاطمہ جناح نے انھیں محبت سے اپنے ساتھ رہنے پر اصرار کیا، میں یہ سن کر اپنی تقدیر پر پھولی نہ سمائی ، یہ میری عین خوش قسمتی تھی کہ مجھے اس ہستی کا اتنا قرب حاصل ہوگا۔''
نورالصباح بیگم نے کشمیر کے حسین شہر سری نگر کے حسن و جمال کی بہت خوبصورت منظر کشی کی ہے چونکہ ثریا خورشید صاحبہ اسی خطے کی رہنے والی تھیں اور وہ جنت نظیر کشمیر جو کئی عشرے گزر جانے کے باوجود متعصب، بددیانت اور مجسم نفرت کا پیکر ہندوستان کے ہاتھوں جل رہا ہے وہاں کے پھولوں کی مہک اور چٹکتی کلیوں میں بارود کی بو بس گئی ہے، کشمیر کے باسی قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں، لاشوں کا بیوپاری مسلسل نوجوان کشمیریوں کو شہید کرکے اپنی بربریت اور دہشت گردی کا ثبوت دے رہا ہے۔
وہ مزید لکھتی ہیں۔
''وہ کوہساروں کے حسین سلسلے، وہ بہتی اور شور مچاتی آبشاریں، وہ چاروں طرف بکھری ہوئی حسین پھولوں کی مہک، وہ ''ڈل'' جھیل کے دل آویز نظارے، وہ شکاروں پر سرسراتے ریشمی پردوں کے اندر مخملیں گدیلوں پر نئے نویلے جوڑوں کی سرگوشیاں اور پھر ہر شام کنارے پر کھڑی ہاؤس بوٹوں کی روشنیاں جب ''ڈل'' جھیل پر اثر انداز ہوتیں تو تہ آب ایک نیا جگمگاتا ہوا شہر نظر آتا، مانجھیوں کی تانیں لگاتا اور پھر چنار کے پروقار درخت اور پھر اس حسین دیس کی رہنے والی ثریا خورشید جہاں ہر طرف حسن ہی حسن سا بکھرا رہتا ہے۔''
ثریا خورشید صاحبہ کی یادوں کے البم سے پہلا ورق کچھ اس طرح درج ہے۔
5 جنوری 1956۔ آج صبح ہم لوگ بذریعہ تیزگام پہنچے، مس جناح کا ڈرائیور اسٹیشن پر ہمیں لینے آیا ہوا تھا، کراچی پہنچنے سے پہلے خورشید نے مجھ سے کہا کہ میں لمبی آستین والی قمیص پہنوں اور ہلکے رنگ کا کوئی سوٹ، مس جناح کو شوخ کپڑے پسند نہیں ہیں۔ گھر پہنچے تو ان کا بیرا کھڑا ہمارا انتظار کر رہا تھا، کہنے لگا مادر ملت ناشتے پر آپ کا انتظار کر رہی ہیں، فلیگ اسٹاف ہاؤس کو دیکھتے ہوئے میری آنکھیں عقیدت سے جھک گئیں، پتھروں سے بنی ہوئی یہ پرانی وضع کی کوٹھی عظیم معمار قوم کی تمام تر یادوں کے ساتھ میرے سامنے تھی۔
مس جناح ناشتے پر ہماری منتظر تھیں۔ میں نے انھیں چاندی کا پھول دان پیش کیا جو میں ان کے لیے تحفتاً لائی تھی اور ساتھ میں لڈو بھی۔ رات کے کھانے پر بھی وہ ملکی سیاست پر بات کرتی رہیں کھانے پر چندریگر صاحب اور چند سیاستدان بھی موجود تھے۔''
میں ڈائری میں لکھی یادوں کو مختصراً پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہوں تاکہ محترمہ فاطمہ جناح کے حوالے سے زیادہ معلومات فراہم کرسکوں۔ 16 جنوری 1956 کی یادوں کا خصوصی دن اس انداز میں منظر عام پر آیا ہے۔ آج باتوں ہی باتوں میں، میں نے کہہ دیا، عورت بہت کمزور ہے، دنیا میں کچھ نہیں کرسکتی، انھوں نے برجستہ کہا ''تاریخ پڑھو تو تم کو اندازہ ہوگا عورتیں مردوں کے کارہائے نمایاں میں ہمیشہ ان کی معاون رہی ہیں۔
عورت کمزور نہیں، یہ درست ہے کہ بعض باتوں میں فطرت، معاشرے اور حالات نے اسے کمزور بنا دیا ہے، اسے مرد سے زیادہ قربانی دینی، کردار کی بلندی، صلاحیت اور ان وسعتوں میں جانا پڑتا ہے جہاں مرد کی پہنچ کبھی نہیں ہوسکتی، میں تو ہمیشہ یہی کہتی ہوں کہ ہمیں اچھی ماؤں کی ضرورت ہے، اچھی مائیں ہمارا بڑا قیمتی سرمایہ ہیں۔
24اپریل 1956 کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح اپنے ایک بنگالی بیرے کی بہت مداح تھیں وہ کام بھی اچھا کرتا تھا اور اپنے سوتیلے بھائی کو پڑھا بھی رہا تھا لیکن اس کے بھائی نے نئے کپڑوں کی فرمائش پوری نہ ہونے پر اپنے بڑے بھائی پر ہاتھ اٹھایا اور آپے سے باہر ہو گیا۔
ثریا خورشید صاحبہ نے اس موقع پر اس کی احسان فراموشی پر دکھ کا اظہار کیا جواب میں محترمہ فاطمہ جناح بولیں ''یہ ساری قوم ہی احسان فراموش ہے اس نے قاید اعظم کے ساتھ وفاداری نہ کی ان کی بیماری میں انھیں اچھی میڈیکل ایڈ نہ پہنچا سکے اور مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ قائد اعظم کو بھی اس بات کا علم تھا کہ ان کی بیماری کے دوران حکومت وقت کے علمبرداروں نے ان سے اچھا برتاؤ نہیں کیا۔ ان کے انتقال کے بعد ہوائی اڈے پر جو ایمبولینس آئی وہ بھی ٹھیک نہیں تھی۔''
آخری صفحات پر 1964 کے انتخابات کا ذکر بھی ملتا ہے جب انھوں نے سیالکوٹ کے جلسہ عام میں تقریر کی، میں نے ان سے کہا ''محترمہ! قوم اور ملک نے آپ کی ایسے حمایت کی ہے کہ لوگوں کا ڈر ختم ہو گیا۔ ''کہنے لگیں ''لوگ میرے ساتھ ضرور ہیں لیکن حکمران پارٹی کے ساتھ طاقت اور ہر قسم کے ذرائع ہیں وہ بی ڈی ممبرز کو بلیک میل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے ''اور پھر جو کچھ فاطمہ جناح کے ساتھ ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ آہ! فاطمہ جناح! اللہ آپ کو گوشۂ جنت میں بلند مقام عطا فرمائے۔( آمین۔)
محترمہ فاطمہ جناح 31 جولائی 1893 کو کراچی میں پیدا ہوئیں، کم عمری ہی میں ان کے والد محترم اس دار فانی سے کوچ کرگئے لہٰذا بڑے بھائی قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی محبت اور شفقت کے ساتھ ان کی تعلیم و تربیت کا حق ادا کیا۔ محترمہ فاطمہ جناح نے میٹرک باندرا کونونٹ سے کیا اور اس کے بعد کلکتہ کے ''احمد ڈینٹل کالج'' میں داخلہ لے لیا۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد ممبئی میں اپنا ذاتی کلینک قائم کرلیا، لیکن زیادہ عرصے تک وہ کلینک نہیں چلا سکیں اور اپنی بھاوج مریم جناح کے انتقال کے بعد قائد اعظم کی دیکھ بھال، گھریلو اور دفتر ذمے داریوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے اپنے بھائی کے گھر منتقل ہوگئیں۔
محترمہ فاطمہ جناح نے سیاست میں بھرپور حصہ لیا انھوں نے مسلم خواتین کو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی ترغیب دی۔ 1940 میں محترمہ فاطمہ جناح قائد اعظم کے ساتھ مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں شریک ہوئیں۔ 23 مارچ بہ وقت ایک بجے دوپہر خواتین کی مرکزی کمیٹی کا پہلا اجلاس اسلامیہ کالج لاہور میں منعقد ہوا۔ صدارت کے فرائض بیگم مولانا محمد علی جوہر نے انجام دیے۔ اس اجلاس میں محترمہ فاطمہ جناح نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا۔
''میں بہت خوش ہوں کہ آج سے کچھ عرصہ قبل کوئی مسلم خاتون سیاسی میدان میں نظر نہیں آتی تھی لیکن آج مسلمان خواتین بھرپور انداز میں حصہ لے رہی ہیں۔ یہ وقت مسلمانوں کے لیے نازک ہے۔ قوم کو ہر فرد کی ضرورت ہے، آپ سے پرزور اپیل کرتی ہوں کہ آپ اپنی بہنوں کو مسلم لیگ میں شامل ہونے کی ترغیب دیں اور اپنے اندر اتحاد و یکجہتی پیدا کریں۔''
محترمہ فاطمہ جناح کے کردار و اخلاق اور سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے مجھے ایک کتاب کے چند اوراق یاد آگئے ہیں عنوان ہے ''محترمہ فاطمہ جناح کے شب و روز'' اس ڈائری نما کتاب کی مصنفہ ثریا خورشید صاحبہ ہیں اور وجہ اشاعت محترمہ نورالصباح بیگم ہیں۔ نورالصباح بیگم کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں ان کی تحریک پاکستان کے لیے بے مثال خدمات ہیں۔ اس کی تفصیل کسی اور دن سہی، اس وقت ہمارا موضوع سخن محترمہ فاطمہ جناح ہیں۔ثریا خورشید صاحبہ اپنے مضمون عرض حال میں لکھتی ہیں۔
''ماہ و سال اتنی جلدی گزر جاتے ہیں اس کا اندازہ ان واقعات سے ہوتا ہے جو اس عرصے میں رونما ہوتے رہتے ہیں، میری زندگی کے وہ چند ماہ یقینا میرے لیے یادگار ہیں، کیونکہ میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ مجھے قائد اعظم کی عظیم بہن کا اس طرح قرب حاصل ہوگا، خورشید جب بیرسٹری کی ڈگری لے کر انگلستان سے واپس آئیں تو محترمہ فاطمہ جناح نے انھیں محبت سے اپنے ساتھ رہنے پر اصرار کیا، میں یہ سن کر اپنی تقدیر پر پھولی نہ سمائی ، یہ میری عین خوش قسمتی تھی کہ مجھے اس ہستی کا اتنا قرب حاصل ہوگا۔''
نورالصباح بیگم نے کشمیر کے حسین شہر سری نگر کے حسن و جمال کی بہت خوبصورت منظر کشی کی ہے چونکہ ثریا خورشید صاحبہ اسی خطے کی رہنے والی تھیں اور وہ جنت نظیر کشمیر جو کئی عشرے گزر جانے کے باوجود متعصب، بددیانت اور مجسم نفرت کا پیکر ہندوستان کے ہاتھوں جل رہا ہے وہاں کے پھولوں کی مہک اور چٹکتی کلیوں میں بارود کی بو بس گئی ہے، کشمیر کے باسی قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں، لاشوں کا بیوپاری مسلسل نوجوان کشمیریوں کو شہید کرکے اپنی بربریت اور دہشت گردی کا ثبوت دے رہا ہے۔
وہ مزید لکھتی ہیں۔
''وہ کوہساروں کے حسین سلسلے، وہ بہتی اور شور مچاتی آبشاریں، وہ چاروں طرف بکھری ہوئی حسین پھولوں کی مہک، وہ ''ڈل'' جھیل کے دل آویز نظارے، وہ شکاروں پر سرسراتے ریشمی پردوں کے اندر مخملیں گدیلوں پر نئے نویلے جوڑوں کی سرگوشیاں اور پھر ہر شام کنارے پر کھڑی ہاؤس بوٹوں کی روشنیاں جب ''ڈل'' جھیل پر اثر انداز ہوتیں تو تہ آب ایک نیا جگمگاتا ہوا شہر نظر آتا، مانجھیوں کی تانیں لگاتا اور پھر چنار کے پروقار درخت اور پھر اس حسین دیس کی رہنے والی ثریا خورشید جہاں ہر طرف حسن ہی حسن سا بکھرا رہتا ہے۔''
ثریا خورشید صاحبہ کی یادوں کے البم سے پہلا ورق کچھ اس طرح درج ہے۔
5 جنوری 1956۔ آج صبح ہم لوگ بذریعہ تیزگام پہنچے، مس جناح کا ڈرائیور اسٹیشن پر ہمیں لینے آیا ہوا تھا، کراچی پہنچنے سے پہلے خورشید نے مجھ سے کہا کہ میں لمبی آستین والی قمیص پہنوں اور ہلکے رنگ کا کوئی سوٹ، مس جناح کو شوخ کپڑے پسند نہیں ہیں۔ گھر پہنچے تو ان کا بیرا کھڑا ہمارا انتظار کر رہا تھا، کہنے لگا مادر ملت ناشتے پر آپ کا انتظار کر رہی ہیں، فلیگ اسٹاف ہاؤس کو دیکھتے ہوئے میری آنکھیں عقیدت سے جھک گئیں، پتھروں سے بنی ہوئی یہ پرانی وضع کی کوٹھی عظیم معمار قوم کی تمام تر یادوں کے ساتھ میرے سامنے تھی۔
مس جناح ناشتے پر ہماری منتظر تھیں۔ میں نے انھیں چاندی کا پھول دان پیش کیا جو میں ان کے لیے تحفتاً لائی تھی اور ساتھ میں لڈو بھی۔ رات کے کھانے پر بھی وہ ملکی سیاست پر بات کرتی رہیں کھانے پر چندریگر صاحب اور چند سیاستدان بھی موجود تھے۔''
میں ڈائری میں لکھی یادوں کو مختصراً پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہوں تاکہ محترمہ فاطمہ جناح کے حوالے سے زیادہ معلومات فراہم کرسکوں۔ 16 جنوری 1956 کی یادوں کا خصوصی دن اس انداز میں منظر عام پر آیا ہے۔ آج باتوں ہی باتوں میں، میں نے کہہ دیا، عورت بہت کمزور ہے، دنیا میں کچھ نہیں کرسکتی، انھوں نے برجستہ کہا ''تاریخ پڑھو تو تم کو اندازہ ہوگا عورتیں مردوں کے کارہائے نمایاں میں ہمیشہ ان کی معاون رہی ہیں۔
عورت کمزور نہیں، یہ درست ہے کہ بعض باتوں میں فطرت، معاشرے اور حالات نے اسے کمزور بنا دیا ہے، اسے مرد سے زیادہ قربانی دینی، کردار کی بلندی، صلاحیت اور ان وسعتوں میں جانا پڑتا ہے جہاں مرد کی پہنچ کبھی نہیں ہوسکتی، میں تو ہمیشہ یہی کہتی ہوں کہ ہمیں اچھی ماؤں کی ضرورت ہے، اچھی مائیں ہمارا بڑا قیمتی سرمایہ ہیں۔
24اپریل 1956 کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح اپنے ایک بنگالی بیرے کی بہت مداح تھیں وہ کام بھی اچھا کرتا تھا اور اپنے سوتیلے بھائی کو پڑھا بھی رہا تھا لیکن اس کے بھائی نے نئے کپڑوں کی فرمائش پوری نہ ہونے پر اپنے بڑے بھائی پر ہاتھ اٹھایا اور آپے سے باہر ہو گیا۔
ثریا خورشید صاحبہ نے اس موقع پر اس کی احسان فراموشی پر دکھ کا اظہار کیا جواب میں محترمہ فاطمہ جناح بولیں ''یہ ساری قوم ہی احسان فراموش ہے اس نے قاید اعظم کے ساتھ وفاداری نہ کی ان کی بیماری میں انھیں اچھی میڈیکل ایڈ نہ پہنچا سکے اور مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ قائد اعظم کو بھی اس بات کا علم تھا کہ ان کی بیماری کے دوران حکومت وقت کے علمبرداروں نے ان سے اچھا برتاؤ نہیں کیا۔ ان کے انتقال کے بعد ہوائی اڈے پر جو ایمبولینس آئی وہ بھی ٹھیک نہیں تھی۔''
آخری صفحات پر 1964 کے انتخابات کا ذکر بھی ملتا ہے جب انھوں نے سیالکوٹ کے جلسہ عام میں تقریر کی، میں نے ان سے کہا ''محترمہ! قوم اور ملک نے آپ کی ایسے حمایت کی ہے کہ لوگوں کا ڈر ختم ہو گیا۔ ''کہنے لگیں ''لوگ میرے ساتھ ضرور ہیں لیکن حکمران پارٹی کے ساتھ طاقت اور ہر قسم کے ذرائع ہیں وہ بی ڈی ممبرز کو بلیک میل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے ''اور پھر جو کچھ فاطمہ جناح کے ساتھ ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ آہ! فاطمہ جناح! اللہ آپ کو گوشۂ جنت میں بلند مقام عطا فرمائے۔( آمین۔)