سوچ تمام بیماریوں کا علاج ہے

ناکامی کا دنیا میں کوئی بھی وجود نہیں ہے۔آپ کو صرف ناکامی سے نپٹنے کا فن سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

aftabkhanzada2@yahoo.com

ایک شخص جب ایک صبح سوکر اٹھتا ہے تو اسے احساس ہو تا ہے کہ اس کے چاروں طرف ناکامی منہ پھاڑے ہنس رہی ہے، اس کا ہر کام اس کی توقع اور خو اہش کے خلاف ہو چکاہے ہر شخص اس کا دشمن بن چکاہے دوست احباب، رشتہ دار، اس کے ساتھ کام کرنے والے سب کے سب اس سے ناراض ہوگئے ہیں تو اس کا ذہن ایک دم کام کردینابند کردیتا ہے اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا یہ سب کچھ اچانک کیا ہوگیا ہے؟ کیوں ہوگیا ہے؟

اس کے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں دل کی دھڑکنیں تیز ہوچکی ہوتی ہیں ،اسے ایسا لگتاہے کہ اس کا سانس رک رہا ہے اور وہ زور زور سے سانس لینا شروع کردیتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ اس کے ساتھ ایک ہی رات میں ہوگیا ہے ؟کیا ایک ہی رات میں اس کی زندگی کی ساری چیزیں الٹ پلٹ کے ہوکے رہ گئی ہیں؟ کیا رات نے ایک ہی رات میں اپنا کھیل کھیل دیاہے؟

نہیں بالکل نہیں، یہ سب کچھ ایک ہی رات میں نہیں ہوا ہے اور نہ ہی رات نے ایک ہی رات میں کوئی کھیل کھیلا ہے بلکہ یہ سب کچھ اس کے کیے گئے ان لاتعداد چھوٹے اوربڑے فیصلوں کا نتیجہ ہے جو وہ اپنی زندگی میں اپنے لیے کرتا آیا ہے۔

یاد رکھیں! پریشانی اور ناکامی کا دنیا میں کوئی بھی وجود نہیں ہے، یہ دراصل ہمارے چھوٹے اور بڑے فیصلوں کا نتیجہ ہوتی ہیں ہم اپنی دانست میں چھوٹے اور بڑے فیصلے کرتے وقت بڑی ہی ہوشیاری اور دانشمندی دکھاتے ہیں لیکن اصل میں وہ تمام کے تمام فیصلے ہمارے رقیب ثابت ہوتے ہیں اور وہ ہمیں مل کر ایسی بند گلی میں لے جاتے ہیں جہاں سے نکلنا ناممکن ہوجاتاہے اور پھر ہم ہوتے ہیں اور وہ بند گلی ہوتی ہے اور بند گلی بھی وہ جو اندھے کنویں کی طرح اندھیر ی ہوتی ہے اور ہم بند گلی میں اکڑوں بیٹھے ساری دنیا کو کوس رہے ہوتے ہیں۔ آج ہم سب کی یہ ہی حالت ہوکے رہ گئی ہے۔ آج ہم سماجی ، معاشی ، سیا سی، داخلی و خارجی سطح پر مکمل ناکامی سے دو چار ہوچکے ہیں۔

اسٹیفن ہاکنگ بریف ''ہسٹری آف ٹائم ''میں لکھتاہے ،وہ رات سب پر بھاری گذرتی تھی کال کوٹھڑیوں میں ویسے ہی یاسیت منڈ لاتی رہتی تھی اور سزائے موت یافتہ قیدیوں کے ستے ہوئے چہرے گھمبیرتا میں مزید اضافہ کردیتے تھے لیکن وہ رات خدا کی پناہ سانسوں میں پھندے لگاد یتی تھی اور وقت کراہتا ہوا گذرتا ۔ صبح یوں لگتا تھا جیسے سب قیدیوں کو اجتماعی پھانسی دے دی گئی ہو وہ رات مردے کی واک کی رات ہوا کرتی تھی، اس رات صرف قیدی ہی نہیں جیلر اور سپاہی بھی قابل رحم حالت میں نظر آتے واحد شخص جس کا چہر ہ اسپاٹ نظر آتا تھا الیکٹر ک چیئر پر بیٹھنے والا سزائے موت کا مستحق وہ قیدی ہوا کرتا تھا جس کے لیے سارا کھیل رچایا جاتا تھا وگرنہ سب کے قدم ڈگمگا تے تھے اورآنکھوں میں دھند لہراتی تھی۔


''ڈیڈمین واکنگ، ڈیڈ مین واکنگ،مردہ آرہاہے مر دہ آرہاہے ''ایک سپاہی کال کوٹھڑی کی سلاخوں سے چھڑی ٹکراتے ہوئے آواز لگاتا اور جیلر سزائے موت یافتہ قیدی کو لیے پتھر یلے چہرے کے ساتھ کال کوٹھڑی سے لے کر الیکٹرک چیئر تک سفر طے کرتا چند سو قدموں کا یہ سفر '' گرین مائل '' کہلاتا ہے ایسا سفر جو فاصلوں میں لمحوں اور اذیت میں صدیوں پر محیط ہو جاتا ہے اور ہر روز دنیا کے کتنے ہی قید خانوں میں طے کیا جاتا ہے ۔

'' گرین مائل '' ایک دن جیلر نے آنکھیں بند کرتے اور پیشانی مسلتے ہوئے کہا سچ تو یہ ہے کہ سبز میل کا سفر صرف وہ قیدی ہی طے نہیں کرتا جسے سزائے موت دی جانی ہوتی ہے بلکہ ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے گرین مائل کاسفر طے کرتاہے زندگی کے آغاز سے لے کرہم قدم بہ قدم لمحہ بہ لمحہ اپنے انجام کی طرف بڑھتے ہیں ہمارا گرین مائل چاہے 7 منٹ کا ہویا 70سال کا آخر موت پر ہی ختم ہوجانا ہے ۔

مختصر الفاظ میں یہ ہی وقت کی کہانی ہے '' آج ہم سب گرین مائل کے مسافر بن کے رہ گئے ہیں اپنے اپنے قید خانوں کے وہ قید ی جو اپنے فیصلوں کی سزا کاٹ رہے ہیں، اس امید پر کہ شاید کبھی رہائی مل جائے یہ امید بھی اس لیے بے کار ہے کیونکہ ہماری امید بھی گرین مائل کی ہی مسافرہے ۔کچھ بیماریاں لاعلاج ہوتی ہیں اسی طرح کچھ لوگ بھی لاعلاج ہوتے ہیں وہ اس لیے لاعلاج ہوتے ہیں کیونکہ ان کے فیصلے لاعلاج ہوتے ہیں۔

ان کے فیصلے اس لیے لاعلاج ہوتے ہیں کیونکہ ان کی سو چ لاعلاج ہوتی ہے اس کایہ مطلب ہوا کہ کوئی بھی چیز لاعلاج نہیں ہوتی اس وقت تک کہ جب تک سو چ لاعلاج نہیں ہوگی ۔یعنی آپ اگر صرف اپنی سو چ کا علاج کرلیں توپھر دنیا کی کوئی چیز بھی لاعلاج نہیں رہتی ۔ آپ صرف اپنی سو چ تبدیل کرکے اپنے ارد گرد کی ہر چیز کوتبدیل کرسکتے ہیں حتیٰ کہ آپ گرین مائل کے راستے کو بھی تبدیل کرسکتے ہیں ۔

یاد رکھیں! ناکامی کا دنیا میں کوئی بھی وجود نہیں ہے۔آپ کو صرف ناکامی سے نپٹنے کا فن سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ،یہ ہی بات دنیا کے عظیم ترین موجد ایڈیسن کی سمجھ میں آگئی تھی ایڈیسن نے بلب ایجاد کرنے کے لیے نو ہزار نو سو ننانے تجربات کیے تھے جب وہ اپنا دس ہزارواں تجربہ کرنے لگا تو اس کے اسسٹنٹ نے سوجی ہوئی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھااور ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولا'' سراب کوئی امید نہیں ہے ہم اپنی تمام کوششیں کرچکے ہیں،ہم ناکام ہوچکے ہیں'''' نہیں، نہیں تم غلط سمجھے ہو'' سن ہوتے ہوئے اعصاب کے باوجود ایڈیسن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی ''ہم ناکا م نہیں ہوئے ہمیں بلب نہ بنانے کے 9999 طریقے معلوم ہوچکے ہیں گویا ہمیں پتہ چل چکا ہے ان طریقوں پر عمل کر نے سے بلب نہیں بن سکتا اگلی مرتبہ میں کوئی نیا طریقہ دریافت کرکے بلب بنانا ہوگا'' اگلے تجربے پر ایڈیسن بلب ایجاد کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

بالکل ایڈیسن کی طرح ہمیں بھی یہ معلوم ہوچکا ہے کہ زندگی گذارنے کے موجودہ 9999 طریقے سب کے سب ہمیں گرین مائل کی طرف لے جارہے ہیں لیکن دس ہزارواں طریقہ وہ ہے جو ہمیں لازماًکامیابی ، خوشحالی ، ترقی ، خوشیو ں اور زندگی کی جانب لے جائے گا اوروہ طریقہ ہے ہماری موجودہ سوچ کی تبدیلی کا۔ جسے تبدیل کرکے ہمارا شمار دنیا کے کامیاب ترین انسانوں میں ہونے لگے گا اور خوشیا ں ، مسرتیں ، کامیا بی ، ترقی ، خو شحالی ہمارے آنگن میںکھیل رہی ہونگی اور دنیا ہماری مثال دے رہی ہوگی۔
Load Next Story