بدلتی دنیا اور ہم
ضرورت اس بات کی ہے اب ہمیں آئین کی طرف واپس لوٹنا ہوگا۔
کتنی تیزی سے دنیا تبدیل ہوتی جارہی ہے، کتنی سست رفتاری سے ہم اس تیزی سے آتی ہوئی تبدیلی کو قبول رہے ہیں۔ ''خاک ہو جائینگے ہم تم کو خبر ہوتے تک '' کوئی بھی ایسا رہبر نظر نہیں آتا ہے کہ جو ویژن رکھتا ہو۔ جو یہ سب دیکھ سکتا ہو اور اسی پس منظر میں رائے عامہ بنا سکے۔
کل تک جب میاں نواز شریف چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ ہم دنیا میں تنہا ہوتے جارہے ہیں۔ انتہاپسند جنگجو گروپ ہمارا کوئی بھلا نہیں کر رہے ہیں۔ ہم نے میاں صاحب کو ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ قرار دے دیا اور اب وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو اب ایف اے ٹی ایف ہمیں کہہ رہا ہے، وہی بات میاں صاحب کہہ رہے تھے ، وہ جو کہہ رہے تھے وہ اس لیے کہہ رہے تھے کیوں کہ ہمیں دنیا میں رہنا ہے۔
یقینا ہمارے دشمن ہمارے خلاف کام کر رہے ہوںگے کہ وہ ایف اے ٹی ایف کو ہمارے خلاف استعمال کر پائیں لیکن قطعی طور پر اس کے وہ کیا ہمارے خلاف کر رہے ہیں،کیا ہمیں یہ خبر ہے کہ ہم خود اپنے خلاف کیا کر رہے ہیں؟
ایک دم سے افغانستان کی صورتحال تبدیل ہوگئی ہے۔ اس بار ہمارے ساتھ سعودی عرب ہے نہ دبئی ہے۔ ہمارے آدھے سے زیادہ remittances ان دو ممالک سے آتے ہیں۔ ہماری تجارت ہمارا کاروبار امریکا اور یورپ کے ساتھ جڑا ہے۔ ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے لیتے ہیں اور ہماری سیکیورٹی کے تانے بانے چین وغیرہ سے ملتے ہیں، بلاشبہ ہمیں ان ہی سے معاشی اعتبار سے بھی مضبوط تعلقات رکھنے ہوںگے، لیکن مغرب اور چین میں ایک بہت بڑی سرد جنگ چل پڑی ہے۔ چین دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔
دوسری طرف اس خطے میں ہندوستان اب کے بار نہ صرف مغرب کو بلکہ سعودی عرب اور دبئی وغیرہ سے اپنے تعلقات بہتر کرچکا ہے یا یوں کہیے کہ سیکیورٹی تناظر میں مشرق وسطیٰ میں اپنا مقام پیدا کرنے جارہا ہے۔ چین جو سی پیک کے نام سے یہاں پر سرمایہ کاری کر رہا تھا اس سے کہیں زیادہ سرمایہ کاری وہ ایران میں کرنے جارہا ہے جو ہندوستان اور ایران کا انفرا اسٹرکچر بنانے کے حوالے سے کام تھا،وہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ اس سارے تناظر میں طالبان کا بل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے منفی اثرات ہمارے اوپر پڑیں گے۔
ہم طالبان سے ہاتھ نکالتے ہیں تو جو پاکستان میں طالبان ہیں وہ یہاں پر ہمارے خلاف کام کرنا شروع کردیں گے۔ افغان طالبان بھی ہمارے خلاف ہوجائیں گے اور اگر ہاتھ ہلکا رکھتے ہیں تو مغرب ناراض ہوجائے گا۔
ستر سال سے ہندوستان پاکستان دشمنی میں اپنی خارجہ پالیسی اور سیکیورٹی کی صف بندی میں لگا رہا ہم بھی یہی کام کر تے رہے۔ وہ بہت بڑی معیشت تھی ڈاکٹر من موہن سنگھ نے ہندوستان کی ٹھوس معاشی بنیاد ڈالی کہ اب وہ اپنے آپ کو چین کے تناظر میں دیکھتے ہیں ۔ ان کی شرح نمو گزشتہ تیس برسوںسے سات فیصد کی اوسط پہ بڑھ رہی ہے جب کہ ہماری معیشت بیٹھ گئی ۔
جنہوں نے ہمیں استعمال کرنا تھا ۔ انھیں یہاں جمہوریت نہیں چاہیے تھی۔ اسی ملک میں اس کی آزاد خارجہ پالیسی نہیں چاہیے تھی۔ ہمارے جنرل ضیاء الحق ان کو عزیز تھے، ہمیں ایک بھنور میں پھینک گئے۔ وہ سرد جنگ اور ہمارے اندر اقتدار کی رسہ کشی اور وہ رسہ کشی ابھی بھی جارہی ہے۔ بہت بڑی طاقت ہیں اور ان کے بیانیے ۔ جو یہاں جمہوریت و رواداری کو آئینی اداروں کو پھیلتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اتنی بڑی طاقت بن گئے ہیں کہ ان کا خوف بھی شدید ہوگیا کہ اب اتنی بڑی طاقت کو جو آئین کے تناظر میں بہت بڑی طاقت ہے، اس کو اب بچایا کیسے جائے۔
افغانستان طالبان کے ہاتھوں میں نہیں جارہا ، ہاں مگر وہاں بہت بڑی گھمسان کی جنگ ہونے والی ہے۔ اس لمحے اسی وقت ہمیں ایسی قیادت چاہیے جس کی جڑیں عوام میں ہوں جو ایسے مشکل فیصلے کرسکے جس کی اس وقت اشد ضرورت سے۔ اس ہائیبرڈ جمہوری نظام سے یہ گاڑی آگے نہیں جانے والی۔ہمیں سائوتھ ایشیا کے تناظر میں اپنی خارجہ پالیسی کو ترتیب دینا ہوگا ۔ سعودی عرب اور خلیجی عرب ریاستوں سے ہمارے مضبوط تعلقات ہونے چاہیں، ہمیں ان سب کے ساتھ چلنا ہوگا ۔ سعودی عرب خود اپنے انتہا پرست سوچ رکھنے والوں سے بحیثیت ریاست ترک تعلق کر رہا ہے، وہاں اب خواتین کو قدرے آزادی دی جارہی ہے۔
دوسری طرف بہت سنگین ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہونے جارہی ہیں ۔ یہ دنیا اب کیپٹل ا زم اور لالچ کے اصول پے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس ماحولیاتی بحران میں ہمیں اس کیپٹل ازم نے ہی تو پہنچایا ہے۔ ہماری کوئی بھی اس حوالے سے تیاری نہیں ۔ 2035 تک آنے والے پندرہ بیس سالوں میں الیکٹرک گاڑیاں ، پٹرول پر چلتی گاڑیوں کا نعم البدل ہوں گی۔ گائوں گائوں سولر سسٹم آنے والے ہیں۔ خود ٹائون پلاننگ کے اندر انقلاب برپا ہونے والا ہے۔
امریکا اور چین کے درمیان یہ سرد جنگ اور اس کے بعد دنیا میں ایک نیا نظام آنے والا ہے جہاں سب ملکوں کے قوانین میں یکسانیت آنے والی ہے۔ ریاستوں کا کلاسیکل مفہوم بہت تیزی سے ٹوٹنے والا ہے۔ خود سوشل میڈیا کی ماہیت تبدیل ہونے والی ہے، یہ جو بیس برسوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی نے جس تیزی سے دنیا کو تبدیل کیا اب خود اس کے اندر بحران ہے اور وہ خود ایک نئی تبدیلی کی طرف جارہی ہے۔
خود دفاتر، یونیورسٹیوں میں تعلیم، اسکول میں تعلیم آن لائن ہونے جارہی ہے، صرف ایف اے ٹی ایف نہیں بلکہ بہت سارے بین الاقوامی قوانین ہیں جو اب ہمارے ملک کے اندر دبے پائوں چلتے آئیں گے۔
ضرورت اس بات کی ہے اب ہمیں آئین کی طرف واپس لوٹنا ہوگا۔ ان قوتوں سے جان چھڑوانا ہوگی، جن کو ہم اپنے ساتھ لے کے چلتے ہیں محض اس لیے کہ وہ اس ملک جمہوریت اور آئین کی بالادستی نہیں چاہتے،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو ملک آج اس بھنور میں پھنس گیا ہے وہ اس لیے کہ یہ ملک آئین کے مطابق چلا نہیں ہے اور اب بہت دیر ہوگئی ہے۔
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک
کل تک جب میاں نواز شریف چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ ہم دنیا میں تنہا ہوتے جارہے ہیں۔ انتہاپسند جنگجو گروپ ہمارا کوئی بھلا نہیں کر رہے ہیں۔ ہم نے میاں صاحب کو ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ قرار دے دیا اور اب وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو اب ایف اے ٹی ایف ہمیں کہہ رہا ہے، وہی بات میاں صاحب کہہ رہے تھے ، وہ جو کہہ رہے تھے وہ اس لیے کہہ رہے تھے کیوں کہ ہمیں دنیا میں رہنا ہے۔
یقینا ہمارے دشمن ہمارے خلاف کام کر رہے ہوںگے کہ وہ ایف اے ٹی ایف کو ہمارے خلاف استعمال کر پائیں لیکن قطعی طور پر اس کے وہ کیا ہمارے خلاف کر رہے ہیں،کیا ہمیں یہ خبر ہے کہ ہم خود اپنے خلاف کیا کر رہے ہیں؟
ایک دم سے افغانستان کی صورتحال تبدیل ہوگئی ہے۔ اس بار ہمارے ساتھ سعودی عرب ہے نہ دبئی ہے۔ ہمارے آدھے سے زیادہ remittances ان دو ممالک سے آتے ہیں۔ ہماری تجارت ہمارا کاروبار امریکا اور یورپ کے ساتھ جڑا ہے۔ ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے لیتے ہیں اور ہماری سیکیورٹی کے تانے بانے چین وغیرہ سے ملتے ہیں، بلاشبہ ہمیں ان ہی سے معاشی اعتبار سے بھی مضبوط تعلقات رکھنے ہوںگے، لیکن مغرب اور چین میں ایک بہت بڑی سرد جنگ چل پڑی ہے۔ چین دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔
دوسری طرف اس خطے میں ہندوستان اب کے بار نہ صرف مغرب کو بلکہ سعودی عرب اور دبئی وغیرہ سے اپنے تعلقات بہتر کرچکا ہے یا یوں کہیے کہ سیکیورٹی تناظر میں مشرق وسطیٰ میں اپنا مقام پیدا کرنے جارہا ہے۔ چین جو سی پیک کے نام سے یہاں پر سرمایہ کاری کر رہا تھا اس سے کہیں زیادہ سرمایہ کاری وہ ایران میں کرنے جارہا ہے جو ہندوستان اور ایران کا انفرا اسٹرکچر بنانے کے حوالے سے کام تھا،وہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ اس سارے تناظر میں طالبان کا بل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے منفی اثرات ہمارے اوپر پڑیں گے۔
ہم طالبان سے ہاتھ نکالتے ہیں تو جو پاکستان میں طالبان ہیں وہ یہاں پر ہمارے خلاف کام کرنا شروع کردیں گے۔ افغان طالبان بھی ہمارے خلاف ہوجائیں گے اور اگر ہاتھ ہلکا رکھتے ہیں تو مغرب ناراض ہوجائے گا۔
ستر سال سے ہندوستان پاکستان دشمنی میں اپنی خارجہ پالیسی اور سیکیورٹی کی صف بندی میں لگا رہا ہم بھی یہی کام کر تے رہے۔ وہ بہت بڑی معیشت تھی ڈاکٹر من موہن سنگھ نے ہندوستان کی ٹھوس معاشی بنیاد ڈالی کہ اب وہ اپنے آپ کو چین کے تناظر میں دیکھتے ہیں ۔ ان کی شرح نمو گزشتہ تیس برسوںسے سات فیصد کی اوسط پہ بڑھ رہی ہے جب کہ ہماری معیشت بیٹھ گئی ۔
جنہوں نے ہمیں استعمال کرنا تھا ۔ انھیں یہاں جمہوریت نہیں چاہیے تھی۔ اسی ملک میں اس کی آزاد خارجہ پالیسی نہیں چاہیے تھی۔ ہمارے جنرل ضیاء الحق ان کو عزیز تھے، ہمیں ایک بھنور میں پھینک گئے۔ وہ سرد جنگ اور ہمارے اندر اقتدار کی رسہ کشی اور وہ رسہ کشی ابھی بھی جارہی ہے۔ بہت بڑی طاقت ہیں اور ان کے بیانیے ۔ جو یہاں جمہوریت و رواداری کو آئینی اداروں کو پھیلتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اتنی بڑی طاقت بن گئے ہیں کہ ان کا خوف بھی شدید ہوگیا کہ اب اتنی بڑی طاقت کو جو آئین کے تناظر میں بہت بڑی طاقت ہے، اس کو اب بچایا کیسے جائے۔
افغانستان طالبان کے ہاتھوں میں نہیں جارہا ، ہاں مگر وہاں بہت بڑی گھمسان کی جنگ ہونے والی ہے۔ اس لمحے اسی وقت ہمیں ایسی قیادت چاہیے جس کی جڑیں عوام میں ہوں جو ایسے مشکل فیصلے کرسکے جس کی اس وقت اشد ضرورت سے۔ اس ہائیبرڈ جمہوری نظام سے یہ گاڑی آگے نہیں جانے والی۔ہمیں سائوتھ ایشیا کے تناظر میں اپنی خارجہ پالیسی کو ترتیب دینا ہوگا ۔ سعودی عرب اور خلیجی عرب ریاستوں سے ہمارے مضبوط تعلقات ہونے چاہیں، ہمیں ان سب کے ساتھ چلنا ہوگا ۔ سعودی عرب خود اپنے انتہا پرست سوچ رکھنے والوں سے بحیثیت ریاست ترک تعلق کر رہا ہے، وہاں اب خواتین کو قدرے آزادی دی جارہی ہے۔
دوسری طرف بہت سنگین ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہونے جارہی ہیں ۔ یہ دنیا اب کیپٹل ا زم اور لالچ کے اصول پے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس ماحولیاتی بحران میں ہمیں اس کیپٹل ازم نے ہی تو پہنچایا ہے۔ ہماری کوئی بھی اس حوالے سے تیاری نہیں ۔ 2035 تک آنے والے پندرہ بیس سالوں میں الیکٹرک گاڑیاں ، پٹرول پر چلتی گاڑیوں کا نعم البدل ہوں گی۔ گائوں گائوں سولر سسٹم آنے والے ہیں۔ خود ٹائون پلاننگ کے اندر انقلاب برپا ہونے والا ہے۔
امریکا اور چین کے درمیان یہ سرد جنگ اور اس کے بعد دنیا میں ایک نیا نظام آنے والا ہے جہاں سب ملکوں کے قوانین میں یکسانیت آنے والی ہے۔ ریاستوں کا کلاسیکل مفہوم بہت تیزی سے ٹوٹنے والا ہے۔ خود سوشل میڈیا کی ماہیت تبدیل ہونے والی ہے، یہ جو بیس برسوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی نے جس تیزی سے دنیا کو تبدیل کیا اب خود اس کے اندر بحران ہے اور وہ خود ایک نئی تبدیلی کی طرف جارہی ہے۔
خود دفاتر، یونیورسٹیوں میں تعلیم، اسکول میں تعلیم آن لائن ہونے جارہی ہے، صرف ایف اے ٹی ایف نہیں بلکہ بہت سارے بین الاقوامی قوانین ہیں جو اب ہمارے ملک کے اندر دبے پائوں چلتے آئیں گے۔
ضرورت اس بات کی ہے اب ہمیں آئین کی طرف واپس لوٹنا ہوگا۔ ان قوتوں سے جان چھڑوانا ہوگی، جن کو ہم اپنے ساتھ لے کے چلتے ہیں محض اس لیے کہ وہ اس ملک جمہوریت اور آئین کی بالادستی نہیں چاہتے،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو ملک آج اس بھنور میں پھنس گیا ہے وہ اس لیے کہ یہ ملک آئین کے مطابق چلا نہیں ہے اور اب بہت دیر ہوگئی ہے۔
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک