گلزار کہانی

گلزار کہانی کے نام سے یہ تبصرہ بذات خودایک بڑے لکھاری کے نادر الفاظ ہیں


راؤ منظر حیات August 09, 2021
[email protected]

بڑے لوگ کس طرح کے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات عام انسان نظر آنے والے بندے' ہرگز ہرگز عام نہیں ہوتے۔ اولاد کی بہتری' مال و جائیداد کے حصول سے بالاتر ہو کر اپنے نکتہ نظر کے مطابق جدوجہد کرنا تمام بڑے آدمیوں کی یکساں خصوصیت ہے۔

یہ آسان منزل نہیں' لوگوں کی واضح اکثریت' اولاد کو برتر سے برتر مواقع دینا ' رتبے کی خواہش رکھنا اور مالی آسودگی سے آگے بڑھ کر سوچنے سے قاصر ہے۔ مگر دنیا میں جس بھی انسان نے نمایاںکام کیا ہے' وہ ذاتیات سے اوپر نکل کر ہی کرپایا ہے۔ گلزار احمد مظاہری انھیں بڑے لوگوں کے قافلے کے مسافر ہیں۔ عرض کرتا چلوں جماعت اسلامی سے طالب علم کا کوئی لینادینا نہیں۔ مگر جب تعصب سے بالا تر ہو کر ملک میں سیاسی اور غیر سیاسی اکابرین کی طرف نگاہ دوڑاتا ہوں۔ تو اس جماعت میں بڑے بڑے تن آور درخت نظر آتے ہیں۔یہ نہیں کہ دوسری سیاسی پارٹیاں' بڑے لوگوں سے بانجھ ہیں۔ مگر کردار کی پختہ محنت جتنی جماعت اسلامی میں کروائی جاتی ہے۔

وہ دوسری جگہ کم ملتی ہے۔ جب حسین احمد پراچہ نے اپنے والد محترم گلزار احمدمظاہری صاحب کے متعلق بتایا تو نہیں جانتے کا تجسس پیدا ہوا۔ حسین احمد صاحب نے کتاب بھیجی تو ایک نایاب شخص کو جاننے کا موقع ملا۔ ایک اور بات بھی عرض کرتا چلوں۔ جس محبت سے ایک معروف صحافی نے اس کتاب پر حاشیہ باندھا ہے۔ اس کے بعد کم از کم میرے جیسے طالب علم کے لیے الفاظ کا چناؤ حد درجہ مشکل ہو گیا ہے۔ گلزار کہانی کے نام سے یہ تبصرہ بذات خودایک بڑے لکھاری کے نادر الفاظ ہیں۔

وہی مدعی وہی منصف میں درج ہے۔ 6جنوری 1964 کو حکومتی بلی نے سارے پاکستان میں کھمبے نوچنے کا عملی مظاہرہ کیا۔ وطن عزیز میں سر اٹھا کرچلنے اور حکمرانوں کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ان کے فرائض یاد دلانے کی پاداش میں جماعت اسلامی کو خلاف قانون قراردیا گیا اور مشرقی و مغربی پاکستان سے جماعت کے 50 ارکان مجلس شوریٰ و عاملہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ جماعت کے قائدین وعمائدین کو اچھی طرح معلوم ہے کہ جس جادۂ حق کے وہ مسافر ہیں اس میں اچانک ایک ایسا موڑ بھی آجاتا ہے جو زندانوں اورقتل گاہوں کی طرف مڑتا ہے۔

قافلہ سخت جاں کے مسافروں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ وہی قافلہ ہے جس نے جابر حکمرانوں کے آگے کلمہ حق کہا ہے اور حق گوئی کی قیمت جاں پر کھیل کر ادا کی ہے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتے ہیں کہ انھیں اس قافلے میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔

8 جنوری 1964 بدھ (22شعبان 1383 ہجری) :آج بھی سارا دن بارش ہوتی رہی۔ قرآن پاک کا پہلا پارہ ترجمہ کے ساتھ ختم کیا ہے اور آج دوسرا پارہ شروع ہوا۔ حدیث مبارک کا مطالعہ بھی ہوا' نمازوں میں خوب لطف آ رہا ہے آج ذکر بھی کیا ۔ نماز تہجد کی باقاعدگی جاری ہے قنوت نازلہ شروع کرنے کا ارادہ کیا جا رہا ہے۔ ؎

خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے چند

اللہ کرے یہ بادل چھٹ جائیں' ظلم کی سیاہ رات ختم ہو جائے' ظلم کی تاریخ ہی یہ ہے کہ اسے بالآخر ختم ہونا ہے ۔ لیکن ہر ظالم یہ سمجھتا ہے کہ مجھے کچھ نہیں ہو گا۔ میں ہمیشہ قائم رہوں گا۔ حالانکہ ہمیشہ قائم ذات صرف رب العالمین کی ہے۔ آج اخبارات بھی ملے۔ مطالعہ سے معلوم ہوا کہ ہمارے حق میں بھی اور حکومت کے حق میں بھی بیان بازی جاری ہے۔ کچھ علماء و مشائخ کے بیانات ہیں کہ گرفتاریاں ٹھیک ہوئی ہیں۔ مخدوم رحمت گیلانی ملتانی' ملک فتح محمد ٹوانہ سرگودھا نے حکومتی اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔

18مئی 1964:آج رات کچھ بے چینی رہی۔ ہمارے پڑوس میں ہی پھانسی گھر ہے۔ جہاں آج رات چار بدنصیب مسلمانوں کو پھانسی چڑھنا تھا۔ ان میں ایک وہ دلدار شاہ بھی شامل ہے جس نے کل بہت ہنگامہ کیا تھا۔ تین دوسرے چھینہ قوم سے ہیں۔ اڑھائی بجے شب انھیں نہلایا گیا۔ پھر پھانسی گھاٹ لے جایا گیا یہ خود چل کر اور نعرے مارتے ہوئے گئے۔

سب نے بآواز بلند معافی مانگی۔ سپرنٹنڈنٹ کو کہا ہمیں پکڑ کر پھٹہ نہ چڑھانا ہم خود چڑھ جائیں گے۔ ہمارے گلے میں رسی کوئی سید ڈالے۔ رسہ تو چمار نے ہی ڈالا البتہ رسے پر ہاتھ سیدحسین شاہ کا پھروا دیا گیا۔ شیخ صاحب نے کہا کلمہ شریف پڑھ لو اور زبان تالو سے لگا لو۔ پھر ہینڈل کھنیچ دیا گیا اور وہ نیچے جا لگے۔

2اکتوبر1964:محترمہ فاطمہ جناح نے بیان دیا ہے کہ میں سوچ سمجھ کر میدان میں آئی ہوں اور آمریت کے خاتمے تک میدان میں رہوں گی۔ گورنر نے انتباہ کیا ہے کہ ذاتی حملے نہ کیے جائیں۔ ورنہ انجام ٹھیک نہیں ہو گا... یہ حکمران اللہ سے نہیں ڈرتے حالانکہ ''ان بطش ربک لشدید''تیرے رب کی پکڑ بڑی شدید ہے''۔ مشرقی پاکستان میں مکمل اور بھرپور ہڑتال ہوئی ہے۔ کراچی میں چند طلبہ نے بیانات دیے ہیں کہ ہم سیاست میں حصہ لیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب قائداعظم کی زندگی میں نوجوانوں نے قومی سیاست میں بھرپور حصہ لیاتھا تو ہم آج بھی اپنا کردار ادا کریں گے۔

مادرملت کا پشاور کا جلسہ نہایت کامیاب رہا۔ 75 ہزار افراد جلوس میں شریک ہوئے۔5میل کے طویل راستے پر گامزن یہ ایک میل لمبا جلوس تھا۔

25دسمبر1964 راولپنڈی: آج راولپنڈی کا جلسہ عام ہوا ۔80-70 ہزار کی حاضری تھی۔ بہت بڑا جلسہ تھا۔ پہلی تقریر میری تھی۔ میں نے ان اشعار سے آغاز کیا:

اک نور بڑھا بڑھنے کے لیے

اک گرد جمی جم جانے کو

اک شمع جلی جلنے کے لیے

اک پھول کھلا مرجھانے کو

مادر ملت کے انتخابی نشان لالٹین اور ایوب خان کے انتخابی نشان پھول کی وجہ سے ان اشعار نے مجمع میں جذبات کی آگ لگا دی۔ تالیوں پر تالیاں بجتی رہیں۔ تین چار دفعہ یہ اشعار سنے گئے۔

منقول ہے۔مولانا گلزار احمد مظاہری کو جماعت اسلامی کے دوسرے قائدین کے مقابلے میں غالباً سب سے زیادہ عرصہ جیل کی کال کوٹھڑیوں اور زندانوں کی بلند و بالا فصیلوں کے پیچھے جانا پڑا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ایک تو والد صاحب کی ''باجماعت نظر بندی'' ہوتی۔ جب جماعت پر کسی فوجی یا ''جمہوری'' آمر کی طرف سے کوئی افتاد پڑتی تو والد گرامی بھی ''ہمہ یاراں دوزخ ہمہ یاراں بہشت'' میں پیش پیش ہوتے مگر اس کے علاوہ آئے روز انھیں اپنی شعلہ بیانی اور ''باغیانہ حق گوئی'' کی پاداش میں قید خانوں میں جانا پڑتا اور عدالتوں اور حکومتی دفتروں میں پیشیاں بھگتنا پڑتیں۔ والد صاحب اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتے تھے کہ ان کی پہلی قید شیخ احمد سرہندی کی پیروی میں ہوئی۔ حضرت مجدد الف ثانی کو قلعہ گوالیار میں 17 ویں صدی کے اوائل میں نظر بند کیا گیا اور مولانا مظاہری کو 1953میں تحریک ختم نبوت کے زمانے میں شاہی قلعہ لاہور کے کسی تہہ خانے میں ڈال دیا گیا۔

مولانا مظاہری کے متعلق جہاں پروفیسر خورشید احمد اور خورشید رضوی جیسے اکابرین سب کچھ لکھ چکے ہوں' وہاں طالب علم کیا لکھ سکتا ہے۔ مگر مظاہری صاحب جیسے بامقصد لوگ کسی بھی سیاسی جماعت کی شان اور آن بان ہوتے ہیں۔ اس سطح کے بے غرض لوگ اب کم یاب ہو چکے ہیں یا شاید نایاب!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں