آؤ لکھنا سیکھیں

کالم نگاری ایک فن ہے، اس کےلیے ریاضت اور مطالعہ بہت ضروری ہے


راضیہ سید August 12, 2021
آخر ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی راتوں رات ہی کسی کو لکھنا سکھا دے؟ (فوٹو: فائل)

ایک خاتون جو یقینی طور پر شادی سے قبل امور خانہ داری سے نابلد تھیں، باورچی خانے میں کھڑی بریانی پکا رہی تھیں۔ اپنے تئیں ہی انھیں یہ گمان ہوگیا تھا کہ وہ کتاب کے ذریعے ہی کھانا پکانا سیکھ جائیں گی۔ اب بریانی تو جیسے تیسے پک گئی لیکن اگلا مرحلہ مزید مشکل تھا۔ وجہ یہ تھی کہ بریانی کی ترکیب دیکھتے دیکھتے کھانے کی ترکیبوں کا صفحہ پلٹ گیا اور دو چمچ نمک کی جگہ دو چمچ کھانے کا سوڈا ہانڈی میں شامل کرلیا گیا۔

کل ہی سوشل میڈیا پر اشتہار دیکھتے ہوئے میں حیران ہوگئی کہ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے؟ اب وہ اشتہار دیکھ کر مجھے اپنے بچپن میں سنی ہوئی بریانی کی یہ کہانی یاد آگئی۔ اس وقت مجھے گھر کے کاموں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میرا بھی یہی ماننا تھا کہ کتابیں ہی کھانا پکانا سکھا دیتی ہیں۔ تاہم جب میری بہنوں کی شادی ہوئی اور کچن کی ذمے داریاں بھی مجھے سنبھالنا پڑیں تو معلوم ہوا کہ کچھ چیزیں تو کوشش سے سیکھی جاسکتی ہیں لیکن بہت سی چیزوں میں خداداد صلاحیت کا ہونا بہت ضروری ہے۔

خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ایک اشتہار کے اندر سوشل میڈیا استعمال کرنے والے افراد کو مصنف بننے کی دعوت دی گئی تھی۔ آٹھ مخلتف کتابیں اسی موضوع پر شائع کی گئی تھیں۔

''آؤ لکھنا سیکھیں''۔ یہ اشتہار دیکھ کر مجھے بہت حیرت ہوئی کہ آخر ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی راتوں رات ہی لکھنا سکھا دے؟ کیونکہ مصوری، کھانا پکانا اور دیگر تمام فنون کی طرح لکھنا بھی ایک فن ہے۔ کوئی بھی کسی فن میں ماہر ہوتا ہے تو اس میں اس کی لگاتار محںت اور مشق تو شامل ہوتی ہے یہ مان لیا۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ان تمام افراد میں قدرتی یہ صلاحیتں بھی موجود تھیں جنہیں نکھارا گیا۔

خیر اس اشتہار میں ان کتابوں کی قیمت کم سے کم بھی تین سے 4 ہزار تھی اور سوشل میڈیا صارفین سرعام بے وقوف بن رہے تھے۔

ایک کتاب پر درج تھا۔ 15 دن میں بلاگ رائٹنگ سیکھیں۔ دوسری پر لکھا تھا لکھاری بنیں اور پپیسے کمائیں۔ تیسری پر تحریر تھا ایک ماہ میں اردو زبان پر عبور حاصل کریں۔

کتنے ہی سوشل میڈیا صارفین ایسے تھے جو یہ کتابیں پڑھ کر راتوں رات ہی ادیب بننا چاہتے تھے اور انھوں نے اپنے آرڈر تک بھی بک کروائے ہوئے تھے۔ یہ سب دیکھ کر میرا دماغ چکرا گیا۔ مجھے یہ احساس ہوا کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی پڑھے لکھے افراد کو بے وقوف بنانا کس قدر آسان ہے۔

ہر شخص نے یہ سمجھ لیا ہے کہ وہ لفظوں کا سہارا لے کر جو چاہے گا لکھ لے گا۔ جبکہ یہ صلاحیت قدرتی ہے، ایک بچے میں پیدائشی طور پر یہ رحجان ہوتا ہے۔ اس میں اپنے خیالات کو لفظوں میں سمونے کی قدرت ہوتی ہے۔ ایک سطر لکھنے کےلیے دس لائنیں پڑھنا پڑھتی ہیں لیکن آج کل کے ادیب بھی مطالعہ نہیں کرتے۔

ہم کسی کو کیسے سکھا سکتے ہیں، جب کسی میں صلاحیت ہی نہ ہو۔

کیا ایک مچھلی کو درخت پر چڑھنا سکھایا جاسکتا ہے اور کیا ایک شیر پانی میں رہ سکتا ہے؟ یقیناً جواب نفی میں ہے۔ یہ کتابیں ہمارے سوشل میڈیا صارفین کو گمراہ کررہی ہیں۔ پیسے کمانے کے چکر میں لوگوں کے جذبات سے کھیلا جارہا ہے۔

جب بھی کوئی یہ کتابیں پڑھے گا اور توقع کے عین مطابق لکھاری نہیں بن سکے گا تو کیا ہوگا؟ کتابیں شائع کرنے والے تو پیسہ کما کر سائیڈ پر ہوگئے اور نوجوان نسل مایوسی کا شکار ہوکر پہلے والے کاموں سے بھی گئی۔

کالم نگاری ایک فن ہے۔ ذہن میں کلبلاتے موضوعات کو آسان الفاظ میں ڈھال کر اس طرح تحریر کرنا کہ وہ قارئین کے دل پر اثر کریں، یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ اس کےلیے ریاضت ضروری ہے، مطالعہ ضروری ہے، بار بار کی مشق ضروری ہے، محنت ضروری ہے۔
سب سے بڑھ کر تنقید کا سامنا، جو بڑے بڑے ادیبوں کو بھی ہوتا ہے۔

آج صرف یہی کہنا ہے کہ کسی کی خوبی کو اپنانے کےلیے اس کی اندھا دھند تقلید کرنا ضروری نہیں، بلکہ ہم سب کو چاہیے کہ اپنی الگ شناخت بنانے کےلیے اور اپنے ذوق کی تسکین کےلیے اپنے اندر موجود صلاحیت کی نشاندہی کرکے اس کو نکھاریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں