تبدیلی کی انگڑائی لیتی لہر
گزشتہ دنوں بھارت کے شہر حیدرآباد دکن سے ہمارے دوست ڈاکٹر مظہر حسین ایک ورکشاپ میں شرکت کے لیے کراچی تشریف لائے۔
گزشتہ دنوں بھارت کے شہر حیدرآباد دکن سے ہمارے دوست ڈاکٹر مظہر حسین ایک ورکشاپ میں شرکت کے لیے کراچی تشریف لائے۔وہ فلسفے میں Ph.D ہیں۔ بھارت کی ایک بڑی سماجی تنظیم کے سربراہ ہیں،جو علاقائی امن،مذہبی رواداری جیسے امور پر کام کرتی ہے۔ کراچی میں ان کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چنداحباب کے ساتھ ایک طویل نشست کا اہتمام کیا گیاتاکہ ان کی رائے معلوم کی جاسکے۔
ڈاکٹرمظہرنے بھارت کے سیاسی منظر نامے میں بعض اہم مظاہر کی نشاندہی کی۔ چنددہائی قبل تک بھارت میںچار بڑے گروہ فعال ہواکرتے تھے، جن میں سیاستدان، مذہبی حلقے،کاروباری طبقات اور جرائم پیشہ جتھے (Mafias) شامل ہیں۔ یہ جرائم پیشہ افرادکی اپنی مخصوص غیر قانونی سرگرمیاں ہواکرتی تھیں۔یہ طبقات ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور معاونت کرکے فوائدتوضرور حاصل کیا کرتے تھے،مگر ایک دوسرے کے شعبے میں دخل اندازی نہیں کرتے تھے۔مثلاً سیاستدان کاروباری طبقات سے فنڈ لیتے، مذہبی اکابرین اور جرائم پیشہ افراد کو سیاسی وانتخابی مہم میں استعمال کرتے اورجب کامیابی ملتی تو انھیں مختلف طریقوں سے نوازتے ،مگر ان کے شعبے میں مداخلت نہیں کرتے۔
مگر تین دہائیوںکے دوران اس ترتیب (Composition)میںبہت بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونماء ہوئی ہیںاورسب کچھ گڈ مڈہوکر رہ گیا ہے۔آج کاروباری طبقوں اور مذہبی حلقوں کے علاوہ جرائم پیشہ افراد بھی براہ راست سیاست کے میدان میں اتر کر لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے رکن بن گئے ہیں۔اسی طرح سیاستدان جو کبھی کل وقتی سیاست کیا کرتے تھے، اب مختلف نوعیت کے کاروبار کررہے ہیں۔اس لیے ان کی دلچسپی سیاست سے زیادہ اپنے کاروبار میں ہے۔ اس کے علاوہ سیاست میں موروثیت کی جڑیں بھی تیزی سے گہری ہوئی ہیں۔چونکہ سیاست اصولوں کے بجائے منفعت بخش کاروبارکی شکل اختیار کرچکی ہے۔ اس لیے ہر سیاسی شخصیت اپنے اہل خانہ اور عزیزواقارب کو سیاسی میدان میں اتار کر سیاسی قوت کو اپنے ہاتھوں میں رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے،تاکہ سیاسی، معاشی اور سماجی معاملات مکمل طورپر اس کی گرفت میں رہ سکیں۔اس صورتحال نے سیاست کو فکری بے راہ روی کا شکارکرنے کے علاوہ Criminaliseبھی کیا ہے۔ لہٰذا جب تک سیاسی عمل میں کلیدی نوعیت کی تبدیلیاں رونماء نہیں ہوتیں، سیاست سے عوامی فلاح کی توقع عبث ہے۔ عام آدمی پارٹی کی عوام میں تیزی کے ساتھ مقبولیت کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ عوام 66برس سے وعدے وعید کرکے اپنے مفادات حاصل کرنے والی جماعتوں سے اکتاگئے ہیں۔
ڈاکٹر مظہر حسین نے بھارت کی سیاست کاجومنظر نامہ پیش کیاہے، پاکستانی سیاست سو فی صد ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے۔جب کہ سیاسی جماعتوں کی کارکردگی بھارت کے مقابلے میںمزید ابتر ہے۔ ہمارے یہاں گزشتہ 20 سے25برسوں کے دوران سیاسی عمل تیزی سے روبہ زوال ہوا ہے۔ قومی سیاست کا تصور معدوم اور صوبائی اور علاقائی بنیادپر تقسیم(Fragmentation)میں اضافہ ہواہے۔اس وقت نہ تو کوئی ایسی سیاسی جماعت ہے جسے قومی کہا جاسکے اور نہ کوئی متحرک اورفعال قیادت موجود ہے، جس میں مسائل کو حل کرنے کاعزم اور بصیرت پائی جاتی ہو۔جس کی وجہ سے مسائل کے انبارمیں نہ صرف مسلسل اضافہ ہورہاہے، بلکہ پیچیدہ بھی ہورہے ہیں۔اس تناظر میں پہلے سے موجود سیاسی جماعتوں کی اہلیت اور کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو انتہائی افسوسناک نتائج سامنے آتے ہیں۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ یہ جماعتیں گزشتہ تین انتخابات سے سندھ اور پنجاب تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔ اس کے علاوہ اس دوران ان دونوں جماعتوں میں موروثیت کی جڑیں بھی خاصی گہری ہوئی ہیںاور مختلف نوعیت کی اقرباپروریوںنے ان کی کارکردگی کوخاصی حد تک متاثر کیا ہے۔اس کے علاوہ ان جماعتوں میں دوراندیشی اورجرأت مندانہ فیصلہ سازی کا فقدان بھی شدت سے محسوس کیا جارہاہے۔2011ء میں تحریک انصاف ایک تیسرے متبادل کے طورابھر کر سامنے آئی۔ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے اس سے توقعات بھی وابستہ کررکھی تھیں۔محسوس ہورہاتھا کہ یہ ملک کے سیاسی کلچر میں تبدیلی کی علامت بن جائے گی۔مگرجس طرح اس جماعت نے مراعات یافتہ طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے '' چلے ہوئے کارتوسوں'' کو اپنے اندر جگہ دی اور شدت پسندعناصر کی غیر منطقی حمایت اور وکالت کی،اس کے نتیجے میں اس کا سیاسی تشخص کو بری طرح مجروح ہوا۔جب کہ پختونخواہ حکومت کی چھ ماہ کی کارکردگی نے اس کی عوامی مقبولیت کو مزید نقصان پہنچایاہے۔اس وقت متوشش حلقوں کی رائے ہے کہ تحریک انصاف کا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کا نعم البدل بنناتو دور کی بات،وہ سیاسی عمل کو ان دونوں جماعتوں سے زیادہ نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ گزشتہ 26برس سے ملک کی چوتھی بڑی پارلیمانی جماعت ہے۔اس کی قیادت اور عہدیداروں کی اکثریت متوسط اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔اس میں انتظامی امور کو احسن طریقے سے سرانجام دینے کاپوٹینشیل بھی موجود ہے۔یہ مہاجر قومی موومنٹ سے ٹرانسفارم ہوئی ہے۔اس نے مختلف قومیتوںسے تعلق رکھنے والے افراد کواپنی صفوں میںجگہ دی اور کئی ایک کو قومی اور صوبائی اسمبلیوںکے لیے منتخب بھی کرایا،جو اس کے قومی سیاست کا حصہ بننے کی خواہش کو ظاہر کرتاہے۔مگریہ ابھی تک اپنے ماضی اور دامن پرلگے بعض الزامات سے چھٹکارا پانے میں ناکام ہے۔ جس کی وجہ سے مستقبل قریب میںقومی سیاست میں کوئی نمایاں کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔عوامی نیشنل پارٹی(ANP) نے ماضی کی مقبول سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی (NAP) کے بطن سے جنم لیاہے۔یہ ایک لبرل ڈیموکریٹک جماعت ہے۔مگر اس نے بوجہ اپنے سیاسی کینوس کوصرف پختون قوم پرست سیاست تک محدود کرلیا ہے۔ جس کی وجہ سے دیگر قومیتوں اور لسانی اکائیوں سے تعلق رکھنے والے ترقی پسند اور لبرل سوچ کے حامل شہری اس سے دور رہنے پر مجبور ہیں۔
اب جہاں تک مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے، تو سیاسیات اور عمرانیات پر نظر رکھنے والا کوئی بھی طالب علم انھیں سیاسی یا مذہبی جماعت تسلیم کرنے پرآمادہ نہیں ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مذہب کے نام پر قائم یہ جماعتیں اپنی سرشت اور ساخت(Composition)کے اعتبار سے کسی مخصوص فرقہ یامسلک کی نمایندگی کرتی ہیں،مگر مذہب کی آفاقیت سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ان میں تبدیل ہوتے عالمی منظر نامے کوسمجھنے اور اس حوالے سے پالیسی سازی کی اہلیت بھی نظر نہیں آتی۔اسی طرح بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیںاپنی غلط حکمت عملیوں اور فکری نرگسیت کی وجہ سے عوامی قبولیت حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ یہ جماعتیں بلدیاتی کونسلرتک منتخب کرانے کی صلاحیت نہیں رکھتیں، اس لیے ان سے مستقبل قریب میں کوئی توقع وابستہ کرنا بھی عبث ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میںجو سیاسی جماعتیںفعال ہیں،ان کی اکثریت اس سیاسی ویژن سے عاری ہے ،جو ملکی مسائل کوترجیحی بنیادوںپر حل کرنے کے لیے درکار ہوتاہے۔یہ چھوٹے چھوٹے مفادات کی گرداب میں پھنسی Status Quoکو جاری رکھنے میں عافیت سمجھتی ہیں۔اب تک محض خوشنماء نعروں کی بنیاد پر عوام کو گمراہ کرتی رہی ہیں۔مگرگزشتہ20برسوں کے دوران مذہبی شدت پسندی، متشدد فرقہ واریت اور امن وامان کی ابتر صورتحال نے ان کی نااہلی کا پردہ چاک کرنے کے علاوہ ان کے اندر موجود فکری تضادات اور اہلیت کے فقدان کوبھی مزید نمایاں کردیا ہے۔ان جماعتوں کی کوتاہ بینی اور عاقبت نااندیشی کے نتیجے میں پاکستان ایک انتہائی زد پذیر (Fragile) ریاست بن گیاہے،جس کی وجہ سے اس کی بقاء اور سلامتی کو مختلف نوعیت کے خطرات اور چیلنجز کا سامناہے۔
لہٰذاملک کودرپیش پیچیدہ بحرانوں اور مخدوش سیاسی، سماجی اورمعاشی صورتحال کے تناظر میں ایک ایسی سیاسی جماعت کے لیے گنجائش پیدا ہوئی ہے،جوان مسائل و معاملات کو سمجھنے اور انھیں نیک نیتی کے ساتھ حل کرنے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتی ہو ۔ ایک ایسی سیاسی جماعت جو سرد جنگ کی نفسیاتی کیفیت کاقطعی شکار نہ ہو اور عالمی اور علاقائی سیاسی منظر نامے کو باریک بینی سے سمجھنے کاشعور رکھتی ہو۔ جو شہری اور دیہی معاشرت کے تضادات کی باریکیوں کو سمجھتی ہو اور انھیں حل کرنے میں سنجیدہ ہو۔ مقامی حکومتی نظام کی اہمیت اور افادیت سے آگاہ ہو اور کسی وقتی سیاسی فائدے کو مدنظر رکھے بغیر ایک ایسامقامی حکومتی نظام وضع کرسکے، جس میں اقتدار واختیارکی حقیقی معنی میں نچلی سطح تک منتقلی ممکن ہوسکے۔ایک ایسی وسیع البنیاد سیاسی جماعت ہی تبدیلی کے لیے عوام کے دلوں میں انگڑائی لیتی خواہش کو حقیقت کا روپ اور ان کی آنکھوںمیں سجے خوابوں کو تعبیر دینے کا باعث بن سکتی ہے۔
ڈاکٹرمظہرنے بھارت کے سیاسی منظر نامے میں بعض اہم مظاہر کی نشاندہی کی۔ چنددہائی قبل تک بھارت میںچار بڑے گروہ فعال ہواکرتے تھے، جن میں سیاستدان، مذہبی حلقے،کاروباری طبقات اور جرائم پیشہ جتھے (Mafias) شامل ہیں۔ یہ جرائم پیشہ افرادکی اپنی مخصوص غیر قانونی سرگرمیاں ہواکرتی تھیں۔یہ طبقات ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور معاونت کرکے فوائدتوضرور حاصل کیا کرتے تھے،مگر ایک دوسرے کے شعبے میں دخل اندازی نہیں کرتے تھے۔مثلاً سیاستدان کاروباری طبقات سے فنڈ لیتے، مذہبی اکابرین اور جرائم پیشہ افراد کو سیاسی وانتخابی مہم میں استعمال کرتے اورجب کامیابی ملتی تو انھیں مختلف طریقوں سے نوازتے ،مگر ان کے شعبے میں مداخلت نہیں کرتے۔
مگر تین دہائیوںکے دوران اس ترتیب (Composition)میںبہت بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونماء ہوئی ہیںاورسب کچھ گڈ مڈہوکر رہ گیا ہے۔آج کاروباری طبقوں اور مذہبی حلقوں کے علاوہ جرائم پیشہ افراد بھی براہ راست سیاست کے میدان میں اتر کر لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے رکن بن گئے ہیں۔اسی طرح سیاستدان جو کبھی کل وقتی سیاست کیا کرتے تھے، اب مختلف نوعیت کے کاروبار کررہے ہیں۔اس لیے ان کی دلچسپی سیاست سے زیادہ اپنے کاروبار میں ہے۔ اس کے علاوہ سیاست میں موروثیت کی جڑیں بھی تیزی سے گہری ہوئی ہیں۔چونکہ سیاست اصولوں کے بجائے منفعت بخش کاروبارکی شکل اختیار کرچکی ہے۔ اس لیے ہر سیاسی شخصیت اپنے اہل خانہ اور عزیزواقارب کو سیاسی میدان میں اتار کر سیاسی قوت کو اپنے ہاتھوں میں رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے،تاکہ سیاسی، معاشی اور سماجی معاملات مکمل طورپر اس کی گرفت میں رہ سکیں۔اس صورتحال نے سیاست کو فکری بے راہ روی کا شکارکرنے کے علاوہ Criminaliseبھی کیا ہے۔ لہٰذا جب تک سیاسی عمل میں کلیدی نوعیت کی تبدیلیاں رونماء نہیں ہوتیں، سیاست سے عوامی فلاح کی توقع عبث ہے۔ عام آدمی پارٹی کی عوام میں تیزی کے ساتھ مقبولیت کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ عوام 66برس سے وعدے وعید کرکے اپنے مفادات حاصل کرنے والی جماعتوں سے اکتاگئے ہیں۔
ڈاکٹر مظہر حسین نے بھارت کی سیاست کاجومنظر نامہ پیش کیاہے، پاکستانی سیاست سو فی صد ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے۔جب کہ سیاسی جماعتوں کی کارکردگی بھارت کے مقابلے میںمزید ابتر ہے۔ ہمارے یہاں گزشتہ 20 سے25برسوں کے دوران سیاسی عمل تیزی سے روبہ زوال ہوا ہے۔ قومی سیاست کا تصور معدوم اور صوبائی اور علاقائی بنیادپر تقسیم(Fragmentation)میں اضافہ ہواہے۔اس وقت نہ تو کوئی ایسی سیاسی جماعت ہے جسے قومی کہا جاسکے اور نہ کوئی متحرک اورفعال قیادت موجود ہے، جس میں مسائل کو حل کرنے کاعزم اور بصیرت پائی جاتی ہو۔جس کی وجہ سے مسائل کے انبارمیں نہ صرف مسلسل اضافہ ہورہاہے، بلکہ پیچیدہ بھی ہورہے ہیں۔اس تناظر میں پہلے سے موجود سیاسی جماعتوں کی اہلیت اور کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو انتہائی افسوسناک نتائج سامنے آتے ہیں۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ یہ جماعتیں گزشتہ تین انتخابات سے سندھ اور پنجاب تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔ اس کے علاوہ اس دوران ان دونوں جماعتوں میں موروثیت کی جڑیں بھی خاصی گہری ہوئی ہیںاور مختلف نوعیت کی اقرباپروریوںنے ان کی کارکردگی کوخاصی حد تک متاثر کیا ہے۔اس کے علاوہ ان جماعتوں میں دوراندیشی اورجرأت مندانہ فیصلہ سازی کا فقدان بھی شدت سے محسوس کیا جارہاہے۔2011ء میں تحریک انصاف ایک تیسرے متبادل کے طورابھر کر سامنے آئی۔ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے اس سے توقعات بھی وابستہ کررکھی تھیں۔محسوس ہورہاتھا کہ یہ ملک کے سیاسی کلچر میں تبدیلی کی علامت بن جائے گی۔مگرجس طرح اس جماعت نے مراعات یافتہ طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے '' چلے ہوئے کارتوسوں'' کو اپنے اندر جگہ دی اور شدت پسندعناصر کی غیر منطقی حمایت اور وکالت کی،اس کے نتیجے میں اس کا سیاسی تشخص کو بری طرح مجروح ہوا۔جب کہ پختونخواہ حکومت کی چھ ماہ کی کارکردگی نے اس کی عوامی مقبولیت کو مزید نقصان پہنچایاہے۔اس وقت متوشش حلقوں کی رائے ہے کہ تحریک انصاف کا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کا نعم البدل بنناتو دور کی بات،وہ سیاسی عمل کو ان دونوں جماعتوں سے زیادہ نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ گزشتہ 26برس سے ملک کی چوتھی بڑی پارلیمانی جماعت ہے۔اس کی قیادت اور عہدیداروں کی اکثریت متوسط اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔اس میں انتظامی امور کو احسن طریقے سے سرانجام دینے کاپوٹینشیل بھی موجود ہے۔یہ مہاجر قومی موومنٹ سے ٹرانسفارم ہوئی ہے۔اس نے مختلف قومیتوںسے تعلق رکھنے والے افراد کواپنی صفوں میںجگہ دی اور کئی ایک کو قومی اور صوبائی اسمبلیوںکے لیے منتخب بھی کرایا،جو اس کے قومی سیاست کا حصہ بننے کی خواہش کو ظاہر کرتاہے۔مگریہ ابھی تک اپنے ماضی اور دامن پرلگے بعض الزامات سے چھٹکارا پانے میں ناکام ہے۔ جس کی وجہ سے مستقبل قریب میںقومی سیاست میں کوئی نمایاں کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔عوامی نیشنل پارٹی(ANP) نے ماضی کی مقبول سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی (NAP) کے بطن سے جنم لیاہے۔یہ ایک لبرل ڈیموکریٹک جماعت ہے۔مگر اس نے بوجہ اپنے سیاسی کینوس کوصرف پختون قوم پرست سیاست تک محدود کرلیا ہے۔ جس کی وجہ سے دیگر قومیتوں اور لسانی اکائیوں سے تعلق رکھنے والے ترقی پسند اور لبرل سوچ کے حامل شہری اس سے دور رہنے پر مجبور ہیں۔
اب جہاں تک مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے، تو سیاسیات اور عمرانیات پر نظر رکھنے والا کوئی بھی طالب علم انھیں سیاسی یا مذہبی جماعت تسلیم کرنے پرآمادہ نہیں ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مذہب کے نام پر قائم یہ جماعتیں اپنی سرشت اور ساخت(Composition)کے اعتبار سے کسی مخصوص فرقہ یامسلک کی نمایندگی کرتی ہیں،مگر مذہب کی آفاقیت سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ان میں تبدیل ہوتے عالمی منظر نامے کوسمجھنے اور اس حوالے سے پالیسی سازی کی اہلیت بھی نظر نہیں آتی۔اسی طرح بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیںاپنی غلط حکمت عملیوں اور فکری نرگسیت کی وجہ سے عوامی قبولیت حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ یہ جماعتیں بلدیاتی کونسلرتک منتخب کرانے کی صلاحیت نہیں رکھتیں، اس لیے ان سے مستقبل قریب میں کوئی توقع وابستہ کرنا بھی عبث ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میںجو سیاسی جماعتیںفعال ہیں،ان کی اکثریت اس سیاسی ویژن سے عاری ہے ،جو ملکی مسائل کوترجیحی بنیادوںپر حل کرنے کے لیے درکار ہوتاہے۔یہ چھوٹے چھوٹے مفادات کی گرداب میں پھنسی Status Quoکو جاری رکھنے میں عافیت سمجھتی ہیں۔اب تک محض خوشنماء نعروں کی بنیاد پر عوام کو گمراہ کرتی رہی ہیں۔مگرگزشتہ20برسوں کے دوران مذہبی شدت پسندی، متشدد فرقہ واریت اور امن وامان کی ابتر صورتحال نے ان کی نااہلی کا پردہ چاک کرنے کے علاوہ ان کے اندر موجود فکری تضادات اور اہلیت کے فقدان کوبھی مزید نمایاں کردیا ہے۔ان جماعتوں کی کوتاہ بینی اور عاقبت نااندیشی کے نتیجے میں پاکستان ایک انتہائی زد پذیر (Fragile) ریاست بن گیاہے،جس کی وجہ سے اس کی بقاء اور سلامتی کو مختلف نوعیت کے خطرات اور چیلنجز کا سامناہے۔
لہٰذاملک کودرپیش پیچیدہ بحرانوں اور مخدوش سیاسی، سماجی اورمعاشی صورتحال کے تناظر میں ایک ایسی سیاسی جماعت کے لیے گنجائش پیدا ہوئی ہے،جوان مسائل و معاملات کو سمجھنے اور انھیں نیک نیتی کے ساتھ حل کرنے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتی ہو ۔ ایک ایسی سیاسی جماعت جو سرد جنگ کی نفسیاتی کیفیت کاقطعی شکار نہ ہو اور عالمی اور علاقائی سیاسی منظر نامے کو باریک بینی سے سمجھنے کاشعور رکھتی ہو۔ جو شہری اور دیہی معاشرت کے تضادات کی باریکیوں کو سمجھتی ہو اور انھیں حل کرنے میں سنجیدہ ہو۔ مقامی حکومتی نظام کی اہمیت اور افادیت سے آگاہ ہو اور کسی وقتی سیاسی فائدے کو مدنظر رکھے بغیر ایک ایسامقامی حکومتی نظام وضع کرسکے، جس میں اقتدار واختیارکی حقیقی معنی میں نچلی سطح تک منتقلی ممکن ہوسکے۔ایک ایسی وسیع البنیاد سیاسی جماعت ہی تبدیلی کے لیے عوام کے دلوں میں انگڑائی لیتی خواہش کو حقیقت کا روپ اور ان کی آنکھوںمیں سجے خوابوں کو تعبیر دینے کا باعث بن سکتی ہے۔