سارنگی نان اور خواجہ

موسیقی بھی کیا اعلیٰ چیز ہے۔ یہ روح کے ایک ایک تار پر اثر کرتی ہے۔ اس میں غضب کی طاقت ہے۔ تھوڑے وقت کے لیے انسان کو...


راؤ منظر حیات January 26, 2014
[email protected]

موسیقی بھی کیا اعلیٰ چیز ہے۔ یہ روح کے ایک ایک تار پر اثر کرتی ہے۔ اس میں غضب کی طاقت ہے۔ تھوڑے وقت کے لیے انسان کو بہت کچھ بھلا دیتی ہے۔ کسی دلپسند گانے یا راگ کے بول حقیقت میں ایسے بادل کی مانند لگتے ہیں جو آپ کو عین دھوپ میں سایہ فراہم کرتا ہے۔ کیسی کیسی خوبصورت آوازیں اور کیسی کیسی خداداد صلاحیتیں! کئی بار تو ان کا احاطہ کرنا بھی مشکل نظر آتا ہے۔ جب آپ کسی بول سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں تو بھٹک کر بھی خیال نہیں آتا کہ انتہائی قلیل وقت کے اس سحر کے پیچھے اَن دیکھے لوگوں کی کتنی محنت ہے؟ آواز تو سنائی دیتی ہے مگر وہ موسیقار جس نے یہ دھن ترتیب دی ہوتی ہے، آواز کے اندر سے کبھی صاف دکھائی دیتا ہے، پر کھبی نظر نہیں آتا۔ پھر اَن گنت سازندے اپنی تمام مہارت اور محرومیوں کے ساتھ کمال فن کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں پر حقیقت میں نظر نہیں آتے۔ موسیقار، سازندے اور شاعر وہ لوگ ہیں جو کسی بھی مدھر نغمے کے روح رواں ہوتے ہیں مگر ہمیشہ پردہ کے پیچھے رہتے ہیں۔

کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کا نیو ہوسٹل جو دراصل اب بالکل نیا نہیں ہے، گوالمنڈی اور میکلورڈ روڈ کی تکون پر بنا ہوا ہے۔1978ء میں یہ قدرے نیا تھا۔ مجھے نیو ہاسٹل میں شائد دوسرے یا تیسرے سال میں کمرہ مل گیا تھا۔ میرے ایک کلاس فیلو کو گٹار ٹھیک کرانا تھا۔ اُس کی تاریں ٹوٹ گئی تھیں۔ موسیقی سے شغف ہونے کی وجہ سے اس دوست نے مجھے بھی اس کام میں شامل کر لیا۔ گوالمنڈی کی ایک نکڑ پر ہمیں ایک دکان مل گئی جو ساز بناتی تھی۔ شام کو ہم دونوں گٹار لے کر ہوسٹل سے پیدل وہاں پہنچ گئے۔ دکان میں ایک تیس پینتیس سال کے شخص نے تار یں ڈالنے کے لیے تین دن کا وقت مانگ لیا۔ دکان میں ایک نوجوان لڑکا ایک طبلہ کو باہر سے صاف کر رہا تھا۔ ایک بزرگ آدمی دکان کے کونے میں بیٹھا سارنگی بجا رہا تھا۔

اس شخص نے موٹی سی نظر کی عینک لگا رکھی تھی۔ عمر کوئی پچاس سے اوپر تھی۔ مجھے وہ کسی کالج کا پروفیسر لگ رہا تھا۔ تین دن کے بعد جب ہم اس دکان پر پہنچے تو یہ تینوں لوگ پھر وہاں موجود تھے۔ یہ بالکل ویسے ہی بیٹھے تھے جیسے ہم انھیں چھوڑ کر گئے تھے۔ لگتا تھا یہ لوگ کافی عرصے سے یہاں منجمد ہو چکے ہیں۔ اُس دن دکان کے مالک نے ہم سے پوچھا کہ ہم لوگ کون ہیں؟ کیا کرتے ہیں؟ تعارف کی برف پگھلی۔ نوجوان لڑکے کا نام حنیف تھا اور پروفیسر نظر آنے والا شخص موسیقی کا ایک بہت معتبر نام سلیم اقبال تھا۔ ان دونوں سے بہت جلد ذاتی دوستی ہو گئی اور سلیم اقبال اور حنیف تقریباً روزانہ نیو ہوسٹل آنا شروع ہو گئے۔ حنیف ایک خوبصورت آواز کا مالک تھا اور سلیم صاحب سے موسیقی کی رمزیں سیکھ رہا تھا۔ حنیف جب گانا تھا تو حقیقت میں سننے والے وجد میں چلے جاتے تھے۔ حنیف، آج وقت کی گرد میں ایک بے نام زندگی گزار رہا ہے۔ وہ بیس سال پہلے گانا چھوڑ چکا ہے۔

مگر سلیم اقبال سے تعارف ایک حیرت کدہ تھا۔ وہ ایک مدبر اور عالم شخص تھا۔ میں 1981ء کا ذکر کر رہا ہوں۔ سلیم اقبال اُس وقت تک بالکل ٹوٹ چکا تھا اور ایک بکھرا ہوا انسان تھا۔ مگر وہ ایک عظیم موسیقار تھا۔ اُس کو راگ، ان کے اوقات کار، ان کے شدھ کومل سُر اور گانے کی نزاکتوں کا بھر پور ادارک تھا۔ در اصل سلیم اور اقبال دو بھائی تھے۔ سلیم اقبال نے لافانی دھنیں بنائیں۔ مثلاً ایک دھن ایسی کہ آج بھی اثر کرتی ہے۔ "اے راہِ حق کے شہیدوں، وفا کی تصویرو"، یہ دھن اس نے 1965-66ء میں بنائی تھی اور آج بھی لہو گرما دیتی ہے۔ نسیم بیگم کی آواز اس دھن میں غضب ڈھاتی ہے۔ سلیم اقبال نے تقریباً 31 فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ جب سلیم اقبال سے میری شناسائی ہوئی اس وقت اس کا دور گزر چکا تھا اور وہ حقیقت میں شدید ناقدری کا شکار تھا۔

تھوڑے سے وقت میں مجھے احساس ہوا کہ سلیم انتہائی سادہ اور پُر خلوص انسان ہے۔ آپ یقین فرمائیے اُس شخص نے اپنی زبان سے کہہ کر کبھی کوئی چیز طلب نہیں کی۔ وہ گوالمنڈی میں ایک پکوڑوں کی دکان سے دو نان اور آلو کے پکوڑے خریدتا تھا اور یہی اس کا دوپہر کا کھانا تھا۔ میرے خیال میں اس کھانے کی قیمت تین چار روپے سے زیادہ نہیں تھی۔ وہ کبھی کسی اور کو اپنے کھانے کے پیسے ادا کرنا کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ ایک دن میں ان کو موٹر سائیکل پر ریڈیو پاکستان لاہور لے کر گیا۔ جہاں وہ ایک ہفتہ وار پروگرام ریکارڈ کروایا کرتے تھے۔ میں نے اس شخص کی ناقدری بڑی قریب سے دیکھی۔ ریڈیو پاکستان کے چوکیدار نے گیٹ پر ہمیں روک لیا۔ سلیم اقبال اس چوکیدار کو اپنی شناخت کراتے کراتے تھک چکا تھا۔ حالانکہ وہ ہر ہفتہ یہاں آتا تھا۔ بڑی مشکل سے ہم دونوں ریڈیو کی بلڈنگ میں پہنچے۔ سلیم صاحب کو تقریباً تین چار گھنٹے انتظار کروایا گیا۔ ہم لوگ ریڈیو کی کنٹین میں بیٹھ گئے۔ وہاں عظیم غزل گائیک غلام علی سے ملاقات ہوئی۔ غلام علی نے کینٹین کی میز پر طبلہ بجا کر اپنا ایک گانا سنایا۔ اس کی آواز کی مٹھاس اور لیَ مجھے آج بھی یاد ہے۔ سلیم صاحب اکثر مجھے کہا کرتے تھے کہ ریڈیو پاکستان ان کو ہر پروگرام کے پیسے دیتا ہے اور اس پیسے سے ان کا چولہا جلتا ہے۔ وہ ہمیشہ ریڈیو کی تعریف کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ ان جیسے لوگوں کا بہت عزت دار سہارا ہے۔

میں کئی بار ان کو موٹر سائیکل پر احتراماً ان کو گھر چھوڑ کر آتا تھا۔ وہ شاہدرہ کے نزدیک ایک معمولی سی بستی میں قیام پذیر تھے۔ گھر تک پہنچے والی گلیاں تقریباً نیم پختہ تھیں اور گھر کے سامنے ایک کچا میدان تھا۔ وہ گھر شائد ان کا اپنا تھا یا شائد کرائے کا، مجھے اب یاد نہیں ہے۔ گھر کے اندر موسیقی کے مختلف ساز پڑے ہوتے تھے۔ وہ تقریباً ہر ساز کو سمجھتے تھے۔ کئی بار مجھے ایسے لگتا تھا کہ اس شخص کے سامنے ساز خودبخود بجنا شروع ہو جاتے ہیں۔ آپ ذرا یاد کیجیے! ایک گانا جو پاکستان اور انڈیا میں ہر شادی پر مقبول ہے، "دیساں دا راجا۔۔ میرے بابل دا پیارا"، یہ بھی اس موسیقار کی دھن تھی۔ اس کے علاوہ اس کے سیکڑوں گانے ہیں جو آج بھی لافانی ہیں۔ دوچار مہینے میں نیو ہوسٹل اور استاد سلیم اقبال لازم و ملزوم ہو چکے تھے۔ بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ چند موسیقار بہت اچھے گلوکار بھی ہوتے ہیں۔ ایک دن سلیم صاحب ایک شخص اختر اکھیاں کو ساتھ لے کر آئے۔ اختر اکھیاں بھی باکمال موسیقار تھے۔ اختر اکھیاں نے ہاسٹل میں گانا گا کر وہ سما باندھا کہ ہم لوگ حیران رہ گئے۔

میں میڈیکل کالج میں پانچ سال رہا ہوں۔ ان پانچ سال میں چار سال بارہ مہینے ظفر بھی ہاسٹل میں مقیم رہا ہے۔ ظفر میرا دوست تھا اور ہے۔ وہ جناح کالونی میں میرے گھر کے نزدیک رہتا تھا۔ ظفر ایک مستند مغل خاندان کا چشم و چراغ تھا۔ مگر ہاسٹل میں ہم لوگوں نے ظفر کو "خواجہ" کہنا شروع کر دیا۔ خواجہ ظفر کا میڈیکل کی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ مگر خواجہ ہر وقت ہمارے ہوسٹل میں مقیم تھا۔ کچھ عرصے وہ میرا روم میٹ بھی رہا۔ خواجہ ظفر ایک دن کمرہ میں آیا تو سلیم اقبال صاحب، احمد فرازؔ کی ایک غزل کی دُھن ترتیب دے رہے تھے۔ خواجہ نے وہ دُھن یاد کر کے استاد جی کو فوراً سنا دی۔ سلیم اقبال اس کی آواز سن کر حیران سے ہو گئے۔ اس کے بعد خواجہ ظفر باقاعدگی سے ان کا شاگرد بن گیا۔ ظفر نے سلیم اقبال سے موسیقی سیکھنی شروع کر دی۔ یہ سلسلہ کئی سال جاری رہا۔ جب میں نے سول سروس کے امتحان کی تیاری کے لیے پڑھنا شروع کیا تو سلیم اقبال صاحب سے رابطہ قدرے کم ہو گیا۔

مگر خواجہ مسلسل سلیم اقبال کی شاگردی میں مصروف کار رہا۔1994ء میں وہ ہنر مند موسیقار فالج کا شکار ہو گیا اور بڑی تنگ دستی اور غربت میں جہان فانی سے رخصت ہوا۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو کبھی موسیقی کے نزدیک نہیں آنے دینگے کیونکہ ہمارے ملک کے اعتبار سے اس کی قدر و منزلت بہت کم ہے۔ حصول روزگار کے لیے موسیقی کو ذریعہ بنانا گھاٹے کا سودا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے بیٹے کو کوئی اور کام کرنے کی نصیحت کرتے تھے۔ سلیم اقبال کا تعلق گائیکی کے کسی گھرانے سے نہیں تھا۔ اُس نے یہ نایاب فن اپنی محنت سے سیکھا تھا۔ اس کا مقدر بھی اتنا اچھا نہیں تھا کہ وہ اپنے فن کی بدولت معاشی طور پر مستحکم ہو سکتا۔ ریڈیو کا ہفتہ وار پروگرام اور چند شاگردوں کی دی ہوئی معمولی رقم اس سے گزر بسر کیا ہوتی اور کیسے ہوتی! نتیجہ غربت کی وہ چکی تھی جس میں روز پسنا تھا۔ روز جینا اور روز مرنا تھا۔ اس کے باوجود میں نے سلیم اقبال کے منہ سے کبھی کوئی گلہ نہیں سنا۔ وہ ہمیشہ خدا کا شکر ادا کرتے رہتے تھے۔

خواجہ اب نیو یارک میں ہے۔ ایک سال پہلے میں نیو یارک گیا تو خواجہ کے ساتھ کچھ گھنٹے گزارنے کا موقعہ ملا۔ اس نے مجھے احمد فرازؔ کی غزل بالکل اس طرح گا کر سنائی جس طرح 34 سال پہلے نیو ہاسٹل کے کمرے میں سلیم اقبال نے اسے سکھائی تھی۔ غزل سننے کے بعد میں اور خواجہ کافی دیر کے لیے خاموش ہو گئے اور گاڑی کے شیشوں سے باہر دیکھنے لگے۔ خواجہ نیو یارک میں ٹیکسی چلاتا ہے۔ ہم اہل فن کی مکمل بے قدری کرتے ہیں۔ مجھے اس کی وجہ آج تک سمجھ نہیں آ سکی۔ سلیم اقبال جیسا عظیم موسیقار اور اس جیسے بہت سے اہل فن شدید مفلسی کا نان کھا کر زندگی کی سارنگی بجانے پر مجبور ہیں! جیسے خواجہ آج زندہ رہنے کے لیے نیو یارک میں ٹیکسی چلانے پر مجبور ہے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔