افغانستان میں خانہ جنگی کے پاکستان پرمنفی اثرات

افغانستان کی کشیدہ صورتحال کے تناظر میں پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت کو مل کر ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا۔

افغانستان کی کشیدہ صورتحال کے تناظر میں پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت کو مل کر ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا۔ (فوٹو:فائل)

افغانستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے باعث پاکستان میں تشویش بڑھتی جارہی ہے، ایک طویل جنگ جو خانہ جنگی کی جانب بڑھ رہی ہے، پاکستان کے لیے کئی چیلنجز کا باعث بنے گی،کیونکہ ہمارے ملک کی سیکیورٹی صورتحال کا افغانستان سے براہِ راست تعلق ہے۔

میڈیا اطلاعات کے مطابق افغان طالبان نے شمالی افغانستان پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے تین صوبوں قندوز، سرائے ِپْل اور تخار پر قبضہ کرلیا ہے۔

نمایندہ ایکسپریس نے اپنے ذرائع سے یہ خبر دی ہے کہ بہت جلد پاکستان سفارتی کوششوں کے سلسلہ میں افغانستان پر اہم ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس کی میزبانی کرے گا جس کا مقصد جنگ زدہ ملک کو خانہ جنگی سے بچانا ہے، افغانستان کے ہمسایہ ممالک جن میں روس ،چین ،ایران اور دوسرے سٹیک ہولڈر بشمول ترکی کے وزرائے خارجہ اس کانفرنس میں شرکت کریں گے۔

درحقیقت افغانستان میں جاری کشیدگی پاکستان کو دوبارہ ان خطرات سے دوچار کردے گی جس سے نمٹنے کے لیے پاکستان نے بھاری جانی نقصان اٹھایا اور شدید معاشی اور سماجی اثرات چار دہائیوں تک برداشت کیے، اس وقت مغربی سرحد پر مزید کشیدگی کا مطلب یہ ہوگا کہ ملک کو بیک وقت ان اندرونی، علاقائی اور بین الاقوامی چیلنجوں سے نمٹنا پڑے گا جو اس کشیدگی کے نتیجے میں پیدا ہوں گے۔

افغانستان میں اس سے پہلے یا اب جو بھی کھیل کھیلا جاتا ہے پاکستان پر اس کے براہ راست اثرات مرتب ہوتے ہیں۔طالبان اور افغان فورسز کے درمیان لڑائی میں شدت آتے ہی افغان عوام کی بڑی تعداد مہاجر بن کر پاکستان کا رخ کرلے گی اور ملک میں امن و امان کے مسائل بھی پیدا ہونگے، بدقسمتی سے دہشت گردی کا عفریت ایک بار پھر سے سر اٹھا رہا ہے۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان پہلے ہی پی بی ایس نامی نشریاتی ادارے کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں خانہ جنگی کا مطلب ''پاکستان میں دہشت گردی'' ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں موجود شدت پسند بھی طالبان کی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے دوبارہ متحرک ہوسکتے ہیں۔

بلاشبہ افغانستان میں جاری کشیدہ صورتحال دہشت گرد گروہوں کو بھی وہاں سے کام کرنے کا موقع فراہم کرے گی۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ خطرہ تو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے ہے جس کے ساڑھے 6 ہزار جنگجو افغانستان میں موجود ہیں اور وہاں سے سرحد پار حملے کرتے ہیں۔

ٹی ٹی پی میں اتحاد کے بعد ان کی صلاحیت مزید بڑھ جائے گی۔ پابندیوں پر نظر رکھنے والی اقوامِ متحدہ کی ٹیم کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ''مختلف دھڑوں کے آپس میں مل جانے سے ٹی ٹی پی مزید مضبوط ہوچکی ہے''افغان طالبان کے ساتھ ٹی ٹی پی کا تعلق برقرار ہے اور اس امر سے پاکستان کے سیکیورٹی حکام بھی آگاہ ہیں۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث حالیہ مہینوں میں پاکستانی اہلکاروں کو ہونے والے جانی نقصان میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

اب تک خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے دو سو کے لگ بھگ واقعات رونما ہوئے ہیں اور یہ مستقبل کی صورتحال کا پتا دیتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ''القاعدہ کی قیادت کا ایک بڑا حصہ پاک افغان سرحد کے پاس موجود ہے' اور داعش خراسان بھی نہ صرف متحرک ہے بلکہ خطرناک بھی ہے۔''پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے پہلے ہی خبردار کردیا ہے کہ اگر پڑوس میں کشیدگی جاری رہتی ہے تو دہشت گردوں کے سلیپر سیل دوبارہ متحرک ہوسکتے ہیں۔

بلوچستان میں بھی غیر ملکی حساس اداروں کے زیرِ اثر گروہوں کی جانب سے دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ یوں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سخت قربانیوں کے بعد حاصل کی گئی پاکستان کی کامیابیاں ضایع ہونے کا امکان پیدا ہوجائے گا۔ امریکی تو اس ناکام جنگ سے جان چھڑا کر جا رہے ہیں۔ کرسچن سائنس مانیٹر کے مطابق ''امریکا کو افغانستان سے اب کوئی خطرہ نہیں۔

وہاں جتنا بھی مشکل علاقہ ہو، جہاں بھی دہشت گرد چھپے بیٹھے ہوں امریکا صلاحیت رکھتا ہے کہ ان کے خلاف کارروائی کرسکے، تو ایسی صورت میں اب وہاں بیٹھے رہنے کا جواز نہیں۔''افغانستان کے حالات سے پاکستان متاثر ہوتا آرہا ہے۔ سرحدی علاقوں کے لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ فوائد صرف حکمران اشرافیہ کے ایک محدود گروہ نے سمیٹے۔افغانستان تیسری مرتبہ گریٹ گیم کے لیے میدان بننے جا رہا ہے۔


افغانستان میں لڑائی کے مہلک اثرات پاکستان پر مرتب ہوئے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ستر سے اسی ہزار پاکستانی لقمہ اجل بنے۔ ان بیس برسوں میں طالبان کی یہی بڑی کامیابی ہے کہ انھوں نے نہ صرف خود کو بلکہ اپنی تنظیم اور طاقت کو بھی برقرار رکھا۔ کامیابی سے گوریلا کارروائیاں کرتے رہے۔ امریکی فوج پورے افغانستان سے طالبان کے خاتمے میں ناکام رہی۔ اس بات کے بھی مصدقہ شواہد موجود ہیں کہ امریکی حکام نے افغانستان کے مختلف حصوں سے بھاری مقدار میں معدنیات نکالیں۔ جن میں لیتھیم بھی شامل ہے۔

اس کے ساتھ جدید ترین ہتھیاروں کے کئی تجربات بھی کیے۔ایٹم بم کے بعد دنیا کا سب سے طاقتور بم (GBU-43/B)پاکستان سے منسلک سرحدی علاقے میں چلا کر نتائج دیکھے۔ ڈرون طیاروں کی تمام اقسام کو آزمایا۔ انٹیلی جنس کا نظام اتنا مربوط اور مضبوط تھا کہ جب پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے دلخراش واقعہ کے بعد امریکا سے رجوع کیا گیا تو افغان سرزمین پر ہی ٹی ٹی پی کے سربراہ فضل اللہ کو ٹریس کرکے تین ساتھیوں سمیت ایک کار میں بھسم کردیا تھا۔

افغانستان جیسے ملک میں وسیع البنیاد حکومت قائم کرنا آسان نہیں۔اطلاعات کے مطابق طالبان طاقت سے کابل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی بلکہ عالمی آشیرباد سے قائم ہونے والی اشرف غنی حکومت کے اندر بھی اختلافات ہیں۔اس پیچیدہ صورتحال میں یہ سمجھنا ہوگا کہ آخر امریکا کیا چاہتا ہے؟ کہا جا رہا ہے کہ اگر امریکا نہ چاہے تو طالبان اقتدار پر قابض نہیں ہوسکتے۔ امریکا اب فضائی بمباری کرکے طالبان کو نقصان پہنچا اور کوشش کر رہا ہے کہ طالبان بلاشرکت غیرے اقتدار کے مالک نہ بن جائیں۔ یہ بھی تو دیکھنا باقی ہے کہ کیا امریکا واقعی افغانستان میں کوئی مضبوط حکومت یا امن وامان چاہتا ہے۔ اس وقت علاقے میں امریکا کی سب سے زیادہ دلچسپی چین کے معاملات میں ہے۔

امریکا اپنی جنگی مہم کے دوران افغان طالبان کی لیڈر شپ کو ختم نہ کرسکا تو اس نے ہی قطر میں طالبان کا دفتر کھلوا کر انھیں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حیثیت دے دی۔ حقیت یہی ہے کہ امریکا کی افغانستان میں موجودگی نے اس تمام عرصے کے دوران پورے خطے پر اثرات مرتب کیے۔

سابق سویت یونین اور اس کے ٹوٹنے سے الگ ہونے والے ممالک وسائل اور صلاحیتیں رکھنے کے باوجود ترقی کی دوڑ میں جاپان یا جنوبی کوریا نہیں بن سکے ۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا ہے کہ بھارت گزشتہ کئی برسوں سے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا آ رہا ہے،وہ نہیں چاہتا کہ افغانستان میں امن آئے، بھارت افغانستان میں سپائلر کا کردار ادا کر رہا ہے تاکہ وہ دونوں اطراف سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے واقعات جاری رکھ سکے۔

بھارت اور افغانستان نے پاکستان کے خلاف الزام تراشی اور طالبان کی برائی کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا تھا جسے پاکستان نے بے نقاب کر دیا ہے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بھارت پاکستان کے خلاف اپنی سازشوں میں ہمہ وقت مصروف ہے ۔

وزیرستان میں مسلسل دہشت گردی کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ بلوچستان بھی زد میں ہے، داسو میں چینی انجینئروں کی بس پر حملے نے ایک بار پھر سے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ اس سب کے باوجود ابھی تک امریکا کا رویہ مناسب نہیں۔ امریکی وزیر خارجہ بھارت کا دورہ کرکے چلے گئے مگر پاکستان نہیں آئے۔

اطلاعات یہی ہیں کہ پاکستان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ افغانستان میں بھارت کے کردار کو تسلیم کیا جائے۔ یقیناً یہ امریکا کا اشارہ تھا جب پچھلے دنوں ازبکستان میں ایک بین الاقوامی تقریب کے دوران افغان صدر اشرف غنی نے وزیراعظم عمران خان کی موجودگی میں الزام لگا دیا کہ پاکستان نے دس ہزار جنگجو افغانستان میں داخل کردیے ہیں۔افغان صدر کی اس اشتعال انگیز حرکت کے باعث پاکستان کی جانب سے تمام فریقوں کو اپنے ہاں مذاکرات کی میز پر بٹھانے کا پروگرام بھی دھرا رہ گیا۔

بات سادہ ہے کہ پاکستان میں آج بھی لاکھوں افغان مہاجرین آباد ہیں اِن میں سے طالبان کی شناخت کرنا آسان نہیں ہے۔جنگی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں شدید بدامنی پیدا ہونے کی صورت میں داعش، القاعدہ، ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کو پنپنے کے لیے محفوظ ٹھکانے میسر آسکتے ہیں۔لسانی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم شروع ہوگئی تو پڑوسی ممالک پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے، کیونکہ ایسے ہی ماحول میں عالمی شاطروں کو اپنی چالیں چلنے کا موقع ملتا ہے۔

یہ نازک ترین وقت ہے، افغانستان کی کشیدہ صورتحال کے تناظر میں پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت کو مل کر ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا تاکہ پاکستان کو کسی بھی نقصان سے بچایا جاسکے ، یہ ہماری قومی سلامتی کا معاملہ ہے ،لہذا بدلتی صورتحال کے تناظر میں پاکستان کو اپنی قومی سلامتی کے امور پربھرپور توجہ دینی ہوگی۔

حرف آخر، یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان، افغانستان میں قیام امن کا خواہاں اور داعی ہے، افغانستان میں امن ہوگا تو پورے خطے کی معیشت تبدیل ہو گی اورترقی وخوشحالی کی راہ پر خطہ گامزن ہوگا۔
Load Next Story