داغ اچھے ہیں اور دھبے بھی
دیکھیے، سوچیے، غورئیے،حوضیے تو یہ داغ دھبے ایک طرح سے خربوزہ ہیں کہ اس کا مغز بھی کام آجاتا ہے۔
داغ دھبوں کی افادیت اور اہمیت صرف اس وجہ سے نہیں کہ ایک دنیا ان کا دیا اور کمائی کھاتی ہے۔
دھوبیوں سے لے کر صابنوں اور ڈیٹرجنٹ پاؤڈرز کی ایک دنیا ان کے دم قدم سے دام و درہم کماتی ہے بلکہ داغ دھبوں کی ایک اور بڑی اہمیت افادیت اور مقبولیت یہ ہے کہ یہ چشم بد کے خلاف ایک مؤثر دفاعی ہتھیار بھی ہے، داغ دھبے اور کالے ٹیکے نہ ہوتے تو نہ جانے کتنی اچھی صورتیں بڑی نظروں کا شکار ہو جاتیں کیونکہ اس دنیا کا تو وطیرہ، پیشہ اور کام ہی یہی ہے کہ جہاں کوئی اچھی صورت دیکھی ٹارگٹ کردی؟
اچھی صورت بھی کیا بُری شے ہے
جس نے ڈالی بُری نظر ڈالی
یہ تاریخی واقعہ تو آپ کو بھی معلوم ہو گیا کہ حافظ شیرازی نام کے ایک ندیدے اور بدنگاہ شخص نے شیرازی ترکوں پر اچھی نظر ڈال کر سمرقند و بخارا نذر کر دیا، جس پر ایک لنگڑے نے سمر قند و بخارا کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ترکان شیرازی کی بھی، ثبوت یہ ہے کہ اس کے بعد شیراز میں کوئی یا ترکوں میں کوئی شیرازی پیدا نہیں ہوا۔
ایک اور مورخ کا کہنا ہے کہ ساری ترکان شیرازی یا شیراز ترکی ہندو بن کر ہند چلی آئیں تو کم بخت لنگڑے بدچشم نے یہاں تک بھی ان کا تعاقب کیا۔ لیکن صرف دلی کی بلی دے سکا۔
مطلب یہ کہ داغ اچھے ہیں دھبے ان سے بھی اچھے ہیں اور کالے تل اور کالے ٹیکے تو ان سب سے اچھے ہیں۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ مملکت پاکستان اپنے حسن، صورت اور رسوائی کے لیے چاردانگ عالم میں مشہور ہے، اب تک چشم بد یا بری نظر سے کیوں بچا ہوا ہے؟
اپنے داغ دھبوں اور کالے ٹیکوں کی وجہ سے، حالانکہ یہاں ساری واشنگ مشینیں بھی لگی ہوئی ہیں جو دن رات ان داغ دھبوں کو دھونے کے لیے مستعد ہیں۔ کیونکہ خطرہ ہے کہ کہیں داغ دھبوں کی بہتات سے سارا جامہ یا دامن ہی سیاہ نہ ہو جائے اور پھر ان پر سفید داغ دھبے ڈالنے کی ضرورت پڑ جائے۔
ویسے سنا ہے کہ مذکورہ واشنگ مشین اور واشنگ پاؤڈر جو شاید واشنگٹن سے درآمد کیا جاتا ہے، داغ دھبے دور کرنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں، اور ایک دن وہ بھی آنے والا ہے جب سارے جامے اور دامن سارے کے سارے سیاہ ہو جائیں گے اور پھر داغ دھبے بھی سفید ڈالنا پڑیں گے یا پورے کے پورے جامے اور دامن ہی باہر لے جاکر دھوئے جائیں گے، اس لیے ایک مرتبہ پھر کہتے ہیں کہ داغ اچھے ہیں اور یہ داغ دھبے ہی ہیں جن کی برکت سے گلشن کا سارا کاروبار چل رہا ہے۔
ذرا تصور کیجیے اگر داغ دھبے نہ ہوتے تو... ہمارا تو بری نظروں کا شکار ہو کر خدا نخواستہ خدا نخواستہ اور پھر خدا نخواستہ... اس لیے زور لگا کر ہیا یعنی داغ زندہ باد۔ دھبے پائندہ باد اور دامن فرزند آباد۔
امیر مینائی نے بھی داغ دھبوں کو نہ دھونے کی ہدایت کی ہے
پڑے ہیں تو پڑے رہنے دو میرے خون کے دھبے
تمہیں دیکھیں گے سب محشر میں دامان کون دیکھے گا
داغ دہلوی کو تو داغ اتنے پسند تھے کہ اپنا نام ہی داغ رکھ لیا اور بہادر شاہ ظفر کا تو سارا دل ہی داغدار تھا۔
کہہ دو ان انگریزوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دلی داغدار میں
لیکن انگریزی انتہائی ڈھیٹ نکلے ٹس سے مس نہیں ہوئے اور کہیں اورجا بسے کی بجائے دلی داغدار میں بس گئے۔ مجبوراً بہادر شاہ ظفر کو رنگون جا بسنا پڑا۔ اور رنگون کے رنگوں میں بے رنگ ہوگئے اور اس کا یہ خدشہ صحیح ثابت ہوگیا
مجھ کو بے رنگ نہ کر دیں کہیں پہ رنگ اپنے
سبز موسم ہے ہوا سرخ فضا نیلی ہے
مطلب یہ کہ بقول امیر حمزہ شنواری گڑ کی ڈلی کو جس طرف سے بھی چکھیے میٹھا ہی ہوگا۔ اور داغ دھبوں کو جس اینگل سے بھی دیکھئے نفع آور بلکہ نقد آور ثابت ہوں گے، کم از کم ہمیں تو آج تک اس کی کوئی مثال نہیں ملی ہے کہ داغ دھبوں نے کسی کو نقصان پہنچایا ہو اور اگر کہیں بظاہر نقصان بھی دکھائی دیتا ہو تو اس نقصان کا بھی فائدہ بلکہ فوائد ہوتے ہیں مثلاً اپنے وطن عزیز کو دیکھیے کہ سارے ''گل'' جو داغ دھبے کھلا رہے ہیں اگر یہ داغ دھبے جن میں سے اکثر خاندان انگریزوں، سکھوں یا مغلوں کے دور سے چلے آرہے ہیں اگر یہ نہ ہوتے تو اس بیچارے کالیے کا کیا بنتا۔
ظالم یہود و ہنود تو اس کی اچھی صورت پر بری نظر ڈال ڈال کر بھسم کر چکے ہوتے، اگر یہ قائم و دائم ہے دن دونی رات چوگنی ترقی داغ دھبوں کی سنوارنے میں کر رہا ہے۔ محض اس وجہ سے کہ یہ میڈیا ''سیالکوٹیا'' ہے یعنی اس کے مکھڑے پر یہ کالے کالے تل اور دامن پر کالے کالے داغ اور دھبے میں دلہن کو لوگ کالا ٹیکہ لگاتے ہیں اور یہاں دلہن ہی '' داغ داغ اُجالا'' ہے۔
دیکھیے، سوچیے، غورئیے،حوضیے تو یہ داغ دھبے ایک طرح سے خربوزہ ہیں کہ اس کا مغز بھی کام آجاتا ہے، بیج مرغوں کی خوراک بن جاتے ہیں اور چھلکوں سے گدھوں کا پیٹ بھر جاتا ہے اور ایک دوسرے کو دیکھ کر رنگ بھی تو پکڑتے ہیں، داغ لگانے والے بھی فائدے میں رہتے ہیںا ور لگوانے والے بھی۔ پھر دھونے یا چھڑانے والے بھی فائدہ اُٹھا لیتے ہیں، دامن بھی رنگا رنگ ہو جاتا ہے اور دھونے پر نیا نویلا اور جو داغ بھی...داغ اچھے ہیں۔
اور داغ سے دغا بھی تو بنتا ہے نا۔ دغا دغا وئی وئی
دھوبیوں سے لے کر صابنوں اور ڈیٹرجنٹ پاؤڈرز کی ایک دنیا ان کے دم قدم سے دام و درہم کماتی ہے بلکہ داغ دھبوں کی ایک اور بڑی اہمیت افادیت اور مقبولیت یہ ہے کہ یہ چشم بد کے خلاف ایک مؤثر دفاعی ہتھیار بھی ہے، داغ دھبے اور کالے ٹیکے نہ ہوتے تو نہ جانے کتنی اچھی صورتیں بڑی نظروں کا شکار ہو جاتیں کیونکہ اس دنیا کا تو وطیرہ، پیشہ اور کام ہی یہی ہے کہ جہاں کوئی اچھی صورت دیکھی ٹارگٹ کردی؟
اچھی صورت بھی کیا بُری شے ہے
جس نے ڈالی بُری نظر ڈالی
یہ تاریخی واقعہ تو آپ کو بھی معلوم ہو گیا کہ حافظ شیرازی نام کے ایک ندیدے اور بدنگاہ شخص نے شیرازی ترکوں پر اچھی نظر ڈال کر سمرقند و بخارا نذر کر دیا، جس پر ایک لنگڑے نے سمر قند و بخارا کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ترکان شیرازی کی بھی، ثبوت یہ ہے کہ اس کے بعد شیراز میں کوئی یا ترکوں میں کوئی شیرازی پیدا نہیں ہوا۔
ایک اور مورخ کا کہنا ہے کہ ساری ترکان شیرازی یا شیراز ترکی ہندو بن کر ہند چلی آئیں تو کم بخت لنگڑے بدچشم نے یہاں تک بھی ان کا تعاقب کیا۔ لیکن صرف دلی کی بلی دے سکا۔
مطلب یہ کہ داغ اچھے ہیں دھبے ان سے بھی اچھے ہیں اور کالے تل اور کالے ٹیکے تو ان سب سے اچھے ہیں۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ مملکت پاکستان اپنے حسن، صورت اور رسوائی کے لیے چاردانگ عالم میں مشہور ہے، اب تک چشم بد یا بری نظر سے کیوں بچا ہوا ہے؟
اپنے داغ دھبوں اور کالے ٹیکوں کی وجہ سے، حالانکہ یہاں ساری واشنگ مشینیں بھی لگی ہوئی ہیں جو دن رات ان داغ دھبوں کو دھونے کے لیے مستعد ہیں۔ کیونکہ خطرہ ہے کہ کہیں داغ دھبوں کی بہتات سے سارا جامہ یا دامن ہی سیاہ نہ ہو جائے اور پھر ان پر سفید داغ دھبے ڈالنے کی ضرورت پڑ جائے۔
ویسے سنا ہے کہ مذکورہ واشنگ مشین اور واشنگ پاؤڈر جو شاید واشنگٹن سے درآمد کیا جاتا ہے، داغ دھبے دور کرنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں، اور ایک دن وہ بھی آنے والا ہے جب سارے جامے اور دامن سارے کے سارے سیاہ ہو جائیں گے اور پھر داغ دھبے بھی سفید ڈالنا پڑیں گے یا پورے کے پورے جامے اور دامن ہی باہر لے جاکر دھوئے جائیں گے، اس لیے ایک مرتبہ پھر کہتے ہیں کہ داغ اچھے ہیں اور یہ داغ دھبے ہی ہیں جن کی برکت سے گلشن کا سارا کاروبار چل رہا ہے۔
ذرا تصور کیجیے اگر داغ دھبے نہ ہوتے تو... ہمارا تو بری نظروں کا شکار ہو کر خدا نخواستہ خدا نخواستہ اور پھر خدا نخواستہ... اس لیے زور لگا کر ہیا یعنی داغ زندہ باد۔ دھبے پائندہ باد اور دامن فرزند آباد۔
امیر مینائی نے بھی داغ دھبوں کو نہ دھونے کی ہدایت کی ہے
پڑے ہیں تو پڑے رہنے دو میرے خون کے دھبے
تمہیں دیکھیں گے سب محشر میں دامان کون دیکھے گا
داغ دہلوی کو تو داغ اتنے پسند تھے کہ اپنا نام ہی داغ رکھ لیا اور بہادر شاہ ظفر کا تو سارا دل ہی داغدار تھا۔
کہہ دو ان انگریزوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دلی داغدار میں
لیکن انگریزی انتہائی ڈھیٹ نکلے ٹس سے مس نہیں ہوئے اور کہیں اورجا بسے کی بجائے دلی داغدار میں بس گئے۔ مجبوراً بہادر شاہ ظفر کو رنگون جا بسنا پڑا۔ اور رنگون کے رنگوں میں بے رنگ ہوگئے اور اس کا یہ خدشہ صحیح ثابت ہوگیا
مجھ کو بے رنگ نہ کر دیں کہیں پہ رنگ اپنے
سبز موسم ہے ہوا سرخ فضا نیلی ہے
مطلب یہ کہ بقول امیر حمزہ شنواری گڑ کی ڈلی کو جس طرف سے بھی چکھیے میٹھا ہی ہوگا۔ اور داغ دھبوں کو جس اینگل سے بھی دیکھئے نفع آور بلکہ نقد آور ثابت ہوں گے، کم از کم ہمیں تو آج تک اس کی کوئی مثال نہیں ملی ہے کہ داغ دھبوں نے کسی کو نقصان پہنچایا ہو اور اگر کہیں بظاہر نقصان بھی دکھائی دیتا ہو تو اس نقصان کا بھی فائدہ بلکہ فوائد ہوتے ہیں مثلاً اپنے وطن عزیز کو دیکھیے کہ سارے ''گل'' جو داغ دھبے کھلا رہے ہیں اگر یہ داغ دھبے جن میں سے اکثر خاندان انگریزوں، سکھوں یا مغلوں کے دور سے چلے آرہے ہیں اگر یہ نہ ہوتے تو اس بیچارے کالیے کا کیا بنتا۔
ظالم یہود و ہنود تو اس کی اچھی صورت پر بری نظر ڈال ڈال کر بھسم کر چکے ہوتے، اگر یہ قائم و دائم ہے دن دونی رات چوگنی ترقی داغ دھبوں کی سنوارنے میں کر رہا ہے۔ محض اس وجہ سے کہ یہ میڈیا ''سیالکوٹیا'' ہے یعنی اس کے مکھڑے پر یہ کالے کالے تل اور دامن پر کالے کالے داغ اور دھبے میں دلہن کو لوگ کالا ٹیکہ لگاتے ہیں اور یہاں دلہن ہی '' داغ داغ اُجالا'' ہے۔
دیکھیے، سوچیے، غورئیے،حوضیے تو یہ داغ دھبے ایک طرح سے خربوزہ ہیں کہ اس کا مغز بھی کام آجاتا ہے، بیج مرغوں کی خوراک بن جاتے ہیں اور چھلکوں سے گدھوں کا پیٹ بھر جاتا ہے اور ایک دوسرے کو دیکھ کر رنگ بھی تو پکڑتے ہیں، داغ لگانے والے بھی فائدے میں رہتے ہیںا ور لگوانے والے بھی۔ پھر دھونے یا چھڑانے والے بھی فائدہ اُٹھا لیتے ہیں، دامن بھی رنگا رنگ ہو جاتا ہے اور دھونے پر نیا نویلا اور جو داغ بھی...داغ اچھے ہیں۔
اور داغ سے دغا بھی تو بنتا ہے نا۔ دغا دغا وئی وئی