نذیرعباسی شہید کی عوامی حقوق کے لیے جدوجہد

جدوجہد کے دوران خودکار اور خودانحصار انجمنیں اور تنظیمیں بھی بنی ہیں جو اپنے حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں۔

zb0322-2284142@gmail.com

1980 میں مارشل لا دور میں جب سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں تھیں، نذیر عباسی کو گرفتار کرکے کراچی کی ایک اذیت گاہ میں شدید جسمانی تشدد کرکے قتل کردیا گیا۔

اس وقت نذیر عباسی جام شورو یونیورسٹی میں ایم اے سیاسیات (سال آخر)کے طالب علم تھے۔ وہ طلبا رہنما کے ساتھ ساتھ کمیونسٹ نظریے کے حامل ایک غیر طبقاتی اور بے ریاستی آزاد سماج کے حامی تھے۔

وہ دنیا کے ملکوں کی ریاستی سرحدوں کو ختم کرکے دنیا کو ایک خاندان میں بدلنے کی جدوجہد میں برسرپیکار تھے اور اسی مقصد کے لیے وہ تادم مرگ جدوجہد کرتے رہے۔ ان کے تمام ساتھیوں کا یہ نعرہ ہے کہ ''دنیا کے محنت کشو ایک ہو جاؤ۔''

نذیر عباسی نے طلبا، مزدوروں، کسانوں، دانشوروں، ڈاکٹروں، اساتذہ، فنکاروں، خواتین اور نوجوانوں کے حقوق کے لیے ساری زندگی جدوجہد کی۔ وہ کسانوں کی جدوجہد میں ہمہ وقت ان کے ساتھ ہوا کرتے تھے، طلبا کے ہر دلعزیز ساتھی تھے۔ مزدوروں کے ہر جلوس میں نظر آتے، خواتین کے حقوق کے لیے ساری زندگی لڑتے رہے اور سب سے بڑھ کر آزادی کے رکھوالے تھے۔

راقم الحروف کا نذیر عباسی سے قریبی تعلق تھا۔ ان کے قتل سے تین ماہ پہلے ناظم آباد، کراچی کے ایک اجلاس میں ملاقات ہوئی تھی، اجلاس میں جمال نقوی، جاوید شکور اور عزیز الرحمن بھی شریک تھے۔ اس کے تین ماہ بعد پاکستان کوارٹر پر ایک بس میں سوار ہوتے ہوئے انھیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔ ہمیںآج کے تناظر میں جائزہ لینا ہوگا کہ عالمی طور پر سوشلسٹ بلاک اور ممالک کا انہدام کیوں کر ہوا اور موجودہ صورتحال میں عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کس طرح جدوجہد کرنی ہے۔

سماج کا ارتقا اپنا فطری تقاضا پورا کرتے ہوئے آگے کی جانب سفر کرتا ہے۔ لاکھوں برس پر محیط جب ریاست کا کوئی وجود نہیں تھا، جب ممالک تھے اور نہ سرحدیں تو لوگ جہاں مرضی جاسکتے تھے۔ دنیا کے سارے وسائل کے مالک سارے لوگ تھے۔ نجی ملکیت اور جائیداد کا تصور بھی نہیں تھا۔ ہر ایک سب کا اور سب ہر ایک کا ہوا کرتا تھا۔ غلامانہ دور کی آمد سے قدیم اشتمالی، پنچایتی یا امداد باہمی کا آزاد معاشرہ ختم ہو گیا اور طبقات وجود میں آئے۔ پھر دولت کی حفاظت کے لیے ریاست قائم کی گئی۔ ریاست کو وجود میں آئے ہوئے سات ہزار سال گزر گئے۔


جب غلام اور آقا آپس میں ٹکرائے تو بعض موقعوں پر شدید ردعمل ہوا۔ اس کشمکش میں غلاموں کو آزاد کرنا پڑا۔ اب وہ زرعی غلام اور بعد میں کسان کی شکل اختیار کی۔ وہ غلام تو نہ رہے مگر غلامی کی نئی شکل یعنی جاگیرداروں کی زمین سے بندھے رہے۔

اب جاگیردار اور بادشاہ زمین پر خدا کا نائب ٹھہرا۔ زمین کا مالک جاگیردار اور کھیتوں پر کام کرنے والے زرعی غلام کسان کہلانے لگے۔ چونکہ اس نظام میں بھی طبقاتی استحصال برقرار رہا اس لیے طبقاتی کشمکش بھی جاری رہی اور شدت اختیار کرتی گئی۔ پھر جب تاجر طبقہ بھاپ کی ایجاد سے مشین کے ذریعے کم وقت میں زیادہ پیداوار کرنے لگا تو بے زمین کسان صنعتی مزدور کی شکل اختیار کرلی۔ اب غالب طبقہ سرمایہ دار (بورژوا) ہو گیا اور صنعتی مزدور اس کی غلامی کرنے پر مجبور ہوگئے۔

یہ ابتدائی سرمایہ دار بعد میں اجارہ دار بن گیا اور پھر اجارہ داری سے سامراجیت کی جانب قدم رکھا اور اب ٹرانس نیشنل اور ملٹی نیشنل کمپنیاں دنیا کی آدھی دولت کی مالک بن گئیں۔ اب مزدور اور سرمایہ دار کی طبقاتی کشمکش دنیا کا حاوی تضاد کی شکل میں ظاہر ہوا۔

پاکستان میں بے روزگار، مہنگائی کے ستائے ہوئے صارفین بے زمین کسان اور بے گھر لوگ اپنے طور پر جدوجہد میں برسر پیکار ہیں۔ جدوجہد کے دوران خودکار اور خودانحصار انجمنیں اور تنظیمیں بھی بنی ہیں جو اپنے حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں جب کہ پارٹیاں عوام کے مسائل سے بے خبر اور دم بخود ہیں۔

ہندوستان کی مودی سرکار کے خلاف کسان تحریک نے عمدہ مثال قائم کی ہے۔ نیپال، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے عوام نے بھی اپنی طبقاتی لڑائی کو بڑھایا ہے۔ اور یہ جدوجہد پاکستان میں مختلف خطوں، صوبوں اور علاقوں میں پروان چڑھ رہی ہے۔

پاکستان میں انارکزم (برابری) کو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انارکزم افراتفری اور خلفشار کو کہتے ہیں۔ مگر فرانس کی پیلی جیکٹ تحریک اور امریکا کی سیاہ فام تحریک نے یہ ثابت کردیا کہ انارکزم پیداواری قوتوں، شہریوں اور محنت کش عوام کی پرامن تحریک ہے۔ جیساکہ فرانس اور امریکا میں انارکسٹوں نے تحریک چلا کے اپنے بیشتر مطالبات منوائے۔ گزشتہ دنوں پروفیسر نوم چومسکی کے ورچوئل خطاب نے دنیا کو دنگ کردیا۔ جوکہ انتہائی پرمغز اور غور طلب خطاب تھا۔ ویسے ''انارکو'' کو یونانی زبان میں بلا اقتدار اور حکومت کے کارہائے زندگی کو رواں دواں رکھنا اور لاطینی زبان میں ''انارکائی'' کہتے ہیں۔
Load Next Story